نائن الیون اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیمت

0

دنیا میں بعض اوقات کچھ ایسے واقعات رونما ہوجاتے ہیں کہ جن کے اثرات تاریخ کا دھارا موڑ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ نائن الیون کا بھی ہے۔آج اس کی برسی کو 22 سال مکمل ہوچکے ہیں۔ یہ واقعہ اپنے اثرات کے اعتبار سے امریکی بحری اڈے پرل ہاربرپر ہوئے حملے سے کم نہیں تھا۔ اس واقعے کے بعد امریکا نے پوری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ابتداء کی تھی۔ایک ایسی جنگ جس کا انجام اب تک مبہم ہے۔ امریکا نائن الیون جیسے کسی بھی دوسرے واقعے سے محفوظ  ہوگیا۔ لیکن دہشت گردی کا مسئلہ پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہوگیا۔ نائن الیون کا واقعہ کسی طور مجاز نہیں تھا، اور اس کے خلاف ردعمل کا کوئی اور طریقہ بھی تلاش کیا جاسکتا تھا، مگر اُس وقت امریکی حکام کے مقابل کسی کی رائے کا کوئی وزن نہیں تھا۔امریکی کانگریس میں ’باربارا لی‘ 420آوازوں کے برعکس واحد آواز تھی جس نے افغانستان پر حملے کی مخالفت کی تھی۔اس نےکہا تھا کہ ’صرف ایک منٹ کے لیے ہم یہ سوچ لیں کہ اس کے اثرات کیا مرتب ہوں گے‘۔ اس کے بعد باربارا لی کو قتل کی دھمکیاں ملیں ،اسے امریکی عوام کی طرف سے خائن کہا گیا۔ نائن الیون کے حادثے نے کئی ایسے اور حادثوں کو جنم دیا۔

نائن الیون حملے نے امریکا کی پیشگی حملوں کی پالیسی یعنی ‘بش ڈاکٹرائن’ کو جنم دیا جس کے تحت افغانستان، شمالی کوریا، عراق اور ایران برائی کا محور قرار پائے اور اسی پالیسی کے تحت امریکا نے ان ممالک بھی میں کارروائیوں کا آغاز کیا۔

2001 کے بعد سے اب تک دہشت گردی کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ کے نتیجے میں لاکھوں زخمی اور معذور جبکہ ہزاروں گرفتار ہوئے، اس کے علاوہ گوانتاناموبے  اور عراق میں ابوغریب جیسے بدنام زمانہ عقوبت خانے  بھی وجود میں آئے۔

افغانستان پر حملے کے بعد 2003 میں عراق پرایک اور امریکی  حملے نے  مشرق وسطی سمیت پوری دنیا مسلم دنیا کو تنازعات اور دہشت گردی کی آگ میں دھکیل دیا۔ صدام حسین کے نائن الیون کے حملہ آوروں سے کسی قسم کے روابط اور عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار سازی کے دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔ملک کی فوج کو حملے کے بعد تحلیل کردیا گیا جس کے بعد لاکھوں تربیت یافتہ نوجوان سڑک پر کھڑے تھے۔ اصل میں یہیں سے داعش کی بنیاد پڑ گئی تھی۔

نائن الیون حملے کےبعد امریکہ نے افغانستان میں موجود القاعدہ کی قیادت اور طالبان کے خلاف جب جنگ کا آغاز کیا تو پاکستان نے بھی امریکا کے قریبی اتحادی کے طور پر اس عالمی لڑائی میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ مگرملک کو دہشت گردی کے خلاف نہ صرف بھاری جانی نقصان اُٹھانا پڑا بلکہ ملکی معیشت کو بھی اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔

صرف یہی نہیں بلکہ  قبائلی علاقوں کی صورتحال میں یکسر تبدیلی آئی اور یہ خطہ آج پاکستان میں بدامنی اور انتشار کا مرکز بن گیا ہے۔

کئی برس تک جاری رہنے والی جنگ میں ہزاروں عام افغان شہری بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ ہزاروں بے گھر ہوئے۔

افغانستان پر جنگ کے خاتمہ کا اعلان  31 اگست 2021 کو افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہوا ۔ نائن الیون اور اس کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ نے اگر کسی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا تو وہ مسلمان تھے۔اتنے سالوں بعد دنیا میں مسلمانوں کے حوالے سے تأثر نہیں بدلا ہے، بلکہ مزید تنگ نظری پھیلی ہے۔اب اسلاموفوبیا ایک ایسی حقیقت ہے جس کا سامنا مسلمانوں کو مغرب میں ہر جگہ ہوتا ہے۔

آج جب دنیا انسانی تاریخ کے ایک خوفناک دہشت گردانہ حملے کی 22 ویں برسی بنا رہی ہے،دنیا کے مسلمانوں میں اس بات کا احساس ہے کہ مذہب کے نام پر دہشت گردی نے سب سے زیادہ نقصان انہیں ہی پہنچایا ہے۔اس سےانہیں بھی یہ سبق ملتا ہے کہ مذہب کے نام پر تنازعات صرف مسائل پیدا کرتے ہیں اور اس کا انجام خطرناک ہوتا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں تقریبا ایک ملین لوگ براہ راست مارے گئے جن میں سے چار ملین کے قریب لوگ عام شہری تھے۔