امن کے فروغ کے لیے دو باتوں پر عمل کرلیں

0

اجتماعی طور پر،دو باتیں ہیں جن پہ غور کیا جائے تو ہمارے ملک میں امن کی طرف پیش رفت ہو سکتی ہے ۔پاکستان کی فضا امن آشتی میں بدل سکتی ہے۔صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں مذہب و سیاست کی بنیاد پہ قتل و غارت ہوتی اور  جان و آبرو کی تجارت اپنے عروج پہ ہے،وہاں وہاں امن کی صورت بن سکتی ہے۔اگر اِن دو باتوں کو مان کر زندگی گزار لی جائے تمام جھگڑے اپنی موت آپ مر جائیں گے۔

پہلی بات:

مذہب کو اُس کی خالص شکل میں قبول و اختیار کرلیا جائے۔

پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی  ہے،وہ اسلام قر آن و سنت سے سمجھیں۔فر قہ واریت،مسلک و تعصب کی عینک اُتار دیں۔اسلام کو صرف اسلام سے سمجھیں کسی  خطاب،تقریر سے نہ سمجھیں۔نہ کسی وجہ سے جذبہ و جنون اپنے اندر پیدا کریں۔قر آن مجید میں اتنی طاقت ہے کہ وہ اپنے قاری و طالب کو تبدیل اور اس کی اصلاح کردے۔قر آن مجید واقعی ’’حسبنا کتاب اللہ‘‘کا عملی،قولی اور روحانی ثبوت ہے۔فرقہ و مسلک کو دین کے تابع رکھے،دین کو ان کے تابع نہ کرے۔Personality Cult نہ بنائے۔

صوفی،مولوی اور شیخ قابل عزت ہیں لیکن دین کے تابع ہیں۔اللہ نے اپنے رسول کو کیا دے کر بھیجا؟اس  پہ اصرار و تاکید ہو اور وہی فکر و عمل کا محور ہو۔اللہ کی کتاب سے مضبوط تعلق اور اسی کی روشنی میں عقیدہ،عبادت اور معاملات کو آگے لے کر بڑھنے کا سلیقہ ہو۔یہ وہ طرز زندگی ہے جو اجتماعی اور انفرادی مسائل و مشکلات سے بچانے کا نسخہ کیمیا ہے۔

دوسری بات:

کسی انسان کا عقیدہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔میرا عقیدہ دوسرے کا مسئلہ نہیں ہے۔کوئی سنی ہے یا شیعہ ،کوئی اہلحدیث ہے یا بریلوی،دیو بندی ہے یا کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔یہاں تک کہ کوئی مسیحی ہے یا یہودی،ہندو ہے یا پارسی۔کسی کا عقیدہ میرا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔یہ اُس کے اور اُس کے خدا کے درمیان کا معاملہ ہے۔رسول اللہﷺ نے کبھی ضرورت مند سے اُس کا عقیدہ نہیں پوچھا تھا۔سب کی مدد کی اور عزت دی۔ایسی بہت سی روایات ہیں،جن کے مطابق،ضرورت مند صرف ضرورت مند ہوتا ہے۔روایات کی سند و ضعف پہ جزوی حوالے سے بحث کرنا محدثین کا کام ہے لیکن یہ روایات اسلام کے مجموعی مزاج کے خلاف نہیں ہیں۔ جیسے:

”بے شک قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تو نے میری بیمار پُرسی نہیں کی۔ وہ کہے گا:اے میرے رب میں کیسے آپ کی بیمار پرسی کرتا آپ تو رب العالمین ہیں؟اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تو یہ نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور تُو نے اس کی بیمار پرسی نہیں کی! کیا تو یہ نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی بیمار پرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا! اے آدم کے بیٹے، میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تُو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا! وہ کہے گا: اے میرے رب، میں کیسے آپ کو کھانا کھلاتا آپ تو رب العالمین ہیں؟! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو یہ نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نےتجھ سے کھانا مانگا تو تُو نے اسے کھانا نہیں کھلایا! کیا تُو یہ نہیں جانتا کہ اگر تُو اسے کھانا کھلاتا تواس کا اجر مجھ سے پاتا! اے آدم کے بیٹے، میں نے تجھ سے پینے کو کچھ مانگا تو نے مجھے نہیں پلایا! وہ کہے گا : اے میرے رب میں کیسے آپ کو پلاتا آپ تو رب العالمین ہیں؟! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو یہ نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نےتجھ سے پینے کو کچھ مانگا اور تُو نے اسے نہیں پلایا! کیا تُو یہ نہیں جانتا کہ اگر تُو اسے پلاتا تواس کا اجر مجھ سے پاتا!۔

ایک اور حدیث مبارک ہے:

“جو شخص اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پہ ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے، اور جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پہ ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پہ ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات زبان سے نکالے یا پھر خاموش رہے۔‘‘

ایسی بہت سی روایات ہیں،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل کی ضرورت کو پورا کرتے وقت اُس کا عقیدہ و نظریات نہیں پوچھا گیا بلکہ انسانیت کی بنیاد پہ سب کو قابل احترام قرار دیا گیا۔

ایسے واقعات سیرت کے باب میں منقول ہیں۔رسول اللہ کے خدمت میں جانی دشمن بھی کوئی درخواست لے کر آئے تو آپ نے ان کی درخواست کو پورا کیا۔

ہمارا مسئلہ انسان کی ذات ہے۔اُس کی بھوک،پیاس،تنگ دستی،فاقہ کشی ہے۔ہمارا مسئلہ اس کا لباس و غربت ہے۔اگر وہ بھوکا ہے تو قیامت کے روز مجھ سے سوال ہوگا۔وہ فاقوں کی زندگی گزارتا ہے تو یہ مجھ سے پوچھا جائے گا۔یتیم ،مسکین،رشتہ دار یہاں تک کہ مسافر کا بھی مجھ پہ حق ہے۔وہ میرے علاقے اور محلے میں انجان و اجنبی ہے۔اُس کے پاس رات گزارنے کے لیے جگہ نہیں ہے۔وہ کھانا خرید کر نہیں کھا سکتا تو مجھے اُس کے کھانے کا انتظام کرناہے۔ہم اُس Area میں جاتے ہیں جہاں ہمارا جانا نہیں بنتا اور جس Areaمیں جا نا چاہیے۔ اُس میں جانے سے ہم کتراتے ہیں۔پہلے ایریا میں کچھ خرچ نہیں ہوتا اور مذہب کی بنیاد پہ،دنیا عزت بھی بہت دیتی ہے۔ جہاں ہمیں جانا چا ہیے ،وہاں ہمیں نفس روکتا ہے،کیو نکہ وہاں مخلوقِ خدا پہ مال خرچ کرنا پڑتا اوراپنے نفس کی مخالفت کرنا پڑتی ہے۔

یہ دو باتیں ہیں جن پہ عمل دنیا میں ہمیشہ امن و سلامتی کا باعث بنا ہے۔کسی کے معاملات میں دخل اندازی کرنی بھی ہے تو اُس کے دُکھوں،غموں اور معاشی مسائل کے حل کرنے میں دخل اندازی کرنی چاہیے۔عقیدہ ہر کسی کا اپنا ہوتا ہےاور اس سلسلے میں ہمیشہ سے اختلاف بھی چلتا آیا ہے۔اختلاف کو برداشت کر کے،اُسے دوسرے کا حق قرار دینا  معاشرے کو سب کے لئے امن و سلامتی کا گہوارہ بنا دیتا ہے۔