افغان باشندوں کی بے دخلی اور پاکستان کے لیے مشکلات کے کئی پہلو
پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزین
پاکستان میں مقیم غیرملکی باشندوں کی تعداد کتنی ہے، اس کے لیے کوئی شفاف ڈیٹا میسر نہیں ہے، تاہم اندازوں کے مطابق ملک میں مقیم ساڑھے چار ملین افغان باشندوں میں سے تقریبا سترہ لاکھ افراد ایسے ہیں جو غیرقانونی طور پہ مقیم ہیں۔لگ بھگ چھ لاکھ افراد ایسے ہیں جنہوں نے 2021 میں طالبان حکومت کے بعد پاکستانی سرحد کا رخ کیا، ان میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جسے افغانستان میں کچھ خطرات لاحق ہیں اور وہ واپس جانے سے گھبراتے ہیں۔
پاکستان کا حالیہ فیصلہ
رواں ماہ کے شروع میں حکومتِ پاکستان نے ملک میں موجودغیرقانونی افغان باشندوں کو یہ حکم جاری کیا تھا کہ وہ یکم نومبر تک پاکستان سے واپس اپنے ملک چلے جائیں۔ پاکستان کے اجانک اس فیصلے پر اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی ادارے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس طرح افغان شہریوں کی بے دخلی سے ان کے لیے مسائل پیدا ہوں گےاور انہیں اس طرح اچانک اور اتنے قلیل وقت میں یہاں سے جانے کے فیصلے پر پاکستان کو نظرثانی کرنی چاہیے۔
پاکستان نے اب تک اپنے فیصلے پر نظرثانی کا کوئی واضح عندیہ نہیں دیا ہے، بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے افغان باشندوں کی بے دخلی کے لیے کاروائیاں کی جارہی ہیں۔
بہ ظاہر پاکستان نے یہ حالیہ فیصلہ ٹی ٹی پی کے حملوں اور اس الزام کے بعد کیا کہ حالیہ عرصے کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں میں افغان شہری ملوث پائے گئے ہیں، اور یہ کہ افغانستان ٹی ٹی پی کی کاروائیوں کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دینے میں ناکام رہا ہے۔
اسی طرح ایک رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان آئندہ سال جنوری میں میں انتخابات کو پرامن بنانے کے لیے سکیورٹی اقدامات کرنا چاہتا ہے۔
افغان باشندوں کے خلاف آپریشن
پاکستان میں افغان باشندوں کے خلاف اس طرح کا آپریشن پہلی بار نہیں کیا جارہا، اس سے قبل بھی ایسے اقدامات کیے جاچکے ہیں جو جزوی طور پہ کامیاب رہے۔2016ککے دورران چھ لاکھ افغان شہریوں کو پاکستان سے واپس بھیجا گیا تھا۔اقوام متحدہ کے مطابق اُس سال کی یہ ملک بدری حالیہ سالوں کی تاریخ میں دنیا کی سب سے بڑی ملک بدری تھی۔2017 میں تقریبا ڈیڑھ لا افغان باشندوں کو بے دخل کیا گیا تھا، جبکہ سال 2018کے شروع میں پچاس ہزار کے لگ بھگ افغانوں کو پاکستان سے نکالا گیا۔
بعض اندازوں کے مطابق پاکستان میں موجودغیرقانون مقیم افراد میں سے 95 فیصد ایسے ہیں جو افغانستان سے تعلق رکھتے ہیں۔افغانستان سے پاکستان کی طرف پہلی بڑی مہاجرت 1979 میں روسی مداخلت کے بعد ہوئی۔اس کے بعد 2001 میں امریکی حملے کے بعد بھی ایک بڑی تعداد پاکستان منتقل ہوئی۔
خدشات کا اظہار
تاہم، پاکستان کے اس فیصلے پر جس طرح عالمی ادارے سوال اٹھارہے ہیں، اسی طرح پاکستان کے اندر بھی اچانک فیصلے پر خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ یہ فیصلہ درست ہے،مگر اس کی ٹائمنگ ٹھیک نہیں ہے۔ ان کے مطابق افغان باشندوں کو اپنے ملک واپس بھیجنے کے لیے پہلے ایک فریم ورک تیار کرنا چاہیے تھا،ان کی رجسٹریشن کا عمل مکمل کیا جاتا۔اس کے بعد ایک سلسلہ وار انہیں اپنے ملک بھیج دیا جاتا۔ اب جو فیصلہ کیا گیا،اس پر ایک طرف تو عمل کرنا ممکن نہیں ہے، دوسرا اس سے پاکستان پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔چالیس سال تک پناہ دینے کے بعد اس طرح اچانک بے دخل کرنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح کچھ روز قبل مولانا فضل الرحمان بھی یہ اظہار خیال کرچکے ہیں کہ ایک تو یہ کاروائی صرف غیرقانون افغان باشندوں کے خلاف نہیں ہو رہی، اور دوسرا بیوروکریسی اور انتظامیہ ان کی جائیدادوں کو بھی چھین رہے ہیں۔
واضح پالیسی کا فقدان
ماہرین یہ کہہ رہے کہ جس طرح افغان باشندوں کو پاکستان میں لاتے وقت کوئی ٹھوس فریم ورک تیار نہیں کیا گیا اور اب تک یہی ہوتا رہا ہے کہ سرحدی راستوں پر کوئی ایک مؤثر نظام وضع نہیں کیا گیا، اسی طرح اب بھی بغیر کسی ٹھوس پالیسی اور فرریم ورک کے انہیں بے دخل کرنے کی بات کردی گئی ہے۔
صرف افغان شہریوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ پاکستان میں آج تک کسی بھی غیرقانونی طور پہ مقیم طبقے کے لیے کوئی مربوط اور ٹھوس پالیسی وضع نہیں کی گئی۔ مختلف مواقع پر ردعمل کے طور پہ کاروائیاں کردی جاتی ہیں، اس سے زیادہ کبھی کچھ نہیں کیاگیا۔ حالانکہ اس ضمن میں پارلیمان کے اندر ایک پالیس بننی چاہیے تھی اور ایک سیاسی دائرے کے اندر ان معاملات کو منظم انداز میں دیکھا جاتا۔
کیا فیصلے پر عملدرآمد ممکن ہوپائے گا؟
پاکستان میں افغان باشندے طویل عرصے سے رہ رہے ہیں اور ملک کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں نے پاکستانی شہریوں سے شادی بھی کررکھی ہے۔لہذا ،اس فیصلے پر عملدرآمد ٹھیک طرح ممکن نہیں ہوگا۔
پاکستان کے پاکستان کے پاس اتنے وسائل اور انتظامی سطح پر کوئی ایسا ڈھانچہ موجود نہیں ہے کہ وہ ان تمام غیرقانونی افراد کو شناخت کرکے انہیں ملک سے بے دخل کرسکے۔
اسی طرح وہ افغان باشندے جو پاکستان میں پیدا ہوئے، مگر ان کے پاس کسی وجہ سے قانونی دستاویزات نہیں ہیں، ان کے متعلق کیا پالیسی ہے۔اسی طرح ایسے لوگ جن کے ویزوں کی میعاد ختم ہوچکی ہے اور انہیں تجدید میں مشکلات کا سامنا ہے، وہ کیا کریں ،واضح نہیں ہے۔
سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوگی؟
پاکستان کو غیرقانونی اور قانونی طور پہ مقیم غیرملکی باشندوں کے لیے ایک ٹھوس فریم ورک تیار کرنا چاہیے۔ اب بھی غیرقانونی افراد کے خلا ف کریک ڈاؤن میں حکومت نے یہ تو کہا ہے کہ قانونی طور پہ مقیم باشندے عارضی طور پہ ملک میں رہ سکتے ہیں،لیکن اس کی بھی کوئی وضاحت یاپالیسی نہیں کی ہے کہ یہ عارضی مدت کتنی ہے اور آئندہ لائحہ عمل کیا ہوگا۔
ماہرین کے نزدیک یہ چیز بھی محل نظر ہے کہ افغان باشندوں کو بے دخل کردینے سے پاکستان میں سکیورٹی کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔پاکستان میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھی بنیادی طور پہ دہشت گردی سے متعلق ایک پالیسی کی ضرورت رہی ہے، اور اس میں پارلیمان کو کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔یہ امکان بہت کم ہے کہ افغان باشندوں کو واپس بھیج دینے سے افغان طالبان سکیورٹی کے مسئلہ میں کوئی دباؤ لیں گے، یا وہ اس کے بعد اپنی سرزمین سے پاکستان مخالف عناصر کو کنٹرول کرنے میں کوئی اقدامات کریں گے۔
مغرب اور عالمی برادری کے لیے بھی اس پہلو پر غور کرنا ضروری ہے کہ انہوں نے افغان پناہ گزینوں کے لیے کتنے خاطرخواہ اقدامات کیے ہیں۔انسانی تاریخ کی اتنی بڑی مہاجرت کہ جس کے اسباب میں خود نیٹو اور مغربی ممالک کا بھی ایک کردار ہے، انہوں نے مختلف اوقات میں تھوڑی بہت امداد کرنے کے علاوہ، اس مسئلے کوکئی جہات سےلاینحل، غیرمنظم اور مکمل طور پہ ایک میزبان ملک کے لیے چھوڑ دیا۔