اسلام – رحمت اللعالمین: انڈونیشیا میں تعبیرِدین کے اُصول(قسط دوم)
اس سلسے کی پہلی قسط یہاں سے پڑھی جاسکتی ہے۔
2 – دینی جماعتوں کا منہج
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ انڈونیشیا کی دونوں بڑی مذہبی جماعتیں نہضۃ العلما اور محمدیہ ، دونوں انتخابا ت میں حصہ نہیں لیتیں۔حالانکہ ان دونوں جماعتوں کے ملک میں سات کروڑ رجسٹرڈ ممبر ہیں۔ شروع میں تو یہ دونوں جماعتیں سیاست میں حصہ لیتی تھیں، مگر بعد میں عدم اطمینان اور فلاحی کاموں کے متأثر ہونے کی وجہ سے براہ راست سیاست سے راہیں جدا کرلیں اور اعلان کیا کہ وہ اپنی مذہبی، علمی و سماجی خدمات پر توجہ مرکوز رکھیں گی۔ اب جماعت کا کوئی بھی فرد اگر انتخابات میں حصہ لینا چاہے تو اسے جماعت کی رکنیت سے استعفی دینا پڑتا ہے۔ عبدالرحمان واحد جو نہضۃ العلما کے سربراہ بھی رہے اور ہاشم اشعری جنہوں نے جماعت کی بنیاد رکھی تھی کے پوتے تھے،انہوں نے 1999 میں جب صدارتی انتخابات میں حصہ لینا چاہا تو پہلے جماعت کی رکنیت سے علیحدگی اختیار کی۔ چونکہ جماعت کے رکن کروڑوں کی تعداد میں ہیں اس لیے وہ جیت بھی گئے۔وہاں علما یہ کہتے ہیں کہ ہمارا کام سیاست نہیں ہے۔ علما کے بنیادی طور پہ دو کام ہوتے ہیں۔ ایک ہے تعلیم وتربیت اور اخلاقی و روحانی تزکیہ کرنا، اور دوسری ذمہ داری ہے سماجی و فلاحی امور میں حصہ ڈالنا۔یہ دونوں جماعتیں اسی فریضے کو ادا کر رہی ہیں اور ان کا سارا ڈھانچہ دو حصوں میں تقسیم ہے، تعلیمی و تربیتی،اور فلاحی امور۔
ایک پروگرام میں ڈاکٹر عالمی قبطیہ نے مذہبی رواداری کی ترویج میں خواتین کا کردار پر بات کی۔ آپ نے دینی تعلیم انڈونیشیا میں حاصل کی۔ اس کے بعد نفسیات میں ایم اے کیا اور پھر امریکہ سے پی ایچ ڈی کیا اور آسٹریلیا میں صنفی علوم کی پروفیسر ہیں اور آج کل قومی کمیشن برائے تدارک تشدد کی کمشنر ہیں۔ آپ محمدیہ تحریک کی طرف سے مفتی بھی ہیں۔ ان کے خیال میں:
(1) اسلام رحمۃ اللعالمین ہیں اور عورتوں کے لیے بھی رحمت ہے۔
(2) مذہبی نصوص کو تعبیر کے تین اصول ہیں:
(i) بیانی: کسی بھی متن کی تعبیر کے لیے صرف اور صرف اس پر غور کرنا چاہیے۔ اس کے اسباب نزول دیکھنے ہیں۔ اسباب الورود دیکھے جاتے ہیں اور ہمہ گیر اور جامع مطالعہ کرنا چاہیے۔
(ii) برہانی: ہمیں معلومات، تجربات کے تنوع کو دیکھنا ہے اور علم اور سائنس کی تحقیقات کو مدنظر رکھنا ہے۔
(iii) تعبیر کے عمل میں روحانی حکمت پر غور کرنا چاہیے اور ایسے تعبیر کرنی چاہیے جو انسانیت کے لیے مفید ہو۔
عہد حاضر کی دینی تعبیرات مرد و حضرات نے اپنے اپنے حوالے سے کی ہیں اور اس میں ان کی تعلیم، تربیت اور مقامی کلچر کا اثر ہے جبکہ اسلام صنفی عدل چاہتا ہے اور عالمی عمدہ اقدار کو تسلیم کرتا ہے۔
درج بالا نقاط سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک قومی مذہبی تنظیم محمدیہ سے تعلق والی خاتون کا کتنا تعلیمی ریکارڈ شاندار ہے۔ ان نے قدیم اور جدید تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ ذاتی زندگی میں شرع کی پابند ہے۔ حکومت کے ایک اہم عہدے پر فائز ہے۔ پاکستان میں اس طرح کمیشن پر عمومی مذہبی خواتین نہیں لگائی جاتیں چونکہ ان کی ان معاملات میں زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی۔ تعبیر متن / نص کے یہ اصول انتہائی شاندار ہیں اور ان کو استعمال کرکے دین کو عصر حاضر سے جوڑا جا سکتا ہے۔ اس لیے انڈونیشی خواتین وہاں کے معاشرے میں بھرپور اور متحرک کردار ادا کر رہی ہیں۔
محمدیہ انڈونیشیا کہ سب سے پرانی مذہبی و سماجی تنظیم ہے، جس مقصد قرآن و سنہ کی روشنی میں اجتہاد کرنا تھا اور علما کی روایتی تعبیرات کی تقلید نہیں کرنی تھی۔ اس نے تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دی۔ تعلیم میں دینی اور دنیا کی تعلیم میں فرق نہ کیا۔ یہ اگرچہ مقامی ثقافت کی حمایت کرتی ہے مگر اس کا اس مقصد اسلام کو مقامی غلط رسوم و رواج سے پاک کرنا تھا۔
اس کی بنیاد حامی محمد درویش احمد دھلان نے 1912ء میں رکھی۔ جناب احمد دھلان حضور نبی کریمﷺ کے خاندان سے تھے اور آپ کے والد محترم امام تھے۔ آپ حج کے لیے سعودیہ تشریف لے گئے اور وہاں کچھ سال قیام کیا اور مذہبی تعلیم حاصل کی اور مصر کے مذہبی اصلاحی رہنما جناب مفتی محمد عبدہ اور رشید رضا کی تعلیمات سے بہت متاثر ہوئے اور واپس آ کر اس تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ آپ کا انتقال 1923ء میں ہوا اور انڈونیشیا میں آپ کو سرکاری طور پر ایک قومی ہیرو سمجھا جاتا ہے۔
فکری لحاظ سے محمدیہ سنی اسلام پر یقین رکھتی ہے اور فقہی مذاہب کی بجائے قرآن و سنۃ کو اسلام کا ماخذ تسلیم کرتے ہیں۔ اس لیے اس کو بعض سکالر سلفی تحریک بھی کہتے ہیں۔ محمدیہ کی تعلیمات میں امام ابن تیمیہؒ (متوفی 1328ء)، امام ابن قیمؒ (متوفی 1350ء)، محمد بن عبدالوہاب (متوفی 1792ء)، مفتی محمد عبدہ (1905ء) اور محمد رشید رضا (متوفی 1835ء) کے حوالہ جات ملتے ہیں۔ محمدیہ تصوف کے حق میں ہے اور اسلامی فکر کو جدید فکر سے ہم آہنگ کرنے پر یقین رکھتی ہے۔
محمدیہ کا ڈھانچہ مکمل طور پرجمہوری اور شوریٰ ہے اور اس کے چئیرمین، سیکریٹری وغیرہ کا قومی سطح پر انتخاب ہوتا ہے۔ اس کے بہت سے ہسپتال بھی ہیں۔ اس کے کم و بیش 3 کروڑ ممبر ہیں۔
ان کی تعلیمی شعبے میں خدمات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف محمدیہ کے زیراہتمام 36 یونیورسٹیاں ہیں،اور اس کے ساتھ سات ہزار سکول بھی چلاتی ہے۔بعض خواتین کی یونیورسٹیاں ایسی ہیں جن کے چوکیدار سے لے کر وائس چانسلر تک سب عہدوں پر خواتین ہوتی ہیں۔انڈونیشیا میں مسلمان خواتین میں دینی تعلیم کا ایک بڑا وسیع نظام کام کر رہا ہے۔ محمدیہ کی سات ذیلی تنظیمیں ہیں جو خواتین، نوجوان مردوں، نوجوان خواتین، کالج کے طلاب علموں، مارشل آرٹ اور سکاؤٹنگ کے لیے ہیں۔
نہضۃ العلماء انڈونیشیا کی سب سے بڑی مذہبی جماعت ہے جس کی بنیاد 1926ء میں رکھی گئی۔ ان کی فقہی مذہب شافعی ہے جبکہ دینی تعبیر روایتی ہے۔ یہ مقامی ثقافت کو قبول کرتے ہیں جب تک کہ یہ دین کی بنیادی تعلیمات کے خلاف نہ ہو۔ ان پہ امام غزالیؒ کی دینی اور حضرت جنید بغدادیؒ کی صوفیانہ تعلیمات کا غلبہ ہے۔ یہ اپنی سوچ کو انڈونیشین اسلام کہتے ہیں، جس سے مراد یہ ہے کہ اسلام کی تعبیر میں انڈونیشیا کے مقامی سماجی حالات، ثقافی اقدار اور رسوم و رواج کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اس تعبیر میں برداشت اور اعتدال کا غلبہ موجود ہے اور بنیاد پرستی کے خلاف ہے اور تکثیریت پائی جاتی ہے۔ یہ عام طور پر اشاعرہ اور ماتریدیہ کے علم الکلام کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ترقی طرف مائل آزاد خیال اور تکثیری اسلامی تحریک ہے۔ اس تنظیم کو مولانا ہاشم اسیری نے بنایا تھا اور اس تحریک نے انڈونیشیا کی آزادی کی تحریک میں بھی حصہ لیا تھا۔
محمدیہ اور نہضۃ العلماء سے وابستہ ہزاروں مبلغات نے مجلس تعلیم یا درس قرآن کے حلقے قائم کر رکھے ہیں۔ بہت سی مبلغات مذکورہ تنظیموں سے الگ رہ کر بھی خواتین کی دینی تعلیم و تربیت کی یہ خدمت انجام دے رہی ہیں۔وہاں خواتین دینی حلقے میں ایک توانا رائے بھی رکھتی ہیں۔ بلکہ ان کی بعض تنظیمیں اور علمی حلقے باقاعدہ فتاوی بھی جاری کرتے ہیں۔ مثال کے طور پہ لڑکیوں کی جبری شادی کے خلاف خواتین کی ایک علمی جماعت کا فتوی ہے جسے حکومت نے بھی قبول کیا ہے۔اسی طرح خواتین سے متعلقہ کئی امور میں ان کے فتاوی صادر ہوئے ہیں اور انہیں اعتماد حاصل ہے۔
پاکستان کے دینی اداروں کے برعکس یہ مدارس تنظیمی اعتبار سے زیادہ مستحکم اور مالی لحاظ سے بھی کافی حد تک خود کفیل ہیں۔وہاں کا دینی طبقہ مصری اور ازہری روایت کے ساتھ وابستگی رکھتا ہے۔نقطہ نظر میں بنیادی اختلاف کے باوجود نہضۃ اور محمدیہ دونوں مکاتب فکر کے انڈونیشی مدارس کےعلماء اور اساتذہ کا تعلق الازہر یونیورسٹی سے اچھی طرح قائم ہے۔
محمدیہ تنظیم اگرچہ ایک سلفی جماعت ہے،اس کے باوجود اس میں سلفیت کے وہ سخت گیر عناصر نہیں پائے جاتے جو بعض عرب ملکوں یا پاکستان میں نظر آتے ہیں۔اس جماعت کے رہنماؤں پر اصل میں ڈاکٹر فضل الرحمان کی فکر کے بھی اثرات ہیں جو ایک پاکستانی عالم تھے،مگر یہاں سے نکال دیے گئے اور شکاگو کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے۔ ان کی وفات بھی وہیں ہوئی۔[1]
نہضۃ العلماء کے اوپر امام غزالی کی اخلاقی تعلیمات کا بہت زیادہ اثر ہے۔ ان کی رائے ہے کہ دین کی تعبیر اخلاقیات کے ساتھ ہوگی۔ انسان اور انسانی سماج کو معتدل، روادار اور اچھے اخلاق کا مالک بنانا اہم مقصد ہے۔وہ حدود اور دیگر ایسے احکامات کو بھی مانتے ہیں، لیکن تنقیذی حیثیت میں وہ حسن اخلاق اور نرم ذرائع کے استعمال کو زیادہ مؤثر سمجھتے ہیں۔
ان جماعتوں نے خالص دینی مدارس بھی بڑی تعداد میں قائم کر رکھے ہیں جو جدید طرز تعلیم کے ساتھ آراستہ ہیں۔تعلیم اگرچہ مذہبی ہوگی،مگر طریق تدریس اور ماحول وغیرہ عصری اداروں والا ہوتا ہے۔ان مدارس سے نکلنے والے طلبہ، اسلامی اور عصری تعلیم کے دونوں دھاروں کا فہم رکھتے ہیں،اور بعد ازاں اعلی تعلیم میں اپنے رجحان طبع کے تحت دینی یا دینوی علوم میں سے جس جانب جانا چاہیں سہولت سے جاسکتے ہیں۔ عام سرکاری سکولوں کی بہ نسبت یہاں کے طالب عربی، قرآن اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ سماجی علوم کے وسیع فہم سے بھی روشناس ہوتے ہیں۔ اس لیے مدرسہ سسٹم کے لیے معاشرے میں خاصا احترام پایا جاتا ہے۔
نہضۃ علما اور محمدیہ اپنی تحریروں میں بار بار انڈونیشین آئین کے ان پانچ اصولوں کا ذکر کرتے ہیں جن کی روح پورے آئین میں ہے اور ان کو مقامی طور پہ پانچ اصول (Pancasila) کہتے ہیں جو یہ ہیں:
- خدا کی وحدانیت
- ایک عادلانہ اور مہذب انسانی معاشرہ
- انڈونیشیا کی قومی وحدت
- انڈونیشین عوام کی مشاورت سے بنی ہوئی جمہوری طرز زندگی
- سماجی انصاف
یہ بات ہمارے لیے حیران کن تھی کہ بڑی دینی جماعتیں آئین کے ان بنیادی اصولوں کا بار بار حوالہ دیتی ہیں اور یہ اصول نہ صرف مقامی سوچ رکھتے ہیں بلکہ انسانیت کو بھی اپنے دائرے میں لاتے ہیں۔ انڈونیشیا کے علما کے ہاں مذہبی تعبیر کے نمایاں اصول کون سے ہیں۔یہ جاننے سے قبل دین کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
………………………..
[1]ڈاکٹر فضل الرحمان اسلام کے معروف اسکالر تھے۔ انہوں نے عربی کی تعلیم پنجاب یونیورسٹی میں حاصل کی، بعد میں آکسفورڈ یونیورسٹی چلے گئے۔ پہلے ڈرہم یونیورسٹی(Durham University) اور پھر میک گل یونیورسٹی(McGill University)میں چلے گئے جہاں وہ 1961 تک اسلامی علوم پڑھاتے رہے۔ پھر وہ پاکستان آگئے تاکہ اسلامی ریسرچ کے مرکزی انسٹیٹیوٹ کی سربراہی کرسکیں۔ ستمبر 1968 میں اپنے عہدے سے مستعفی ہوکر یونیورسٹی آف شکاگو امریکا چلے گئےجہاں انہوں نے مشرق قریب پر تحقیقی پروگرام شروع کیا جو اب بھی دنیا کے بہترین پروگراموں میں شمار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر فضل الرحمان اسلامی حکومت ومعاشرے کی اصلاح کے علمبردار بھی بنے۔ 1988 میں امریکا میں وفات پائی۔ وفات کے بعد ان کی تحریریں دنیا بھر اور بالخصوص مشرق قریب کے علماء اور اہل دانش میں مزید مقبول ہو رہی ہیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو میں ان کی خدمات کا ابھی تک اعتراف کیا جارہا ہے۔ یونیورسٹی میں مرکز برائے مطالعہ مشرق وسطی کو ان سے منسوب کیا گیا ہے۔