اہلِ تشیع اور خدا کی سیاسی حاکمیت کا تصور بذریعہ ولایت فقیہ
اہلسنت اور اہل تشیع میں جو بنیادی اختلاف ہے وہ تصور امامت کے باب میں ہے۔ اہلسنت کے نزدیک پیغمبر آخرالزماںﷺ کے وصال کے بعد مسلمانوں کے امور کی نگرانی کا کام خلفاء کی طرف منتقل ہوا۔ انتخاب خلیفہ کیلئے ان کے ہاں کوئی ایک متعین ضابطہ موجود نہیں ہے۔ البتہ اس خلیفہ کا انتخاب امت کی طرف سے کیا جائے گا۔ اس کے برعکس اہل تشیع کے نزدیک وصال پیغمبر کے بعد امامت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اور یہ امامت حضرت علیؓ اور ان کی اولاد میں مقید ہے۔ امام معصوم اور منصوص ہوتا ہے۔ یعنی امام کا تقرر خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ اثنا عشری شیعوں کے مطابق ائمہ کی تعداد بارہ ہے۔ یہ بارہ ائمہ خدا کی طرف سے مقرر کردہ تھے۔ امام کے لیے سیاسی غلبہ بنیادی شرط نہیں ہے۔ اسی لیے تین خلفاء کے دور میں اگر چہ حضرت علی کے پاس سیاسی اختیارات نہیں تھے مگر امام پھر بھی وہی ہیں۔ ان بارہ ائمہ میں سے صرف حضرت علی کو کچھ عرصہ کے لیے سیاسی اختیارات بھی ملے۔ باقی تمام ائمہ اس سے محروم رہے، مگر ان کی امامت پر کوئی حرف نہیں آیا۔ تمام اثناء عشری شیعہ ان بارہ کے امامت کے قائل ہیں۔ بارہویں امام کی غیبت کبری کے بعد اہل تشیع اس صورتحال سے دوچار ہوئے جو اہلسنت کے تصور کے مطابق مسلمان، حضور(ﷺ) کے وصال کے بعد ہوئے تھے۔ اب کوئی معصوم اور منصوص نہیں رہا۔ اس لیے یہاں سے نائب امام کا تصور سامنے آتا ہے۔ اسی کو فقہاء کی ولایت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فقیہ کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ سیاسی اختیارات بھی رکھتا ہو؟ ظاہر سی بات ہے اس کا جواب نفی میں آئے گا کیونکہ خود امام جو کہ اس منصب کا اصل حقدار ہے، وہ جب اس اختیار سے محروم ہونے کے باوجود امام ہے تو فقیہ کیلئے یہ بنیادی شرط نہیں رہتی۔ جبکہ اہلسنت کے تصور کے مطابق خلیفہ کہا ہی اسی کو جائے گا جس کے پاس سیاسی اختیارات بھی ہوں۔اہل تشیع کے ہاں ولایت فقیہ کا جو تصور ہے، اس میں اتفاق پایا جاتا ہے، یعنی فقہاء ہی امام کے نائب ہیں۔ مگر ولایت فقیہ مطلقہ کے تصور میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ یعنی کیا فقیہ کیلئے یہ جائز ہے کہ وہ امام معصوم کے تمام اختیارات استعمال کریں؟ کیا فقیہ کیلئے حکومت کا قیام ضروری ہے ؟ فقیہ کے سیاسی اختیارات ہیں یا نہیں اگر ہیں تو کس حد تک ؟ تاریخ میں اہل تشیع کو چونکہ حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا (کچھ مواقع ملے بھی تو وہ فقیہ کی حکومت نہیں تھی) نیز امام معصوم بھی حکومتی اختیارات سے محروم رہے۔ اس لیے مجتہدین اور علماء نے اس طرف توجہ کم دی۔ البتہ فقہ اور کلام کی کتابوں میں ضمنی مباحث موجود ہیں۔ علامہ جعفر سبحانی اس حوالے سے لکھتے ہیں:
‘‘اہل تشیع کا اس حوالے سے کام نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی کوئی وسیع اسلامی حکومت قائم نہیں ہوئی مگر حمدانیوں، بویہیوں اور فاطمیوں نے جزئی حکومتیں قائم کیں، ان پر بھی ظالم حکومتوں نے حملہ کرکے ختم کردیا، اسی لیے اسلامی حکومت اور اس کے مبانی ومسائل سے متعلق کوئی بحث نہیں ملتی۔ اس وجہ سے انہوں نے انہی مسائل پر گفتگو کی جن کا تعلق خاص طور پر شیعوں کے ساتھ تھا ’’۔(۱۱)
جس دور میں اہلسنت علماء و مفکرین اسلام کی سیاسی تعبیر کو بڑے شدومد سے پیش کررہے تھے اس دور کے وسط میں ہمیں کچھ اہل تشیع مفکرین بھی نظر آتے ہیں جنہوں نے اسلامی نظام پر بات کی یا جنہوں نے اسلام کو بطور نظام دیگر نظاموں سے بہترثابت کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً علی شریعتی کی تحریروں میں ہمیں یہ تصور نظر آ تا ہے۔ اسی طرح محمد باقر الصدر کی کتابیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔ (کچھ اہل علم کے خیال میں ان پر سید قطب کے افکار کا اثر پایا جاتا ہے )۔ مگر ان بزرگوں نے بھی اسلام کی مکمل سیاسی تعبیر پیش نہیں کی تھی۔ تاآنکہ امام خمینی کا دور آتا ہے جہاں سے ہمیں اہل تشیع فکر میں بھی اسلام کی بعینہ وہی سیاسی تعبیر نظر آتی ہے۔ جو چند اہلسنت اور آزاد خیال علماء و مفکرین کے ہاں نظر آتی ہے۔ محقق کرکی سے لے کر امام خمینی تک یہ تصور ارتقاء کی مختلف منزلیں طے کرکے ولایت فقیہ مطلقہ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اور خود امام خمینی کی فکر میں اس حوالے سے ارتقاء نظر آتا ہے۔ اسلامی اسکالر ڈاکٹر زاہد علی زاہدی صاحب اس حوالے سے رقمطراز ہیں:
‘‘اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو فقیہ کی ولایت سیاسی کا عملی آغاز یہیں (۹۳۹ھ محقق کرکی کا دور) سے ہوا جو رفتہ رفتہ ارتقائی مراحل طے کرتا ہوا ولایت فقیہ کے اس نظریے تک پہنچا جسے امام خمینی نے نہ صرف پیش کیا بلکہ اس کی بنیاد پر ایک حکومت کی بنیاد بھی رکھی جس کے سیاسی نظام کا نام ولایت فقیہ رکھا گیا’’(۱۲)
ڈاکٹر صاحب کے مطابق ولایت فقیہ کا سیاسی دور 939ھ میں شروع ہوا مگر یہ بھی ایک محدود تصور ہی تھا۔ اس کا وہ دور جس میں اس کو بنیاد بنا کر باقاعدہ ایک تحریک چلائی گئی اور پھر انقلاب آیا اور اس کو مطلق اختیارات کے طور پر جو اپنایا گیا وہ امام خمینی کے ہاتھوں ہوا۔ امام خمینی تک اس کا ارتقائی عمل جاری رہا اور بالآخر اس کی وہ صورت نکھر کر سامنے آگئی جس کو ولایت فقیہ مطلقہ کہا جاتا ہے۔ اہل تشیع کے جدید اہل علم کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ متقدمین کا اس حوالے سے کیا نقطۂ نظر تھا۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ امام خمینی ہی کا اخذ کردہ تصور ہے، جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ متقدمین کے ہاں بھی اس کی بحث ملتی ہے۔ دونوں اپنے اپنے حق میں دلائل پیش کرتے ہیں۔ صادق حقیقت صاحب نے اپنے ایک مقالہ میں شیخ انصاری اور سید خوئی کے نظریہ ولایت فقیہ پر بحث کی ہے اور ان لوگوں کی رائے کو غلط قرار دیا ہے جن کے نزدیک یہ دونوں بزرگ بھی ولایت فقیہ مطلقہ کے قائل تھے۔ ان کی جن عبارتوں سے یہ استدلال کیا جاتا ہے، حقیقت صاحب کا خیال ہے کہ اس سے وہ مدعا ثابت نہیں ہوتا یعنی فقیہ کے سیاسی اختیارات اور امام معصوم کو حاصل اختیارات کا فقیہ کے لیے بھی ہونا۔ سید صادق حقیقت صاحب لکھتے ہیں :
‘‘امام خمینی نے اپنی عمر کے آخر میں ولایت فقیہ مطلقہ کا جو تصور پیش کیا یعنی مصلحت کے مطابق ولایت کے اعمال جو کہ احکام ثانویہ کے بجائے احکام اولیہ سے متعلق ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ انصاری نے اس مفہوم میں یہ اصطلاح استعمال نہیں کی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی یہ تعبیر امام خمینی سے پہلے کسی نے کی ہی نہیں ہے ’’ (۱۳)
دراصل سید صادق حقیقت صاحب نے یہ مقالہ شیخ محمد ہادی معرفت صاحب کے اس مضمون کی رد میں لکھا ہے جس میں معرفت صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ ‘‘ولایت فقیہ مطلقہ’’ کا تصور امام خمینی نے پیش کیا ہے وہی تصور سید خوئی اور شیخ انصاری کا بھی تھا۔ اس لیے صادق حقیقت صاحب نے دونوں بزرگوں کی مختلف تحریریں پیش کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ ولایت فقیہ سے حکومت اسلامی کے قیام اور فقیہ کے مطلق اختیارات کا تصور سب سے پہلے امام خمینی نے ہی پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر زاہدی اور صادق حقیقت صاحبان دونوں اور دیگر بہت سارے اہل علم کی تحقیق یہی ہے کہ یہ تصور امام خمینی کا ہے جس کی بنیاد پر انہوں نے ایک حکومت قائم کی۔ مگر ساتھ ہی ساتھ بہت سارے اہل علم کا یہ بھی خیال ہے کہ فقیہ کی ولایت سے اسلامی حکومت کے قیام کی بحث متقدمین کے ہاں بھی پائی جاتی ہے۔ مگر یہ ضمنی بحث کے طور پر نظر آتی ہے۔ یعنی فقہ اور کلام کی کتابوں میں اس کو مستقل ابواب کی صورت میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ نیز اس موضوع کا مسلمانوں کے ہاں اس قدر اجنبی ہونے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں ؟ مختلف علماء اس کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں۔ جعفر سبحانی صاحب کا نقطۂ نظر سطور بالا میں آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں۔ دیگر وجوہات کا ذکر مالک مصطفی عاملی صاحب نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے۔ موصوف نے امام خمینی کی تحریروں سے اس کی جو وجوہات دریافت کی ہیں وہ انہی کے الفاظ میں اختصار کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔مالک مصطفی عاملی نے مندرجہ ذیل وجوہات بیان کی ہیں :
‘‘۱-یہودیوں کی سازش کا نتیجہ ہے۔
۲-استعماری کوششوں کی وجہ سے یہ مضمون ہمارے لیے اجنبی ہوا ہے۔
۳-تیسرا عامل، اگر چہ یہ بنیادی نہیں ہے، ہماری فقہی اور فکری کتابیں ہیں جو سابقہ زمانوں میں لکھی گئیں۔ ان کتابوں میں اس موضوع پر بحث نہ ہونے کے برابر ہے، حالانکہ قرآن و سنت میں اس حوالے سے کافی مواد موجود ہے۔
۴-چوتھا عامل بعض علماء سوء اور حکمرانوں کے حامی علماء ہیں۔ جنہوں نے حکومت اور اس سے متعلقہ امور کو عوام کی نگاہوں سے اوجھل کرکے رکھا۔
۵-بعض لوگوں نے اسلام کے کچھ احکامات کی بہت بری تصویر کشی کی، جس کی وجہ سے اسلامی نظام لوگوں کے لیے اجنبی ہوتا چلاگیا۔
۶-جو کچھ اسلامی قوانین نافذ کیے گئے یا جو نظام اسلام کے نام پر موجود رہا، اس کا نفاذ بہت برا رہا۔ کیونکہ اہل علم و تقویٰ کے پاس حکومت نہیں تھی۔ اس لیے اسلام کی صورت لوگوں کی نظروں میں پاپائیت جیسی ہوگئی ’’۔(۱۴)
اس کے بعد مصنف نے لکھا ہے کہ اﷲ کے فضل و کرم سے امام خمینی پیدا ہوئے او رانہوں نے اسلام کو بطور نظام اس کی اصل شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ پھر اسلامی حکومت کے قیام کی ضرورت پر عقل و نقل سے کچھ دلائل پیش کیے ہیں۔
مالک مصطفی صاحب نے جو وجوہات بیان کی ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ موصوف کو بھی یہ ماننا پڑا ہے کہ یہ بحث ہماری قدیم فقہی کتابوں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کا ذمہ دار انہوں نے یہود، استعمار، فقہی کتابوں اور علماء سوء کو قرار دیا ہے۔ مودودی اور پرویز صاحب نے بہت سخت لب و لہجے کے ساتھ متقدمین پر تنقید کی تھی اور اس میں کوئی استثناء نہیں چھوڑی تھی۔ مگر مالک مصطفی صاحب نے وہی بات ذرا ہلکے لفظوں میں بیان کی ہے اور پھر علماء سوء کو ذمہ دار ٹھہرا کر اسی طرح کا سخت لہجہ اختیار کیا ہے جو ہمیں پرویز اور مودودی صاحبان کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔ موصوف نے علماء سوء کی نشاندہی نہیں فرمائی۔ سابقہ مفسرین، فقہا اور متکلمین میں سے ایسے کونسے لوگ تھے، جنہوں نے بادشاہوں کی خوشنودی کے لیے اسلامی نظام کی اصل شکل و صورت کو عوام کے سامنے نہیں آنے دیا ؟ حالانکہ موصوف نے تیسرے نمبر پر جو وجہ بیان کی ہے اس میں تمام فقہی اور فکری (کلامی) کتابوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ہمارے جدید اہل تشیع اور اہلسنت مفکرین کا اپنے سابقہ بزرگوں سے یہ شکایت جابجا نظر آتی ہے کہ انہوں نے اسلام کو بطور کامل نظام پیش کیوں نہیں کیا ؟ اس پر کافی بحثیں کیوں نہیں کیں ؟ اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ اسلام کی سیاسی اورانقلابی تعبیر کا نظریہ متقدمین کے لیے اجنبی تھا۔ ان کے ہاں اس موضوع پر اس طرح کی بحثیں نہیں ملتی ہیں۔ قدیم شیعہ فقہاء اور متکلمین نے ولایت فقیہ پر کوئی مفصل بحث نہیں کی ہے۔ یہ بات سب مانتے ہیں، البتہ انہوں نے فقہ کے کچھ ابواب میں فقیہ کی ولایت پر بحث ضرور کی ہے۔ اس بحث میں بھی ان فقہاء کرام نے فقیہ کے انہی اختیارات پر بحث کی ہے جن کا تعلق حکومت اور سیاست سے نہیں ہے۔ یعنی ولایت فقیہ مطلقہ کی بحث پھر بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ جدید علماء و مفکرین نے اس کی مختلف توجیہات پیش کی ہیں۔ ایک مثال اور ملاحظہ کیجئے :
شیخ محسن حیدری نے اپنی کتاب ‘‘ ولایۃ الفقیہ تاریخھا ومبانیھا’’ میں اس کی جو وجوہات بتائی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱- رسول کی رحلت کے بعد سے آج تک امت بہت خراب حالات کا شکار رہی۔ مسلم سوسائٹی کو جس ولایت الہٰی کے ماتحت زندگی گزارنی تھی امت اس سے محروم رہی اور اقتدار و حکومت ظالموں کے ہاتھ میں رہی۔
۲- اس خراب دور میں لوگ اس بات سے مایوس ہو گئے کہ اب فقہاء کے ہاتھوں میں قیادت و سیادت آئے۔
۳- ان حالات میں جب فقہاء نے دیکھا کہ اب حکومت اور اقتدار ان کو نہیں ملنا، تو وہ اس مسئلہ کی تفصیل میں نہیں گئے اور اس کو اس طور پر پیش نہیں کیا کہ اس سے حکومت اسلامی کا تصور ابھرے۔ بس انہوں نے اس طرف اشاروں سے کام لیا۔
۴- اس دور کے فقہاء نے صرف انہی مسائل سے بحث کی جن کا اجراء فقہاء کیلئے ممکن تھا مثلاً افتاء، مرجعیت، قضاوت وہ بھی انتہائی محدود صورت میں، بسا اوقات اجراء حدود …… فقہاء کرام کی تمام باتوں اور مباحث کو پیش نظر رکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ عصر غیبت میں فقیہ کے مطلق اختیارات کے قائل تھے ’’۔ (۱۵)
حیدری صاحب کو بھی متقدمین سے یہی شکوہ ہے کہ انہو ں نے اس اہم ترین مسئلہ پر کہیں بھی مفصل گفتگو نہیں کی ہے۔ البتہ بعض ابواب میں ضمنا اس مسئلہ کا ذکر کیا ہے۔ متقدمین کو ممدوح حیدری صاحب کم از کم یہ رعایت دے رہے ہیں کہ اس زمانہ کے حالات کا تقاضا ہی یہی تھا۔ حالانکہ اگر یہ مسئلہ قرآن و سنت میں بیان کردہ اہم مسائل میں سے ہوتا تو فقہاء ضرور اس پر بات کرتے۔ انہوں نے چند امور میں فقیہ کے اختیارات پر بحث کی ہے اور یہی اختیارات ہر دور کے فقہاء کو ہر حکومت اور ریاست کے ماتحت حاصل رہے ہیں اور رہیں گے۔ اس لیے یہ کہنا کہ حالات کی وجہ سے فقہاء نے اس مسئلہ پر مفصل بحث نہیں کی، قابل بحث اور محل نظر بات ہے۔
جیسا کہ گذشتہ سطور میں بتایا جا چکا ہے کہ اہلسنت کے ہاں خلافت کا تصور اور اہل تشیع کے ہاں امامت اور پھر فقیہ کی ولایت کا تصور پایا جاتا تھا۔ اس تصور کی موجودگی پر کوئی کلام نہیں۔ زیر نظر فصل میں صرف اس تصور پر بحث کی جائے گی کہ خلافت،اسلامی نظام، حکومت الہٰیہ یا فقیہ کی ولایت کو ثابت کرنے کیلئے بقول مفتی تقی عثمانی، جو ترجیحات الٹ دی گئیں اور اس کے لیے اسلام کی مکمل سیاسی تعبیر پیش کی گئی، اس کی بنیادیں کیا ہیں۔امام خمینی نے جس تصور ولایت فقیہ کو پیش کیا اور پھر اب تک آنے والے علماء و مفکرین جو اس تصور کے حامی ہیں، نے اسلام کی جو تعبیر بطور سیاسی نظام پیش کی ہے وہ بڑی ہی دلچسپ ہے۔ نیز اس کیلئے علمی اور فکری نیز مذہبی بنیادیں بھی فراہم کی گئی ہیں۔امام خمینی کے بعد سے لے کر آج تک اہل تشیع علماء اور مفکرین نے اس موضوع پر بہت زیادہ کام کیا ہے۔ ولایت فقیہ کی تمام جہات پرسیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ اسی طرح اہلسنت کے ہاں اگرچہ اس حوالے سے کچھ کتابیں موجودتھیں مگر مابعد مودودی اور قطب، اس پر بہت زیادہ کام نظر آتا ہے۔ اسلامی حکومت یا اسلام کی سیاسی تعبیر پر اس قدر کتب موجود ہیں کہ ان کو پڑھنے کیلئے ایک لمبی عمر درکار ہوگی۔
کیا خمینی فکر اور مابعد خمینی فکر پر بھی مودودی اور سیدقطب کے اثرات ہیں ؟ اگر یہ بات درست ہے کہ اسلام کی سیاسی اور انقلابی تعبیر کی ا بتداء مودودی سے ہو کر سید قطب تک پہنچی ہے اور پھر وہاں سے یہ پوری مسلم دنیا میں پھیل گئی ہے، خاص طور پر سنی دنیا میں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امام خمینی نے بھی اس فکر سے اثر قبول کیا ہے یا پھر اس دور کے حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ خود ان کی اپنی سوچ و فکر کا یہ نتیجہ ہے ؟ دنیا میں علمی لحاظ سے ایک دوسرے سے متاثر ہونا کوئی معیوب بات نہیں، کیونکہ کوئی انسان بھی پیدائش کے ساتھ سیکھ کر نہیں آتا۔ اہل علم اگر کسی نقطہ میں کسی سے متاثر ہوتے ہیں تووہ اپنی اپنی آزادنہ سوچ اور غورو فکر کے ذریعے اس میں مزید اضافے کرتے ہیں۔ کوئی بھی ایسا شخص جو آزادانہ غوروفکر کا حامل ہو وہ کسی سے سو فیصد متفق نہیں ہوسکتا۔ کچھ اصولی باتوں میں یا پھر کچھ جزئیات میں کسی کا اثر قبول کرنا اور پھر اس کی مزید وضاحت اور شرح کرنا ہی علم کے بڑھاوے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ آج لوگ اس بات کا جائزہ لینے لگے ہیں کہ اسلامی حکومت سے متعلق امام خمینی بھی مودودی اور سید قطب سے متاثر تھے یا نہیں ؟ اگر ہم خمینی اور مابعد خمینی فکر کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ اثر کافی واضح نظر آتا ہے، اسی وجہ سے اس پہلو پر خاص تو جہ دینے کی ضرورت ہے۔ قاضی جاوید لکھتے ہیں :
‘‘پاکستان میں چونکہ علمی تجزیے اور افہام و تفہیم کی کوئی باقاعدہ روایت موجود نہیں، اس لیے سید ابوالاعلی مودودی کو ہم لوگ محض جماعت اسلامی کے بانی اور چند مذہبی کتابوں کے مصنف کے طور پر جانتے ہیں، لیکن بیرونی دنیا نے اب عام طور پر مان لیا ہے کہ مسلم دنیا میں بنیاد پرستی کی جو لہریں گذشتہ تین چار عشروں سے چل رہی ہیں، ان کے لیے بنیادی فکری اور تنظیمی کام سید صاحب مرحوم نے کیا تھا۔ یہاں تک کہ بہت سے تجزیہ کار امام خمینی پر سید صاحب کے اثرات ڈھونڈنے لگے ہیں’’۔(۱۶)
قاضی جاوید صاحب نے جس طرف اشارہ کیا ہے اس پر عرب دنیا میں کچھ لوگوں نے توجہ دی ہے (اس کی تھوڑی تفصیل تیسری فصل میں بھی آرہی ہے) ہمارے ہاں اس طرف توجہ نہیں دی گئی اگر کہیں سید مودودی اور امام خمینی کے تاثیر اور تاثر پر بات کی بھی گئی ہے تو وہ مسلکی تنقید و تحقیر کے ضمن میں کی گئی ہے۔ جیسے ایک کتاب ہے ‘‘خمینی اور مودودی بھائی بھائی’’ اس نوع کی کتابیں محض مسلکی تعصب اور دشمنی میں لکھی گئی ہیں۔ اور دوسری بات ہم اگر کسی شخص کی عظمت کے قائل ہوجائیں تو اس شخص کو علم کل کا مالک ماننے لگتے ہیں اور اس کا کسی سے کسی مسئلہ پر متاثر ہونے کو معیوب سمجھتے ہوئے یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ ہر انسان دوسرے سے اثر قبول کرتا ہے اور کرسکتا ہے۔ اس سے اس شخص کی عظمت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ ان وجوہات کی بنیاد پر ہمارے ہاں اس حوالے سے کوئی سنجیدہ علمی کام نہیں ہوا۔
امام خمینی اور سید مودودی کے آپس میں گہرے مراسم تھے۔ ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں اور خطوط کا تبادلہ بھی۔ اسی طرح وفود کی سطح پر بھی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت خمینی انقلاب کی حمایت میں واحد آواز مودودی اوران کی جماعت نے اٹھائی تھی۔ اس وجہ سے جماعت اسلامی کو مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے یہ بات تو مسلم ہے کہ خمینی صاحب سید مودودی کو اچھی طرح جانتے تھے۔ اس وقت تک مودودی عالم عرب میں معروف ہوچکے تھے اور فارسی میں بھی ان کی کچھ کتابیں عربی سے ترجمہ ہو کر لوگوں میں پھیل چکی تھیں۔ اس لیے یہ بات قرین قیاس ہے کہ ان مفکرین نے ایک دوسرے سے اثر قبول کیا ہوگا۔ جیسا کہ بتایا جاچکا ہے، اہل تشیع کے ہاں اس فکر کو پہلی بار اس قدر شدت کے ساتھ امام خمینی نے ہی پیش کیا ہے۔ ان کا اپنا انداز اور دلائل ہیں اور مابعد خمینی فکر کی سیاسی تعبیر، اسکے دلائل اور اساسات وہی ہیں جو مودودی نے رکھی تھیں۔ خامنہ ای نے تو اپنے خط میں مودودی سے متاثر ہونے کا کھلے لفظوں میں اقرار بھی کیا ہے۔ اسی طرح سید قطب کی کتابوں کا ترجمہ اور پھر ‘‘المستقبل لھذ الدین’’ پر سید خامنہ ای کا تحریر کردہ مقدمہ بھی اس تاثیر اور تاثر کو تقویت ددیتا ہے ۔
ایران میں اٹھنے والی تحریک کی حمایت میں جب ترجمان القرآن میں ایک مضمون لکھا گیا تو ترجمان القرآن کو چھ ماہ کے لیے بند کردیا گیا۔ اس حوالے سے خلیل احمد حامدی لکھتے ہیں :
‘‘حکومت پاکستان نے ترجمان القرآن کو چھ ماہ کے لیے بند کرایا، بلکہ جنوری 1964ء میں جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دے دیا اور مجلس شوریٰ کے تمام ارکان اور خود مولانا مودودی نظر بند کردیے گئے۔ جماعت پر جو الزامات لگائے گئے ان میں ایک الزام یہ بھی تھا کہ اس نے ایسے مضامین چھاپے ہیں جن سے پاکستان اور ایران کے دوستانہ تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے ’’ (۱۷)
اس کے بعدحامدی صاحب نے بتایا ہے کہ اس مضمون سے ایران کے مذہبی حلقوں اور مودودی سے متاثر نوجوان بہت خوش ہوئے۔ اس دور میں پاکستان کے اہل تشیع بھی خمینی تحریک کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھارہے تھے۔ اور شاہ ایران نے مودودی کے لٹریچر پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔ اس پوری تفصیل کا مقصد یہ ہے کہ امام خمینی اور سید مودودی ایک جیسے مقاصد کو سامنے رکھ کر آگے بڑھ رہے تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے متاثر بھی تھے۔ آپس میں بھائی چارہ اور ہم آہنگی اور ہمدردی کا رشتہ بھی تھا۔ امام خمینی کے مودودی سے متاثر ہونے کے بارے میں آیت اﷲ محمد علی تسخیری (1948ء، سابق سربراہ ادارہ برائے یکجہتی و قربت مذاہب اسلامیہ، تہران) اپنے مضمون ‘‘ایک فرد جو، خود ملت تھا’’ میں امام خمینی کے مودودی اور ان کی کتاب ‘‘اسلامی ریاست، سے خمینی مرحوم کے متاثر ہونے کے بارے میں رقمطراز ہیں:
‘‘امام مودودی کی کتاب اسلامی ریاست کو اگرمسلم دنیا میں جدید اور ہمہ گیر بیداری کا سرچشمہ قرار دیا جائے تو ذرہ برابر مبالغہ نہ ہوگا…… اس کتاب نے مسلم دنیا میں عوامی بیداری پیدا کی ہے۔ سید مودودی کی اس کتاب سے امام خمینی متاثر ہوئے اور انہوں نے گویا اس کتاب میں اپنا نظریہ ولایت فقیہ شامل کردیا۔ جس کا خصوصاً ایران اور عراق کے تمام حصوں پر مسلم عوام پر زبردست اثر پڑا۔ یہی وہ کتاب ہے جو ایران میں اسلامی انقلاب کے برپا ہونے کا اہم عامل اور نظریاتی اساس بنی۔ پھر اسلامی مملکت کے قیام کی بنیاد اور اس کے دستور کی روح بنی ’’ (۱۸)
تسخیری صاحب نے واضح اور کھلے لفظوں میں امام خمینی کے سید مودودی کی کتاب سے متاثر ہونے کو بیان کیا ہے۔ امام خمینی نے اسلامی حکومت کے مودودی تصور میں اپنا نظریہ ولایت فقیہ کو شامل کیا۔ اس تصور سے امام خمینی نے فقیہ کی حکمرانی پر استدلال کیا اور پھر اسکی بنیاد پر ایک انقلاب برپا کردیا۔ ایران میں چونکہ شہنشاہیت تھی اور تعلیم یافتہ طبقہ سوشلزم کا انقلاب لانے میں مصروف تھا۔ اس دور میں امام خمینی نے اسلامی حکومت کا تصور پیش کرکے عوام کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ جس کی وجہ سے بادشاہت کا بھی خاتمہ ہوگیا اور سوشلزم کا راستہ بھی روک دیا گیا۔ جبکہ پاکستان کے حالات ایران سے بالکل مختلف تھے۔ اس لیے یہاں انقلاب آنے کے اسباب عنقا تھے۔ بہرحال امام خمینی سید مودودی سے متاثر ہوئے اور سید قطب کے اثرات بھی ان پر اور مابعد خمینی شیعی فکر پر واضح نظر آتے ہیں (تھوڑی سی تفصیل فصل سوم میں ملاحظہ کیجئے) ایران کے پڑھے لکھے اسلام پسندوں میں اس وقت یہ دونوں بزرگ معروف تھے۔ لوگ ان کی تحریروں سے آگاہ تھے اور مستفید ہورہے تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں سید علی خامنہ ای جب نوجوان تھے اور امام خمینی کی معیت میں انقلاب کے لیے سرگرم عمل تھے، بھی ان لوگوں میں شامل تھے جو فکر قطب و مودودی سے شدید متاثر تھے۔ سید علی خامنہ ای نے خلیل احمد حامدی کے نام ایک خط تحریر کیا۔ جس میں خامنہ ای نے مودودی سے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے اور مودودی کی چند عربی کتابوں سے اپنے متاثر ہونے کو بیان کیا ہے۔ پھر خامنہ ای نے مودودی کی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کرکے شائع کرنے کی اجازت بھی طلب کی۔ سید خامنہ ای کے مطابق ان کو جو چند کتابیں فارسی ترجمہ کے ساتھ ملی تھیں، ان کا ترجمہ تسلی بخش نہیں تھا۔ سید خامنہ ای نے اس خط میں جو کچھ لکھا ہے، نکات کی صورت میں نہایت اختصار کے ساتھ پیش خدمت ہے۔ یہ خط 1965 میں عربی زبان میں لکھا گیا ہے۔ تذکرہ مودودی میں خط کا عربی متن مع ترجمہ موجود ہے۔
خامنہ ای کے مطابق :
۱- اس وقت ایران میں مودودی کی کچھ کتابیں اور رسالے فارسی ترجمہ کے ساتھ شائع ہورہے تھے ۔
۲- مودودی اہم اسلامی مسائل پر گہری نظر اور وسیع معلومات رکھتے ہیں۔
۳- چند کتابیں پڑھنے کا موقع ملا۔
۴- ان کتابوں میں واضح فکر، معتدل سوچ اور صحیح گہرائی پائی جاتی ہے۔
۵- ان کو ان کتابوں کے اصل تراجم کی ضرورت ہے ۔
۶- فارسی تراجم میں کئی جگہوں پرتسامح اور غفلت سے کام لیاگیا ہے۔
۷- ایران کے کتاب خانوں میں مودودی کی کوئی کتاب (عربی ترجمہ شدہ) دستیاب نہیں ہے۔
۸- خامنہ ای کو مودودی کی کتابیں، قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، اسلام کا نظام حیات، اسلامی دستور وغیرہ کی ضرورت تھی۔
۹- قرآن کی چار اصطلاحیں کا ترجمہ کرنے کی اجازت مطلوب ہے۔
خلیل الحامدی کے بقول سید خامنہ ای کو مطلوبہ کتابیں بھیجی گئیں اور ان کو ترجمہ و اشاعت کی اجازت بھی دیدی گئی۔ چنانچہ موصوف نے ان تمام کتابوں کا ترجمہ کرکے شائع کیں۔ (۱۹)
آیت اﷲ تسخیری کے مضمون اور سید علی خامنہ ای کے خط سے یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ اس دور کے اہل تشیع فکر نے ان دونوں بزرگوں (قطب و مودودی) سے اثر قبول کیا۔ اہل تشیع کے ہاں اسلام کی سیاسی تعبیر کا نیا دور شروع ہوا۔ اس تصور اور سید مودودی کے تصور میں چند جزئی باتوں کا اختلاف ہے وہ بھی الگ الگ مسلک ہونے کی وجہ سے، ورنہ اساسی فکر میں دونوں فکر ایک ہیں۔ سید خامنہ ای کی تمام کتابیں اور دیگر اہل تشیع مفکرین جنہوں نے اسلامی حکومت کے حوالے سے کام کیا ہے، میں قطب اور مودودی کے اثرات واضح نظر آتے ہیں۔ سید مودودی کا جب انتقال ہوا تو امام خمینی نے تعزیتی خط لکھا۔ علی تسخیری نے اس تعزیتی خط کا ایک اقتباس بھی پیش کیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام خمینی کی نگاہ میں سید مودودی کی کیا اہمیت تھی ؟ خمینی لکھتے ہیں:
‘‘امت اسلامیہ اپنے ایک قابلِ فخر عالم دین اور مفکر سے محروم ہوگئی۔ علامہ مودودی نے اسلامی مقاصد اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی خاطر نمایاں خدمات پیش کیں۔ آپ صرف پاکستان کے مسلمانوں ہی کے عظیم دینی قائد نہ تھے بلکہ پورے عالم اسلام کے رہنما تھے۔ آپ نے عالم اسلام میں اسلامی انقلابی تحریک کا احیاء کیا جس سے ا سلامی انقلاب کا پیغام خطہ ارض تک پھیل گیا۔ اسلامی بیداری کے تمام حامیوں کا فرض ہے کہ وہ ان مقاصد و اہداف کو پانے کے لیے لگاتار کام کرتے رہیں۔ آپ کی وفات عالم اسلام کے لیے ایک بہت بڑانقصان ہے جس کی تلافی ناممکن ہے ’’۔ (۲۰)
امام خمینی کے اس تعزیتی خط سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی نگاہ میں سید مودودی کی قدرومنزلت کیا تھی۔ سید مودودی کو قابل فخر عالم دین اور مفکر قرار دیا۔ خمینی کی نظر میں مودودی صرف پاکستان کے ہی نہیں بلکہ پورے عا لم اسلام کے رہنما تھے۔ مودودی کا سب سے بڑا کارنامہ عالم اسلام میں اسلامی انقلاب کی تحریک کا احیاء تھا۔ خمینی کا یہ خراج عقیدت مبالغہ آرائی پر مبنی نہیں ہے بلکہ ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی عقیدت ہے۔ اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ خمینی، مودودی کے اسلام کی سیاسی اور انقلابی تعبیر سے نہ صرف متفق تھے بلکہ اس سے شدید متاثر بھی تھے۔ امام خمینی نے بقول آیت اﷲ تسخیری، مودودی کے تصور اسلامی ریاست میں اپنا نظریہ ولایت فقیہ کا اضافہ کیا۔ اس وقت مسلم دنیا کی سیاسی اور انقلابی فکر پر سید مودودی، سید قطب اور امام خمینی کے گہرے اور انمٹ اثرات موجود ہیں۔ تمام احیائی اور انقلابی تحریکیں ان تینوں بزرگوں سے فکری غذا حاصل کرتی ہیں۔ ان تینوں کے فکر کا ایک ساتھ جائزہ لینے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
حوالہ جات
-۱۱ سبحانی، جعفر مفاہیم القرآن، مؤسسۃ التاریخ العربی بیروت، لبنان، الطعبۃ الاولیٰ 2010ء، ص نمبر184، ج نمبر2
۱۲- زاہدی، ڈاکٹر زاہد علی،حکومت اسلامی کا فکری تجزیہ، بحوالہ ولایت فقیہ، غیر مطبوعہ، پی ایچ ڈی مقالہ 2001ء شعبہ علوم اسلامہ کلیہ معارف اسلامیہ جامعہ کراچی، ص نمبر36
۱۳- حقیقت، السید صادق، ولایۃ الفقیۃ دراسۃ فی نظریات فقیۃ۔مجلۃ الإجتہاد والتجدید۔ العدد الثالث والرابع عشر۔ السنۃ الرابعۃ شتاء و ربیع، 2011ء، 1431ھ۔ مؤسسۃ دلتا للطباعۃ والنشر۔لبنان۔بیروت، ص نمبر241، تعریب: السید حسن مطر الہاشمی
۱۴- عاملی، الشیخ مالک مصطفی وھبی۔ بحوث فی ولایۃ الفقیہ والامۃ۔الدارالإسلامیۃ لبنان، الطبعۃ الاولی 2000ء۔ ص نمبر30 تا 33
۱۵- حیدری، الشیخ محسن، ولایۃ الفقیہ تاریخھا ومبانیھا۔ دارالولاء بیروت۔لبنان۔الطبعۃ الاولی 2003ء،۔ ص نمبر50-51
۱۶- قاضی جاوید،اسلام اور مغرب،فکشن ہاؤس لاہور، اشاعت 2015ء۔ ص نمبر76
۱۷- خلیل احمد حامدی، ‘‘تحریکی لٹریچر عالم عرب میں’’ تذکرہ سید مودودی، تدوین و ترتیب جمیل احمد رانا۔سلیم منصور خالد: مکتبہ معارف اسلامی، منصورہ لاہور، طبع دوم 2010ء۔ ص نمبر438، ج نمبر3
۱۸- تسخیری، آیت اﷲ محمد علی، ایک فرد جو خود ملت تھا۔ ترجمان القرآن جلد نمبر130، عدد 10، شعبان 1422ھ اکتوبر 2003ء۔ اچھرہ لاہور۔ ص نمبر69
۱۹- خلیل احمد حامدی، ‘‘تحریکی لٹریچر عالم عرب میں’’ تذکرہ مودودی، ص نمبر338-337، ج نمبر3
۲۰- تسخیری، آیت اﷲ محمد علی‘‘ ایک فرد جو خود ملت تھا ’’ ترجمان القرآن، اکتوبر2003۔ ص نمبر63