’سماجی ہم آہنگی کا فروغ ترقی کا زینہ‘ ورکشاپ میں اظہارِ خیال

فرحان خلیل

0

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ معاشرے باہمی ہم آہنگی اور برداشت کو لے کر ہی آگے بڑھتے ہیں۔ سماجی ہم آہنگی اور رواداری کوئی انفرادی معاملہ نہیں، نہ اس کے اثرات انفرادی ہوتے ہیں۔ وہ معاشرے ترقی کی عروج پر ہیں جہاں ایک دوسرے کی عقیدے اور نظریے کا احترام کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں مذہبی رواداری اور برداشت کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے۔ لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ کام معاشرے میں فقط کوئی ایک گروہ انجام نہیں دے سکتا،اس میں سماج کی تمام اکائیوں کو اپنا حصہ ڈالنا ہوتا ہے۔ شہری، حکومت، فلاحی تنظیموں اور سماجی اداروں کے باہمی تعاون سے ہی درپیش چیلنجز پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

اس وقت پاکستان میں باہمی رواداری، بھائی چارے اور برداشت کے عمل کو معاشرے میں پروان چڑھانے کے لیے کئی ادارے سرگرم عمل ہیں جن میں سے ایک انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور بھی ہے۔اس ادارنے حالیہ دنوں میں پاکستان کے تمام اضلاع سے مختلف شعبوں سے وابستہ نوجوانوں کی مذکورہ چیلنجز پر استعداد کار بڑھانے کے لیے کردار ادا کیاہے، جو اب اپنی کمیونٹیز میں مختلف موضوعات پر سیشنز منعقد کرا رہے ہیں جو دیرپا اثر رکھنے والی حکمت عملی کی بہترین مثال ہے۔ انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور نے خیبرپختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع کے نوجوانوں کی ذہنی تربیت اور استعداد کار بڑھانے کا عمل بھی اپنی سرگرمیوں میں شامل کر رکھا ہے. پشاور میں حالیہ منعقدہ تربیتی نشست میں بھی صوبے کے مختلف علاقوں سے نوجوان  شامل ہوئے۔

انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور کے زیر اہتمام پشاور میں مختلف مکتبہ فکر کے نوجوانوں پر مشتمل گروہ کے لیے جمہوریت اور مذہبی آزادی کے حوالے سے مسلم نقطہ نظر  کے موضوع پر دو روزہ نشست انکوبیشن سینٹر ہال پشاور یونیورسٹی میں منعقد کی گئی۔ جس میں بنیادی انسانی حقوق، میڈیا چینلز پر خواتین کی عکاسی، آزادی اظہار رائے، نشریاتی امور و مواد کے بارے میں مذہبی نقطہ نظر،، فیک نیوز سمیت میڈیا سے متعلق موضوعات  پرتربیت فراہم کی گئی ۔دو روزہ ورکشاپ کا آغازفرحان خلیل بیوروروچیف روزنامہ دی کیپٹل پوسٹ پشاور نے کیا، اور ورکشاپ کے شرکاء کو خوش آمدید کہا۔انہوں نے ورکشاپ کے انعقاد پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے کہ ایک بین الاقوامی معیار کے فیلو شپ پروگرام میں شرکت کے بعد ہمیں یہ موقع فراہم کیا گیا تھا کہ ہم اپنی سطح پر بھی کچھ اقدامات کریں۔

ورکشاپ میں مقررین میں سے اساتذہ کرام ، صحافی اور دیگر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ریسرچ سکالرز نے  بھی شرکت کی۔ دو روزہ تربیت کی افتتاحی تقریب سے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر انفارمیشن ریاض غفور نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکنالوجی کی جدت سےکمیونیکیشن عمل کا انداز اور طریقہ کار تبدیل ہو چکا ہے. ناظرین و سامعین تک براڈکاسٹ مواد کئی چینلز سے پہنچائے جا رہے ہیں. جس پر نظر رکھنا، جانچنا اور سمجھنا ایک چیلنج بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشاور میں ایک ایسی تربیتی نشست کا انعقاد کیس گیا ہے جس کا مقصد ملک میں  مذہبی اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینا اور بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم اور نفرت کو کم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال آزادی ، انصاف اور  جمہوریت سمیت مسلم معاشروں میں اس کی تفہیم اور فروغ ہمارے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔

دو روزہ ٹریننگ کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے سنو ایف ایم نیٹ ورک کے پروڈیوسر اظہار محمود نے موجودہ دور کے طریقہ صحافت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دیگر امور کی طرح صحافت بھی ٹیکنالوجی کا سہارا لے رہی ہے جس سے ایک جانب مواد کی رسائی میں آسانی ہو رہی ہے، عوام تک خبر بروقت پہنچ جاتی ہے لیکن دوسری جانب ایسے عناصر بھی ہیں جو فیک نیوز کو پھیلا رہے ہیں جس سے عوام میں مختلف نوعیت کے منفی اثرات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پشاور کے صحافیوں پر بھی اس ضمن میں ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کو لے کر بھی آزاد اور غیر جانبدار صحافت کی ترویج میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔