بین المذاہب ہم آہنگی: مسائل اور آگے بڑھنے کے راستے

محمد ثاقب 

0

بین المذاہب ہم آہنگی ایک ایسا موضوع ہے جس کی اہمیت و ضرورت پر دنیا بھر میں اہل علم ہر دور میں بات  کرتے رہے ہیں،  لیکن پاکستان میں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے بڑے بڑے اہل علم اور روشن خیال حضرات بھی گریز کرتے ہیں کیونکہ بین المذاہب ہم آہنگی پر بات کرنے والے کے بارے میں از خود یہ تاثر قائم کر لیا جاتا ہے کہ شاید وہ کسی بیرونی ایجنڈے پر کام کر رہا ہے یا پھر اس کے درد پردہ  اس کا اپنا کوئی ذاتی مقصد چھپا ہے۔غزہ پر اسرائیل کے حملے اور وہاں ہونے والے ظلم پر پوری دنیا میں انسانیت کا درد رکھنے والے افراد چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، نے اسرائیلی ظلم کے خلاف آواز بلند کی ہے۔اہل غزہ کے لیے آواز بلند کرنے والوں میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد، یہاں تک کے یہودی بھی شامل ہیں جنہوں نے صہیونی ریاست کے اس اقدام کو ظلم قرار دیا اور  مطالبہ کیا کہ یہودیوں کے نام پر فلسطین کے مسلمانوں کا قتل عام بند کیا جائے۔موجودہ صورتحال میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد اور قوموں کے لیے ضروری ہے کہ وہ رواداری، امن، اور بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت پر بھی زور دیں۔ اس موضوع پر منعقد ہونے والی ایک نشست کے اندر پاکستان میں مذہبی ہم اہنگی اوراس کے فروغ کے حوالے سے مختلف مذاہب وعقائد سے تعلق رکھنے والے زندگی کے مختلف شعبوں میں فعال افراد سے گفتگو کی گئی جو قارئین کی نذر ہے۔

سندھ اسمبلی کی سابق رکن منگلا شرما کا کہنا ہے کہ “پاکستان کا جغرافیہ اور تاریخ شروع ہی سے مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کے فروغ  میں زرخیز ثابت ہوئی ہے ۔خاص طور پر سندھ کی بات کریں تو یہ صوبہ صوفی ازم کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔پاکستان ایک گلدستے کی طرح ہے جس میں شروع سے تمام مذاہب کے لوگ امن ، آشتی  اور پیار و محبت سے رہتے رہے ہیں اوران میں ابھی بھی کافی حد تک بہت ساری چیزیں اچھی ہیں،  لیکن رویوں اور سوچ میں  نفرت و تفریق کے عنصر شامل ہونے کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں جن کے باعث کچھ واقعات رونما ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ملک کا نام خراب ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے رویوں کو پروان چڑھانے کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں  نصاب اور درسی کتب میں ایسے مواد کو شامل کیا گیا جن کو پڑھ کر بچوں کے ذہن متاثر ہوئے اور میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے بارے میں عدم برداشت کے رویے پیدا ہوئے ۔ہمیں بناء کسی مذہبی تعصب کے ایک دوسرے کو قبول کرنا پڑے گا اس میں سبھی کو کردار ادا کرنا ہے۔مذہبی راہنماوں کا کردار اس میں سب سے زیادہ ہے کیونکہ علمائے کرام ہوں،پنڈٹ ہوں ،پادری ہوں یہ تمام لوگ معاشرے کے رول ماڈل ہوتے ہیں ،لوگ  ان کو فالو کرتے ہیں۔ریاست کی سطح پر کچھ فیصلے بھی عدم برداشت کے رویے پروان چڑھاتے ہیں۔مثال کے طور پر رمضان المبارک کے دوران گیس کی لوڈ شیڈنگ کے دوران سحری اور افطار کے وقت میں گیس آتی ہے، اور دن رات کے دیگر اوقات میں گیس غائب۔ جس سے  دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو  مسئلہ ہوتا ہے،ان چیزوں کی وجہ سے عدم برداشت کا رویہ پیدا ہوتا ہے۔

پارسی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی تشنا پٹیل کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں بین المذاہب مکالمے اور مختلف مذاہب کے درمیان رواداری اور قبولیت کا فقدان ہے۔مختلف مذاہب کے بارے میں معلومات کی کمی ہے جو لوگوں کے لیے ہم آہنگی سے رہنے میں رکاوٹ ہے۔ مختلف مذاہب اور ان کے رسوم و رواج کے بارے میں تعلیم ہی اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اعلیٰ سطح پر مکالمے، سیمینارز اور کانفرنسیں بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف مذاہب کے رہنماؤں کے درمیان مثبت بات چیت ،مثبت مباحثے اور ٹاک شوز کے طویل مدتی مثبت اثرات مرتب ہوں گے جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی ایک بہت اہم اور مثبت تصویر سامنے آئے گی۔مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے پاکستانی حکومت کا سب سے اہم کردار ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کا نفاذ، تمام مذاہب کے مذہبی تہواروں کو ملک بھر میں منانا، پاکستان کے تمام شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہے وہ اکثریت ہو یا اقلیت۔  انھیں آئین کے مطابق چلانا حکومت کی  ذمہ داری ہے ۔رمضان المبارک دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مقدس مہینہ ہے۔ اس مقدس مہینے کے دوران ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی، رواداری کے تعاون اور احترام کا مظاہرہ کرنا سب سے مثبت امر ہوگا۔ ایک ساتھ روزہ کھولنا ، راشن کی تقسیم کے ذریعے غریبوں کی مدد کرنا اور ایک ساتھ عید منانے سے ہم رمضان کے دیر پا اثرات سمیٹ سکتے ہیں۔

پاکستان بشپ کونسل کے مرکزی چیئرمین بشپ خادم بھٹو کا کہتے ہیں کہ رمضان المبارک میں جس طرح ہم مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہیں عام دنوں میں بھی یہ رواداری نظر آنی چاہیے کیونکہ سب مذاہب برادرانہ پیار،محبت ،بھائی چارے اور انسانیت کا درس دیتے ہیں۔

بہائی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے خان احسن امام کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے خول اور ماحول سے باہر نکل کر دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی خوشیوں میں شریک ہونا چاہیے،بحث اور مباحثے کے بجائے ایک دوسرے کا مذہبی لٹریچر پڑھنا چاہیے تاکہ ہم ایک دوسرے کے کلچر اور مذہب کو سمجھ سکیں۔

کوآرڈینیٹر کیتھولک کمیشن برائے بین المذاہب ہم آہنگی کاشف انتھونی کہتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی نظام کو تنوع کی ضرورت ہے۔تعلیمی نصاب میں نفرت انگیز مواد کے بجائے امن،صلاح،پیار اور یکجہتی کے فروغ میں معاون مواد نصاب کا حصہ بننا چاہیے۔اگر ہم ملک کو ترقی کی راہ پر دیکھنا چاہتے ہیں تو  تعلیم پر کام کرنا پڑے گا۔

چئیرمین پاکستان سکھ یوتھ کونسل سردار مگن سنگھ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہمیں  مذہبی آزادی حاصل ہے۔ہم پاکستان میں امن اور بھائی چارے سے رہتے ہیں ۔پاکستان میں جہاں بھی ظلم یا بربریت ہوتی ہے تو سکھ برادری سب سے پہلے اس کی  مذمت کرتی ہے۔ان کا  کہنا ہے کہ  پاکستان ہمارے لیے ایک پاک استھان ہے جہاں پر ہمارے بابا گرو نانک صاحب  پیدا ہوئے ، سکھ مذہب ہمیشہ انسانیت کا درس  دیتا ہے اور  کہتا ہے کے تمام مذاہب کا احترام کرو۔

کراچی پارسی انجمن ٹرسٹ کے مینیجر مینو بھاڈا کے مطابق، یہ بچپن سے ہماری تربیت کا حصہ ہے کہ تمام مذاہب کے لوگ آپس میں بھائی ہیں اور جیسے ہم اپنی کمیونٹی کے لوگوں کا احترام کرتے ہیں اسی طرح سب کا احترام ہم پر لازم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی فرد کسی دوسرے مذہب کا مطالعہ کرتا ہے تو یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور یہی حقیقت ہمیں اپنے سامنے رکھ کر ایک دوسرے کے ساتھ رواداری ،پیار اور امین سے رہنا چاہیے۔

بہائی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر فرہاد مشرقی کہتے ہیں کہ ہم سب ایک اللہ کے ماننے والے ہیں۔ہم سب کا ایمان ایک خدا پر ہے ۔حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر خدا کے جتنی بھی برگزیدہ بندے آئے سب نے پیار،امن،محبت اور بھائی چارے کا درس دیا۔سب ایک ہی مٹی سے پیدا ہوئے ہیں اور یہی ہماری بنیاد ہے۔

چیئرمین آل پاکستان مہاراج کونسل وجے گر مہاراج کہتے ہیں کہ دور حاضر کے جو حالات ہیں اس میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینا بہت ضروری ہو گیا ہے۔دکھی انسانیت کا درد اگر کوئی بانٹ سکتا ہے تو وہ مذہب ہی ہے۔ہمیں منفی پیغامات کے بجائے مثبت پیغامات کو آگے بڑھانا چاہیے۔قائد اعظم کے پیغامات کی روشنی میں ہم  مذہبی ہم آہنگی کو مثالی بنانے کے راستے تلاش کر سکتے ہیں۔

پیرش پریسیٹ سینٹ پال پیرش محمود آباد فادر شکیل گلزار کا کہنا ہے کہ مذہبی ہم آہنگی صرف رمضان المبارک میں نہیں بلکہ پورے سال نظر آنی چاہیے۔ہم جب سب ساتھ مل کر بیٹھتے ہیں تو اس سے نہ صرف مذہبی رواداری بڑھتی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہمارا مثبت امیج جاتا ہے۔ہمیں ایک دوسرے کی خوشی اور تہواروں میں شریک ہونا چاہیے۔

وفاقی جامعہ اردو کے شعبہ ماس کمیونیکیشن کے سابق سربراہ  پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ تمام مذاہب کے لوگوں کے ساتھ آئین میں درج قوانین کے تحت یکساں سلوک کیا جائے۔وہ آئینی ترامیم منسوخ کی جائیں جو مذہب کی بنیاد پر شہریوں میں تفریق کرتی ہیں۔سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس تصدق حسین جیلانی نے مذہبی انتہا پسندی اور غیر مذاہب کے لوگوں سے سلوک کے بارے میں بڑا فیصلہ کیا تھا  جس کے مطابق عدالت نے سابق آئی جی سندھ ڈاکٹر شعیب سڈل کی قیادت میں ایک رکنی کمیشن بنایا تھا۔کمیشن نے تعلیمی اداروں کے نصاب میں تبدیلی اور مدارس میں اصلاحات کے لیے سفارشات دی ہیں،اس کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔مذہبی راہنمائوں کو اپنے بیانیے میں یہ بات سمجھانی چاہیے کہ تمام انسان برابر ہیں،  ان کے ساتھ محبت کا سلوک کرنا چاہیے،اسلام محبت اور رواداری کا درس دیتا ہے اور اس درس کی بے تحاشا مثالیں ہمارے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں موجود ہیں۔ان کی تعلیمات کو علماء اپنے بیانیے میں شامل کر لیں تو انتہا پسندی ویسے ہی ختم ہو جائے گی۔

حکومت پاکستان نے آرمی پبلک اسکول  پر ہونے والے حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا اس پر عمل ہونا چاہیے۔نوجوذنوں کی تربیت کے لیے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تربیت ضروری ہے کہ وہ محبت کا پیغام دیں۔میڈیا کا بیانیہ وہی ہونا چاہیے جو سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے فیصلے کی روح کے مطابق ہے کہ میڈیا اپنے بیانیے میں صرف محبت کا پیغام پروموٹ کرے کہ تمام انسان برابر ہیں اور ایسا کوئی مواد نشر نہ کیا جائے جو نفرت پیدا کرے جس سے اشتعال پیدا ہو۔اساتذہ کا اہم کردار ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ یونیورسٹی کے سوشل سائنسز کے ڈیپارٹمنٹ جو ریسرچ کرتے ہیں ان میں سے کئی ریسرچ کے وہ موضوعات ہیں جو مذہبی انتہا پسندی کو سپورٹ کرتے ہیں۔ان سب کے تدارک کے لیے اساتذہ کی تربیت بہت ضروری ہے۔

جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر ڈاکٹر اسامہ رضی کہتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی کا مسئلہ کبھی بھی نہیں رہا تھا۔یہ مسئلہ پاکستان کے حکمران طبقے نے پیدا کیا ہے اور صرف مذہبی ہم آہنگی کو ہی انہوں نے خراب نہیں کیا بلکہ لسانی ہم آہنگی کو بھی   خراب کیا ہے۔عوام ایک دوسرے سے نہ مذہب کی بنیاد پر نفرت کرتے ہیں  اور نہ ہی زبان،علاقے اور قومیت  کی بنیاد پر نفرت کرتے ہیں۔یہ پاکستان پر قابض حکمرانوں کی ضرورت ہے کہ عوام میں یہ تضادات پیدا ہوں اور وہ کھلے اور چھپے دونوں طرح سے ان تضادات کو فروغ دیتے ہیں۔یہاں تو یہ ہی پتہ نہیں چلتا کہ حکومت ہے کس کی؟اس کی وجہ وہی ہے پاکستان کے عوام کو پاکستان بننے کے بعد نہ اظہار رائے کی آزادی میسر آ سکی اور نہ جمہوری آزادی میسر آ سکی جس کے نتیجے میں ل بحیثیت  مجموعی پوری قوم میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔مذہبی ہم آہنگی قومی ہم آہنگی سے کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے۔قوم میں ہر طرح کا تنوع ہوتا ہے،اس تنوع کو ہمارا حکمران طبقہ ملک پر اپنے قبضے کو مسلط رکھنے کے لیے اور  اس کی  بقاء کے لیے ہر بار  ہم آہنگی کو خراب کرتا ہے ،اس کو نفرتوں میں بدلتا ہے اور اس اعتبار سے ایک گھناؤنا کردار ادا کرتا ہے۔جو لوگ بھی یہ کام کر رہے ہیں وہ اپنے ساتھ اور پاکستان کے ساتھ خیر خواہی نہیں کر رہے ہیں۔ آخرت میں یہ چیز بہت بھیانک انداز میں ان کے ساتھ کھڑی ہو سکتی ہے۔آئین اور قانون کی حکمرانی ہو ،پوری قوم اپنے آئینی دائروں کے اندر رہ کر اپنی مہ داریاں ادا کرے تو یہی سب سے بہترین کردار ہے۔یہ مذہبی مسئلے کے بجائے ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسی سطح پر حل ہو گا۔

انتہا پسندی اور عدم تشدد سے نمٹنے کا راستہ صرف جمہوری راستہ ہے،یہاں پر جمہوریت کو پنپنےنہیں دیا گیا۔جمہوریت اس لیے  اس کا حل اور علاج ہے کہ اس میں بات کہنے اور سننے کی آزادی کے ساتھ اسے قبول یا رد کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔یہ آزادی جب چند لوگوں یا مخصوص گروہوں تک محدود ہو جائے اور باقی پورا ملک اس آزادی سے محروم ہو جائے تو پھر اس کے نتیجے میں انتہا پسندانہ رجحانات پیدا ہوتے ہیں اور تشدد کی طرف راستے جاتے ہیں۔ اس کی  زمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو جمہوریت کا گلا گھوٹتے ہیں اور جمہوری آزادی پر شب خون مارتے ہیں۔وہ  اس کی وجہ سے معاشرے کو تقسیم بھی کرتے ہیں اور پسندی کی طرف بھی دھکیلتے ہیں۔مذہبی راہنماؤں کے پاس بڑے پلیٹ فارم ہونے کے باوجود عوامی سطح پر اب  ان کا کردار نظر نہیں آتا لیکن اگر وہ ان پلیٹ فارمز کو عوام کی جمہوری آزادی کے حق میں قوت کے طور پر بروئے کار لائیں تو مذہبی ہم آہنگی سمیت ملک کے دیگر مسائل  کو حل کرنے میں  ان کا بہت ہی بھرپور کردار ہو سکتا ہے۔پاکستان  رمضان المبارک میں معرض وجود میں آیا۔ماہ رمضان کا یہ پیغام ہے کہ اللہ کی بڑائی ہونی چاہیے باقی جن جن افراد اور گروہوں نے اپنی بڑائی قائم کی ہوئی ہے وہ ختم ہونی چاہیے۔

کراچی پریس کلب کے سیکرٹری شعیب احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر قائم ہونے والا پہلا ملک ہے۔ پاکستان کا آئین مکمل طور پر اسلامی ہے جس کی رو سے ریاست کا مذہب بھی اسلام ہے۔ پاکستان کے آئین میں تمام اقلیتوں اور مذاہب کو یکساں حقوق  دیے  گئے ہیں اور انہیں اپنے مذہبی عقائد اور اپنی رسم و رواج کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے،پاکستان کے جھنڈے میں ہرا رنگ اسلام اور سفید رنگ اقلیت کو ظاہر کرتا ہے اور پوری دنیا کے لیے واضح پیغام ہے کہ اسلام اور دیگر مذاہب ریاست کا حصہ ہیں۔پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل ، وزارت مذہبی امور اور علماء اکرام کی جانب سے ملک میں مذہبی رواداری کو فروغ دینے اور بھائی چارے سے اپنے مذہبی اور فروعی اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی یے۔ بین المذاہب سیمینار اور کانفرنسز کے انعقاد سے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر یہ پیغام دیا جاتا سکتا ہے کہ بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے مذاہب کے درمیان پیدا ہونے والے نظریاتی اختلافات کو خوش اسلوبی سے حل کیا جاسکتا ہے۔

معاشرے میں اقلیتوں کے بارے میں منفی پراپیگنڈے اور مذہبی انتشار سے بچاؤ کے لیے علمائےاکرام ، سول سوسائٹی اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بھی بین المذاہب سیمینارز، اقلیتی برادری کے تہواروں میں شرکت اور ان کی عبادت گاہوں کو مکمل طور پر تحفظ فراہم کرنے اور اقلیتی برادری کے معتبر افراد کو ہر سطح پر اپنا موقف پیش کرنے اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کرنے چاہییے۔بین المذاہب ہم آہنگی اور مذہبی آزادی پاکستان کی پہچان ہے اور قائد اعظمؒ محمد علی جناح نے اپنی 11 اگست  کی تقریر  میں تمام مذاہب کے لوگوں کی آزادی اور مساوات پر مبنی معاشرے کی بات کی کی تھی۔پاکستان میں مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کے لیے اقلیتی برادری کے تہوار کو سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے ،کرسمس اور سکھ برادری کے تہواروں پر ان کو خاص رعایت دی جاتی ہے،  اسی طرح سرکاری سطح پر بھی اقلیتی برادری کے تہواروں میں ان کے مذہبی مقامات کا دورہ کیا جانا چاہیے اور ان کے مذہبی رہنماؤں سے ملاقات کرنی چاہیے۔ اور انہیں اس بات کا احساس دلاتے رہنا چاہیے کہ وہ پاکستان میں محفوظ ہیں اور ان کی اور  ان کے  خاندان اور مذہبی مقامات کی حفاظت  مکمل طور پر ریاست پاکستان کی ذمہ داری یے۔

مذہبی رواداری اور بین  المذاہب ہم آہنگی کے لیے نوجوانوں میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے، تعلیمی اداروں میں وزارت مذہبی امور اور وزارت تعلیم کے اشتراک سے ایسے سیمینارز ،کانفرنس اور مذاکرے منعقد کرنا چاہیں جن میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنما معاشرے میں پیدا ہونے والے مذہبی انتشار کا سدباب کریں اور دلائل سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ ایک ہی ملک میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے کے لیے خطرہ نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کے مذہبی عقائد کا احترام کر کے ہی بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دے رہے ہیں۔

رمضان المبارک مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کا بہترین ذریعہ ہے۔ رمضان المبارک میں مختلف ٹی وی چینلز پر سحری اور افطار نشریات میں علماکرام اس بات پر زور دیں کہ اپنے مذہبی عقائد پر مکمل عمل درآمد کرتے ہوئے اقلیتی برادری کے حقوق کا احترام کرنا بھی دین کا حصہ ہے۔ مذہبی معاملات پر عدم برداشت اور انتشار سے کام لینے کے بجائے افہام و تفہیم سے معاملات کو حل کرنے پر زور دینا چاہیے۔پاکستان میں جہاں مسیحی، سکھ اور ہندو برادری کے مذہبی تہواروں پر مسلمان ان کی خوشیوں میں شریک ہوتے اور انہیں تحائف دیتے ہیں وہیں رمضان المبارک کے دوران اقلیتی برادریوں کی طرف سے بھی بین المذاہب ہم آہنگی اورانسانی بھائی چارے کا مظاہرہ کیا جائے۔ افطار پارٹیوں کا اہتمام کیا جائے   جس میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی شرکت ہو۔ اس سے بھی دوریاں کم کرنے میں مدد ملے گی۔

بحیثیت صحافی اور سیکریٹری کراچی پریس کلب ہم نے روز اول سے ہی اپنے  مسیحی اور ہندو اسٹاف کے ساتھ برابری کا سلوک رکھا ہے، ان کے مذہبی تہواروں کو پریس کلب میں بھی منایا جاتا ہے اور انہیں خصوصی گرانٹس اور تحائف دئیے جاتے ہیں۔ کرسمس کے موقع پر خصوصی کیک گھروں میں پہنچائے جاتے ہیں۔ بین المذاہب سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔عالمی سطح پر اس قانون سازی کی ضرورت ہے کہ تمام مذاہب کی مقدس ہستیوں اور آسمانی کتابوں کا احترام اور خصوصاً خاتم النبیین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی  کا احترام  کیا جائے اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کا لحاظ کیا جائے۔