بین الاقوامی تعلقات اور قوانین؛ پاکستان کے تناظر میں جائزہ
(احمر بلال صوفی پاکستان کے نامور قانون دان اور بین الاقوامی قانون کے ماہر ہیں ۔انہوں نے بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کی، وہ فرانس میں جج اور سابق وفاقی وزیر قانون بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت ’ریسرچ سوسائٹی برائے بین الاقوامی قانون‘ کے نام سے ایک ادارہ چلاتے ہیں ۔انہوں نے یہ لیکچر چند ماہ پہلے’انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی اُمور‘ کے زیرِاہتمام ’آزادی فیلوشپ‘ پروگرام میں دیا تھا، جسے مقدس صمد خان نے تحریری شکل میں ڈھالا ہے)
قانون سے میرا تعلق کیسے بنا ؟
میں نے پہلے بین الاقوامی تعلقات کا شعبہ اختیار کیا تھا۔ لیکن آج سے 35 سال پہلے جب میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویٹ ہوا تھا، تو میرا پہلا ارادہ ایل ایل بی کرنے کا تھا۔ میرے والدین دونوں ڈاکٹر تھے۔ والد صاحب ہری پور سے تھے اور والدہ دلی سے تھیں۔ ان کی شادی کوئٹہ میں ہوئی تھی اور میں لاہور میں پیدا ہوا تھا۔ میری ابتداء سے ہی قانون میں دلچسپی تھی اور میں نے سوچا تھا کہ میں صرف وکالت ہی کروں گا۔اس لیے میں نے دیگر شعبوں میں بہت سے مواقع ترک کر دیے، جیسے سی ایس ایس، بینک کی ملازمت، وغیرہ۔ میرا ہدف صرف یہ تھا کہ میں وکیل بنوں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں بچپن میں قائد اعظم کی ایک تصویر سے متاثر ہو گیا تھا۔میں نے ان کی ایک تصویر دیکھی تھی جس میں وہ ایک وجیہ اور پروقارلباس پہنے ہوئے اپنی لائبریری میں کھڑے ہیں۔ یہ تصویر مجھے بہت متاثر کن لگی۔ قائد اعظم کی شخصیت میں ایک خاص وقار اور عظمت تھی۔ مجھے لگا کہ یہ وقار اور عظمت ان کے پیشے سے وابستہ ہے۔ میں نے فوراً ارادہ کیا کہ میں ان جیسا وکیل بنوں گا۔ لیکن پھر مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ یہ پیشہ اتنا لچکدار ہے کہ اگر آپ اپناماڈل اور اپنی اقدار درست رکھیں توآپ نہ صرف اس پیشے میں کامیاب ہو سکتے بلکہ اس میں آپ اپنے معاشرے، اپنے ملک اور اپنے مذہب کے لیے اچھاکردار ادا کر سکتے ہیں۔
اس پیشے میں آنے کے بعد پہلے میں نے اپنے آپ کو مالی طور پر مضبوط کیا۔پھر میں نے اپنے پیشے میں آٹھ سے دس سال تک بہت محنت کی۔کیسز میں پیش ہوا اور مقدمات کی نمائندگی کی۔ یہ تینوں چیزیں اللہ تعالی کی مہربانی سے مجھے حاصل ہوئیں اور میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے یہ تین چیزیں عطا کی ہیں۔ ان تین چیزوں کی بدولت میں اس پیشے میں کامیاب ہو سکا۔اس پیشے سے میں نے اتنا پیسہ کمایا کہ میں نے دفتر کے لیے بہترین جگہ خریدی، اس میں عمارت بنائی۔
اس کے علاوہ مجھے بین الاقوامی قانون کا شوق بھی تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ بین الاقوامی قانون کی سمجھ سے بہت سی چیزیں بہتر کی جا سکتی ہیں۔ میں نے اپنے ملک، معاشرے کے لوگوں، پیشہ ور دوستوں کی بہت سی چیزوں میں رہنمائی کی۔ میں نے اکثر دیکھا کہ جب لوگ پاکستان کے مسائل پر بات کرتے ہیں تو وہ جذباتی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ کیمبرج میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے میں نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ پاکستان کے کیا مسائل ہیں اورسب سے بنیادی مسائل کیا ہیں۔ کیونکہ بین الاقوامی قانون(international law ) کا تعلق حکومت سے نہیں ہے کہ کون ملک کے اندر اقتدار میں ہے اور کون صوبے میں اقتدار میں ہے۔ اس لیے کہ بین الاقوامی قانون کا سارا تعلق ریاست کے مخصوص مسائل سے ہے۔ حکومتی مخصوص مسائل (Regime specific issues) بمقابلہ ریاستی مخصوص مسائل (state specific issues)،یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں۔
حکومتی مخصوص مسائل (Regime specific issues)
حکومتی مخصوص مسائل کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ حکومتی ڈھانچے مں کیا ہو رہا ہے۔ جیسے گورنر ہیں یا نہیں۔ انتخابات کب ہونے ہیں یا نہیں ہونے ، سپریم کورٹ نے کچھ کہا تو اس کا کیا مطلب ہے۔گویا،حکومتی مخصوص مسائل وہ مسائل ہیں جو کسی مخصوص حکومت سے متعلق ہوتے ہیں اور مقامی ہوتے ہیں۔
ریاستی مخصوص مسائلstate specific issues) )
ریاستی مخصوص مسائل وہ مسائل ہیں جو کسی ریاست سے متعلق ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پرایک ریاست کی سرحدیں، اس کی قومیت، یا اس کا قانونی نظام۔
اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ آپ پاکستان کے کن معاملات پر کام کرتے ہیں تو میں کہوں گا کہ میں ریاستی مخصوص معاملات پر کام کرتا ہوں۔ حکومتی مخصوص معاملات کو میں نے اپنے نصاب سے باہر رکھا ہے۔ کشمیر ریاستی مخصوص مسئلہ ہے۔ ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ ریاستی مخصوص مسئلہ ہے۔ سندھ طاس اور سیاچن کے جو تنازعات ہیں، انڈیا اور پاکستان کے درمیان، یہ بھی ریاستی مخصوص مسئلہ ہے۔
ہمارے ہاں اکثر وکلاء کا رحجان حکومتی مخصوص مسائل کی طرف ہو جاتا ہے وہ کبھی کسی حکومت کے، کبھی کسی سیاسی جماعت کے وکیل کے طور پر کام کرتے ہوئے اپنے پیشہ ورانہ کردار سے ہٹ جاتے ہیں۔ میں نے 30 سال سے اپنا نقطہ نظر اسی پر رکھا ہے کہ جو ریاست کا معاملہ ہے اسے ریاست تک محدود ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پرچین کے ساتھ اگر معاہدہ ہوگا ، تو وہ معاہدہ چین کے ساتھ ہوگا ،اس کے موجودہ صدر کے ساتھ نہیں۔اسی طرح امریکا کے ساتھ معاہدہ کریں گے، تووہ امریکہ کی ریاست کے ساتھ ہوگا اس کے موجودہ صدر کے ساتھ نہیں ہیں۔ اسی طرح جوملک پاکستان کی ریاست کے ساتھ جومعاہدے (sign)سائن کر لیتے ہیں، تو وہ مسلسل چلتے ہیں۔جو میرا فوکس تھا وہ(state specific issues) ریاستی مخصوص مسائل تھا۔ اس پر لوگوں نے کام نہیں کیا تھا، اس پر طویل مدتی منصوبہ بھی تیار نہیں کیا گیا تھا۔
ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء کا قیام
جب میں نےبین الاقوامی قانون ( (International law میں داخلہ لیا، تو مجھے کوئی تحقیقی مقالہ نظر نہیں آیا۔ مجھے اس پر بہت حیرانی ہوئی کہ ایک ایسا موضوع جو پاکستان کے ہر باشندے کے دل کے قریب ہے، اس پر کوئی تحقیق نہیں ہو رہی ہے۔ کشمیر پر لوگ جان دینے کو تیار تھے لیکن تحقیق کرنے کو تیار نہیں تھے۔ جیسا کہ میں نے دوسرے مختلف موضوعات سے سیکھا ہے کہ جب تک آپ انہیں تحقیقی طور پر لکھ کر اکاڈیمک سطح (academic level)پر پیش نہیں کرتے تو آپ اپنے موضوعات کو آگے نہیں بڑھا سکتے۔ اس لیے میری یہ دلچسپی تھی کہ میں اس موضوع پر تحقیق کروں۔ میں نےاپنی تلاش شروع کی اور سوچا میں کس ادارے سے رابطہ قائم کروں،لیکن مجھے معلوم ہوا کہ پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جو بین الاقوامی قانون پر تحقیق کرتا ہو۔یہ میرے لیے بہت حیرانی کی بات تھی کیونکہ دنیا کے تمام غیر مسلم ممالک، چاہے وہ امریکہ ہو، فرانس ہو، برطانیہ ہو، یا بھارت ہو، ان سب نے بین الاقوامی قانون کے لیےتھنک ٹینک(Think Tank) قائم کیے ہوئےتھے اور پاکستان میں ایسا کوئی ادارہ نہیں تھا۔
میں نے 1988 میں حکومت کے مختلف اداروں سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ بین الاقوامی قانون کا کوئی ادارہ قائم کیا جائے لیکن اس وقت میں ایک جوان وکیل تھا اور میری بات کو کوئی سننے والا نہیں تھا۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ میں خود ہی اس ادارے کو قائم کروں گا۔ میں نے نیت کی کہ اگر اللہ مجھے اتنے پیسے دے کہ میں اس ادارے کو قائم کرنے کے قابل ہو جاؤں تو میں یہ کام کروں گا۔ 10 سال کی طویل محنت کے بعد میرے پاس اتنے پیسے جمع ہو گئے کہ میں اس فیصلے پر عمل کر سکا۔ میں نے لاہور کے رنگ روڈ پر ہائی کورٹ کے قریب سات مرلے کی زمین خریدی،ا س پرعمارت کھڑی کی اور اس کی جو دوسری منزل تھی اسے میں نے بین الاقوامی قانون کی تحقیق کے لیے عطیہ کر دیا ۔ اس سوسائٹی کا نام “ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء”(Research Society of International law )رکھا۔ یہ اب کافی مشہور ہے اور اس کی ویب سائٹ دنیا بھر میں دیکھی اور پڑھی جاتی ہے۔
جب یہ ادارہ بنا تو یہ صرف ایک تصور تھا۔ اسے متعارف کرانے کے لیے 10 سال محنت کی گئی اور اس کے بنیادی پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی گئی کہ بین الاقوامی قانون ہمارے ملک اور مسلمانوں کے لیے کیوں اتنا اہم ہے۔ کیونکہ آج کے دور میں کسی بھی جنگ کو لڑنے یا اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے بین الاقوامی قوانین کے اسلحے کے ذریعے معاہدے اور مذاکرات کرنے ہوتے ہیں۔ یہ عمل اب مسلسل جاری ہے۔ یہ تحقیقی سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء قائم ہوئی اور اسے 20 سال اور لگے۔ میری وکالت کا کچھ حصہ اسلام آباد میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں پیش ہونے سے متعلق تھا تو 10 سال پہلے میں نے اسلام آباد میں آفس بنایا اور پھر آر۔ایس۔آئی RSI کی تیار ہوئی۔ آج وہ ٹیم ماشاء اللہ بڑی مستند ہے۔ اور(R.S.I.L) آر۔ایس۔آئی۔ایل کی حیثیت یہ ہے کہ پچھلے سال اس ٹیم کے دو لوگ(Harvard Law School ) ہارورڈ لاء اسکول میں داخل ہوئے ہیں۔ عام طور پر ہارڈ صرف ایک بندہ ایک ملک سے لیتا ہے۔ یہ ایک استثنائی بات تھی کہ دو لوگ اس ادارے میں ماسٹرز پروگرام کے لیے منتخب ہوئے اور ابھی بھی آپ آر۔ایس۔آئی کی ویب سائٹ پر کسی بھی وقت جا کے دیکھیں تو آپ لوگوں کو پاکستان کے(state specific issues ) رياستی مخصوص مسائل کے حوالے سے بڑا مستند اور بہترین تحقیقی کام وہاں ملے گا۔ ایک پوری ٹیم ہے جو کام کر رہی ہےاور اس کافائنانشل ماڈل ڈیویلپ ہو گیا ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے ریاست نے بھی کوششیں کی ہیں۔ وزارت اقتصادیات نے ونگ بنایا اور مختلف جگہوں پر تھنک ٹینکس بنے۔ اب تو پرائیویٹ یونیورسٹی میں سے انٹرنیشنل لاء کےتھنک ٹینکس بن رہے ہیں۔ اور امید ہے کہ یہ سلسلہ آگے بڑھے گا ۔ اس گفتگو کا مقصد آج کی نئی نسل کو اس سارے قضیے سے متعارف کروانا تھا۔
پاکستان اور بین الاقوامی قانون کا فریم ورک
موضوع کے نقطہ نظر سے ایک یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور بین الاقوامی قانون کا فریم ورک کیا ہے؟ میرا یہ موقف ہے کہ پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح خود ایک بین الاقوامی قانون کے پریکٹیشنر (Practitioner)تھے کیونکہ پاکستان کی ریاست کوIntegrate کرنے کے لیے جو معاہدے چاہیے تھے وہ انہوں نے کیے تھے۔مثال کے طور پر جو بہاولپور ریاست کے ساتھ بین الاقوامی معاہدہ ہے، جس سے وہ پاکستان کا حصہ بنی۔ اسی طرح قلات کی جو ریاست ہے، اس کے بعد گوادر کی ریاست ہے، سوات کی ریاست ہے۔ اسی طرح ریڈ کلف اوارڈ کے بعد پنجاب کی تقسیم ہوئی۔قائداعظم محمد علی جناح نے مختلف ریاستوں کے ساتھ جو بین الاقوامی معاہدے اور دستاویزات پر دستخط کیےوہ بہت اہم ہیں۔ قائداعظم کا جو یہ کردار ہے، یہ اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے اور اس بارے میں لوگوں نے کم بات کی ہے۔ کیونکہ وہ ایک انتہائی مہنگے وکیل تھے، بہت Competent تھےاور ان کے تقریباً تمام کلائنٹس بڑی شخصیات تھیں اور ذاتی دوست بھی ۔
پاکستان میں قوانین کی مجموعی تعداد
اب یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ رُول آف لاء Rule of Law)) سے کیا مراد ہے؟ تو جواب ہےکہ آئین کی بالا دستی۔رول آف الاء کا مطلب صرف آئین کی بالا دستی نہیں ہے۔ آئین کے علاوہ بھی پاکستان میں بہت سے قوانین موجود ہیں جیسے فیڈرل قوانین، صوبائی قوانین، اور صدارتی فرمان۔ ان تمام قوانین کو بھی آئین کے مطابق ہونا چاہیے۔ پاکستان میں وفاقی قوانین کی تعداد تقریباً آٹھ ہزار ہے اور صوبائی قوانین کی تعداد تقریباً ساڑھے تین ہزارہے۔ اس طرح پاکستان میں مجموعی طور پر تقریباً تیرہ ہزار قوانین ہیں۔ یہ قوانین پاکستان کے اندر ہر شعبے پر لاگو ہوتے ہیں، چاہے وہ معاشرتی ہوں، ٹریفک، زمین کی ملکیت یا معاہدات کے حوالے سے ہوں۔رول آف لاء (Rule of (law کا مطلب ہے کہ قانون کا نفاذ کیا جائے۔ یہ نفاذ آئین، وفاقی اور صوبائی قوانین اور بین الاقوامی معاہدوں کے ذریعے ہوتا ہے۔روزمرہ کی زندگی میں، ہمیں رول آف لاء کے تحت CDA کے قوانین،ایکسائز کے قوانین اور ٹریفک کے قوانین پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ یہ قوانین ہماری ذاتی زندگی میں بھی ہمارے سماجی تعلقات کا حصہ ہیں۔اسی طرح بین الاقوامی معاہدوں کی تعداد پاکستان کے قوانین سے زیادہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ رول آف لاء کو سمجھنے کے لیے بین الاقوامی معاہدوں کا بھی علم ہونا ضروری ہے۔
پاکستان کے بین الاقوامی معاہدات
پاکستان نے مختلف ممالک کے ساتھ ہزاروں معاہدے کیے ہیں۔یہ معاہدے دو قسم کے ہوتے ہیں: دو فریقین کے مابین معاہدے (Bilateral) اور زیادہ فریقوں کے مابین معاہدے(Multilateral)۔
- بائی لیٹرل معاہدے (Bilateral agreement ) دو ممالک کے درمیان ہوتے ہیں، جیسے کہ پاکستان اور ایران کا تجارتی معاہدہ۔ بائی لیٹرل معاہدے پاکستان کے قوانین سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی پاکستانی قانون کسی بائی لیٹرل معاہدے کے خلاف ہے، تو معاہدہ قانون پر غالب آئے گا۔ پاکستان نے ایران، افغانستان، بھارت، نیپال اور آذربائیجان سمیت بہت سے ممالک کے ساتھ بائی لیٹرل معاہدے کیے ہیں۔
- ملٹی لیٹرل معاہدے (Multilateral agreement ) ایک سے زیادہ ممالک کے درمیان ہوتے ہیں، جیسے کہ اقوام متحدہ کا چارٹراور معاہدے۔ایسے معاہدات بنیادی طور پر قرآن کا بھی ایک حصہ ہیں۔ قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ جو کچھ آپ نے کہا، اس کو آپ پورا کریں۔ تو جو بھی آپ معاہدے میں داخل ہو گئے ہیں، ذاتی حیثیت میں، اجتماعی حیثیت میں، ملک کی حیثیت میں، آپ نے اس معاہدے کو پورا کرنا ہے۔
قرآن اور بین الاقوامی قانون
اگر قرآن کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس چیز کو محسوس کیا جا سکتا ہے کہ معاہدے کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ ذاتیات کے حوالے سے، پیسے کے لین دین، آپ جب کالج میں ایڈمٹ ہوتے ہیں وہAdmission letterجو ملتا ہے اس میں بھیTerms and Conditions اور دو سال یا تین سال کا معاہدہ ہوتا ہے۔ یہ بھی معاہدہ ہے۔ اس کو بھی آپ پورا کریں گے ۔
قرآن کے الفاظ ہیں:
” یٰاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ”
(اور وہ کیوں کہتے ہو جو کر نہیں سکتے؟)
بنیادی طور پر ہم قرآن کے معاہدے کے فریم ورک کو بہت ہی ہلکا لیتے ہیں اور یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ جبکہ بنیادی طور پر معاشرتی ہم آہنگی کا انحصار اس معاہدے کے عمل درآمد پر ہے کہ کس یقین کے ساتھ اسے آپ نے تھام رکھا ہے۔ اسی طرح جو قانونی معاہدے بھی ہیں ان تمام قوانین کا بنیادی طور پر قرآن کی رو سے نافذ کرنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ آئین ایک معاہدہ ہے اور آئین کے تحت یہ ایک سماجی معاہدہ ہے۔ نصاب میں آپ کو یہ سماجی معاہدہ پڑھایا جاتا ہے۔ یہاں آئین سے مراد صرف چند صفحات کا متن نہیں ہے بلکہ آئین کے تحت آنے والے تمام قوانین بھی ہیں۔ اس معاہدے کی تعریف قرآن میں ان الفاظ میں آئی ہے کہ قرآن کا جو معاہدہ ہے وہ بندے اور اللہ کے درمیان ہے۔ آپ کو اس بات کا بھی پتہ ہے کہ جب آپ ایمان والے بنتے ہیں، تو قرآن آپ کو بتاتا ہے کہ دیکھو اگر تم مومن بننا چاہتے ہواور ایمان والے بننا چاہتے ہو،تومعیاری شرائط پر مبنی ایک معاہدہ (Standard Term Contract ) تمہیں اللہ تعالی کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے جو کہ اس کی کتاب ہے۔
معیاری شرائط پر مبنی معاہدہ ((Standard Term Contract کیا ہوتا ہے؟
یہ وہ معاہدہ ہے جو بنانے والا تیار کر کے آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر آپ نے میری بات ماننی ہے تو اس کو پورا سائن کر دیں،یہ جیسا بھی ہے ویسے ۔Standard Term Contract ایک نئی اصطلاح ہے۔ 50-60 سال پہلے ایسی کوئی اصطلاح نہیں تھی ۔ البتہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قرآن کا معاہدہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں مذاکرات کا تصور نہیں ہے۔ چونکہ مذاکرات دونوں طرف سے ضروری ہوتے ہیں۔جبکہ قرآن کو ترتیب دی گئی تھی تو انسانوں سے تو نہیں پوچھا گیا تھا۔
Standard Term Contract کی مثال ایسے دی جا سکتی ہے کہ جب کبھی انشورنس کا معاہدہ سائن کیا جاتا ہے تو انشورنس کمپنی بہت موٹا معاہدہ، جس میں بے شمار چیزیں شامل ہوتی ہیں ،سامنے رکھ دیتی ہے اور وہ کہتے ہیں آپ یہ سائن کر دیں۔اسے کہتے ہیںمعیاری شرائط کامعاہدہ Standard Term Contract))۔اسی طرح آپ نے قسطوں پرکوئی موٹرسائیکل یا گاڑی لینی ہےتوجس کمپنی یا جس بینک سے لینی ہے وہ آپ کے سامنے’سٹینڈرڈ ٹرم ایگریمنٹ‘ رکھتے ہیں،جو پہلے سے چھپا ہوا ہوتا ہے اور اس پر کوئی مذاکرات یا بات چیت نہیں ہوتی ۔آپ صرف اس کو سائن کرتے ہیں۔
اسی طرح قرآن بھی ایک سٹینڈرڈ ٹرم معاہدہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو پیش کیا جاتا ہے۔ جب آپ لا إله إلا الله محمد رسول الله پڑھ لیتے ہیں تو براہ راست اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاہدہ کرتے ہیں اور اس کے تمام احکامات، جیسے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک، لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک، رشتہ داروں کے ساتھ اچھاا سلوک، اللہ تعالیٰ کو ماننا، اور اس کے پیغمبروں کو ماننا، یہ سب اس کے اہم ترین احکامات ہیں۔ آپ کو ان تمام احکامات کو قبول کرنا ہوگا۔ان احکامات میں سے سب سے اہم حکم اور ذمہ داری یہ بھی ہے کہ آپ اپنے معاہدوں کو پورا کریں اور لوگوں کے ساتھ جو وعدہ آپ کرتے ہیں اسے پورا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ “جب آپ معاہدے کریں تو ان کو پورا کریں”۔ایمان اور تقویٰ کی تعریف میں ایک اضافی نکتہ یہ ہے کہ اگر آپ اللہ تعالیٰ کا بہترین بندا اور ایمان والا بننا چاہتے ہیں تو اپ جو معاہدے کرتےہیں ان کو پورا کریں اور اور یہی آپ کو ایمان کی اعلی سطح پر فائز کر سکتا ہے، جہاں آپ اللہ تعالیٰ کے اور قریب ہوجاتے ہیں۔
قرآن اور امریکا کا آئین
میں نے جب قرآن پہلی بارترجمے سے دیکھا اور پڑھا تو میں نے محسوس کیا کہ یہ امریکا کے آئین سے ملتا جلتا ہے۔ امریکا جو دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہے، اس کے آئین کا پہلا آرٹیکل کہتا ہے کہ کوئی قانون ایسا نہیں بنایا جا سکتا جو کسی معاہدے کے خلاف ہو۔ دنیا میں اقتصادی طاقت بننے والے معاشرے اپنے آئین میں معاہدوں کی بالادستی کو یقینی بناتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جب ہم معاہدوں کو نافذ کرنا شروع کرتے ہیں تو ہماری معیشت کا پھیلاؤ ، ترقی کا عمل اور سماجی ہم آہنگی کی تعمیر شروع ہو جاتی ہے۔ آپ کے آپسی اختلافات قانون کے دائرے میں حل ہوں گے۔ ایک بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ قانون کی بالادستی سے مراد ایک عام شہری کے لیے قانون کی بالادستی ہے۔ لیکن ایک مسلمان شہری کے لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو قرآن کے احکامات پر بھی عمل کرنا ہے۔ قرآن آپ کے ان تمام معاہدوں کی حفاظت کرتا ہے جو آپ لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ چاہے وہ دوستوں کے ساتھ ہوں، رشتہ داروں کے ساتھ ہوں، ملازمین کے ساتھ، یا کسی اور کے ساتھ ہوں۔ لہذا یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ان تمام معاہدوں کی اسلام اور قرآن میں کیا حیثیت ہے۔ یہ معاہدہ جو اللہ تعالیٰ کا ہمارے ساتھ ہے اس میں دنیاوی معاہدے بھی اہم ہوتے ہیں۔ جب تک میں ایک اچھا قانون کا پابند شہری نہیں بنوں گا، ایک اچھا مسلمان بننا میرے لیے مشکل ہوگا۔کیونکہ قانون کی بالادستی قرآنی احکامات کی بالادستی کا ایک لازمی جزو ہے۔ اسی طرح اگر آپ قانون کی بالادستی کو دیکھیں تو اس کے مطابق نہ صرف آپ کو ذاتی معاہدوں کو پورا کرنا ہے،بلکہ ریاست کے قوانین پر بھی عمل کرنا ضروری ہے۔
اسلام اور بین الاقوامی قوانین
میں نے اس عنوان پر بات نہیں کی کہ اسلام ایک دین ہے جومتنوع اجزا پر مشتمل ہے۔ بنیادی طور پر اسلام تمام اجزا کے تعلق کی بنیاد پر سمجھ میں آتا ہے۔ اگر آپ حضور پاک ﷺ کی زندگی کو سمجھنا چاہتے ہیں تو وہ بھی تمام اجزا کے فریم ورک میں سمجھ میں آتی ہے۔ اسی طرح قرآن کا تقاضا بھی یہ ہے کہ اسے اس کے تمام اجزا کے ذریعے سمجھا جائے اور وسیع فرایم ورک کا لحاظ کیا جائے۔ ہم اگرچہ یہ کہتے ہیں کہ قرآن آفاقی کتاب ہے اور قرآن ہماری زندگیوں میں شامل ہے،لیکن ہم اسے عام طور پہ مکمل طور پہ تمام اجزس کے ساتھ سمجھ نہیں پاتے۔
قرآن کے حوالے سے غلط فہمی
دنیا میں کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن ایک قدیم دستاویز ہے ،اور ہمیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ قرآن اتنے سوسال پہلے آیا تھا اور یہ آج کے جدید دور پر لاگو نہیں ہوتا۔ میں اس نظریے سے متفق نہیں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ قرآن کے اجزا کاوسیع فریم ورک ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہے۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں آئین کی ایک عمرانی معاہدہ ہے اور آپ آئین کے بنیادی اصولوں کو نہیں بھول سکتےاور نہ آپ ان میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کر سکتے ہیں۔ میں نے اس تھیوری پر کام کیا ہے۔میں نے ایک آرٹیکل لکھا ہے جس میں بتایا ہے کہ قرآن کی بنیادی ساخت بھی مخصوص اصولوں اور اجزاء پر مشتمل ہے۔ یہ واضح اور مستحکم اجزا ہیں اور ان میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ قرآن کے بنیادی اجزا ءمیں توحید،رسالت، نبوت،کتاب،آخرت،عدل،احسان،عفو وغیرہ شامل ہیں۔
اس حوالے سے ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ جب آپ کوئی نیک کام کرتے ہیں تو آپ کی ایک غرض ہوتی ہے، وہ غرض یہ ہوتی ہے کہ مجھے ثواب ملے گا۔ جب آپ اس غرض کے ساتھ نیک کام کرتے ہیں تو یہ بھی ایک معاہدہ ہوتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت آپ اللہ تعالی سے وعدہ کرتے ہیں کہ آپ نیک کام کریں گے اور اللہ تعالی آپ کو ثواب عطا کرے گا۔اسی طرح اللہ تعالی بھی اپنی طاقت اور صلاحیتوں کی ضمانت دیتا ہے اور وہ اپنے بندوں سے وعدہ کرتاہے کہ وہ ان کی مدد کرے گا، ان کی حفاظت کرے گا اور ان کے نیک کاموں کا صلہ دے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک نیا اور غیر روایتی نقطہ نظر ہے،لیکن یہ اسلام کی ایک نئی تفہیم پیش کر تا ہے۔ یہ تفہیم اسلام کو جدید دنیا میں بھی قابل عمل اور متعلق بنا سکتی ہے۔ اسلام ایک وسیع اور جامع دین ہے اور اسے سمجھنے کے لیے مختلف نقطہ ہائے نظر کی ضرورت ہے۔
رسولُ اللّٰهﷺ کی حیات مبارکہ میں معاہدوں کی اہمیت
رسولُ اللّٰهﷺ نے بہت سے حوالوں سے سکھایا ہے کہ وہ ایک مثالی انسان تھے اور وہ بین الاقوامی قانون کے بھی ایک پریکٹیشنر تھے۔اس زمانے میں جب قبائل ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات رکھتے تھے تو ان کے درمیان معاہدے اور قوانین ہوتے تھے اور یہ قوانین بین الاقوامی قانون کے تصور کی بنیاد پر بنتے تھے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف قبائل کے ساتھ معاہدہ کیے اور یہ معاہدے بین الاقوامی قانون کے اصولوں پر مبنی تھے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں قبائل کے درمیان ایک بازار لگنے کا معاہدہ کرایاتھا اور اس معاہدے میں یہ طے کیا گیا تھا کہ بازار میں تمام لوگوں کو آنے اور جانے کی اجازت ہوگی اور کوئی بھی شخص کسی اور کی عبادت میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بین الاقوامی قانون کے اصولوں کو فروغ دیا اور دنیا کو ایک پرامن جگہ بنانے میں مدد کی۔ آپﷺ نےTransit States کے تصور کو بھی فروغ دیا۔ ٹرانزٹ سٹیٹ ایک ایسی ریاست ہوتی ہے جہاں لوگوں کو آزادانہ طور پر سفر کرنے اور تجارت کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو ایک ٹرانزٹ سٹیٹ کے طور پر قائم کرنے کی کوشش کی اور دیگر قبائل کو بھی اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے علاقوں کو ٹرانزٹ سٹیٹ بنائیں۔ یہ ایک اہم کام تھا کیونکہ اس سے دنیا بھر کے لوگوں کے لیے سفر اور تجارت آسان ہوئے۔ جب کوئی مجھ سے سی پیک CPEC وغیرہ کے بارے میں بات کرتا ہے تو میں انھیں بتاتا ہوں کہ ٹرانزٹ سٹیٹ کا تصور ہمارے پیغمبر ﷺ کی سنت کا ایک اہم حصہ تھا اورآپﷺ نے اسی طرح کے معاہدوں سے مکہ اور مدینہ کی معیشتوں کو بھی بہتر بنایا۔ آپﷺ تاجروں کو معیاری شرائط پر قیام کی اجازت دی اور وہ جو بازار لگانے کا معاہدہ کیا تھا وہ اصل میں آزاد تجارت کا معاہدہ تھا۔آج کیعالمی تجارتی تنظیم WTO)) اسی طرح کے تصورپر قائم ہے۔ آج آپ کو یہی سکھا یا جارہا ہے کہ آپ اپنی مصنوعات کو دنیا میں کہیں بھی لے جا سکتے ہیں اور اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کا قیام
1993 میں جب WTO کا تصور آیاتو اس سے پہلے کیا نظام تھا؟ اس سے پہلے ہر ملک میں تجارتی رکاوٹیں لگائی گئی تھیں۔یعنی کسٹم ڈیوٹیاں بہت زیادہ تھیں۔ایسے ہی یہ سوچ تھی کہ ہمیں جو ضرورت ہے اسے اپنے ملک میں بنانا چاہیے۔ باہر سے کچھ بھی چیز امپورٹ (Import )نہیں کرنی چاہیے۔ نہ یہ پنیر، نہ دودھ، نہ دہی،غیرہ،جو جو ہم اکثر کھاتے ہیں، کچھ بھی باہر سے نہ آئے۔ ہندوستان میں پرانی گاڑیاں چل رہی تھی، جو ایمبیسڈر گاڑی کا 50 کا پرانا ماڈل تھا وہی چل رہا تھا۔ پھر 1993 میں دنیا نے بیٹھ کرMultilateral trade اور Investment protocol جیسے معاہدوں پر دستخط کیے اور کہا کہ ہم یہ تجارتی رکاوٹیں ختم کرتے ہیں۔ ملکوں کو آزادی ہونی چاہیے کہ وہ جو بھی درآمد اور برآمد کرنا چاہیں،وہ کریں۔ جس ملک کے پاس جو ذرائع اور ذخائر ہیں وہ ان سے چیزیں تیار کریں اور باقی ملکوں کو بھیجیں۔ اگر چین سائیکل اچھی بناتا ہے تو پاکستان کیوں اپنی محنت ضائع کرے؟ پاکستان لال ٹین، چارپائی یا کچھ اور اچھا بناتا ہے تو وہ ان چیزوں کو برآمد کرے اور اگر گاڑی اچھی بناتا ہے، تو وہ گاڑیاں برآمد کرے۔اسی طرح اگر کوئی ملک معدنیات اچھی نکال سکتا ہے تو وہ منرل برآمد کرے۔ یہ عالمی تجارتی تنظیم کا معاہدہ تھا۔
ایک دلچسپ بات جو کہ قابل ذکر ہے کہ چین نے سب سے پہلے اِس چیز کو سمجھا اور اس پر عمل کیا۔ اس نے سمجھا کہ WTO کا کیا اثر پڑے گا۔جب بین الاقوامی قانون متعارف کرایا گیا تو چین نے اس موقع کو غنیمت جانا اور اس نے کہا، “اگر ہم اپنا مال بنانا شروع کر دیں، اور ہم اپنی مینوفیکچرنگ کو بہتر بناتے رہیں، تو پھر مال کو پہنچنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی”۔چین نے بہت سی فیکٹریاں لگائیں، صنعتیں قائم کی، چیزیں بنائیں، اور دولت کمائی۔ اس نے دنیا بھر میں اپنی مصنوعات کو فروخت کرنے کے لیے کاروباری دروازے کھول دیے اور آہستہ آہستہ، چین اپنی مصنوعات کی پیداوار اور برآمد میں بہت آگے نکل گیا۔ جب امریکیوں کو یہ احساس ہوا کہ چین نے ڈبلیو- ٹی – او کے نظام کا فائدہ اٹھا کر انہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اب وہ اس صورتحال کو تبدیل یا واپس نہیں کر سکتے تو انہوں نے چین پر سیاسی دباؤ ڈالنا شروع کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات بہت اچھے طریقے سے جانتے تھے کہ کہ اگر اپ اپنے معاہدے کو اچھی طرح سے سے مرتب کر سکتے ہیں تو اس کے اچھے اثرات ہمیشہ کے لیے دنیا پر رہ جائیں گے۔صلح حدیبیہ کے سیاسی اور اقتصادی فوائدکتنے اچھے نکلے ۔اس کی مثال آج بھی دی جاتی ہے ۔
اقوام متحدہ کا چارٹر، ایک اہم سنگ میل
عصرحاضر کا سب سے اہم معاہدہ اقوام متحدہ کا چارٹر (UN Charter 1945) ہے۔ یہ معاہدہ کیوں اہم ہے؟ میں نے اس پہ “قانونی سنگِ میل”( Legal Milestone) کے نام سے ایک کتابچہ لکھا،اور اسے سب سے اہم تاریخی بین الاقوامی قانون قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1945 سے پہلے تقریباً یہ قانون تھا کہ آپ دنیا میں کسی بھی ملک کو فتح کر سکتے ہیں، وہاں اپنا جھنڈا لہرا سکتے ہیں اور اس ملک کے مالک بن سکتے ہیں۔ طاقت کا استعمال کرنا درست تھا،یعنی آپ نے کسی ملک پر قبضہ کیا،اپنا گورنر وہاں مقرر کیا اور واپس چلے گئے اور وہ ملک آپ کا ہو گیا۔ مثال کے طور پر جیسے محمد بن قاسم نے کہا کہ میں دیبل فتح کرنے جا رہا ہوں۔وہ دیبل پہنچے اور دیبل کا قلعہ فتح کیا اور وہاں اپنا جھنڈا لہرا دیا۔اسی طرح طارق بن زیاد نے اسپین میں کشتیاں جلائیں اور اس ملک کے مالک گئے کیونکہ انہوں نے اس پر قبضہ کر لیا ۔ تو یہ ایک اصول تھا۔
1945 میں اس دو ہزار سال پرانے اصول کو تبدیل کر دیا گیا۔اقوام متحدہ کے چارٹر (UN Charter) میں یہ کہا گیا کہ اب طاقت کی بنیاد پر کسی ملک پر قبضہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اب کوئی ملک کسی دوسرے ملک کی زمین پرطاقت کی بنیاد پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کی زمین پر قبضہ کربھی لیتا ہے تو اس قبضے کے بعد بھی اس ملک کی اصل ملکیت یا اس کا نام تبدیل نہیں ہوگا، اس کا تعلق اسی ملک کے لوگوں سے رہے گا۔ 1965 کی جنگ میں پاکستان کے بریگیڈیئرسائیداد خان کمانڈنگ آفیسر تھے، وہ کھیم کرن کے علاقے میں اپنے ساتھیوں سمیت30 کلومیٹر آگےتک چلے گئے اور انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ ہم نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے ۔ ان کو جواب ملا کہ ٹھیک ہے ابھی آپ اس علاقے کو رکھیں، لیکن بعد میں اقوام متحدہ کی جانب سے سیز فائر کے بعد انہیں اس علاقے سے واپس جانا پڑا۔
اقوام متحدہ چارٹر کا بنیادی طور پر یہی مقصد تھا کہ اپ کسی دوسرے ملک کی ملکیت نہیں لے سکتے۔1971ء میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کیوں بنایا گیا؟ حالانکہ ہندوستان کی فوج وہاں موجود تھی اور 90 ہزار پاکستانی فوجی ان کے سامنے ہتھیار ڈال چکے تھے۔ ہندوستان نے اسے اپنے ملک میں ضم کیوں نہیں کیا؟ ایک نیا صوبہ کیوں نہیں بنالیا؟ اس وقت تو کوئی بنگلہ دیشی حکومت نہیں تھی۔ لیکن ہندوستان نے ایسا نہیں کیا، کیونکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ سب ممنوع ہے۔ اس چارٹر کی رو سے تو آپ کسی قوم کو آزاد کروا سکتے ہیں لیکن کسی کے ملک پر زبردستی قبضہ نہیں کر سکتے۔یہ ہمارے لیے سب سے بڑا، بنیادی اوراہم نکتہ تھا لیکن اس پر کبھی کسی نے توجہ نہیں دی ۔
حیرت انگیز بات ہے کہ کسی بھی جدید اسلامی اسکالر نے اقوام متحدہ کے چارٹر کو اہمیت نہیں دی۔ قرآن کی تفسیروں اور دیگر اسلامی تحقیق میں اس چارٹر کا ذکر تقریباً نہ ہونے کے برابر ملتا ہےاور اگر کہیں ملتا بھی ہے تو معمولی انداز میں۔ میرے سامنے ایک پرانی کتاب گزری ہے، اس کتاب میں جنیوا کنونشنز کا ذکر کیاگیا ہے۔ یہ کنونشنز 1949 میں منظور کیے گئے تھے، اور وہ کتاب 1950 میں شائع ہوئی تھی۔ اُس زمانے میں گوگل نہیں تھا اور لوگوں کے لیے جنیوا کنونشنز تک پہنچنا بھی آسان نہیں تھا۔اس کتاب کے مصنف نے جنیوا کنونشنز کو بین الاقوامی قانون کی ترقی کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا۔اب تو دنیا گلوبل ہوگئی ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس بارے پڑھیں اور اس کی اہمیت کو سمجھیں۔
ڈاکٹر حمید اللہ نے بھی جنیوا کنونشنز پر کام کیا تھا، اور انہوں نے اپنے لیکچرز میں ان کا حوالہ دیا ۔اگر اس سطح کے سکالرز کو بین الاقوامی قانون پر کام کرنے کا زیادہ وقت ملتا تو وہ اسے زیادہ درست انداز میں مسلمانوں کو سمجھا سکتے۔ اقوام متحدہ کےچارٹر کاایک بنیادی اصول یہ ہے کہ ریاستیں اپنی سرحدوں کو تبدیل نہیں کر سکتیں۔ اس اصول کے مطابق جو سرحدیں جنگ سے پہلے طے ہو چکی ہیں وہ برقرار رہنی چاہئیں۔ فلسطین اور کشمیر کے معاملات اس اصول کے خلاف ہیں۔اسی لیے یہ دونوں خطے تنازعہ کا باعث ہیں اگر آپ افریقہ کا نقشہ اٹھا کر دیکھیں تو ان سرحدوں کی تقسیم انتہائی غیر فطری ہے۔ یہ سیدھی لائنیں ہیں جو قبائلی تنوع کو نظر انداز کرتی ہیں۔ یہ سرحدیں انگریزوں نے 1945 کے ارد گرد یا اس سے پہلے کھینچی تھیں اور ان کے جانے کے بعد اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ان کو حتمی حیثیت مل گئی۔ان سرحدوں کی وجہ سے افریقہ میں بہت سی قبائلی جنگیں ہوئی ہیں۔ یہ جنگیں اتنی خوفناک تھیں کہ ان میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ لیکن ان جنگوں کے باوجود کسی نے بھی ان سرحدوں کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اقوام متحدہ کو ڈر تھا کہ اگر ان سرحدوں کو تبدیل کیا گیا تو بین الاقوامی امن کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ یہی صورتحال ڈیورنڈ لائن کی بھی ہے۔ ڈیورڈ لائن ایک معاہدہ ہے۔جب آج انڈیا ڈیورنڈ لائن کو تبدیل کرنے کی بات کرتا ہے تو اس پر اعتراضات ہوتے ہیں۔ ان اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ انڈیا اکھنڈ بھارت کے سابقہ فریم ورک کو دوبارہ نافذ کرنے کی بات کر رہا ہے جس فریم ورک میں نیپال، افغانستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا بھی شامل تھے۔
بین الاقوامی قانون کے ذرا ئع
اب ہمیں ایک نئی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس حکمت عملی کو بنانے کے لیے، ہمیں بین الاقوامی قانون کے ذرائع کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی قانون کے ذرائع میں معاہدے، بین الاقوامی رسم و رواج، اور قانون کے عام اصول شامل ہیں۔میں اکثر لوگوں سے یہ سوال سنتا ہوں کہ کوئی ایسی کتاب بتائیں جو بین الاقوامی قانون پر سارا کچھ سمجھا دے۔ ایسی کوئی کتاب نہیں ہے۔یہ جاننے کے لیے کہ بین الاقوامی قانون کے ذرائع کیا ہیں، آپ میرے 15 سال پرانے لیکچرز دیکھ سکتے ہیں جو ریکارڈ ہوئے تھے۔ میں آپ کو سمجھا دوں گا کہ بین الاقوامی قانون کے چار ذرائع ہیں:پہلا ذریعہTreaties معاہدے ہیں۔ معاہدے دو یا دو سے زیادہ ریاستوں کے درمیان طے کیے جانے والے قواعد ہیں جو بین الاقوامی قانون کا حصہ بن جاتے ہیں۔دوسرا ذریعہInternational customs Related Law ہیں۔ دنیا میں کچھ بین الاقوامی رسوم ورواج اور اصول ہیں جو ریاستوں کے مسلسل اور باقاعدہ باہمی تعامل کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ تیسرا ذریعہ عدالتی فیصلے(Judicial Decisions) ہیں جو عالمی بین الاقوامی عدالتوں سے صادر ہوتے ہیں۔چوتھا ذریعہ علمی قانونی آراء (Academic Writings) ہیں۔ Academic Writingsسے مراد بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی رائے ہے۔
ایک اور اہم چیز بین الاقوامی ادارے ہیں جو مسلسل قانون سازی کے عمل کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اگر آپ انسانی حقوق پر کام کر رہے ہیں یا ثقافتی ورثے پر کام کر رہے ہیں، جیسے کہ تخت بھائی اور مردان کا علاقے میں یہ ورثہ ملتا ہے، تو آپ کو اس پرکام کرتے ہوئے دیکھنا پڑے گا کہ اس حوالے سےکوئی بین الاقوامی معاہدہ ہے یا نہیں۔ یونیسکو کا “ثقافتی ورثے کے تحفظ اور فروغ کے لیے پروگرام” ایک ایسا ہی معاہدہ ہے ۔اب آپ دیکھیں کہ کوئی کسٹم ہے یا نہیں۔ کسٹم سے مراد یہ ہے کہ عراق میں جو جنگ ہوئی تو اس زمانے میں ثقافتی ورثے کو کس طرح کی حفاظت ملی۔ مصر میں، وسطی ایشیا میں، اور ویتنام میں جنگوں کے دوران ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھا گیا یا نہیں۔ اسی طرح، آپ ٹیکسلا کے دستاویزات کو دیکھ سکتے ہیں کہ ٹیکسلا کتنا پرانا ہے اور یہ ایک ثقافتی ورثے کی جگہ ہےاور اس لیے ثقافتی ورثے کی جگہوں کے لیے ایک مخصوص تصوربین الاقوامی تصور اور ڈھانچہ وضع کیا گیا ہے۔
میں اسپین گیا ہوا تھا اور وہاں قرطبہ جانا ہوا۔ ہمارے گائیڈ نے بڑا فخر کیا کہ قرطبہ دنیا کا واحد شہر ہے جس میں تین ثقافتی ورثے کے مقامات ہیں جنہیں عالمی سطح پر تحفظ دیا گیا ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ گوگل پر چیک کریں کہ لاہور میں ایسی کتنی جگہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لاہور میں بھی تین ہیں: وزیر خان مسجد، شالیمار باغ، جہانگیر کا مقبرہ اور بادشاہی مسجد ۔بین الاقوامی قوانین بہت وسیع ہوتے ہیں۔ ریاستوں کو ان کی پابندی کرنی ہوتی ہے اور اس کا دنیا کے امن وامان میں بڑا کردار ہے۔
ثقافتی ورثہ، بین الاقوامی ورثہ
ثقافتی ورثہ کا تصور یہ ہے کہ بین الاقوامی کمیونٹی کسی خاص ملک یا علاقے کے ثقافتی ورثے کو مشترکہ وراثت کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ اس تصور کی بنیاد یہ ہے کہ ثقافتی ورثہ کسی ایک فرد یا گروہ کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ سب انسانوں کی مشترکہ میراث ہے۔ 1945 میں ہونے والی یونیسکو کی جنرل کانفرنس میں ثقافتی ورثے کی حفاظت کو بین الاقوامی قانون کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس کانفرنس میں “ثقافتی ورثے” کی تعریف یہ کی گئی:”وہ تمام چیزیں جو انسانی ثقافت کی تخلیق ہیں، بشمول فنون، ادب، ٹیکنالوجی، تعمیرات، اور قدرتی ماحول کے عناصر جو انسانی ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں”۔یونیسکو نے ثقافتی ورثے کی حفاظت کے لیے کئی معاہدے بھی کیے ہیں جن میں سے ایک ’عالمی ثقافتی ورثے کے تحفظ کا کنوینشن‘بھی ہے۔ اس قانون کے تحت، یونیسکو عالمی ثقافتی ورثے کے طور پر ان مقامات کی فہرست بناتا ہے جو انسانی ثقافت کے لیے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان میں بھی ثقافتی ورثے کی حفاظت کےلیے کئی قوانین اور پالیسیاں موجود ہیں۔ ان میں سے ایک “ثقافتی ورثہ (تحفظ) ایکٹ، 1975” بھی ہے۔ اس ایکٹ کے تحت پاکستان میں ثقافتی ورثے کے مقامات کو “ثقافتی اثاثہ” قرار دیا گیا ہے ٹیکسلا کے ارد گرد ہونے والی ہاؤسنگ سوسائٹی کیس میں، پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا تھا جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ ٹیکسلا کی تاریخی یونیورسٹیوں کے مقامات عالمی ثقافتی ورثے کے مقامات ہیں۔ اس فیصلے کے بعد ان مقامات پر کوئی تعمیراتی کام نہیں ہو سکتا۔
تو یہ وہ عدالتی فیصلے یا بین الاقوامی فیصلے ہیں جو عالمی عدالتوں نے صادر کیے ہیں اوروہاں رجسٹرڈ ہیں اور ان کی حفاظت کے اصول و ضوابط بھی طے کیے گئے ہیں جس کے لیے باقاعدہ ادارے موجود ہیں۔بین الاقوامی قوانین سے تعارف اور ان کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے ہمارے معاشرے میں بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔