پختون پختونخوا میں ترقی کیوں نہیں کر سکتے؟

0

ڈاکٹر فصیح الدین اشرف

پختون قوم کی جہاں بدقسمتی کے دن ختم نہیں ہو رہے وہاں الفنسٹون، میجر راورٹی اور لارڈ کرزن سے لے کر آج تک مغرب ومشرق کے بے شمار دانشور اور اربابِ سیاست وسیادت اس قوم کی تاریخ، خدمات، ثقافت، نسل، عادات، جغرافیہ اور اچھائی بُرائی معلوم کرنے میں جان کھپاتے رہے ہیں‘کمال یہ ہے کہ کامیابی آج تک کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔ بھانت بھانت کی بولیوں میں ہر ایک اہلِ قلم ونظر نے کٹا کے انگلی شہیدوں میں البتہ نام ضرور لکھوایا ہے۔ افغان روس جنگ اور افغان امریکہ جنگ (جس کو مغربی طاقتوں نے زبردستی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا‘ اِن دوجنگوں کے دوران میں پختون قوم کو سمجھنے کیلئے مغرب سے اس قدر علمی اور تحقیقی مواد نکلا ہے اور جس میں ہمارے زرخرید این جی اوز قسم کے تھنک ٹینکس اور ضمیر فروش اہلِ قلم نے بھی مقامی طور پر اتنا اضافہ کیا ہے کہ الامان الحفیظ۔ ہماری ریسرچ لائبریری پشاور میں اس قسم کی کتابوں اور رپورٹوں سے کم از کم دو الماریاں بھری پڑی ہیں۔ اِیسا علمی طور پر کسی سودمند کوشش کیلئے کم اور پروپیگنڈا اور الزام تراشی کیلئے زیادہ کیا گیا ہے۔ مغرب جب سیاسی اور معاشی طور پر کوئی پالیسی بناتا یا اعلان کرتا ہے تو یہ درباری نورتن اس کی تشہیر اور تصویب وتائید کے لئے مختلف سارنگیوں اور طبلوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ عالمی ادارے بھی مقامی تنظیموں اور تعلیمی اداروں کو تحقیق اور نظریہ سازی کیلئے بے تحاشا فنڈز دینا شروع کر دیتے ہیں۔پختون قوم کے بارے میں بھی ایسا بہت کچھ لکھا اور کہا گیا۔مثال کے طور پر ”پختون قوم میں انتہاپسندی کی وجوہات“ جیسے موضوعات پر انگریزی رپورٹیں تو کیا پشتو اور اُردو میں بھی کتابیں لکھی گئیں جو کہ شاید بعض افراد نے نادانستہ اور لاشعوری طور پر بھی لکھی ہیں۔ مجھے خود اس موضوع پر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی(NDU) میں تین گھنٹے بولنا پڑا تھا۔ کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں بھی اس موضوع پر بات کرنے کا موقع ملا، تاہم مجھے معلوم تھا کہ یہ مقدمہ کیسے لڑنا ہے؟ آج افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد اس قسم کے موضوع میں کسی کی کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی ہے۔ یہ سارا علمی کاروبار اکثر این جی اوز اور اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کی فنڈنگ اور پراجیکٹس کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ آج اگر صدرٹرمپ کسی اور مسئلے کو عالمی خطرہ قرار دے تو سب وہی راگ الا پنا شروع ہو جائیں گے۔ اِس لمبی تمہید کے بعد اب راقم انہی فضلا اور علمائے دانش وبینش سے ایک سوال کرتا ہے کہ اس قدر تحقیقات میں ہر شے موجود ہوتی ہے مگر اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہوتا کہ پختون آخر پختونخوا میں ترقی کیوں نہیں کر سکتے؟ یہ ترقی کسی بھی میدان میں ہو مگر پختونخوا پختون قوم کیلئے ایک مفید میدانِ عمل نہیں بن سکا۔فلمی دُنیا ہی دیکھ لیں۔ لاہور جاکر ہی فردوس جمال کا جمال اور رنگیلا کا رنگ جگمگ کرنے لگا۔ کہتے ہیں کہ ملکہئ حسن مدھوبالا، شہنشاہ ظرافت معین اختر اور دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو خواب خرگوش سے جگانے والے طارق عزیز کا تعلق بھی اِسی خاک سے تھا۔ کھیل اور کھلاڑی میں جہانگیرخان، قمر زمان، شاہین، شاہد اور یونس خان بھی باہر جاکر ہی نام اور دام کمانے لگے۔ پختونخوا کی سرزمین پر علمائے کرام ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں مگر گوشہ نشین اور گمنام۔ البتہ باہر جاکر وہ شیخ الحدیث علّامہ یوسف بنوریؒ، شیخ التفسیر عبدالحمید سواتیؒ اور عزیزی اسرار مدنی بن کرچمکنے لگے‘احمد فرازؔ شکر ہے کہ اسلام آباد کے وی آئی پی قبرستان میں سو گئے۔ کیاان سب عالی دماغ اور طبّاع تخلیق کاروں کی صلاحیتیں بنوں، کوہاٹ اور صوابی، باجوڑ میں کبھی سامنے آسکتی تھیں؟ ہمارے کاریگر، ہنرمند اور کاروباری طبقہ بھی دوبئی، لندن، امریکہ، حتیٰ کہ کراچی اور لاہور میں اپنی بہار دکھلاتے ہیں۔ملائشیاء، چین اور تھائی لینڈ ہی دیکھ لیں جہاں پختون اپنی محنت سے کامیابی کے جھنڈے گاڑھ رہا ہے۔ اپنی مثال دینا شاید اچھا نہ لگے مگر حضرت تھانویؒ نے بیان القرآن میں فرمایا ہے(انی حفیظ علیم کے تحت) کہ کسی میں کوئی خوبی ہو تو بیان کرنے میں مضائقہ نہیں۔ یعنی یہ کوئی شیخی بگھارنے اور میاں مٹھو کی بات نہیں۔ دوبئی میں انٹرنیشنل پولیس ایگزیکٹو سپوزیم کے دوران نیویارک پولیس کے ایک سابق کمشنر اور پروفیسر جیمز البریچ نے دو ایڈیشنل آئی جی پولیس (نیر حسنین اور اظہر احسن ندیم)سے کہا کہ آپ کے ملک میں یہ آدمی (راقم کی طرف اشارہ کرکے) پولیس میں موجود ہے تو آپ کو اپنی پولیس پر فخر کرنا چاہئے‘ آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کی پروفیسر گبیرئیل بیمرجن پر میں نے آسٹریلیامیں بڑی سخت تنقید بھی لکھی تھی،نے مجھے اپنی کتاب پر تقریظ لکھنے کے لئے کہا، حیرت ہوئی کہ اتنی سخت تنقید لکھنے کے بعد بھی مجھ سے ہی لکھوانا چاہتی ہے۔ بعد میں مجھے ای میل کیا اور لکھا کہ کاش آپ ہماری یونیورسٹی میں پڑھاتے اور آپ کی پولیس کتنی خوش قسمت ہے جو آپ ان کے درمیان موجود ہیں۔ سینئرپولیس افسر مظہرالحق کاکا خیل آسٹریلیا گئے تو وہاں پروفیسرپیٹر گریبوسکی نے کلاس میں ہماری کریمنالوجی کا رسالہ لہراتے ہوئے تعریفی کلمات کہے۔ ڈی آئی جی بنوں عزیزی عمران شاہد کے ہمراہ 2007ء میں ناروے کے پولیس افسران پشاور میرے دفتر آئے، ڈیڑھ دو گھنٹہ بات چیت کے بعد جاتے ہوئے اُن سے کہا کہ یقین نہیں آتا، یہ آدمی آپ کی پولیس میں ہے، اس کو تو ہمارے ملک میں ہونا چاہئے تھا۔ چین میں اعلیٰ ترین افسران ایک تربیتی پروگرام کے لئے گئے جو آج بھی زندہ ہیں۔ واپس آکرایڈیشنل آئی جی صفوت غیور شہید سے کہا کہ ”ظالم کے بچے“ کا نام ہر چینی پولیس افسر کی زبان پر تھا۔ دراصل یہ افسران بھی میری ہی سفارش پر چین گئے تھے‘ ایسے بے شمار واقعات ہیں جن میں سے کئی ایک کا تذکرہ میں اپنے کالموں اور بعض کا اپنے سفرنامے”ذوقِ پرواز“ میں کر چکا ہوں۔ خاکم بدہن، اِس سے مراد خدانخواستہ اپنی تعریف نہ تھی بلکہ پختون قوم کے بارے میں ایک مقدمہ قائم کرنا تھا کہ آخر کیا  وجہ ہے کہ ایک پختون اعلیٰ ڈاکٹر، نامور سائنسدان‘ کامیاب بزنس مین، مقبول فنکار بلکہ کسی بھی فن اور شعبے میں شاندار کارکردگی باہر جا کر ہی دکھا سکتا ہے؟ اس کے برعکس پختونخوا کے طول وعرض میں یہ بانکے سجیلے خوبصورت تنومند نوجوان اور حسین وذہین پختون خواتین گھٹ گھٹ کر دم توڑ دیتے ہیں؟ یہاں ان کی ساری صلاحیتیں سلب ہو جاتی ہیں؟ یہاں ان میں دم خم کیوں نہیں رہتا؟ اپنے ملک میں ان کے پر کیوں جل جاتے ہیں؟ ذہن ماؤف اور دماغ شل؟ کارکردگی صفر؟ اقبال نے کہاتھا  ؎ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیزہے ساقی۔ پتہ نہیں اس سے دہلی، کلکتہ، اترپردیش اور لاہور کی مٹی مراد ہے یا اس میں پختونخوا بھی شامل ہے؟ میرے پاس بھی اس کے چند جوابات ہیں۔ قارئین کرام! آپ کے خیال میں اس شومئی قسمت اور ناکامی کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟ واٹس ایپ نمبر 0313-5954055یا ای میل([email protected])پر لکھ کر بھیج دیں۔ جوابات کسی اگلے مضمون میں۔ رہے نام اللہ کا۔