انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کااسلامی اعلامیہ
عصرحاضر کی جدید قومی ریاستیں انسانی حقوق کے حوالے سے کئی بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ معاہدوں میں بندھی ہیں۔ ان میں سے ایک اعلامیہ اقوام متحدہ کا بھی ہے جسے تمام ممبر ممالک تسلیم کرتے ہیں۔تاہم مسلم ممالک میں چند حوالوں سے ایسے معاہدوں اور اعلامیوں پر خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس لیے مسلم ممالک نے نوے کی دہائی میں ایک اعلامیہ منظور کیا تھا جو بہت اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ ذیل میں اس کی چیدہ چیدہ دفعات کی تلخیص پیش کی جاتی ہے۔ مضمون کے مترجم محبوب احمد غازی ادارہ ’انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی‘ میں بطور ریسرچر اور سینئر منتظم خدمات انجام دیتے ہیں۔
5 اگست 1990 ء کو قاہرہ میں مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کی انیسویں اسلامک کانفرنس میں ایک اعلامیہ منظور کیا گیا جو انسانی حقوق سے متعلق تھا۔ یہ اعلامیہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ اسے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں وضع کیا گیا ہے اور اس کی حمایت تمام مسلم ممالک کے نمائندگان نے کی۔ ویسے تو انسانی حقوق کے مختلف اعلامیے وضع کیے جاچکے ہیں جن میں اقوام متحدہ کا اعلامیہ سرفہرت ہے اور جس پر عمل کرنے کے لیے تمام رکن ممالک پابند ہیں۔ تاہم دیگر اعلامیوں میں بعض شقیں ایسی ہیں جو مغربی تصورِ انسان کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہیں اس لیے مسلم ممالک میں چند امور سے متعلق ایک گونہ پس وپیش بھی موجود ہے۔ اس ضمن ضرورت تھی کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بھی ایک اعلامیہ وضع کیا جائے جسے دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے۔مزید یہ کہ اس اعلامیے کے نکات سے اسلام کے تصورِ انسان و سماج واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے جس سے بالعموم آزادی اور بالخصوص مذہبی آزادی سے متعلق چیزیں بھی سامنے آتی ہیں۔ ذیل میں اس اعلامیہ کی نمایاں شقیں پیش کی جاتی ہیں:
اعلامیہ
تنظیم اسلامی کانفرنس(OIC) کے ممبر ممالک!
امت اسلامیہ کے تاریخی و تہذیبی کردار کی پر زور تائید جسے اللہ تبارک وتعالی نے بہترین امت بنایا ہے اور اس امت نے انسانیت کو عالمی اور متوازن تہذیب سے روشناس کرایا جس تہذیب کی بنیاد دنیاوی اور اخروی زندگی کے مابین یقین اور علم پر مشتمل ہے اور اس امت نے مختلف رسوم ورواج اور نظریات کے مابین الجھے اور پریشان حال لوگوں کی صحیح رہنمائی کی اور اس مادہ پرستانہ تہذیب کے گوناگوں مسائل کا حل پیش کیا۔
انسانی حقوق کو یقینی بنانے کے لئے بنی نوع انسان کی کوششوں میں تعاون کرنے کی دلچسپی اور کسی بھی آدمی کو استحصال اور تکالیف سے محفوظ رکھنا اور شریعت اسلامیہ کے مطابق آدمی کی آزادی و حق اور باعزت زندگی کو یقینی بنانا۔
مادہ پرستانہ علوم و تہذیب کے ترقی یافتہ دور میں پہنچی ہوئی انسانیت اور ضلالت و گمراہی کے اندوہناک وادی میں بھٹکے ہوئے لوگوں کی صحیح رہنمائی اور انہیں ان کے حقوق کے صحیح استعمال کے لیے بیداری کو یقینی بنانا۔
اور اس بات کا یقین کرنا کہ مذہب اسلام میں دنیاوی آزادی اور بنیادی حقوق اس کا جزء لانیفک ہے، اور کسی کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہےکہ اسلام کے بنیادی اصولوں کو مکمل طور پر خارج کردے یا اس کی خلاف ورزی کرے یا احکام ربانی کے ان پختہ اصولوں کو نظر انداز کردے جن کا انکشاف خدا کی آخری کتاب میں کیا گیا ہے، اور خدا نے آخری نبی حضرت محمدﷺ کے ذریعہ اپنے آخری اور مکمل پیغام کو بھیجا تاکہ انسانیت عبادات کی بجا آوری کے لئے اپنے آپ کو تیار کرے، ان احکامات اور طریقوں کے خلاف کرنا بہت بڑا گناہ ہے، امت کا ہر ہر فرد اور مجموعی امت ان احکامات پر عمل درآمد کرکے اپنی نجات کو یقینی بنائے۔
شق: ۱
الف – پوری انسانیت ایک خاندان کی مانند ہے جس کے ارکان خدا کی اطاعت اور آدم کی اولاد ہونے کی بنیاد پر ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں، معاشرہ کا ہر شخص بنیادی انسانی اعزاز، فرائض اور ذمہ داری کے اعتبار سے بغیر کسی رنگ و نسل، زبان وجنسیت، مذہبی عقائد، سیاسی الحاق، سماجی مرتبہ اور دیگر نظریات کی بنیاد پر بغیر کسی امتیازو تفریق کے برابر ہیں، اسلام انسانیت کو عزت و شرف کے درجہ کمال پر پہنچانے کی ضمانت لیتا ہے۔
ب- تمام انسانیت خدا کی رعایا ہے، خدا کے نزدیک اس کے بندوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو انسانیت کو فائدہ پہنچائے، اور کسی بھی انسان کو صرف تقوی اور اعمال حسنہ کی بنیاد پر فوقیت حاصل ہوگی۔
شق:۲
الف- زندگی خدا کا عطیہ ہے اور تمام انسانیت کو زندگی کے حقوق کی ضمانت حاصل ہے، ہر فرد واحدو معاشرہ اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان کے حقوق کی پامالی سے حفاظت کرے، بغیر کسی شرعی جواز کے کسی کی جان لینا سخت ممنوع ہے۔
ب- انسانیت کو کچلنے اور نسل کشی کے لئے کسی بھی طرح کے وسائل کو اختیار کرنا قطعاً ممنوع ہے۔
ج- خدائی منشا کے مطابق حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے انسانی زندگی کا تحفظ شریعت کے تناظر میں ہر شخص کی ذمہ داری ہے۔
د- جسمانی اذیت سے تحفظ ایک یقینی حق ہے، یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اس تحفظ کو یقینی بنائے، اور بغیر کسی شرعی دلیل کے ان قوانین کی عہد شکنی کرنا سخت ممنوع ہے۔
شق:۳
الف- جنگ اور طاقت کے استعمال کے وقت کسی بھی بوڑھے شخص ، عورت، بچے اور ان لوگوں کو جو جنگ میں حصہ نہ لیں انہیں قتل کرنا سخت جرم ہے۔ مجروحین اور بیمار اشخاص کو طبی سہولیات حاصل ہوں گی، جنگی قیدیوں کو کھانا، کپڑا اور رہنے کی جگہ بھی مہیا کرائی جائے گی،مردہ شخص کے جسم کا مثلہ کرنا سخت ممنوع ہے، جنگی قیدیوں کا تبادلہ اور جنگ کی وجہ سے بکھرے ہوئے خاندانوں کے لئے ملاقات کا موقع فراہم کرنا ایک اہم ذمہ داری ہے۔
ب- درختوں کو کاٹنا، کھیتیوں اور مویشیوں کو نقصان پہنچانا، دشمن کے علاقے میں شہری بلڈنگ و عمارت کو بم یا دیگر آلات کے ذریعہ تباہ و برباد کرنا سخت ممنوع ہے۔
شق:۴
تمام انسانوں کو زندگی میں اور موت کے بعد ان کے ناموں کا احترام اور ان کی عزت کے تحفظ کا حق حاصل ہے، معاشرہ اور ریاست ان کی لاش اور جائے تدفین کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔
شق: ۵
الف- خاندان معاشرہ کی بنیاد ہے اور شادی خاندان کو تشکیل دینے کا ایک عملی نمونہ ہے۔ ہر مردو عورت کو شادی کرنے کا حق حاصل ہےاور انہیں رنگ و نسل و قومیت کی بنیاد پر ان حقوق سے متمتع ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ب- معاشرہ اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ شادی میں آنے والی تمام رکاوٹ کو دور کرکے شادی کی کاروائی کو آسان بنائے اور خاندان کے تحفظ و بقا و خوشحالی کو یقینی بنائے۔
شق:۶
الف- انسانی عت و شرف میں عورت مرد کے برابرہے اور اسے زندگی سے لطف اندوز ہونے اور اپنی ذمہ داری کو بروئے کار لانے کا حق حاصل ہے، وہ اپنی شہری انفرادیت اور معاشی خود مختاری اور اپنے نام و نسب کا مکمل حق رکھتی ہے۔
ب- شوہر فیملی کی خوشحالی اور کفالت کا ذمہ دار ہے۔
شق: ۷
الف- پیدائش کے وقت ہی سے ہر بچہ کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ والدین، معاشرہاور ریاست بچے کی مناسب دیکھ بھال ، تعلیم، آسائش و آرام ، حفظان صحت اور اخلاقیات پر مکمل توجہ دیں۔ جنین اور ماں کو خاص تحفظ و توجہ کا حق حاصل ہوگا۔
ب – والدین یا ولی کو اپنی پسند کے مطابق بچے کے تعلیمی کورس کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔ اس انتخاب میں والدین کو بچے کا شوق ، مستقبل، اخلاقی اقدار اور شریعت کے اصولوں کو ملحوظ رکھنا ہو گا۔
شق:۸
الف- ہر انسان کو اس کے فرائض اور ذمہ داری کے تئیں جو قانونی حق دیا گیا ہے اسے اختیار کرنے کا پورا پورا قانونی صلاحیت کے مطابق لطف اندوز ہونے کا حق حاصل ہے اور اگر اس کی یہ صلاحیت ختم ہو جائے یا کمزور ہو جائے تو والدین کو اس کی نمائندگی کا حق حاصل ہوگا۔
شق:۱۰
الف- طلب علم فرض ایک اہم ذمہ داری ہے، اور معاشرہ و ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیمی حصول کے زرائع کو مہیا کرائیں ، ریاست مطلوبہ تعلیمی طریقہ و وسائل کو مہیا کرانے کی یقین دہانی کرے اور معاشرہ کے رجحان کے مطابق تعلیمی تنوع کی ضمانت دے، اور انسانیت کی فلاح و بہبود کی خاطر لوگوں کو اس لائق بنائے کہ وہ مذہب اسلام اور حقیقت کی دنیا سے روشناس ہو سکیں۔
ب – تمام انسانوں کو مختلف اداروں سے دنیاوی اور دینی تعلیم کے حصول کا حق حاصل ہے؛ تاکہ وہ اس کے حصول کے بعد مناسب انداز میں اپنی شخصیت کو پروان چڑھا سکیں اور اس طرح وہ خدا پر اپنے یقین کو مضبوط کرکے اپنے ہر طرح کے حقوق و فرائض و ذمہ داری کا دفاع کرسکتے ہیں۔
شق:۱۱
یقیناً اسلام ایک صحیح دین فطرت ہے، کسی بھی آدمی کی مجبوری کا فائدہ اٹھانا، غربت کی بنیاد پر اس کا استحصال کرنا اور اگر کوئی اسے دوسرا مذہب قبول کرنے یا الحاد پر مجبور کرے تو اسے نظر انداز کرنا سخت ممنوع ہے۔
شق:۱۲
ب- کسی بھی طرح کا استعمار جو کہ غلامی کی مذموم شکل ہے سخت ممنوع ہے،استعماریہ سے پریشان حال لوگوںکو اپنی آزادی اور قضیہ میں خودمختاری کا مکمل حق حاصل ہے، یہ تمام لوگوںاور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ استعماریت سے جوجھ رہے لوگوں کی کوششوں میں مکمل تعاون کرے اور ہر طرح کے استعمار کا خاتمہ کرے اور ہر ریاست و فرد کو اپنی شناخت ، دولت اور قدرتی وسائل کو تصرف میں لانے کا مکمل حق حاصل ہے۔
شق:۱۳
ہر آدمی کو شرعی دائرہ کے مطابق کسی بھی جگہ آنے جانے، یا پھر ملک یا بیرون ملک اپنی رہائش کی جگہ کا انتخاب کرنے کا مکمل اختیارو حق حاصل ہے، اور اگر کسی شخص کو کسی بنیاد پر بے جا آزار پہنچایا جا رہا ہو تو اسے نقل مکانی کا حق حاصل ہے، جس ملک میں مہاجرین پناہ لیں گے اس ملک کی حکومت مہاجروں کے جان و مال کے تحفظ کی ضامن ہو گی تاآنکہ مہاجرین اپنے وطن پہنچ جائیں۔
شق:۱۴
ہر باصلاحیت و بے عیب شخص کام کا رکھتا ہے جس کی ذمہ داری معاشرہ و ریات کے سر جاتی ہے، ہر شخص کو اپنی پسند و خواہش کے مطابق کام کے اختیار کا حق حاصل ہے، ملازم کو ہر طرح کے تحفظ و امان اور سماجی ضمانت حاصل ہے، ملازم کو اس کی صلاحیت کے بقدر ہی کام دیا جائے گا، اس کا استحصال نہیں کیا جائے گا، اور نہ ہی اسے کسی ایسے کام پر مجبور کیا جائے گا جوکہ اس کے بس میں نہ ہو، ملازم کو بغیر کسی مر و عورت کی تفریق کے وقت متعینہ پر انہیں ان کے کام کی اجرت دی جائے گی ، اسی طرح انہیں رعایتی رقم، چھٹیاں اور اپنے کام کے مطابق ترقی بھی حاصل ہو گی ، ساتھ ساتھ اس کا بھی مطالبہ ہو گا کہ وہ اپنا کام یکسوئی اور انہماک اور نہایت محتاط طریقہ سے کریں، اگر ملازمین یامزدور کسی بات پر ناراض ہو جائیں تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اس جھگڑے کو اپنی مداخلت سے حل کرے، شکوہ و شکایت کو ختم کرکے حق بات کو واضح کرے اور بغیر کسی تعصب کے انصاف نافذ کرے۔
شق:۱۵
ہر فرد کو بغیر کسی تسلط ، فریب کاری اور بغیر کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچائے جائز و درست دولت و ثروت کمانے کا حق حاصل ہے، اور ربا ہر حالت میں ممنوع ہے۔
شق:۱۶
ہر شخص کو قانونی اور جائز طریقہ سے خود کو یہ کسی دوسرے شخص کو یا معاشرہ کو نقصان پہنچائے بغیر اپنی ذاتی ملکیت حاصل کرنے کا حق حاصل ہےاور اس ذاتی ملکیت پر اسے مکمل استحقاق حاصل ہے،ریاست کو عوامی فوائد کے علاوہ اور بروقت مناسب عوض کی ادائیگی کے علاوہ کسی شخص کی املاک کو زبردستی لینے کی قطعی اجاز ت نہیں ہے، قانون کے متعین کردہ دفعات کے علاوہ کسی کے املاک کو ضبط کرنا سخت ممنوع ہے۔
شق:۱۷
ہر شخص کو اپنے علم و ادب و فن کاری اورمیکانیاتی علوم کے فروغ سے لطف اندوز ہو نے کا حق حاصل ہے اور انہیں اپنی صلاحیتوں کے مطابق بروئے کار لانے اور وسائل کے استعمال کا حق حاصل ہے اور انہیں اس طرح کے وسائل مہیا کرانا شرعی اصول کے متضاد بھی نہیں ہے۔
شق:۱۸
الف- ہر شخص کو ایک صاف ستھری اور پاکیزہ فضاجوکہبرائی اور اخلاقی گراوٹ سے اک ہو اور اس میں سانس لینے و زندگی گزارے کا حق حاصل ہے، ایسی فضا جواس کی ذاتی ترقی کو پروان چڑھائے اور اس طرحکے حقوق کو مہیا کرانا معاشرہ اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔
ب- ہر شخص کو طبی و سماجی توجہ کا حق حاصل ہے ، معاشرہ اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو ان کی خصوصیات کے مطابق اپنے موجودہ مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں یہ سہولیات مہیا کرائے۔
ج- ریاست ہر شخص کی ذاتی زندگی کے حق کو یقینی بنائے اور وہ لوگ جو اپھی کفالت خود نہ کرسکتے ہوں ان کے لئے کپڑا، مکان، کھانا، تعلیم، طبی سہولیات او ر دیگر بنیادی ضرورتوں کے حصول کے طریقوں کو ممکن بنائے۔
شق:۱۹
الف- ہر شخص کو اس کے مذہب ، اس کی خودمختاری، عزت و شرف اور جائیداد کا بذات خود تحفظ کا حق حاصل ہے۔
ب- ہرشخص کو اپنے تعلقات و جائیداد کے بارے میں اپنے گھرمیں، اپنی فیملی کے بیچ،اپنے ذاتی معاملات کو بیرونی مداخلت کے بغیر حل کرنے کا مکمل حق حاصل ہے،اس کے خلاف تانک جھانک کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہےاور نہ ہی اسے کڑی نگرانی میں رکھنے یا اس کے نام پر بٹہ لگانے کی کسی کو اجازت ہے، ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ دوسرے اشخاص کو اس کے ذاتی معاملات میں بغیر کسی واقفیت کے دخل اندازی سے روکے۔
ج- ہر شخص کا ذاتی گھر ہر حالت میں قابل احترام ہے، گھر کے مکین کی اجازت کے بغیر کسی بھی غیر قانونی طریقہ سے کسی کو گھر میں گھسنے کی اجازت نہیں ہوگی اور نہ ہی اس گھر کو منہدم کیا جائے گا، نہ ہی قرقی کی جائے گی اور نہ ہی مکین کو بے دخل کیا جائے گا۔
شق:۲۰
الف- حاکم و محکوم میں تفریق کے بغیر ہر فرد قانون کی نظر میں برابر ہے۔
ب- ہر شخص کو انصاف کے لئے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔
ج-ہر شخص اپنی ذمہ داری کے تئیں جوابدہ ہے۔
د- شریعت کی بیان کردہ تفصیلات کے علاوہ کوئی بھی چیز جرم یا سزا نہیں سمجھی جائے گی۔
ج- جب تک کسی شخص کا جرم منصفانہ عدالتی کاروائی سے ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک اسےمحصوم سمجھا جائے گا اور اسے ہر طرح کے دفاع کا حق حاصل ہوگا۔
شق:۲۱
بغیر کسی قانونی وجوہات کے کسی شخص کو قید کرنے یا اس کی آزادی کو سلب کرنے یا اسے جلاوطن کرنے اور سزا دینے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے، اور نہ ہی اس پر جسمانی، نفسیاتی تشدد اورتذلیل روا رکھنے کی اجازت ہے۔ اس کی جان اور صحت کو خطرے میں ڈال کر بغیر اس کی اجازت کے اس پر طبی اور سائنٹفک تجربات کنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔
شق:۲۲
کسی بھی مقصد اور ارادہ کی خاطر کسی شخص کو یرغمال بنانا سخت ممنوع ہے۔
شق:۲۳
الف- ہر شخص کو شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے آزادانہ طور پر اپنی رائے اور سوچ کے اظہار کا حق حاصل ہے۔
ب- بلاشبہ خبریں معاشرہ کے لیے انتہائی اہم ہیں مگر ان کا غلط استعمال کسی کے تقدس کو پامال کرنے کے لیے یا نبیوں کی بے حرمتی کرنے کے لئے کرنا ایک واضح خلاف ورزی ہے ، ان کا غلط استعمال اخلاقی اقدار کی بنیادوں کوکھوکھلا اور معاشرہ کو نقصان اور اجزاء میں تقسیم کردیتا ہے۔
ج- کسی بھی شخص کو قومیت یا عقائد کی بنیاد پر نفرت پھیلانے یا پھر کسی بھی طرح کے نسلی اختلافات کو بھڑکانے اور شہہ دینے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔
شق:۲۴
ہر شخص کو بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنے ملک کے عوامی معاملات میں نظم و ترتیب میں حصہ لینے کا حق حال ہے، اور عوامی انتظامی کاروائی کو شریعت کے مطابق یقینی بنانے میں اسے مکمل اختیار حاصل ہے۔