مسلم مذہبی فکر میں جمہوریت کے حوالے سے شکوک وشبہات

0

سیاسی مباحث کے حوالے سے مسلم مذہبی فکر ہمیشہ عریق رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عصرحاضر میں اس تناظر میں ساری مباحث صرف مغربی ماڈل کو سامنے رکھ کر ہی کی گئی ہیں، بلکہ مسلمان مفکرین وعلماء نے اپنے تہذیبی پس منظر کے ساتھ بھی آراء پیش کیں جو اسلام کے سیاسی نظم کو بالکل مختلف پیش کرتی ہیں۔ لیکن ان تمام مباحث میں کچھ اختلافات ہیں جو کہیں نہ کہیں دینی نوعیت کے ہی کہلاتے ہیں۔ اس لیے جمہوریت کی راہ ہموار کرنے کے لیے اس کے حامی علمی حلقے بھی مذہب سے دلائل لاتے ہیں۔ ان مباحث کے سبب مسلم سماج میں کچھ شکوک پیدا ہوئے۔ وہ کیا ہیں اور ان کا فکری منہج کیا ہے؟ اس مضمون میں اسی پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ مضمون نگار  ڈاکٹر عمار خان ناصر الشریعہ اکیڈمی کے سربراہ مدیر اعلی ماہنامہ الشریعہ اور پاکستان کے اندر علمی وفکری مباحث کی ایک توانا آواز ہیں۔انہوں نے یہ مضمون اس خصوصی اشاعت کیلئے تحریر کیا ہے۔

جمہوریت کی بحث کا تاریخی تناظر

مسلم مذہبی فکر میں جمہوریت کے حوالے سے کیا شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں اور ان کے اسباب کیا ہیں، اسی طرح یہ سوال کہ مذہبی سیاسی فکر اور جمہوریت کے مابین کس قسم کی مماثلتیں یا اختلافات پائے جاتے ہیں،یہ ساری بحث کافی پرانی ہے اور اس پر طویل عرصے سے اہل علم کلام کرتے آرہے ہیں۔ برصغیر میں جن نمایاں مفکرین نے ان موضوعات پر گفتگو کی ہے، ان میں ایک نام علامہ محمد اقبال کا ہے۔ انہوں نے 1930ء سے 1938ء کے درمیانی عرصے میں جو خطبات دیے،وہ ان تمام اہم پہلوؤں اور  امور پر روشنی ڈالتے ہیں جو عصرحاضر کی مسلم سیاسی فکر کا محور ہیں اور زندہ مسائل شمار کیے جاتے ہیں۔ ان خطبات میں سے وہ جن کا تعلق مذہبی فکر کی تشکیلِ جدید سے ہے، انہیں الگ سے کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے جس کا نام Reconstruction of Religious Thought in Islam ہے۔ علامہ اقبال کے بعد سے اب تک تسلسل کے ساتھ ان موضوعات پر اہل علم گفتگو کر رہے ہیں جس کے مختلف پڑاؤ ہیں۔

اسلام اور جمہوریت کے مابین تعلق کے بارے میں یہ سوال تقریبا ایک صدی پرانا ہے۔ یہ بیسویں صدی میں سامنے آیا اور پھر اہل علم کی طرف سے اس کے مختلف جوابات سامنے آتے رہے۔ اس سے قبل اُنیسویں صدی میں انفرادی طور پرشاید کچھ مفکرین اس بارے میں بات کرتے رہے ہوں لیکن مجموعی طور پہ بحیثیت سماجی ضرورت کے یہ سوال بیسویں صدی کے دوران سامنے آیا اور اس پر بہت زیادہ کلام کیا گیا۔ بیسویں صدی سے قبل مسلم معاشروں میں یہ سوال زیربحث کیوں نہیں لایا گیا؟ اس کی وجہ واضح ہے کہ جدید قومی ریاستوں کے تصور سے پہلے سیاسی نظام کا جو سانچہ دنیا میں مروج وغالب رہا، وہ سلطنت اور ایمپائر کا سانچہ ہے۔ تمام معاشرے اسی تصور کے تحت اپنا ریاستی نظم تشکیل دیتے رہے ہیں۔ لہذا مسلم معاشروں میں بھی اس سے ہٹ کر کسی نظم کی ایجادیا ضرورت پر گفتگو کی حاجت پیش نہیں آئی۔

جمہوری نظام مغرب میں وجود پذیر ہوا جس کے اپنے تاریخی عوامل ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جمہوریت کا پھیلاؤیا غلبہ ساری دنیا میں فطری غوروفکر کے تحت سامنے آیا اور پھر اسے قبول کیا گیا، بلکہ اس کی تشکیل مغرب میں مخصوص تاریخی اسباب کے تحت ہوئی۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ دیگر معاشروں میں اس کا تعارف ہوا اور اس سے متأثرہوکر کسی نہ کسی شکل میں اپنانے کی کوششیں ہوئیں۔

اُنیسویں صدی کے دوران برصغیر میں جمہوریت کے بارے میں گفتگو  ‘نمائندگی’ کے تصور تک محدود رہی۔ مثال کے طور پرسرسید احمد خان نے انگریزوں کے ساتھ جو مکالمہ کیا، اس میں انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو بھی نمائندگی کے نظام میں جگہ دی جائے اور ان کے ساتھ باہمی بداعتمادی کو ختم کیا جائے۔ انگریزوں نے برصغیر میں جمہوریت کو اس طرح متعارف نہیں کرایا تھا جس طرح ان کے اپنے ملک برطانیہ میں رائج تھی۔ صرف مقامی اقوام کی نمائندگی کی حد تک انہوں نے جمہوریت کو متعارف کرایا جس میں مقامی زعماء کو حقیقی سیاسی طاقت یا اختیار حاصل نہیں تھا۔ اُنیسویں صدی میں برصغیر کے اندر جمہوریت پر گفتگو کا محور بعض جزوی مظاہر رہے۔ اس مرحلے میں جمہوریت پورے سسٹم کے طور پر نہ متعارف ہوئی نہ اس پر کلام ہوا۔ یہ ابتدائی مباحث تھے جن کا دائرہ وقت کے ساتھ وسیع ہوتا گیا اور  اسی سے یہ سیاسی مقدمہ  قائم ہوا  کہ جمہوریت میں اگر حق خود ارادیت کا احترام ہے تو برصغیر کے لوگ ایک مستقل قوم ہیں، انہیں بھی یہ حق ملنا چاہیے اور وہ انگریزوں کے اقتدار کاخاتمہ چاہتے ہیں۔اس جدوجہد کے نتیجے میں 1947ء میں برصغیر سے انگریزوں کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور یہاں دو خود مختار ریاستیں ، ہندوستان اور پاکستان وجود میں آئیں۔

پاکستان میں جمہوریت کے تصورات اور مذہبی استدلالات کا منہج

پاکستان بننے کے بعد سیاسی نظم کے حوالے سے ایک نئی بحث سامنے آئی۔ جمہوریت کا تصور آزادی سے قبل کارآمد تھا اور اس کے اچھے نتائج سامنے آئے۔ اب جبکہ ایک اسلامی ریاست معرض وجود میں آچکی ہے تو جمہوریت کے بارے میں کیا موقف اپنانا چاہیے؟جمہوریت کا تاریخی وسماجی پس منظر الگ ہے، اور مسلم سیاسی فکر کا تاریخی پس منظر اور  اس کی اقدار بالکل مختلف ہیں۔ ہمارا فقہی وتاریخی ذخیرہ ایک مختلف نظام کا عکاس رہا ہے جو سلطنت کی صورت میں قائم تھا۔ رعایا اور شہریت کے تصورات بھی جمہوریت سے  مختلف ہیں۔توایک ایسی ریاست جو جس کی تشکیل میں مذہبی شناخت کا عامل بہت بنیادی ہے، اس کے سیاسی ڈھانچے میں جمہوریت کی کیا حیثیت متعین کی جائےاور ان کے باہمی تعلق کو کیسے سمجھا جائے گا؟یعنی اگر پاکستان ایک اسلامی ریاست بھی ہے اور جمہوری بھی ہے تو ان کے باہمی تعلق کی نوعیت کیا ہوگی اور سیاسی نظام کی صورت گری کیسے کی جائے گی؟

اس و قت کے ممتاز مذہبی  اہل علم اور قائدین کی بڑی اکثریت نے  جمہوری طرز حکومت  کو  اسلام سے ہم آہنگ تصور کرتے ہوئے  نئی مملکت کو  اسلامی جمہوریہ بنانے کی تائید کی، تاہم اس موقف پر مذہبی فکر کو کامل اطمینان نہیں تھا۔جمہوری نظم کے بارے میں جو مذہبی افکار سامنے آئے، ان میں ایک نمایاں فکر یہ تھی کہ جمہوریت اسلام کے منافی نظام ہے، جمہوریت کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، اور جمہوری سیاسی اقدار اسلام کے بالکل منافی ہیں۔ یوں جمہوریت کو کفریہ نظام بھی کہا جاتا ہے۔  اس کے ساتھ دوسرا بیانیہ بھی موجود ہے جو پہلے کی تائید کرتا ہے کہ واقعی جمہوری اقدار کی تاریخی طور پر اسلام سے حمایت حاصل نہیں کی جاسکتی، بلکہ اس کی بعض اقدار سرے سے اسلامی اقدار کے متضاد کھڑی نظر آتی ہیں۔ لہذا مسلم معاشروں میں جمہوری نظام کے تحت اسلام کے نفاذ کے لیے سازگار ماحول پیدا ہونے کی توقع بے سود ہے۔اس نقطہ نظر کے حاملین میں کئی نامور علماء شامل رہے، اگرچہ وہ اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے داعی نہیں تھے، نہ حامی تھے۔ البتہ قریبی زمانے میں اس فکر کی بنیاد پر مسلح جدوجہد اور تحریکیں منظم ہوئی ہیں جس کی ایک مثال تحریک طالبان پاکستان ہے۔ جمہوریت کے خلاف نظری مباحث نئے نہیں ہیں اور نہ ان مسلح تحریکوں کے ایجاد کردہ ہیں۔ یہ مباحث قیام پاکستان کے بعد سے چلے آ رہے ہیں، البتہ ان کی بنیاد پر مسلح جدوجہد ایک نیا مظہر ہے۔

جمہوریت کے بارے میں جو متضاد نقطہ ہائے نظر ہیں، وہ دونوں مذہبی استدلالات پر استوار ہیں۔ جو حضرات اس جدید سیاسی نظم کو اسلام کے مخالف گردانتے ہیں، وہ نصوص کی مخصوص تشریحات کا سہارا لیتے ہیں اورصدرِ اول کے مسلم سیاسی ڈھانچے کو پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح جن کی رائے اس کے برخلاف ہے، وہ بھی نصوص کی ایک مختلف تفہیم پیش کرتے ہیں اور صدرِ اول کی اسلامی تاریخ کی بعض الگ تعبیرات کو سامنے لاتے ہیں اور اس کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ جمہوری اقدار اسلام اور مسلم تاریخی تعامل کے منافی نہیں ہیں۔ ثانی الذکر گروہ سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ مسلم تاریخی تعامل میں تو جمہوری نظم کی روایت موجود نہیں ہے بلکہ اس میں تو سلطنت کا تصور ہے تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ مسلم معاشرے میں ایک تاریخی انحراف رونما ہو گیا تھا، ورنہ اصل میں اسلام کا سیاسی نظم اور صدرِاول کا تاریخی تعامل ان اقدار کی تائید کرتا ہے جو جدید سیاسی نظم پیش کرتا ہے۔ اس زاویہ نظر کو کئی علماء نے پیش کیا جن میں سے ایک نام مولانا ابوالاعلی مودودی کا بھی ہے، جنہوں نے اپنی کتاب ‘خلافت وملوکیت’ میں یہ دکھانے کی کوشش کی کہ بعد کی ملوکیت اور نظام سلطنت اسلام کے حقیقی سیاسی تصور سے انحراف تھا جو طویل عرصے تک غالب رہا۔ اسی طرح کے خیالات علامہ محمد اقبال  کے ہاں بھی دکھائی دیتے ہیں۔

جو اہل علم جمہوریت کے حق میں مذہبی استدلال لاتے ہیں، ان کی یہ کوشش علمی طور پر کئی سوالات پیدا  کرتی ہے اور میری طالبعلمانہ رائے میں یہ زیادہ مفید نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت کو جواز دینے کے لیے مذہبی استدلال میں ایک قسم کا معذرت خواہانہ انداز پایا جاتا ہے۔ لہذا جو لوگ پہلےسے جمہوریت کے حق میں ہیں، وہ تو اس علمی منہج سے متأثر ہوتے ہیں، لیکن جو اس کے مخالف رائے رکھتے ہیں ان کے لیےیہ منہج مؤثر ثابت نہیں ہوتا، جس کی بنیادی وجہ نصوص اور  تاریخی تعامل کی تشریحات وتعبیرات میں پایا جانے والا تکلف ہے۔

جمہوریت کے حوالے سے زیادہ موزوں طریقہ مذہبی نصوص کی تشریحات پر زور دینے کی بجائے یہ ہے کہ تاریخی عمل اور اس کے تقاضوں کو سمجھا جائے اور اس پر کلام کیا جائے، یعنی زمان ومکان کے اعتبارات کو مدنظر رکھنے کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اسلامی فقہ میں عُرف کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے اور اس ذخیرے کے خاطر خواہ مسائل میں عُرف کے اصول کو برتا گیا ہے۔ لیکن عرف فقہ میں بطور ایک ایسے مستقل اُصول کے متشکل نہیں ہوسکا کہ اس کی بنیاد پر زمان ومکان کے تاریخی تقاضوں اور بدلتے تناظرات کی تفہیم کی جا سکے۔ معاصر صورتحال میں یہ ضروری ہے کہ عُرف کے قاعدے کو جس طرح جزوی مسائل کے سمجھنے کے لیے برتا گیا ہے، اسی طرح اہل علم اس طرف توجہ کریں کہ عُرف تاریخی معاملات اور زمانے کے بدلتے ہوئےتناظراتاور ضرورتوں کو سمجھنے میں کس طرح مدد دیتا ہے اور نتیجتا تغیرپذیر مظاہر کی حیثیت کیا بنتی ہے۔

اگر جمہوریت کے مخالف گروہ کے علمی منہج کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اس نے دراصل خود کو تاریخ کے ایک مخصوص مرحلے میں بند کرلیا ہے اور وہ زمان ومکان کے تاریخی مظاہر وتقاضوں کو توجہ نہیں دے رہا۔ اس کے خیال میں جو بھی سیاسی نسق اس مخصوص تاریخی سانچے سے باہر بنے گا، وہ غیراسلامی ہوگا اور جو اس کے مطابق ہوگا، وہ اسلامی کہلائے گا۔ ایسے شخص کو مذہبی استدلال سے قائل نہیں کیا جاسکتا۔ اسے صرف تاریخی تعامل کی تفہیم سے سمجھا جاسکتا ہے۔ دراصل استدلال کا یہی خلا ہے جو جمہوریت کے متعلق تردد اور دو ذہنی  کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔اس خلا کو عُرف کی جدید تفہیم کے ذریعے پر کیا جاسکتا ہے۔ جب تک دو گروہوں کے درمیان کچھ common grounds موجود نہیں ہوں گے مکالمہ ممکن نہیں ہوگا اور بات چیت آگے نہیں بڑھے گی۔تاریخی عمل اور اس سے پیدا ہونے والے مظاہر کو عرف کے اصول کے تحت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ان کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرکے چلنا ہوتا ہے۔اگر ہم اس بات پر اتفاق کرلیں کہ سیاسی نظم کا ڈھانچہ تاریخی عملاور تاریخی ضروریات کے زیر اثر بدلتا رہتا ہے اور اسی کے تحت وقت کے ساتھ سیاسی نظام کی مختلف شکلیں سامنے آتی ہیں تو مکالمہ آسان ہوجاتا ہے۔

جمہوریت کے بارے میں مذہبی استدلال کے بھی مختلف منہج ہیں۔ کسی چیز کے مجاز یا غیرمجاز ہونے کو ثابت کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ نصوص کے واضح متون سے اس کے غلط یا صحیح ہونے کا حکم لگایا جائے کہ قرآن وحدیث میں اس امر کی ممانعت ہے یا اسے درست قرار دیا گیا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس چیز کے غلط ہونے کے بارے میں کوئی نص موجود نہیں ہے یا قرآن حدیث کے کسی حکم سے اس کا ٹکراؤ نہیں ہوتا تو وہ چیز جائز ہے۔ سیاسی نظم کے مجموعی سانچے کے مجاز ہونے کے لیےیہ کافی ہوسکتا ہے کہ وہ کسی نص سے نہیں ٹکراتا۔ البتہ جزئیات میں کلام ممکن ہوتا ہے اور ان کا ہو بہو قطعی اطلاق ضروری نہیں ہوتا۔

اسلامی شریعت میں سیاسی نظم کے ڈھانچے کا تعین نہیں ہے، البتہ جزئیات میں اور بعض اقدار کے حوالے سے بحث کا میدان کھلا ہے اور اس پر مکالمہ کیا جاسکتا ہے۔ اسلام میں سیاست کے مقاصد متعین ہیں، ان پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کسی بھی سیاسی نظام میں ان مقاصد کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو انہیں درست کرنا ضروری ہے اور اس کی گنجائش بہرحال موجود رہتی ہے۔ اسلام نظام کا متعین سانچہ عطا نہیں کرتا بلکہ اہداف ومقاصد متعین کرتا ہے۔ مسلم ریاست میں طاقت کی تنظیم ان خطوط پر استوار ہونی چاہیے جنہیں شریعت نے مقرر کیا ہے، لیکن اس کے لیے کسی ایک ڈھانچے میں محصور نہیں ہوا جاسکتا نہ اسلام میں اس کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ نظام کا تعلق تمدن اور حالات کے ساتھ ہوتا ہے۔

تاریخی تعامل اور عُرف کی بحث میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس قاعدے کو ایک مستقل اُصول کے طور پر پیش کیا جائے اور اس کے تحت تاریخی تغیرات کے ناگزیر ہونے کو تسلیم کیا جائے تو پھر اس کو سیاسی نظم کی سطح تک محدود کیسے کریں گے، کیونکہ تغیرات تو معاشرت ومعیشت کے دائروں میں بھی وقوع پذیر ہو رہے ہیں؟ اس شبہ کا یہ جواب ہوسکتا ہے کہ جب تک کوئی تبدیلی نصوص کے واضح احکام سے متصادم نہ ہو اور اس میں اہل علم کو اجتہاد کی اجازت ہو، ایسے معاملات میں توسع اختیار کیا جاسکتا ہے، لیکن اگر کوئی تبدیلی نص کے واضح حکم سے متصادم ہو تو اسے قبول نہ کیا جائے۔ اسی طرح ایسی نصوص جن میں یہ وسعت موجود ہے کہ ان کی ایک سے زیادہ تشریحات وتعبیرات کی جاسکتی ہوں تو انہیں بھی اجتہاد کے دائرے میں لایا جاسکتا ہے۔برصغیر میں علماء نے سیاست، معاشرت ومعیشت کے امور میں بہت سے تغیرات کو عملاقبول کیا ہے اور اجتہاد کی اساس پر انہیں شریعت سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کی ہے۔