مشرق وسطی کی خانہ جنگیاں: کیا مذہب ہی واحد وجہ ہے؟

0

پچھلی چند دہائیوں سے مشرق وسطی فرقہ وارانہ تنازعات کی زد میں ہے اور اس پر سیاسی و فکری حلقوں میں بات ہوتی رہتی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عرب بہار کے بعد سے کئی علاقوں میں خانہ جنگی کا باعث  بھی فرقہ واریت ہی ہے کہ شیعہ سنی فریقوں نے انہی بنیادوں پر ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولے۔ جبکہ بعض ماہرین کی رائے میں اس خانہ جنگی کی اساس اصل میں شناخت کی سیاست اور قومی حکومتوں کے مفادات ہیں جس میں مسلکی اختلافات کو ابھارا اور استعمال کیا جاتا ہے۔مضمون نگار ابراہیم قالن تُرک صدر رجب طیب ایردوان کے مشیر اور ترجمان ہیں۔ ان کا یہ مضمون ترکی میڈیا ’ٹی آر ٹی‘ پہ شائع ہوا۔

شام اور عراق سے لے کر بحرین اور لبنان تک سنّی اور شیعہ مسلمان معاشرے جنگ، معاشرتی تناو، غربت، معاشی عدم مساوات، ظلم ،بالواسطہ جنگوں، عسکریت پسندی اور اس سے مشابہہ چیزوں کے سمیت متعدد مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ ہر مسئلے کے نسلی اور مذہبی فرقے سے متعلق بعض مسائل موجود ہیں۔ اس مسئلے کی تہہ میں شناخت کی سیاست کارفرما ہے جو عام سماجی معاشی(Socio-Economic) اور سیاسی مسائل کو انتہا پسندی کے حامل شناختی دعووں میں تبدیل کر رہی ہے۔ لبنان کی شیعہ سنّی کشیدگی فرقہ واریت کی نہایت پیچیدہ صورت کی حامل ہے۔ شام کی جنگ کا اسلام کے سنّی یا شیعہ فرقے کے ساتھ تعلق بہت کم ہے۔ اس کے برعکس اس جنگ کا تعلق، جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنے والوں کی نسلی یا فرقہ وارانہ شناخت کے بجائے، اس بات سے ہے کہ عرب ممالک کے مستقبل کو شکل کون دے گا۔

یورپ میں 16 ویں اور 17 ویں صدی میں کیتھولک اور پروٹسٹینٹ مسیحی مسالک کے درمیان دینی جنگوں کا طاقت اور حاکمیت سے بھی اتنا ہی تعلق تھا جتنا کہ شناخت کے ساتھ ۔اسی طرح عالم اسلام میں اس وقت موجود فرقہ وارانہ کشیدگیوں کے، اسلام میں سنّی اور شیعہ فرقوں کا سبب بننے والے تاریخی واقعات کے علاوہ، متعدد اسباب موجود ہیں۔ پیغمبر اسلام ﷺکا پہلا خلیفہ ہونا کس کا حق تھا؟ اس سوال کا جواب عام طور پر اسلامی تاریخ میں سنّی شیعہ اختلافات کی ابتدا کے طور دکھائی دیتا ہے۔ سنّی فرقے کا موقف ہے کہ صحابہ کرامؓ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو معاشرے کی مشترکہ رائے کے مطابق پہلا خلیفہ منتخب کیا اور یہ بات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ کی دینی اور سیاسی جائز حیثیت کی تشکیل کرتی ہے۔ جبکہ شیعہ فرقے کا موقف ہے کہ علی ابن ابی طالؓب کا پیغمبر کے خلیفہ کے طور پر منتخب ہونا ضروری تھا۔

متعدد اہم سوالات کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ سے متعلق اس اختلاف نے اسلام میں شیعہ اور سنّی فرقوں کے ابھرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن یہ دونوں مکتبہ ہائے فکر اسلامی عقائد اور تہذیب کے بنیادی عناصر کے حامل ہیں۔ قانون، سائنس، فلسفے، فن اور تصوف میں اللہ کی وحدانیت اور انسانی عظمت کے موقف کے علمبردار ہیں۔ امام جعفر صادق سے لے کر امام ابو حنیفہ تک ، ابن سینا سے لے کر ناصر الدین الطوسی تک ، امام غزالی سے لے کر ملّا صدرا تک سنّی اور شیعہ مکتبہ فکر کی اہم شخصیات نے کلاسیکی اسلامی مدنیت کے بنیادی افکار کو واضح شکل میں پیش کیا ہے۔ موجودہ دور کا مسئلہ اس تاریخ کو اختلاف و تفریق کی جگہ مفاہمت اور اتفاق کے حوالے سے دیکھنا ہے۔ مسلمان علماء اور مفکّرین پر یہ اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلامی تاریخ کا احاطہ کرنے والے نقطہ نظر کو پیش کریں اور تاریخ اورجدید دنیا کے مسائل سے دوچار سنّی اور شیعہ مسلمانوں کو ایک نیا رُخ عطا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

آج جس چیز کو مذہبی فرقہ وارانہ جھڑپ کا نام دیا جا رہا ہے اس کی تہہ میں زیادہ تر شناخت کی سیاست اور قومی حکومت کے مفادات کارفرما ہیں۔ تمام جدید قومی حکومتوں کی طرح مسلمان قومی حکومتوں کی اکثریت شخصی مفادات کو پیش نظر رکھے ہوئے ہے اور نسلی و فرقہ وارانہ شناخت کو استعمال کر نے کی کوشش کر رہی ہیں۔ قومی حکومتوں کے مفادات اور شناخت کی سیاست کا خطرناک اجتماع معاشروں میں تفریق کا سبب بن رہا ہے جو کسی بھی مخالف صورتحال میں نارمل سماجی سیاسی ماحول کو تباہ کن بناسکتا ہے۔

یہاں ایک اور عنصر پایا جاتا ہے جس سے عام طور پر صرف نظر کیا جاتا ہے اور وہ عنصر یہ ہے کہ جنگیں  ناکام اور کمزور حکومتوں کے حامل معاشروں کی نسلی اور دینی ساخت کو بڑے پیمانے پر سماجی اور نفسیاتی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ساتھ ہی یہ جنگیں سیاسی نظام کی ناکامی کو بنیادبنا کر دینی فرقہ وارانہ جھڑپوں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ شام، عراق اور یمن کی کمزور حکومتی ساختوں کا عالم اسلام میں شیعہ سنّی کشیدگی کا اہم ترین سبب ہونا محض اتفاق نہیں ہے۔ دہشت گرد تنظیم داعش جیسے انتہا پسند گروپ اور دہشتگرد تنظیمیں شام کی جنگ، یمن کی جان لیوا جدوجہد ، عراق کی کمزور حکومتی ساخت اور افغانستان، نائجیریا اور مالی میں مرکزی اتھارٹی کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔

بعض کٹّر اور متعصب سوچ کے حامل افراد اس بات پر دل سے یقین کر سکتے ہیں کہ وہ سنّی اسلام یا شیعہ اسلام کے لئے جنگ کر رہے ہیں۔ یہ افراد قدرتی طور پر مندرجہ بالا بیان کردہ تاریخی اختلاف کو مثال کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ اپنے انتہائی اقدامات کو جائز قرار دینے کے لئے دوسرے فریق کی جارحیت کو مثال کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ لیکن اکثر اوقات یہ جنگیں دنیا میں طاقت کے حصول کے لئے اور بااثر ہونے کے لئے لڑی جا رہی ہیں۔ اقتدار کی جنگ کو جائز ثابت کرنے کے لئے سنّی اور شیعہ شناختوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

سنّیوں اور اہل تشیع کے درمیان تاریخی اختلاف سب پر آشکار ہے جسے قبول کرنا چاہیے، 21 ویں صدی میں تازہ جنگیں شروع کرنے کے لئے انہیں بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے لئے ایک دو جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔

اوّلین طور پر مسلمان علماء ، مفّکرین، دینی صاحب اختیار شخصیات اور دینی رہنماوں کوچاہیے کہ وہ اپنے مریدوں کو دشمنی اور جھڑپوں کی بجائے امن اور مفاہمت کا راستہ دکھائیں۔ حنفی آئینی مکتبہ فکر کے بانی امام ابو حنیفہ(پیدائش 767 ہجری )اور چھٹے شیعہ امام اور جعفری آئینی مکتبہ فکر کے بانی امام جعفر الصادق (پیدائش765 ہجری) باہم فکری اور دقیق مباحث کرتے اور ایک دوسرے سے فیض یاب ہوتے تھے۔ ان اماموں کی طرح موجودہ دور کے مسلمان علماء کو بھی مفاہمت اور اتحاد کی فضاء کو تحریک دینا چاہیے۔ سنّی اور شیعہ رہنماوں کو بدترین برائیوں اور تباہیوں کے مقابل بھی اعتدال کے راستے کی نشاندہی کرنا چاہیے اور شدت کی حامل تمام انتہا پسندیوں کی مذمت کرنا چاہیے۔

دوسرے نمبر پر مسلمان ممالک کی جنگوں پر، ناکام اور کمزور حکومتوں پر اس حوالے سے غور کرنا چاہیے کہ شدت کی حامل انتہا پسندی کو انسانوں کی تکلیفوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ اس کے لئے بہادر سیاسی قیادت اور ماہر حکومتی شخصیات کی ضرورت ہے۔ شام اور یمن میں جاری جنگیں ، عراق اور افغانستان میں درپیش بڑے پیمانے پر سکیورٹی کے مسائل عدم استحکام اور تباہی و بربادی کا سبب بنتے رہیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی موقع پرست اور انتہائی سوچ کے حامل گروپوں کی طرف سے ان عناصر کو دینی فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا رہے گا۔

امام البیہقی (پیدائش 1066 ہجری) نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ان الفاظ کو رقم کیا ہے ” اگر تمہارے پاس کوئی دعوی آئے تو کتاب الٰہی کے مطابق فیصلہ کرو۔ کوئی بھی چیز تمہیں کتاب الٰہی کے علاوہ کسی اور چیز کے مطابق فیصلہ کرنے پر مائل نہ کرے۔ اگر کسی مسئلے کے بارے میں اللہ کی کتاب میں فیصلہ تلاش نہ کر سکو تو میری سنت اور عمل پر نگاہ ڈالو اور اس کے مطابق فیصلہ کرو ،اگر میری سنت میں مسئلے کا حل تلاش نہ کر سکو تو میرے صحابہ کرامؓ کے بیانات کو دیکھو۔ میرے صحابہ کرام آسمان کے ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کو منتخب کرو گے اور اس کے پیچھے چلو گے وہ تمہیں راستہ دکھائے گا۔ صحابہ کرامؓ کے درمیان اختلاف تمہارے لئے رحمت ہے” یہ آخری جملہ (میری امت کے درمیان اختلافات ایک رحمت ہے)کی شکل میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ اگر ہم اس حدیث کو پیش نظر رکھ کر اختلافات کو ایک طرف رکھیں تو اس کے معنیٰ واضح ہیں اور براہ راست موجودہ دور کے مسلمانوں کے بارے میں ہے۔ اختلافات کی قدروقیمت کو سمجھنے کے لئے ہم سب کو اس حدیث کی حکمت پر  غور کرنا چاہیے۔