فرقہ وارانہ کشمکش اور اصولِ انسانیت
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد (IPS) نے ریڈ کراس کی انٹرنیشنل کمیٹی (ICRC) کے اشتراک سے ۲۷ و ۲۸ اگست ۲۰۱۹ء کو ’’اسلام اور اصول انسانیت‘‘ کے عنوان پر دو روزہ قومی کانفرنس کا اہتمام کیا جس کی مختلف نشستوں میں سرکردہ اصحاب فکر و دانش نے انسانیت اور انسانی حقوق کے حوالہ سے اسلامی تعلیمات و احکام کے متعدد پہلوؤں پر اظہار خیال کیا۔ مجھے ۲۸ اگست کو کانفرنس کے تیسرے اجلاس میں معروضات پیش کرنے کے لیے کہا گیا جس کی صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کی جبکہ معاون صدر دعوہ اکیڈمی بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر سہیل حسن تھے اور ان کے علاوہ اظہار خیال کرنے والوں میں مولانا محمد یاسین ظفر، ڈاکٹر شمس الحق حنیف، ڈاکٹر محمد اقبال خلیل، جناب خالد رحمان، ڈاکٹر عطاء الرحمان اور ڈاکٹر ضیاء اللہ رحمانی شامل ہیں۔ میری گزارشات کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔
میری گفتگو کا عنوان ’’فرقہ وارانہ کشیدگی اور اصول انسانیت‘‘ ہے اور مجھے انسانی معاشرہ کی مختلف حوالوں سے تفریق کے متنوع دائروں میں انسانی اصول و اخلاق کی پاسداری کے تقاضوں پر کچھ گزارشات پیش کرنی ہیں۔ انسانی سماج میں تفریق کئی حوالوں سے ہمیشہ سے موجود چلی آرہی ہے۔ یہ نسل کے عنوان سے بھی ہے، رنگ اور زبان کے حوالہ سے بھی ہے، مذہب بھی اس کا ایک دائرہ ہے اور وطن، قومیت، علاقہ اور دیگر بہت سے امور اس کے اسباب میں شامل ہیں۔ مگر میں ان میں سے مذہب کے حوالہ سے پائی جانے والی تفریق کی بات کروں گا۔
مذہبی تفریق کا ایک دائرہ اسلام اور کفر کا ہے اور دوسرا دائرہ امت مسلمہ کے داخلی ماحول میں باہمی اختلافات کا ہے، ان میں سے ہر ایک کے بہت سے پہلو ہیں جن کا مختصر وقت میں تذکرہ تو کجا ان کی فہرست پیش کرنا بھی مشکل ہے، اس لیے ہر دائرہ کے دو بڑے پہلوؤں کا ذکر کروں گا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ اسلام اور کفر کا دائرہ سب سے نمایاں ہے ہے کہ انسانی معاشرہ میں مسلمانوں کے ساتھ مسیحی، یہودی، ہندو، بدھ مت، سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگ رہتے ہیں اور سب کے آپس میں معاملات چلتے رہتے ہیں۔ کافر قوموں کے ساتھ انسانی تعلقات اور اخلاقیات کے حوالہ سے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے چند واقعات کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ تشریف فرما تھے، آپ کے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ جنازہ گزر جانے کے بعد ساتھیوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ تو یہودی کا جنازہ تھا، تو آنحضرتؐ نے فرمایا ’’الیست نفساً؟‘‘ کیا وہ انسان نہیں ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان یا کافر ہونا اپنے مقام پر مگر بطور انسان احترام کا حق کافر کو بھی اسی طرح حاصل ہے جس طرح کسی مسلمان کا حق ہے۔
جناب رسول اکرمؐ پر جب طائف کے اوباش لڑکوں نے پتھراؤ کیا اور آپ زخمی حالت میں اپنے خادم حضرت زید بن حارثہؓ کے ہمراہ مکہ مکرمہ کی طرف اس کیفیت میں واپس آرہے تھے کہ زخمی تھے اور لڑکے بدستور پیچھا کر رہے تھے، راستہ میں ایک سردار مطعم بن عدی نے یہ منظر دیکھ کر اپنے ڈیرے کا گیٹ کھول دیا اور حضورؐ کو ان لڑکوں کے تعاقب سے محفوظ کیا۔ آپؐ نے وہاں کچھ دیر آرام کیا، زخم وغیرہ دھوئے، کچھ کھایا پیا اور مکہ مکرمہ روانہ ہوگئے۔ جناب نبی اکرمؐ کو مطعم بن عدی کا یہ احسان یاد تھا، چنانچہ جنگ بدر کے بعد قیدیوں کی رہائی کے فیصلہ کے موقع پر آپؐ نے فرمایا، اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتے اور ان قیدیوں کے بارے میں مجھ سے بات کرتے تو میں ان کی سفارش پر ان قیدیوں کو ویسے ہی چھوڑ دیتا۔ مطعم بن عدی کافر سردار تھے اور اسی حالت میں انتقال ہوا تھا مگر آنحضرتؐ نے ان کے احسان کو نہ صرف یاد رکھا بلکہ ایک اہم موقع پر اس کا اظہار بھی فرمایا۔
جاہلیت کے دور میں کچھ قبائل نے مظلوموں کی حمایت اور ظلم و جبر کے خاتمہ، نیز ناداروں اور بے سہارا لوگوں کی مدد کے لیے ایک معاہدہ کیا جو تاریخ میں ’’حلف الفضول‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ جناب نبی اکرمؐ اس کا تذکرہ فرماتے تھے، اس کی تعریف کرتے تھے اور ایک موقع پر فرمایا کہ اگر آج بھی اس قسم کا کوئی معاہدہ ہو تو میں اس میں شریک ہوں گا۔
اس حوالہ سے میں ایک اور بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گا کہ بین الاقوامی معاہدات جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی ہوتے تھے اور آج بھی دنیا میں بین الاقوامی معاہدات کا دور دورہ ہے، بلکہ میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ آج کی دنیا میں اکثر ملکوں پر حکومتوں کی نہیں بلکہ بین الاقوامی معاہدات کی حکومت ہے، ان معاہدات کی تعداد تیس کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے جنہوں نے پوری دنیا کو اپنے جال میں جکڑ رکھا ہے اور دنیا کا ہر ملک ان کا پابند سمجھا جا رہا ہے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ جس ملک و قوم کے پاس طاقت زیادہ ہے یا جس کے پاس دولت زیادہ ہے وہ ان معاہدات کی جکڑبندی سے اپنے لیے راستہ نکال لیتا ہے، مگر جو ہماری طرح طاقت و دولت میں کمزور ہے اسے بہرصورت ان معاہدات کی پابندی کرنا پڑتی ہے۔ اس پس منظر میں اصحاب فکر و دانش سے میری ہمیشہ یہ گزارش رہتی ہے کہ جناب نبی اکرمؐ کے دور کے بین الاقوامی معاہدات اور آج کے دور کے بین الاقوامی معاہدات پر تحقیق و مطالعہ کا کام ہونا چاہیے اور آنحضرتؐ کی سیرت و اسوہ کی روشنی میں ہمیں آج کے بین الاقوامی معاہدات کے ماحول میں اپنا طرز عمل طے کرنا چاہیے۔
جناب رسول اکرمؐ نے جنگ کے ماحول میں جو ہدایات دی ہیں وہ انسانی احترام اور اخلاقیات کی اعلٰی ترین مثال ہیں اور میری گزارش ہے کہ جنگی اخلاقیات کا جو معیار اسلام اور جناب نبی کریمؐ نے پیش کیا تھا اسے دوبارہ دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرو، صرف اسی پر ہتھیار اٹھاؤ جو جنگ میں شریک ہے، اور املاک کو نقصان نہ پہنچاؤ۔ مگر آج کے جدید ہتھیاروں نے یہ سارے دائرے توڑ دیے ہیں اور حالت جنگ میں انسانی اخلاقیات کے اصولوں کو قصہ پارینہ بنا دیا ہے۔ اصحاب دانش سے میری گزارش ہے کہ اگرچہ ہم بھی مجبورًا آج کے ہتھیاروں کو استعمال کر رہے ہیں جو جناب نبی اکرمؐ کے ارشاد کردہ جنگی اصولوں اور اخلاقیات کے منافی ہیں، مگر ہمیں اسلام کے ان اعلٰی اخلاقی اصولوں کا تذکرہ تو نہیں چھوڑ دینا چاہیے اور دنیا کو بتاتے رہنا چاہیے کہ اسلام کے جنگی اصول کیا ہیں اور جناب رسول اکرمؐ نے کن جنگی اخلاقیات کی تعلیم دی ہے۔
مذہبی تفریق کا دوسرا دائرہ وہ ہے جو امت کے داخلی ماحول میں پایا جاتا ہے اور اس کے بھی بہت سے پہلو ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو کافر کہہ دیتے ہیں اور گمراہ قرار دے دیتے ہیں جس کی بنیاد پر فرقہ واریت کا وسیع ماحول بن جاتا ہے۔ اس پر تفصیلی گفتگو کا موقع نہیں ہے اس لیے صرف ایک پہلو پر عرض کرنا چاہوں گا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں جن لوگوں کو ان کے کلمہ پڑھنے کے باوجود قرآن کریم نے ’’وما ہم بمومنین‘‘ کہا اور ان کے بارے میں فرمایا کہ ’’واللہ یشہد انہم لکاذبون‘‘ اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ ایمان کے دعوے میں جھوٹے ہیں اور جن کو مدینہ منورہ میں ایک متوازی مرکز ’’مسجد ضرار‘‘ تعمیر کرنے کی کوشش پر قرآن کریم نے ’’کفرًا و تفریقاً بین المومنین وارصادًا لمن حارب اللہ ورسولہ‘‘ کا مصداق قرار دیا، ان کے بارے میں آنحضرتؐ کا معاشرتی طرز عمل یہ تھا کہ ان کا مرکز تو قائم نہیں ہونے دیا گیا بلکہ اسے گرا کر نذر آتش کر دیا گیا، لیکن ان کے ساتھ معاشرتی تفریق کا ماحول قائم نہیں ہونے دیا۔
میرا یک طالب علمانہ سا سوال ہے کہ اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں حضور نبی اکرمؐ سے فرمایا کہ ’’جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیہم‘‘ کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں اور ان کے ساتھ سختی کریں، آنحضرتؐ نے دس سالہ مدنی دور میں مختلف کافر قوموں کے ساتھ تو بعض روایات کے مطابق ستائیس جنگیں لڑی ہیں مگر منافقوں کے ساتھ ایک لڑائی بھی نہیں کی، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ نے اس آیت کریمہ پر عمل نہیں کیا؟ نعوذ باللہ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ معاملہ یوں ہے کہ کافروں کے ساتھ تو آپ نے تلوار کا جہاد کیا مگر منافقین کے خلاف حکمت عملی کا جہاد کیا کہ نہ انہیں اپنے ملی معاملات میں دخل انداز ہونے دیا اور نہ ہی اپنے خلاف مدینہ منورہ میں کوئی محاذ قائم کرنے دیا۔ ایسے منافقین کا تناسب جنگ احد کے موقع پر ہزار میں تین سو تھا، مگر صرف آٹھ سال میں جناب نبی اکرمؐ کی وفات پر ان کی تعداد چند افراد تک محدود ہو کر رہ گئی تھی جن کے ناموں کا صرف حضرت حذیفہؓ کو علم تھا اور ان پر بھی پابندی تھی کہ وہ ان میں سے کسی کا نام ظاہر نہیں کریں گے، یہ جناب نبی اکرمؐ کی معاشرتی حکمت عملی اور تدبر کا شاہکار تھا۔
میں نے کلمہ پڑھنے والوں کے درمیان داخلی تفریق کا صرف ایک دائرہ بیان کیا ہے، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے دائرے ہیں جن کے بارے میں فقہاء کرام نے مستقل احکام و قوانین بیان فرمائے ہیں ان میں سے کسی ایک سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا، میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام اور کفر کے دائرے مختلف حوالوں سے موجود ہیں مگر میری طالب علمانہ رائے ہے کہ معاشرتی تعلقات اور سماجی معاملات کی بنیاد انسانی اخلاقیات اور تقاضوں پر ہوتی ہے، ان دونوں امور کو اپنے اپنے دائرے میں رکھ کر ہی ہم معاملات کو صحیح رخ پر رکھ سکتے ہیں۔
یہاں مجھ سے میری گفتگو کے حوالہ سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا قادیانیوں کو بھی ان انسانی اصولوں اور اخلاقیات کے حوالہ سے گنجائش دی جا سکتی ہے؟ میری گزارش ہے کہ ہمارا قادیانیوں کے ساتھ تنازعہ ان کے معاشرتی اور شہری حقوق کے دائرہ میں نہیں ہے بلکہ ان کی طرف سے سماج اور معاشرہ کے متفقہ موقف کو مسترد کرنے کے باعث ہے، اس لیے ان کے ساتھ وہی معاملہ رکھا جا سکتا ہے جو پوری قوم اور سماج کے اتفاقی طرز عمل کی نفی کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر آج قادیانی جماعت سماج کی اجتماعیت کو قبول کر لے اور معاشرہ کے متفقہ موقف کو تسلیم کر لے تو جیسے باقی غیر مسلم سوسائٹیاں پاکستان میں باعزت شہری کے طور پر رہ رہی ہیں، قادیانیوں کا بھی یہ جائز حق ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پوری قوم اور سماج کے متوازی کھڑے رہنے کی بجائے قومی فیصلوں اور دستور کی بالادستی کو قبول کریں ، اس کے سوا یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا، اللہ تعالٰی ہم سب کو صحیح راستے پر چلنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔
(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۳۱ اگست ۲۰۱۹ء)