پاکستان میں اقلیتوں کے مسائل وحقوق
پاکستان میں بہت سی اقلیتیں آباد ہیں، جن کا اپنا اپنا مذہب، اپنے اپنے عقائد اور اپنی اپنی ثقافتی اقدار ہیں۔ یہاں سب سے بڑی اقلیت ہندو ہیں،اس کے بعد مسیحیوں کا نمبر آتا ہے۔ ان دونوں بڑی اقلیتوں کے علاوہ بہائی، پارسی، قادیانی، بودھ اور دیگر عقائد کے لوگ بھی ہیں۔عام طور پہ پاکستان پر اقلیتوں کے حوالے سے کافی تنقید کی جاتی ہے۔ عالمی میڈیا میں پاکستان کا نام اس تناظر بہت بدنام ہے۔ تاہم یہ پوری طرح یکطرفہ مسئلہ نہیں ہے۔ پاکستان میں ویسے ہی انتظامی اور گورننس کے شدید مسائل ہیں جن کا نشانہ خود اکثریت بھی بنتی ہے۔ جبکہ اقلیت کو ان مشکلات کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم پاکستان میں اقلیتوں کے لیے جہاں یقینی طور پہ کچھ شدید قسم کے مسائل ہیں وہیں ان کے حقوق کے لیے کوششیں بھی کی جاتی ہیں۔زیرنظر مضمون میں اقلیتوں سے متعلق نمایاں مسائل و حقوق پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مضمون نگار پی ایچ ڈی سکالر ہیں، مذہبی ہم آہنگی اور سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
آئینی جمہوری حقوق
پاكستان كے 1973 عیسوی كے آئین كی رو سے سیاسی اور مذھبی اقلیتوں كو ہر قسم كا تحفظ حاصل ہوگا- تمام شہری قانون كی نظر میں برابر ہوں گے – ریاست اقلیتوں كے جائز حقوق اور مفادات كی حفاظت كرے گی- انہیں وفاقی اور صوبائی ملازمتوں میں مناسب نمائندگی دی جائے گی- صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں كو نمائندگی دینے كے لیے اضافی نشستیں بھی مخصوص كی گئی ہیں – آئین میں وه تمام ضمانتیں موجود ہیں جو ایك جمہوری ملك میں اقلیتوں كے حقوق اور مفادات كے تحفظ میں دی جا تی ہیں۔
آئین میں اقلیتوں کے حقوق پر کلام موجود ہے۔ اس میں کئی آرٹیکلز اقلیتوں کو درپیش مسائل کے بارے میں ہیں جن میں سے بعض کا تعلق بالعموم انسانی حقوق سے ہے جبکہ 36 آرٹیکلز ایسے ہیں جو اقلیتوں کے مخصوص حقوق کے بارے میں ہیں۔ اکثریتی مذہب اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے بھی شقیں الگ سے مذکور ہیں۔ مسلمان کی تعریف بھی بیان کی گئی ہے۔ اسلام کو سرکاری مذہب اور نظریہ اسلام کو نظریہ پاکستان کہا گیا ہے ۔اس کے علاوہ بھی کئی حوالوں سے بات کی گئی ہے۔ اس آئین کا مسلم وغیرمسلم دونوں حلف اٹھاتے ہیں۔
اقلیتوں کی مذہبی آزادی کی حدود
پاکستان کا آئین کسی غیرمسلم کو اِس امر پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ اسلام قبول کرلے، یہ بحیثیتِ آزاد شہری اُن کا انتخاب ہے کہ وہ اسلام قبول کریں، لیکن اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتے، تو ملک سے وفاداری کے تقاضے پورے کرنے کے ساتھ وہ ایک شہری کی حیثیت سے اپنے تمام حقوق وفرائض کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔ لیکن ملک کا آئین ان دوسرے مذاہب یا افکار کے حاملین کو اِس بات کا ضرور پابند کرتا ہے کہ اُن کومسلمانوں کے حقیقی جذبات و احساسات کا پاس و لحاظ رکھنا ہوگا۔ اگر وہ اِس میدان میں بے ضابطگی کا ارتکاب کریں گے، تو قانون کے مطابق انھیں جواب دہ بھی ہونا پڑے گا۔ آزادیِ افکار کا حق انھیں حاصل ہے، مگر دستور اور قانون کے دائرے میں۔ یہ غیرمسلم شہریوں کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں، بلکہ خود مسلمانوں کو بھی جو حقوق حاصل ہیں، وہ بھی قانون کے دائرے کے اندررہتے ہوئے ہی حاصل ہیں، کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں ۔
عدالتوں کا رویہ
پاکستان کی عدالتوں نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اہم فیصلے کیے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے چند سال قبل ایک جامع فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلہ میں اقلیتوں کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے کے لیے لائحہ عمل واضح کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے جسٹس تصدق حسین جیلانی کے فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے سابق آئی جی پولیس ڈاکٹر شعیب سڈل پر مشتمل کمیشن قائم کیا۔ ڈاکٹر شعیب سڈل نے اقلیتوں کی شکایات کا بغور جائزہ لیا۔ اقلیتوں سے تعلیم، صحت اور روزگار کے شعبوں میں امتیازی سلوک کی شکایات ختم کرنے کے بارے میں تجاویز پیش کی گئیں۔
حال ہی میں سپریم کورٹ کے ایک معزز جج صاحب کا کٹاس راج اور اس میں رکھے بعض نوادرات کے حوالے سے متروکہ وقف املاک کے ذمے داران کی سرزنش کی تھی۔ عدالتِ عظمٰی نے جو ریمارکس دیے تھے، سب نے اُن سے اتفاق کیا تھا۔
چند ماہ قبل سپریم کورٹ نےبہاولپور کے قریب واقع ایک مندر پر حملہ کا نوٹس لیا تھا۔ جسٹس گلزار کے حکم کی بناء پر حملہ آور گرفتار ہوئے۔ عدالت نے حکم دیا کہ حملہ آوروں کے مندرپر حملہ میں ہونے والے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔ 2021 میں دیوالی کے تہوار کے موقع پر جسٹس گلزار کرک تشریف لے گئے۔ انھوں نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنا تمام اداروں کی ذمے داری ہے۔
مناصب وعہدے
اقلیتی برادریوں کے نمائندوں کو صوبائی اور مرکزی وزراء ، مشیران اور پارلیمانی سیکرٹری بھی مقرر کیا جاتا ہے۔ جداگانہ انتخابات کی بدولت اقلیتی افراد کو سرکاری کمیٹیوں اور کونسلوں میں لیا جاتا ہے۔ اقلیتوں کو ووٹ دینے اور بلدیاتی اداروں، مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنے ووٹوں سے، اپنی پسند کے، اپنے ہم مذہب، ہم مسلک اور ہم خیال نمائندے بھیجنے کے حقوق میسر ہیں۔
مخصوص نشستیں
آئین پاکستان کی دفعہ 51 کے مطابق قومی اسمبلی میں غیر مسلموں کے لئے دس نشستیں مخصوص کی گئی ہیں۔ اس شق کی مزید وضاحت کے لئے آئین میں لکھا گیا ہے کہ ’’قومی اسمبلی میں نشستیں سرکاری طور پر شائع شدہ آخری مردم شماری کے مطابق آبادی کی بنیاد پر ہر صوبے، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات اور وفاقی دارالحکومت کے لئے متعین کی جائیں گی‘‘۔
مذہبی اسفارکا کوٹہ
قومی اسمبلی کے اقلیتی ممبران کو باقاعدہ ‘مذہبی اسفار کوٹہ’ ملتا ہے جس سے کچھ مسیحی شہری کرسمس منانے ‘روم’ جاتے ہیں۔
تعلیمی نصاب کی آزادی
اگرچہ بورڈ کا نصاب تقریبا سب کا ایک جیسا ہوتا ہے لیکن اپنے نجی تعلیمی اِداروں میں اقلیتی گروہ اپنی مرضی سے بھی نصابِ تعلیم مقرر کرتے ہیں جو بالعموم سیکولر ہوتا ہے، طلبہ کا لباس اور ثقافت مسلمانوں سے الگ ہوتے ہیں۔
حکومتی امداد
حکومت کی طرف سےطلبہ، اساتذہ اور افراد کو سائیکلیں، موٹر سائیکلیں اور سکولوں کو ویگنیں تحفہ میں ملتی ہیں۔بیواؤں کو سلائی مشینیں اور بیٹیاں بیاہنے کے لئے رقوم دی جاتی ہیں۔
انعامات
ہر سال قومی تہوار پراقلیتی ادیبوں، اداکاروں اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے ایوارڈز دیئے جاتے ہیں ۔ اقلیتی مریضوں کو علاج کے لئے اِمداد اور وظیفہ ملتا ہے۔
تہواروں پر پروگرامز و چھٹیاں
بعض اقلیتی تہواروں پر سرکاری ملازمین کو رخصت ملتی ہے۔کرسمس پر مسلمانوں کے برابر دو چھٹیاں ہوتی ہیں۔ کرسمس پر وزیراعظم کی طرف سے نقد رقم کا تحفہ دیا جاتا ہے ۔ اقلیتی تہواروں کو ریڈیو اور ٹی وی پرنمائندگی ملتی ہے، گورنر ہاؤس میں اقلیتی کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں اور ان کے تہوار بھی منائے جاتے ہیں۔
اقلیتیں کس صوبے میں زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہیں؟
صوبوں کی سطح پر پنجاب کے مقابلے میں اقلیتی شناخت خیبرپختونخوا میں زیادہ محفوظ ہے۔ سابقہ قبائلی علاقوں کے نوجوانوں کے مطابق ان کے علاقے میں کبھی شناخت کی بنیاد پر قبائل ایک دوسرے کے ساتھ نہیں لڑے، اگر کبھی مسائل پیدا ہوئے ہیں تو یہ تنازعے سیاسی نوعیت کے تھے۔ان علاقوں میں اتنا امن تھا کہ میرانشاہ میں بہت سارے چرچ تھے جنہیں کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایاگیا۔کبھی کبھاربازار اور آفس بند کروائے جاتے تھے لیکن اس دوران مسیحی برادری کو کچھ نہیں کہا جاتا تھا، وہ اپنا کاروبار جاری رکھتے تھے،دکانیں اور آفس کھلے رکھتے تھے۔اورکزئی ایجنسی میں سکھوں کی بڑی تعداد ہے جو محفوظ ہیں ، آزاد ہیں۔ ساؤتھ وزیرستان میں بھی مسیحی ہیں،وہاں کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا، ان علاقوں میں لڑائی جب بھی ہوئی سیاسی مفادات کے تحت وارد ہوئی۔
پاڑا چنار میں زیادہ تر شیعہ ہیں، وہاں شیعہ اور سنی عرصے سے اکٹھے پرامن رہتے تھے لیکن درمیان میں پانچ سال ایسے آئے کہ طرفین کا بے تحاشا خون بہا لیکن اس کی بنیاد مذہبی وابستگی نہیں تھی بلکہ یہ سب سیاسی مسائل ہیں۔ان علاقوں میں عوام اپنی سطح پر ایک دوسرے کی شناختوں کو تسلیم کرتے ہیں اور امن سے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
مسائل
پاکستان میں انتظامی سطح پر بہت سی کوتاہیاں ہیں جن کے باعث اکثریت کو بھی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ ایسے میں لازمی طور پہ اقلیتیں زیاہ متأثر ہوتی ہیں۔ ملک میں اقلیتوں کے لیے جہاں بہت سے اقدامات کیے جاتے ہیں وہیں کچھ مسائل بھی ہیں جو حقیقت ہیں اور انہیں حل کیا جانا چاہیے۔ ان میں بعض یہ ہیں:
امتیازی سلوک
مختلف سرویز کی روشنی اقلیتی برادری کے نمائندہ نوجوان سمجھتے ہیں کہ ان کی شناخت محفوظ نہیں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ’’ ہمیں ہر سطح پر اپنی شناخت چھپانی پڑتی ہے۔ ہم اپنی شناخت کا اظہار نہیں کرسکتے کیونکہ ہمیں یہ لگتا ہے کہ ہمیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ ستر کی دہائی سے قبل ہم اقلیتوں کو مشکلات کا سامنا نہیں تھالیکن اس کے بعد سے ہم اپنا تشخص چھپانے پر مجبور ہیں۔ ہم جدید اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی اپنی شناخت کا کھل کر اظہار نہیں کرسکتے۔‘‘
ریاست اقلیتی شناخت کو تحفظ دینے کے لیے اگرچہ کچھ اقدامات اٹھاتی ہے لیکن اس نے کئی ایسے خلا بھی چھوڑ رکھے ہیں جن کی وجہ سے اقلیتوں میں بے چینی پیدا ہوتی ہے۔مثلاََ آخری مردم شماری میں جو فارم بنائے گئے تھے ان میں مذہب کے خانے میں ایک آپشن ’’دیگر‘‘ کے عنوان سے موجود تھا۔ یعنی جو اقلیتیں زیادہ تعداد میں ہیں ان کے تو نام درج کیے گئے تھے لیکن جن کی تعداد بہت کم ہے اور وہ طاقتور بھی نہیں ہیں ان کا نام شامل نہیں کیا گیا تھا،ان سب کو دیگر میں رکھا گیا۔ اس سے کئی مساائل نے جنم لیا ہے۔ مثال کے طور پہ جب انہیں اپنی تعداد کا ہی علم نہ ہوگا تو وہ اپنے حقوق کے لیے آواز کیسے اٹھاسکتے ہیں اور اقلیتوں کے نام پر کوٹہ سسٹم میں ان کی حیثیت کیا ہوگی؟
جبری مزدوری
جبری بے گار(forced labour) اگرچہ ملک کا عموی مسئلہ ہے۔ بچوں سے کام لینا اور مزدوری کرانا غیرقانونی ہے۔ اس مسئلے کا سامنا بلاتفریق سب کو ہے لیکن جب کوئی مزدور اقلیت سے ہو تو پھر مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔
اجتماعی جائیدادوں کا قضیہ
اجتماعی جائیدادوں کے مسائل بھی ہیں۔ ایسی جائیدادیں جو مذہبی اقلیتوں کی تھیں، ان کا بہتر تحفظ ممکن نہیں بنایا جاتا، بالخصوص عبادت گاہیں وغیرہ۔
خواندگی
اقلیتیں خواندگی میں بھی پیچھے ہیں۔ آزادی کے بعد مسیحی برادری ملک کی بڑی تعلیم یافتہ کمیونٹی تھی لیکن 1998کے اعداد و شمار کے مطابق پتہ چلا ہے کہ اس کمیونٹی میں محض ایک تہائی مسیحی تعلیم یافتہ ہیں، جبکہ ہندو اس سے بھی کم، صرف ایک چوتھائی پڑھے لکھے ہیں۔
پاکستان میں اقلیتیں تعلیمی شعبے میں کافی پیچھے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ معاشی مسائل ہیں۔ معاشی طور پہ بہتر نہ ہونے کے سبب نوجوان چھوٹی عمر سے ہی مزدوری کرنے لگتے ہیں اور تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے۔
جبکہ ایک وجہ امتیازی سلوک بھی ہے کہ تعلیمی اداروں میں عام طور پہ اقلیتی برادری کے بچوں کے ساتھ زیادہ میل جول نہیں رکھا جاتا اس لیے وہ تعلیم کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔
جبکہ اقلیتی برادری کی خواتین کی صورتحال زیادہ تشویشناک ہے۔”مذہبی اقلیتی برادری کی خواتین کے پاس مواقعوں کی کمی ہے۔ مسیحی برادری کے لئے تو اگرچہ تعلیمی ادارے موجود ہیں، لیکن سکھ کمیونٹی، ہندو، بہائی کمیونٹی کے بچے اور خاص طور پر بچیاں تعلیم سے محروم رہ جاتیں ہیں۔ اکثر ان کے لئے الگ سے ادارے تو موجود نہیں ہوتے اور باقی سرکاری اور نجی ادروں میں وہ اپنے ساتھ ہونے والے ساتھی طلبہ کی طرف سے امتیازی سلوک کے باعث سکولز نہیں پڑھتیں یا چھوڑ دیتی ہیں۔ اس طرح ان کی ایک بڑی شرح غیر تعلیم یافتہ ہے اور جس سے ان میں شعور اور خود اعتمادی کی کمی رہ جاتی ہے اور یہی کمی انہیں ہر شعبے میں محسوس ہوتی ہے“۔
اس حوالے سے لوگوں کے رویے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں جو کہ مسیحی، ہندو اور سکھ کمیونٹی کی خواتین میں خود اعتمادی کے فقدان کی بڑی وجہ بنتے ہیں اور چونکہ حصول کی شرح کم ہے، اس لئے پھر بہترین ملازمتوں کے حصول میں بھی یہ خواتین ملکی سطح پر اقلیتی برادری کو دیئے جانے والے 5 فیصد کوٹے کے باوجود پیچھے رہ جاتی ہیں یا پھر کلاس فور، نرسز اور دیگر چھوٹے عہدوں پر ملازمت کرنے پر مجبور ہوتیں ہیں۔
بے روزگاری
پاکستان میں جہاں ایک طرف بہت بڑی آبادی کو بے روزگاری جیسے مسائل کا سامنا ہے وہیں اقلیتی آبادی کے نوجوانوں میں یہ شرح کہیں زیادہ ہے۔ بہت سے اقلیتی نوجوان نوکریاں نہ ہونے کے باعث بے روزگاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ معاشرے میں ان کے پاس خاکروب، صفائی ستھرائی اور سینٹری کے کام کے علاوہ کوئی با عزت روزگار موجود نہیں۔
بالخصوص پرائیویٹ شعبوں میں اقلیتی کمیونٹی کے لئے نوکریاں بالکل بھی نہیں ہیں کیونکہ پرائیویٹ شعبے میں زیادہ تر نوکریاں تعلقات، اثر و رسوخ اور سفارش کی بنیاد پر ملتی ہیں اور چونکہ اقلیتی کمیونٹی کے لوگوں کے ذاتی نوعیت کے تعلقات بہت کم ہیں اس لئے وہاں انہیں مسئلہ ہوتاہے۔
اقلیتی برادری کی زیادہ تر آبادیوں کے لوگ کچے اور خستہ مکانوں میں رہ رہے ہیں۔ ان کے بچے بڑے سکولوں میں نہیں پڑھتے، یہی وجہ ہے کہ ان بچوں کو بھی یہی لگتا ہے کہ انہیں بھی اپنے والدین والا کام ہی کرنا ہے۔
اہانتِ مذہب کے مقدمات
پاکستان میں مذہب کی توہین ایک قابل جرم چیز ہے اور یہ ایک ایسا پہلو امر ہے جس پر پوری دنیا میں عمل کیا جاتا ہے۔البتہ پاکستاان میں عام طور پہ بہت سی مثالیں ایسی سامنے آجاتی ہیں جن میں توہینِ مذہب کے جھوٹے مقدمات بھی شامل ہوتے ہیں۔یا یہ کہ محض الزام کی بنیاد پہ بغیر کسی عدالتی کروائی کے کوئی فرد خود ہی اقدامِ قتل کردیتا ہے۔ حالیہ عرصے میں اس صورسحال میں اضافہ ہوا ہے جسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ اقلیت کو ہر طرح کا تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ 1987 سے 2017 تک اہانتِ مذہب کے 1549 مقدمات رپورٹ ہوئے۔ ان میں سے 1138 پنجاب میں رپورٹ ہوئے، بلوچستان اور گلگت میں سب سے کم شرح رہی۔ اور جو لوگ مارے گئے ان میں 39 مسلمان تھے، 23 مسیحی، 2 ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے جبکہ 2 کا مذہب معلوم نہیں ہوسکا۔