پاکستان کی مردم شماریاں اور اقلیتوں کی اصل تعداد

0

پاکستان میں بہت ساری اقلیتی برادریاں رہتی ہیں۔ ان میں سے کچھ کی تعداد زیادہ ہے تو بعض طبقات ایسے ہیں جن کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ ملک میں جب 2017ء میں مردم شماری کرائی گئی تو اس کے بعد اقلیتوں نے سخت تحفظات کا اظہار کیا۔انہوں نے اس مردم شماری پر کئی اعتراضات کیے۔ تمام اقلیتوں کو ایک تو یہ  اعتراض ہے ان کی تعداد صحیح نہیں بتائی گئی ہے، بلکہ کم بتائی گئی۔ ان کے مطابق اس کا نقصان یہ ہوا کہ ان کی تعداد کی بنیاد پر مخصوص کیے گئے سیاسی و سماجی حقوق بھی کم ہوگئے۔ اور مردم شماری فارم میں بعض اقلیتوں کے مذہب کا خانہ شامل نہیں تھا بلکہ انہیں ’دیگر‘ میں شامل کیا گیا، تو انہوں نے اس پر بھی کافی بے چینی کا اظہار کیا۔اس مضمون میں پاکستان میں تاریخی اعدادوشمار کی روشنی میں اس مسئلے پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔اسلام گل آفریدی  خیبر پختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں قومی اور بیں الاقوامی نشریاتی اداروں کے لئے تحقیقاتی صحافت کر رہے ہیں۔

2017ء میں پاکستان کی مردم شماری  میں ملک کی کل آبادی اکیس کروڑ کے قریب بتائی گئی ہے جن میں میں مسلم آبادی 96.47 فی صد ہے جو 1998 کی مردم شماری میں 96.28 فیصد تھی۔ اسی طرح پاکستان میں ہندو آبادی 1998 کی مردم شماری میں 1.6 فی صد سے بڑھ کر 1.73 فی صد ہو گئی ہے اور یوں پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت بن کر سامنے آئی ہے۔ مسیحی آبادی 1998 کی مردم شماری میں 1.59 فی صد تھی جو کم ہو کر حالیہ مردم شماری میں 1.27 فی صد ہو گئی ہے۔ احمدی برادری کی آبادی 1998 کی مردم شماری میں 0.21 فی صد تھی جو کم ہو کر حالیہ مردم شماری میں 0.09 فی صد ظاہر کی گئی ہے۔ اسی طرح شیڈولڈ کاسٹ (ہندوؤں) کی 1998 کی مردم شماری میں آبادی 0.25 فی صد تھی جو بڑھ کر حالیہ مردم شماری میں 0.41 فیصد ہو گئی ہے۔

دیگر اقلیتوں جن میں سکھ، کالاش، پارسی اور دیگر شامل ہیں، ان کی آبادی کو ’دیگر‘ کا نام دے کر 1998 کی مردم شماری میں 0.07 تھی، اب یہ کم ہو کر 0.02 فی صد ہو گئی ہے۔

محکمہ شماریات نے اپنی رپورٹ میں مذہب کے حساب سے آبادی کو افراد کی تعداد کے بجائے صرف فیصد میں جاری کیا ہے جب کہ 1998 کی مردم شماری میں مذہب کی بنیاد پر آبادی کو تعداد میں ظاہر کیا گیا تھا۔

پاکستان مائینارٹی رائٹس کمیشن (پی ایم آر سی) کے جنرل سیکرٹری روحیل ظفر شاہی کے مطابق آخری مردم شماری کے اعداد کے مطابق ملک میں مسیحی برادی کے تعدادانیس سال پہلے مردم شماری کی نسبت کم ہونا انتہائی افسوناک ہے کیونکہ اس کےنتیجے کے طور پہ مستقبل میں سرکاری سطح پر دی جانے والی مراعات، تعلیمی و سرکاری نوکریوں میں کوٹہ، سکالرشپ اور سالانہ ترقیاتی بجٹ میں کمی آئے گی جس سے اقلیتی برداری کے پہلے سے موجودہ مسائل میں مزید اضافہ ہو گا۔ اُن کے بقول ملک میں اقلیتی برادری کی تعداد میں کمی نہیں آئی بلکہ ان کی صحیح طریقے سے مردم شماری نہیں کی گئی ہے۔ اقلیتی نوجوانوں اور خصوصاً خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم سماجی کارکن مالا کماری کا کہنا ہے کہ محکمہ شماریات کے جانب سے اب تک اصل تعداد سامنے نہیں لائی گئی جس کی بنیاد پر پاکستان میں اقلیتی برادری کی تعداد معلوم ہو سکے۔ اُن کے بقول مردم شماری کے انتظامات میں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے تھا کہ ملک کی کل آبادی اور تمام اقلیتی برادری کی تعداد نہ صرف صوبوں بلکہ اضلاع اور یونین کونسل کی سطح پر سامنے لائی جائے لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ نہیں کیا گیا ہے۔

قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے سکھ برادری کے رہنماء باباجی گورپال سنگھ نے چھٹی مردم شماری کے فارم میں سکھ مذہب کا خانہ شامل نہ کرنے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی تھی۔ اُن کا کہنا ہے کہ جیسے ہی چھٹی مردم شماری شروع ہوئی اور معلوم ہوا کہ فارم میں سکھ مذہب کا خانہ شامل نہیں کیا گیا ہے تو 19 جون 2017 کو پشاور ہائی کورٹ میں کیس دائر کیا، ہنگامی بنیادوں پر 21 جون کو عدالتی فیصلے میں محکمہ شماریات کو حکم جاری کر دیا گیا کہ مردم شماری کے دوسرے مرحلے کے سروے فارم میں سکھ مذہب کا خانہ شامل کیا جائے اور پہلے مرحلے میں سکھ برادری کے اعداد و شمار نادرہ سے لئے جائیں لیکن اس کے باوجود عدالتی حکم پر کوئی عمل در آمد نہیں ہوا۔ گورپال سنگھ نے کہا کہ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کا رخ کیا اور وہاں پر سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ نے 27 دستمبر 2018 کو اپنا فیصلہ سنایا کہ آنے والے وقت میں جب بھی ملک میں مردم شماری ہو گی تو سکھ مذہب کا خانہ لازماً شامل کیا جائے گا۔ سکھ برداری کے مطابق ملک بھر میں 55 ہزار سے زائد سکھ آباد ہیں جبکہ 35 ہزار صرف خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر ہیں۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ملک میں سکھوں کی تعداد 16ہزارہے۔

خیبر پختونخوا میں اقلیتی برادری کی کم تعداد کی بنیاد پر سرکاری نوکریوں میں ان کیلئے مختص کوٹہ 0.5 فیصد تھا جو 2008-09 میں بڑھ کر تین اور اب پانچ فیصد ہو چکا ہے تاہم اس پر عمل درآمد کے حوالے سے کئی مسائل اب بھی موجود ہیں۔ یونیورسٹیوں میں کوٹہ دو فیصد رکھا کیاگیا ہے، تاہم میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز اس میں شامل نہیں ہیں اور پورے صوبے میں صرف ایک میڈیکل سیٹ اقلیتی برادری کے لئے مختص کی گئی ہے۔ روحیل ظفر شاہی کے بقول موجودہ وقت میں سرکاری اعداد و شمارکے مطابق 32 لاکھ اور الیکشن کمیشن کے پاس تقریباً 16 لاکھ اقلیتی ووٹرز رجسٹرڈ ہیں جو انتہائی کم تعداد ہے۔ اُنکا کہنا ہےکہ مردم شماری کے ساتھ ووٹر رجسٹریشن بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس بنیاد پر اپنے مسائل کا حل پارلیمنٹ کے ذریعے آسان ہو جائے گا۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے اقلیتی ممبر روی کمار بھی اس بات سے متفق ہیں کہ پانچویں اور چھٹی مردم شماری میں اقلیتی برادری کی اصل تعداد سامنے نہیں آئی جس کی وجہ سے اقلیتی برادریوں کو درپیش مسائل کے حل میں کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ جب بھی مسائل کے حل کے حوالے سے کسی بھی سرکاری محکمے سے بات ہوتی ہے تو جواب میں پہلے آبادی کی بات ہوتی ہے اور اُس کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم ہوتی ہے۔

محقق اور تجزیہ کار آصف عقیل کی ایک تحقیق کے مطابق برصغیر کی تقسیم کے بعد وجود میں آنے والے پاکستان میں غیر مسلم برادریوں کی آبادی 44 فی صد جب کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 12 فیصد تھی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بننے سے قبل یہاں ہندو اور سکھ بڑی تعداد میں آباد تھے البتہ مذہبی بنیادوں پر پاکستان اور بھارت کی تقسیم کے بعد وہ ہجرت کر کے بھارت چلے گئے اور اس کے ساتھ ہی لاکھوں مسلمان بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ آصف عقیل کے مطابق 1951 کی مردم شماری کے بعد غیر مسلم اقلیتوں کی آبادی کم ہو کر 14.1 فیصد رہ گئی تھی۔ اونچی ذات کے ہندوؤں اور سکھوں کی بڑی تعداد بھارت ہجرت کر چکی تھی، جب کہ شیڈولڈ کاسٹ، مسیحی، پارسی اور دیگر کم تعداد اقلیتی برادریوں کی ہجرت کا تناسب کافی کم تھا۔ انہوں نے بتایا کہ 1961 کی مردم شماری میں غیر مسلم اقلیتوں کی آبادی مزید دو فیصد کم ہو کر 12 فیصد رہ گئی تھی، جب کہ مسلمانوں کی آبادی 88 فیصد رہی جس کی وجہ 10 برس کے دوران مذہب کی بنیاد پر ہجرت کا سلسلہ جاری رہنا تھا۔

جماعت احمدیہ پاکستان کے رہنما عامر محمود کا کہنا ہے کہ اب تک محکمہ شماریات نے ایسی کچھ معلومات نہیں دی ہیں جس سے اندازہ ہو سکے کہ سرکاری سطح پر کتنے احمدی موجود ہیں اور یا اندازہ ہو سکے کہ ان کے افراد کم ہوئے ہیں یا اس میں کوئی اضافہ ہو چکا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان میں احمدیوں کی آبادی چار سے پانچ لاکھ کے درمیان ہے البتہ پچھلے کچھ عرصہ ملک بھر میں توہین رسالت کے الزام کی وجہ سے قاتلانہ حملوں میں اضافے کے سبب لوگ بیرونی ممالک ہجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔

مالا کماری کا کہنا ہے کہ اقلیتی برادری میں مردوں اور اکثریتی خواتین کے شناختی کارڈ نہیں بنے ہیں جس کی وجہ سے مردم شماری اور الیکشن کمیشن کے ساتھ کم ووٹ رجسٹرڈ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ مستقبل میں تمام اقلیتی برادری کو ان تمام مسائل کے حل پر تو جہ دینا ہو گی تاکہ آنے والے وقت میں اس طرح مسائل پیدا نہ ہو جائیں۔ باباجی گورپال سنگھ نے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقلیتی برادری کے حقوق کے لئے کچھ کام کیاتھا تاہم کچھ مسائل اب بھی موجود ہیں جن کا حل انتہائی ضروری ہے۔ اُن کے بقول موجودہ وقت میں ضم قبائلی اضلاع سے ایک اور تین ممبران صوبے کے دیگر علاقوں سے صوبائی اسمبلی میں موجود ہیں تاہم نہ صرف ان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے بلکہ ان کو دیے جانے والے فنڈ میں بھی اضافہ کیا جائے۔ ’کرسچن کورڈینیشن کونسل‘ کے سرگرم کارکن کاشف منیر کے مطابق اقلیتوں کی مردم شماری کو جدید طریقے سے کرنا چاہیے اور اس حصے میں مختلف پہلوکو مدنظر رکھ کر لوگوں کے اعداد و شمار جمع کئے جائیں تاکہ غلطی کی کوئی گنجائش ہی نہ رہے۔ اُنہوں نے کہاکہ نادراکے ساتھ بھی اقلیتی برادری کے اعداد و شمار موجود ہیں جبکہ حکومت کو اس حوالے سے آگاہی مہم کے لئے بھی اقدمات کرنے چاہئیں۔