عصری جامعات میں تقابلِ ادیان کے کورسز کا جائزہ
پاکستان سمیت تقریبا پوری مسلم دنیا کے اندر مذہبی تعلیم میں کسی نہ کسی سطح پر دیگر ادیان بارے بھی پڑھایا جاتا ہے۔ پاکستان میں تو اسے عام طور پہ تقابلِ ادیان کا عنوان دیا جاتا ہے۔ یہ مضمون مدارس سمیت عصری جامعات کے اسلامیات کے شعبوں میں بھی شامل ہے۔ چونکہ ’تقابل‘ میں مذاہب کے معروضی مطالعے کی بجائے ایک طرح کی کشمکش کا پہلو غالب آجاتا ہے اور زیادہ زور غلط یا صحیح ثابت کرنے پر لگ جاتا ہے، لہذا اس موضوع پر بات کرنے کی ضرورت ہے کہ مذاہب بارے طلبہ کو کس طرح کی اور کس منہج پر معلومات فراہم کی جانی چاہیئں۔ اس مضمون میں مصنف نے تقابل ادیان کے عمومی نصاب کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک نئے نصاب کی تصویر بھی پیش کی ہے۔ مضمون نگار سکالر ہیں اور سیاسی اسلام پر کتب تصنیف کرچکے ہیں۔(اشاعت: تحقیقات پرنٹ)
انسان کی معلوم تہذیبی تاریخ میں مذہب ہمیشہ سے موجود رہا ہے ۔ مذہب کی تعریف، اقسام، تاریخ اور دیگر مسائل پر مفکرین کا ہمیشہ سے اختلاف رہا ہے مگر مذہب کے وجود سے کسی نے بھی انکار نہیں کیا اور نہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ البتہ مذہب کی ابتدا اور حقیقت سے متعلق دو نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ مذہب اسی وقت سے موجود ہے جب سے انسان موجود ہے اور مذہب کی ابتدا توحید سے ہوئی ہے۔ خدا نے انسان کو پیدا کیا اور پھر اس سے ہمکلام ہوا۔ یہیں سے مذہب کی ابتدا ہوئی ہے۔ یہودیت، عیسائیت اور اسلام کا نقطہ نظر یہی ہے۔ یہ نقطہ نظر سائنسی نقطہ نظر سے متصادم ہے، اسی لیے بعض مذہبی مفکرین جنہوں نے سائنسی نقطہ نظر اور مذہب میں تطبیق کی کوشش کی یہ ثابت کرنے کی شش کی ہے کہ مذہب نظریہ ارتقاء سے نہ صرف متصادم نہیں بلکہ اس کی تائید کرتا ہے۔
دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان اور باقی افکار و نظریات اور انسانی تہذیب کی طرح مذہب بھی انسان ساختہ ہے اور مذہب بھی شرک سے ابتدا کر کے ارتقائی منازل طے کرتا ہوا وحدانیت کی طرف آیا ہے۔ یہ نقطہ نظر تمام ملحد مفکرین اور اکثر سیکولر مفکرین کا ہے۔ اس نقطہ نظر کی رو سے انسان نے جلب منفعت اور دفع مضرت کی بنیاد پر کچھ بالادست اور ان دیکھی قوتوں کا عقیدہ اپنایا اور تکثیریت پسندی سے مذہب کی ابتدا ہوئی۔ اسی نقطہ نظر کو سائنسی یا ارتقائی نقطہ نظر کہا جاتا ہے۔ اس نقطہ نظر کی تفصیلات میں اختلاف ہے مگر بنیاد میں اتفاق ہے۔ علم نفسیات میں فرائڈ اور ان کے ہمنوا لوگوں کا نقطہ نظر، مارکسی نقطہ نظراور دیگر چند نظریات پائے جاتے ہیں۔
اگر ہم انسان انسان کے بنیادی اور بڑے سوالات کا جائزہ لیں تو ہم بآسانی اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مذہب در حقیقت ان سوالوں کی جواب کے تلاش کا نام ہے۔ ان میں سے کچھ سوالات کا تعلق کائنات سے کچھ کا تعلق مابعد کائنات سے اور کچھ کا تعلق خود انسان سے ہے۔ انسان بحیثیت فرد اور معاشرہ۔ ان سوالات کے جواب کے لیے اگر خالص عقل کو رہنما بنایا جائے گا تو وہ فلسفہ کہلائے گا، اگر حس ، تجربہ و مشاہدہ کو بنیاد بنیا جائے گا تو وہ سائنس ہے اور اگر اس کے لیے ان دونوں ذرائع علم کی بجائے وجدان یا داخلی تجربہ کو بنیاد بنایا جائے گا تو وہ مذہب کہلائے گا۔ جس کو مذہبی یا روحانی تجربہ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی کو مختلف زبانوں اور روایتوں میں مختلف نام دیئے گئے ہیں۔
آپ مذہب کو انسان ساختہ مانیں یا خدا کی طرف سے مانیں ہر دو صورت میں مذہب کی اہمیت مسلم ہے۔ اس میں علم و دانش کا وافر حصہ موجود ہے۔ اس لیے مطالعہ مذاہب انتہائی مفید اور دلچسپ چیز ہے۔
مطالعہ مذاہب کے مناہج ، رجحانات اور مقاصد
اس وقت مطالعہ مذاہب کے مندرجہ ذیل مناہج ،رجحانات اور مقاصد پائے جاتے ہیں۔
۱: سب سے معروف اور زیادہ رائج طریقہ وہ ہے جو اہل مذہب کے ہاں رائج ہے۔ اس طریقہ کار میں طالب علم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر صورت اپنے مذہب کی برتری کو ثابت کرے اور دیگر مذاہب کو خالص تنقیدی نظر سے دیکھے۔ دوسرے مذہب کی تنقیص اور اپنے مذہب کی برتری اس میں پیش نظر ہوتی ہے۔ عام طور پر ہمارے تعلیمی اداروں میں تقابل ادیان کے نام سے موجود شعبہ جات میں یہی طریقہ رائج اور غالب ہے۔ اور تقابل ادیان پر لکھی گئی کتابوں میں بھی یہ منہج نمایاں نظر آتا ہے۔ ہم یوں کہ سکتے ہیں اس طریقہ اور منہج میں نہ صرف اپنے مذہب کی سچائی اور دوسرے مذاہب کے باطل ہونے کا تصور غالب ہوتا ہے بلکہ اپنے مذہب کی تبلیغ بھی مقصد ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب کے مبلغین میں یہی طریقہ رائج ہے۔
۲: دوسرا منہج یا رجحان وہ ہے جس میں طالب علم اپنے مذہب پر قائم بھی رہتا ہے اور اور اس کی سچائی پر اس کا ایمان بھی ہوتا ہے مگر مطالعہ مذاہب کا مقصد مشترکات کی تلاش ہوتا ہے۔ اس میں طالب علم کا انداز کافی حد تک ہمدردانہ ہوتا ہے مگر وہ تبلیغ اپنے مذہب ہی کی کرتا ہے اور اسی کو سچائی کا واحد معیار سمجھتا ہے۔
۳: تیسرے منہج کے مطابق طالب علم کا مقصد مذاہب کے بارے میں محض مطالعہ اور جانکاری حاصل کرنا ہوتا ہے۔اس صورت میں اس کا رویہ تمام مذاہب کے لیے ہمدردانہ، معروضی اور غیر جانبدارانہ ہوتا ہے۔ وہ بلا استثنا تمام مذاہب کی تعریف و تحسین بھی کرے گا اور تنقید بھی کرے گا۔ اس تعریف اور تنقید کے لیے بھی اس کا کوئی نہ کوئی پیمانہ ضرور ہوگا۔ بغیر کسی پیمانہ یا معیار کے کسی مذہب پر تنقید یا تعریف ممکن نہیں ہے۔ اس کو ہم سیکولر اور سائنسی انداز مطالعہ کہیں گے۔ آج مغربی جامعات میں یہی طریقہ رائج ہے۔ ہمارے کچھ مذہبی دانشور بھی اس طریقہ کار کے قائل ہیں مگر وہ مطالعہ کی حد تک معروضیت کے قائل ہیں۔ کچھ مذہب پسندوں کا خیال ہے کہ ایسا انداز اختیار کرنا ممکن نہیں ہے۔
۴: مطالعہ مذہب کا ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ تمام مذاہب کو سچ مانا جائے اور سچائی کو کسی ایک مذہب میں مقید نہ سمجھا جائے اور یہ عقیدہ رکھا جائے کہ تمام مذاہب اور اس کے پیروکار ٹھیک ہیں اور خدا کے ہاں فیصلہ کا مدار کسی مذہب یا گروہ سے وابستگی کے بجائے اعمال ہیں اور مذاہب میں نظر آنے والے اختلافات کو حسن اور اختلاف فکر و نظر مانا جائے ، جہاں بہت زیادہ اور اصولی اختلاف نظر آئے وہاں تاویل کی راہ اختیار کی جائے۔ اس طریقہ کار کے قائلین کی تعداد بہت کم ہے ۔ خود مسلمانوں میں کچھ اہل علم اس نقطہ نظر کے قائل ہیں ۔
آج دنیا میں مطالعہ ادیان کے یہ تمام مناہج موجود ہیں ۔ ہر شخص اور ہر دانشور اپنے رجحان طبع اور تحقیق کے مطابق ان میں سے کوئی نہ کوئی منہج اختیار کر کے مذاہب کا مطالعہ کرتا ہے۔
مطالعہ مذاہب کے لیے ہمارا کورس
ہم نے بھی مطالعہ مذاہب کے حوالے سے ایک کورس تیار کیا ہے جو معروف کورسز سے ذرا مختلف ہے۔اس کورس کا مقصد اول تا آخر ایک ہے اور وہ یہ کہ طالب علم غیر جانبدارانہ اور معروضی انداز میں تمام مذاہب کے بارے میں جانکاری حاصل کرے ۔ یہ طالب علم پر منحصر ہے کہ وہ کسی ایک مذہب کی سچائی پر ایمان رکھتا ہے یا ایک سے زائد مذاہب کی سچائی پر یا پھر تمام ادیان کو حق اور سچ سمجھتا ہے۔ اسی لیے اس کورس میں نہ کسی مذہب پر تنقید کی گئی ہے اور نہ ہی کسی مذہب کی تعریف و توصیف کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کورس کا مقصد کسی خاص مذہب کی تبلیغ ہرگزہرگز نہیں ہے ۔ اگر کہیں کسی مذہب پر تنقید آپ کی نظر سے گزرے تو یہ کسی مصنف یا مولف کی تنقید ہوگی مرتب کی نہیں اور نہ ہی مرتب کا ان آراء میں سے کسی سے اتفاق ضروری ہے۔ ہر طالب علم اس بات میں آزاد ہوگا کہ وہ اپنے علم و فکر اور اپنے ورلڈ ویو کے مطابق اس کو پرکھے۔ آپ کا جو بھی عالمی نقطہ نظرہوگا وہ آپ کا پیمانہ ہوگا۔ چاہے وہ کوئی ایک مذہب ہو یا پھر عقل یا سائنس ۔ یہ طالب علم پر منحصر ہوگا ۔ البتہ طالب علم سے یہ امید ضرور رکھی جائے گی کہ وہ تنقید کرتے ہوئے معروضی، ہمدردانہ اور غیر جانبدارانہ منہج اختیار کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کورس سے ہمارا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے طالب علم اپنے مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب کے بارے میں ابتدائی ، مناسب اور صحیح معلومات حاصل کرے ۔ اس کورس سے نہ کوئی تمام مذاہب کا عالم بنے گا اور نہ ہی تمام مذاہب کے تمام اصولوں اور فروعات سے واقف ہونے کا دعوی کر سکے گا۔ اس کورس کا مقصد محض ابتدائی تعارف ہے تاکہ ہر طالب علم اپنے مذہب سمیت دیگر مذاہب کا مطالعہ کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پید کر سکے۔
کورس کا تعارف
اس کورس کے دو حصے ہیں ۔ حصہ اول میں اردو میں تقابل ادیان پر لکھی گئی اہم کتابوں کے مقدمے دیے گئے ہیں جن میں ان مصنفین نے مطالعہ مذاہب کے مختلف مناہج کے ذکر کے ساتھ ساتھ اپنے منہج کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مطالعہ مذاہب کی اہمیت، ضرورت اور سابقہ کاموں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ اس حصہ میں فلسفہ مذہب کے متعلق کچھ اہم مواد بھی دیا گیا ہے۔ مذہب، فلسفہ، سائنس سمیت کسی بھی مضمون کو پڑھتے ہوئے اس کی فلاسفی سے آگاہی بہت ضروری ہے۔ فلاسفی میں اس علم کی علمیات ، منہج، حدود وغیرہ سے آگاہی اگر نہ ہو تو نہایت منفی اور عجیب و غریب نتائج سامنے آتے ہیں۔
حصہ دوم میں دنیا کے تمام مذاہب سے متعلق مواد موجود ہے۔ اور فہم مذہب کے لیے ہم نے مذہب کی چار شاخیں بنائی ہیں ، ایمانیات یا عقائد، عبادات، اخلاقیات اور قانون شریعت یا فقہ۔ کوشش کی ہے کہ ہر مذہب سے یہ چاروں پہلو سامنے آجائے۔ کچھ مذاہب کے بارے میں مشہور ہے کہ اس میں ایمانیات نہیں ہیں ،کچھ کے بارے میں مشہور ہے کہ اس میں عبادات اور شریعت نہیں ہے۔ یہ تو درست ہے کہ ہر مذہب میں یہ چاروں شاخیں یکساں یا برابر نہیں ہے کہیں کسی ایک شاخ پر زیادہ تفصیل ہے کہیں کسی اور پر لیکن بحیثیت مجموعی یہ چاروں شاخیں ہر مذہب میں موجود ہیں بلکہ نہ صرف مذہب میں بلکہ کسی بھی نظام فکر میں یہ چاروں موجود ہیں۔ یہاں تک کہ الحاد میں بھی۔ شکلیں اور اصطلاحات مختلف ہو سکتی ہیں مگر حقیقت اور روح ہر جگہ موجود ہے۔ اس حصے کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہم نے ہر مذہب کے تعارف اور اس کی تفصیلات سے پہلے اس دور کی تہذیب ،ثقافت اور تاریخ بھی دی ہے تاکہ طالب علم کے سامنے ہر مذہب کی پیدائش یا وجود میں آنے سے پہلے کا معاشرتی، سیاسی، تہذیبی، لسانی اور ثقافتی پہلو بھی رہے۔ ہمارے خیال میں مذہب کا مطالعہ چاہے سیکولر نقطہ نظر سے کیا جائے یا پھر مذہبی نقطہ نظر سے، اس دور اور اس تہذیب سے کسی حد تک جانکاری بہت مفید ہے جس میں وہ مذہب وجود میں آیا ہے۔ اسی لیے ہندوستانی مذاہب کا مطالعہ کرتے ہوئے ہندی تہذیب، چین اور جاپان کے مذاہب کا مطالعہ کرتے ہوئے اس دور کی تہذیب، مشرق وسطی کے مذاہب کا مطالعہ کرتے ہوئے اس دور کی تہذیب اور حالات دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
ان دونوں حصوں میں ہماری خواہش اور کوشش تھی کہ ہر مذہب کو اس مذہب کے کسی عالم یا مفکر کی کتابوں سے ہی پیش کیا جائے مگر چونکہ یہ نصاب اوردو میں ہے اور اردو میں اگرچہ بہت اچھا کام ہوا ہے مگر ہر ہر مذہب کے علماء کی کتابیں نہیں ہیں اس لیے بہت چھان پھٹک کے بعد کوشش کی ہے کہ جو سب سے زیادہ معروضی اور غیر جانبدارنہ انداز کا مواد ہے اسی کو زامل کیا جائے۔ اس کے بعد ہماری خواہش اور پروگرام تھا کہ ہر مذہب کے بنیادی متون جو دستیاب ہیں سے بھی طالب علم کو گزارا جائے اس کے لیے بھی ہمیں ترجموں سے ہی مدد لینی تھی لیکن خواہش تھی کہ ہر مذہب کا کوئی عالم یا استاد ملے جس سے وہ متون پڑھنے کی کوشش کی جائے مگر ہمیں اس میں کامیابی نہیں ملی۔
مطالعہ مذاہب کورس درحقیقت ایک پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ ہم نے اپنے کچھ طلبہ کے لیے ایک پورا سلسلہ شروع کیا تھا جس کا مقصد ہر مذہب اور نظام فکر کو اس کے اپنے ماننے والوں سے سمجھنا تاکہ ہم ہر کسی کا نقطہ نظر انہی کے الفاظ میں سمجھ سکیں اس سے ہمارے رویوں میں رواداری پیدا ہوتی ہے، جن کو ہم لوگ غلط، گمراہ اور بھٹکے ہوئے سمجھتے ہیں ان کا موقف ان کے دلائل جب سمجھتے ہیں تو ہر ایک کے ساتھ ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں میں مختلف فرقے اور مکاتب فکر موجود ہیں ہر ایک کے اپنے دلائل ہیں جب ہم ان کو پڑھتے ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کوئی بھی دشمن اسلام، دشمن قرآن اور دشمن رسول نہیں ہے بلکہ یہ زاویہ فہم ہے جس کو مخالف فریق پتہ نہیں کیا کیا نام دیتا ہے۔ تقریب بین المذاہب والمسالک کے اس اہم کام کی ابتدا ہم نے مسلمانوں کے مختلف فرقوں سے کیا اس مقصد کے لیے ہم نے اصول تفسیر، اصول حدیث اور اصول فقہ کو اسی طرح پڑھایا تو حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ ہر طالب کا کہنا تھا کہ اب ہمیں دوسروں کے موقف اور دلائل سے آگاہی ملی اور اب کوئی بھی دشمن دین نہیں۔ ہم نے شیعہ سنی کے علاوہ اہل قرآن، سرسید، علامہ پرویز، مکتب غامدی جسے غامدی صاحب دبستان شبلی کا نام دیتے ہیں ، اسماعیلیہ اور احمدی وغیرہ اور جدید اور متنازعہ مسلم اہل دانش کے افکار اور اصول و مبادی کو اس نصاب کا حصہ بنایا تھا۔ مطالعہ مذاہب کے کورس کا مقصد بھی یہی تھا۔
عصری جامعات میں تقابل ادیان کے شعبے اور نصاب
پاکستان کی چند یونیورسٹیوں میں تقابل ادیا ن کا شعبہ موجود ہے۔ اور ان تمام یونیورسٹیوں میں یہ شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے ماتحت آتا ہے۔ ان یونیورسٹیوں میں بی ایس چار سالہ پروگرام، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ہیں۔ باقی یونیورسٹیوں میں اسلامیات کی ڈگری میں ایک لازمی یا اختیاری مضمون کے طور پر یہ مضمون شامل ہے۔ جن یونیورسٹیوں میں مطالعہ مذاہب کے لیے باقاعدہ شعبہ موجود ہے اس میں ہمارے خیال میں سب سے پرانا شعبہ سندھ یونیورسٹی کا ہے۔ ہماری بدقسمتی کہ ہمیں سندھ یونیورسٹی کا مکمل نصاب نہیں مل سکا۔ وہاں اس شعبہ کو جاننے والے اس کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ سندھ یونیورسٹی میں یہ شعبہ Department of Comparative Religion & Islamic Culture کے نام سے موجود ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں بھی تقابل ادیان کا شعبہ موجود ہے اور اس شعبے کا نام بھی Department of Comparative Religion ہے۔ یہاں کا نصاب دیکھنے میں نہایت عمدہ لگا ہے، پورے پاکستان میں اس یونیورسٹی کی ڈگری کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلامک یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز میں بی ایس چار سالہ پروگرام، ایم ایس اور پی ایچ ڈی ہے۔ بی ایس چار سالہ پروگرام میں آٹھ سمسٹر ہوتے ہیں اور آخری دو سمسٹر زتخصص پر مبنی ہوتا ہے۔ اس کے بعد کے بعد ایم ایس یا ایم فل میں آپ اسی شعبہ میں ایم فل یا پی ایچ ڈی کریں گے جس میں آپ نے بی ایس کے آخری دو سمسٹر میں تخصص کیا تھا۔ بی ایس کے ۶ سمسٹر میں اسلامک اسٹڈیز کا نصاب یکساں ہے اور سب کو یہی مضامین پڑھنے ہوں گے۔ سات اور آٹھ تخصص کا ہے ۔فیکلٹی آف أصول الدین یا اسلامک اسٹڈیز میں تقابل ادیان کے ساتھ شعبہ تفسیر و علوم القرآن، حدیث و علوم الحدیث، دعوہ و اسلامک کلچر،عقیدہ و فلسفہ اور سیرت و تاریخ کے شعبے بھی ہیں جن میں تخصص کی ڈگری دی جاتی ہے۔ ان تما م شعبوں میں بھی وہی طریقہ ہے جو شعبہ تقابل ادیان کا ہے۔
اسی طرح اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بھی تقابل ادیان کا شعبہ ہے، جسے Department of World Religions and Interfaith Harmony کا نام دیا گیا ہے اور یہ ۲۰۲۰ میں قائم ہوا ہے۔ اس شعبے کا نصاب بھی دیکھنے میں اچھا لگ رہا ہے۔ یہ بھی فیکلٹی آف اسلامک اینڈ عربک اسٹڈیز ہی کے تحت ایک شعبہ ہے۔ اس میں اسلامیات کے مضامین کے بعد تخصص کے لیے یہ مضمون موجود ہے۔ اس فیکلٹی میں مطالعہ مذاہب کے ساتھ ساتھ عربی، اسلامک اسٹڈیز، مطالعہ قرآن، شعبہ ترجمہ، شعبہ حدیث اور فقہ و شریعت کے شعبے بھی ہیں۔
وفاقی اردو یونیورسٹی کا شعبہ ادیان بھی لائق توجہ ہے۔ یہاں بھی فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز کے تحت یہ شعبہ ہے اور اسے Department Of World Religions کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز کے تحت شعبہ اسلامک لرننگ، شعبہ مذاہب عالم اور شعبہ قرآن و سنت ہیں۔ اردو یونیورسٹی کا شعبہ مذاہب عالم اور اس کا نصاب بھی دیکھنے میں بہت اچھا ہے۔
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد کا نصاب
۱: بی ایس اسلامک اسٹڈیز میں مطالعہ مذہب سے متعلق مواد۔ چوتھے سمسٹر میں ایک مضمون شامل ہے۔ المدخل الی ادیان العالم[Introduction to World Religions] ساتویں سمسٹر میں ایک مضمون ہے، جس کا عنوان تاریخ دراسۃ الادیان [ History of Study of Religions] ہے۔ اس کے بعد ساتوں اور آٹھواں سمسٹر تخصص کا ہے اور یہ تخصص جیسا کہ آپ کو بتایا گیا ہے یہ چھ مضامین میں ہوتا ہے اس طرح یہ کل ۶ شعبے بنتے ہیں۔
بی ایس اسلامک اسٹڈیز چار سالہ پروگرام کے آخری دو سمسٹر جو تقابل ادیان میں تخصص کرنے والوں کے لیے مرتب کیا گیا ہے۔
ساتواں سمسٹر:علم الکلام، المقدمات والالہیات، الفلسفۃ الغربیۃ الحدیثۃ، الرؤیۃ القرآنیۃ للادیان، الہندوسیۃ والسیخیۃ، الھودیۃ، ادیان اقصی الشرق۔
آٹھواں سمسٹر:البوذیۃ والجینیۃ، موضوعات فی مقارنۃ الادیان ۱، دراسۃ النصوص لدی المسلمین والغربیین فی الدین والفلسفۃ والتصوف،موضوعات فی مقارنۃ الادیان ۲۔
ایم فل تقابل ادیان: ایم فل میں دو سمسٹر کورس ورک پر مشتمل ہے اس کے بعد مقالہ لکھا جاتا ہے۔ تقابل ادیان کا کورس ورک ملاحظہ کریں۔
پہلا سمسٹر:
۱لدراسات النقدیۃ الغربیۃ للیھودیۃ والنصرانیۃ، مقارنۃ الادیان(۱) الکوسمولوجیافی الادیان، مقارنۃ الادیان(۲)فلسفۃ الدین، دراسۃ لغۃ الاجنبیۃ۔
دوسرا سمسٹر:
التصوف المقارن، مقارنۃ الادیان(۳)الدین فی العصر الحاضر، علم الاجتماع الدینی، میاہج لدراسۃ الادیان، دراسۃ لغۃ اجنبیۃ۔
اس کے بعد پی ایچ ڈی ہے جس میں دو سمسٹر کورس ورک ہے پھر مقالہ ہے۔ ان دو سمسٹرز میں مندرجہ ذیل مضامین پڑھائے جاتے ہیں:
پہلا سمسٹر:
- Major Themes in Judaism and islam
- Major Themes in Christianity and islam
- Science, Philosophy and Religion
- Specialized Language 1
دوسرا سمسٹر:
- Research Methodology
- Seminar 1[ Major Themes in Hinduism and islam]
- Seminar 2[ Major Themes in Buddhism and islam]
- Specialized Language 2
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا نصاب
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بھی بی ایس اسلامک اسٹڈیز بمعہ تخصص چار سالہ پروگرام ہے ۔ ساتواں اور آٹھواں سمسٹر تخصص پر مبنی ہے۔ یہاں تخصص مطالعہ مذاہب کا کورس ملاحظہ فرمائیں:
ساتویں سمسٹر کا نصاب:
- Muslims’ Contribution to the Study of Religions (مطالعہ مذاہب میں مسلمانوں کی خدمات)
- Study of Judaism (مطالعہ یہودیت)
- Study of Hinduism (مطالعہ ہندومت)
- Study of Sikhism (مطالعہ سکھ مت)
- Research Methodology(G-11)اسالیبِ تحقیق
آٹھویں سمسٹر کا نصاب:
- Interfaith Dialogue and Harmony (بین المذاہب مکالمہ وہم آہنگی)
- Study of Christianity (مطالعہ عیسائیت)
- Study of Buddhism and Jainism (مطالعہ بدھ مت و جین مت)
- Study of Far Eastern Religions (مطالعہ مذاہب مشرق بعید)
- Thesis / Research Project مقالہ))
وفاقی اردو یونیورسٹی میں مطالعہ مذاہب
وفاقی اردو یونیورسٹی کا نصاب ان سب میں سب سے زیادہ بہتر اور متاثر کن ہے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی مطالعہ ادیان عالم میں تین ڈگریاں پیش کرتی ہے۔
- بی ایس چار سالہ پروگرام آٹھ سمسٹرز
- ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام، سمسٹر اول تا چہارم
- بی ایس دو سالہ پروگرام، سمستر پنجم تا ہشتم
ہر سمسٹر میں پڑھایا جانے والا نصاب ملاحظہ کیجیے۔ یاد رہے کہ یہاں مکمل کورس نہیں دیا جا رہا بلکہ مطالعہ مذاہب سے متعلقہ مضامین ہی پیش خدمت ہیں۔
- سمسٹر اول: تعارف ادیان عالم
- سمسٹر دوم: مذہب۔
- مطالعہ مذاہب
- سمسٹر سوم: فلسفہ
- تاریخ تہذیب و تمدن
- سمسٹر چہارم: سماجیات مذہب
- اسلام
- سمسٹر پنجم: نفسیات مذہب
- علم الکلام
- مطالعہ استشراق
- ہندو مت
- بدھ مت
- سمسٹر ششم: قدیم اساطیر
- غیر سامی اقلیتی مذاہب
- یہودیت
- عیسائیت
- اسلام اور غیر سامی مذاہب
- سمسٹر ہفتم: متون مقدسہ کا مطالعہ اولاسلام اور سامی مذاہب
- روحانیت و تصوف
- جدیدیت، الحاد اور اسلام
- عربی ، اول
- عبرانی، اول
- سنسکرت، اول
- سمسٹر ہشتم: متون مقدسہ کا مطالعہ، دوم
- اسلام اور علوم جدیدہ
- عربی دوم
- عبرانی دوم
- سنسکرت دوم
- دعوت دین اور اس کے اسالیب
- جدید مذہبی تحریکیں
- بین المذاہب ہم آہنگی
خلاصہ بحث
ان تمام یونیورسٹیوں میں سے بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی اور اردو یونیورسٹی کے شعبوں کے نام میں تقابل کا لفظ نہیں ہے جبکہ بقیہ یونیورسٹیوں میں تقابل کا لفظ ہے۔ اسی طرح بی ایس اسلامک اسٹڈیز میں جن یونیورسٹیوں میں یہ مضمون پڑھیا جاتا ہے وہاں بھی یہ تقابل ادیان ہی کے عنوان سے پڑھایا جاتا ہے۔ ہمارے طالبعلمانہ خیال میں تقابل ادیان اور مطالعہ ادیان کے نام کے فرق سے مقاصد اور مناہج کے فرق واضح ہوتا ہے۔ جب آپ تقابل کی بات کرتے ہیں تو آپ لازما ہر صورت میں اپنے مذہب کی سچائی اور دیگر مذاہب کے ابطال کی بات کریں گے پھر چونکہ آپ کو اپنے مذہب کی تبلیغ کا بھی ایک مذہبی ذمہ داری کے طور پر ذہن میں ہوتا ہے بلکہ آپ کے عقیدے کا حصہ ہوتا ہے اس لیے آپ ہر صورت اسی کی تبلیغ کریں گے۔ جبکہ مطالعہ مذاہب میں آپ کا کام اپنے طلبہ کو مختلف مذاہب سے آگاہی دینا ہوتا ہے اور یہ فیصلہ طالب علم پر چھوڑا جاتا ہے کہ وہ جس مذہب کو اپنی تحقیق سے سچا اور ردست مانے یہ اس کی ذمہ داری ہے، اس لیے اس میں بہر حال آپ کا مقصد کسی ایک مذہب کی سچائی اور اس کی تبلیغ کرنا نہیں ہوتا۔ ہمارے کچھ دوستوں کو اس سے اتفاق نہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ تو استاد پر ہے وہ ایک غیر جانبدار محقق بنتا ہے یا پھر ایک مذہبی مبلغ۔ ہو سکتا ہے مطالعہ مذاہب پڑھانے والا استاد ایک مذہبی مبلغ ہو اور ایک تقابل ادیان پڑھانے والا استاد ایک غیر جانبدارنہ محقق ہو ۔ اس بات میں سچائی موجود ہے اور اس کا بالکل امکان ہے مگر اس نام سے نصاب میں کافی فرق پڑتا ہے اس کے لیے آپ اردو یونیورسٹی کا نصاب اور اسلامک یونیورسٹی کا نصاب دیکھ لیں۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میری مادر علمی ہے اور وہاں کے قابل اساتذہ یقینا مذاہب کی تدریس اسی طرح کرتے ہوں گے جس کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں ۔ اسی لیے ہم نے بارہا یہ سنا ہے کہ وہاں کے دیگر ڈیپارٹمنٹ کے اساتذہ میں سے کچھ کو اس ڈیپارٹمنت سے سخت شکایت ہے کہ یہاں سے پڑھنے والے طلبہ صرف اسلام کی بجائے تمام مذاہب کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں اور اسلام کی تبلیغ میں سرگرم عمل ہونے کے بجائے تفہیم مذاہب اور دیگر مذاہب کی تعریف و توصیف میں مگن ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ نہایت خوش آئند بات ہے۔
ہم نے جو نصاب ترتیب دیا تھا اس کا مقصد جیسا کہ بتایا گیا ہے تمام مذاہب کا ہمدردانہ اور غیر جانبدارانہ مطالعہ اور ان مذاہب سے جانکاری حاصل کرنا تھا اس کے بعد طالب علم کسی بھی مذہب کا پیروکار بن جائے یامنکر یا پھر ملحد بن جائے ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ جو بھی بنے بس دلیل اور دیانتدارانہ تحقیق کے بعد بنے۔ جن کچھ طلبہ نے یہ نصاب پڑھا انہوں نے اس سے بھرپور استفادہ کیا اور دیگر مذاہب کے متعلق ان کے جو منفی تاثرات تھے وہ زائل ہو گئے۔ یہ نصاب چونکہ فرد واحد کا تیار کردہ تھا اور یہ مختلف کتابوں کے مواد سے تیار کیا گیا تھا اس لیے یہ کافی طویل بھی تھا اور بہت زیادہ مثالی بھی نہیں تھا۔ کوشش اور خواہش ہے کہ انسانوں میں وحدت، اتحاد، پیار و محبت، رواداری اور تحمل پیدا کرنے کے لیے نہ صرف مختلف مذاہب بلکہ مختلف نظریات سے متعلق بھی ایسا نصاب مرتب کیا جائے۔