مدرسہ رجسٹریشن پر مولانا فضل الرحمن کا موقف

0

از جلال الدین ایڈوکیٹ

جمعیت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن صاحب نے مدرسہ رجسٹریشن کے حوالے سے اپنے موقف کی تفصیلی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ

دینی مدارس کے رجسٹریشن کے حوالے سے جو بحث چل رہی ہے اس سلسلے میں کچھ نکات میں وضاحت کے لیے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہماری جو شکایت ہے وہ صرف ایوان صدر سے اور صدر مملکت سے ہے نہ کسی مدرسے سے ہے نہ مدرسوں کی کسی تنظیم سے ہے نہ ان سے وابستہ علمائے کرام سے ہے بلا وجہ خلط بحث کیا گیا، معاملے کو ایسا گمبھیر کیا گیا کہ اچھے بھلے دانشور لوگ بھی حیران ہیں کہ یہ مسئلہ کیا ہے۔ مسئلہ دو جمع دو چار کی طرح سادہ ہے، اسے غیر ضروری طور پر گمبھیر بنانا اس میں کیا فائدہ ہے ان لوگوں کو جنہوں نے ایسے حرکت کی، مجھے سمجھ میں نہیں آرہی۔ دینی مدارس کے رجسٹریشن کے حوالے سے یا ان کی بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے حکومت نے ڈرافٹ تیار کیا جب 26 ویں آئینی ترمیم پر گفتگو چل رہی تھی اس دوران اسی بل پر گفتگو چل رہی تھی اور ہم نے ڈیمانڈ کیا تھا کہ الیکشن سے پہلے میاں شہباز شریف صاحب کی حکومت میں جو ڈرافٹ اسمبلی میں لایا گیا تھا اور پاس نہیں ہو سکا تھا اسے بھی پاس کیا جائے۔ چنانچہ پہلے سینٹ میں آیا اور اتفاق رائے سے پاس کر دیا گیا۔ اس کے بعد قوم اسمبلی میں آیا اور یہ کاروائی 20 اور 21 اکتوبر کو صبح تک مکمل ہو گئی۔ جب آئینی ترمیم پر بھی دستخط ہو گئے تو پھر اس بل پر دستخط کیوں روکے گئے۔

یہاں میں دو باتیں کرنا چاہتا ہوں پہلی بات یہ کہ سیاسی جماعتیں جس میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین جس کے سربراہ خود جناب آصف علی زرداری صاحب ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو صاحب جہاں اسلام آباد میں باتیں ہوتی رہیں وہاں میں خود بلاول ہاؤس کراچی گیا وہاں پانچ گھنٹے ان سے بات چیت ہوئی۔ وہاں سے ہم لاہور آئے رائیونڈ میں میاں نواز شریف صاحب کے گھر پر آصف علی زرداری صاحب کی موجودگی میں بلاول بھٹو صاحب کی موجودگی میں میاں شہباز شریف صاحب کی موجودگی میں ہم نے ان تمام چیزوں پر اتفاق رائے کیا۔ وزارت قانون نے اس کا ڈرافٹ تیار کیا اور ہم نے اس ڈرافٹ کو قبول کر لیا۔ جس ڈرافٹ کی تیاری میں حکومت کی طرف سے پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں شریک تھی اور ہم نے انہی کے ڈرافٹ کو تسلیم کیا اور قبول کیا ہے اس کے بعد آصف علی زرداری صاحب کو اس پر اعتراض کرنے کی کیا گنجائش تھی۔ ایک بات، دوسری بات یہ کہ یہ سب کچھ جو ہو رہا تھا کیا ریاستی ادارے اس میں انگیج نہیں تھے۔ کیا وہ پل پل کی صورتحال میں اپنا ان فٹ نہیں دے رہے تھے۔ کیا اس تمام تر مراحل میں وہ شریک نہیں تھے۔ اور ایک ایک لفظ چاہے 26ویں آئینی ترمیم کا ہو یا دینی مدارس کے حوالے سے اس بل کا ہو کہ سوسائٹی ایکٹ کے تحت یعنی سن 1860 کی سوسائٹی ایکٹ کے تحت اس میں ترمیم کی گئی اور ترمیم کے ساتھ اس کو ہم نے قبول کیا اور وہ پاس ہو گیا۔ اب جن لوگوں نے ہمارے ہی ان علماء کرام کو یا ہماری وہ مدارس کی تنظیمیں جو وزارت تعلیم کے ڈائریکٹریٹ جنرل سے وابستہ رجسٹریشن کر رہے ہیں یا کر چکے ہیں اس کا سارا نزلہ ہم پر کیوں گر رہا ہے۔ وفاق المدارس اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے ساتھ تنازعہ کیوں اٹھا رہے ہیں۔ ہمارا تو ان سے جھگڑا ہی نہیں ہے اور جنہوں نے ڈرافٹ تیار کیا ان کے کہنے پر آکر وہ شور و غوغا کر رہے ہیں اور وزارت تعلیم سے وابستہ ہو جائیں یا سوسائٹی ایکٹ سے وابستہ ہو جائیں نیا سوال اٹھا لیا انہوں نے، الیکشن سے پہلے بھی اگر ڈرافٹ تیار ہوا تھا تو وہ بھی تو سرکار نے بنایا تھا اور سرکار کے ڈرافٹ کو ہم نے قبول کیا تھا جس میں ہم نے یہ رعایت ضرور دی ہے اس وقت کہ اگر سوسائٹی ایکٹ سے کوئی وابستہ ہونا چاہے رجسٹریشن کے لیے یا وزارت تعلیم کے ڈائریکٹریٹ جنرل سے وابستہ ہونا چاہیے۔ تو اگرچہ ہمیں تحفظات ہیں کہ مدارس کے نئے وفاق کیوں بنائے گئے نئی تنظیمیں کیوں سامنے آگئی، اس کو کس نے توڑا ہے، کیا مدارس کی ان تنظیموں کو تقسیم کرنے میں اداروں کا ہاتھ نہیں تھا، اور جس نے یہ تقسیم کی تھی وہ باقی تمام معاملات میں مجرم تھا اور اس حوالے سے وہ صحیح تھا اور اس کو تسلسل دے رہا ہے انہوں نے، تو میں تو علماء کرام کی خدمت میں بھی گزارش کروں گا کہ جن لوگوں نے آپ کو بلایا، جنہوں نے آپ کو اکسایا، جن کے اشاروں پر آپ ایک محاذ اٹھا کر یہی تو ذمہ دار ہے اس ڈرافٹ بنانے کے، اب کس کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ کس کے ساتھ آپ لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ہمارا آپس میں نہ کوئی جھگڑا ہے، نہ ہم آپ کے خلاف فریق ہے۔ ڈرافٹ بھی انہوں نے بنایا وہ والا بھی انہوں نے بنایا تھا سو ہم نے تحفظات کے باوجود قبول کیا اور یہ بھی انہوں نے بنایا تھا سو آپ کا کیس ہمارا کیس نہیں ہے۔ آپ کیوں ہم سے الگ ہوئے۔ آپ نے مدارس کی تنظیم کو کیوں توڑا۔ اب الگ سے ایک اور بورڈ میں کیوں چلے گئے اور وہ جو ڈائریکٹریٹ جنرل برائے مذہبی تعلیم یہ تو ایک معاہدے کے تحت ہوا تھا۔ اور پھر اگر ڈائریکٹریٹ جنرل بنا ہے تو وہ ایگزیکٹو آرڈر سے بنا ہے۔ کہاں ایگزیکٹو آرڈر کہاں معاہدے کی ایک تحریر اور کہاں ایک ایکٹ، سو ہم ایک قانون کے ساتھ وابستہ ہونا چاہتے ہیں۔ اس ملک کی قانون کے ساتھ کہ جس میں بے شمار رفاہی تنظیمیں، این جی اوز یہاں تک کہ تعلیمی ادارے سن 1860 سے آج تک اسی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے رہے ہیں اور صرف رجسٹریشن کے لیے کچھ یہ وزارت خاص کی گئی تھی۔ سو پاکستان بننے سے پہلے بھی اسی کے ساتھ رجسٹریشن ہوتی تھی پاکستان بننے کے بعد بھی آج تک ہو رہی تھی۔ آج تک کیوں اعتراض نہیں ہو رہا تھا کہ دینی مدارس تو تعلیمی ادارے ہیں تو پھر جو دوسرے تعلیمی ادارے ہیں وہ بھی تعلیمی ادارے ہیں۔ وہ اس سوسائٹی ایکٹ کے تحت کیوں رجسٹرڈ ہیں۔ صرف دینی مدارس کے لیے یہ سوال کیوں پیدا کیا جا رہا ہے اور پھر اگر وہ معاہدہ ہم معاہدے کی اہمیت کا انکار نہیں کرتے، معاہدہ اپنی جگہ معاہدہ ہوتا ہے لیکن ایکٹ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ آج تم ایکٹ لائے ہو، ایکٹ میں آپ ترمیم لائے ہیں، اس کو ہم نے قبول کیا ہے اور وہ جو معاہدہ تھا اس کو آپ نے توڑا ہے۔ اس میں آپ نے لکھا تھا کہ جن مدارس کے رجسٹریشن ہو چکی ہے وہ برقرار رکھی جائے گی مزید جو مدارس رجسٹر ہونا چاہیں گے حکومت تعاون کرے گی۔ اس میں لکھا ہے کہ تمام مدارس کے اکاؤنٹس بینک اکاؤنٹس کھول دیے جائیں گے۔ اس میں لکھا ہے کہ تمام جو بیرون ملک طلباء ہیں اور پاکستان میں پڑھنا چاہتے ہیں ان کو نو سال کا ویزہ دیا جائے گا۔ ہمیں بتائیں نا اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے ساتھ وابستہ کسی ایک مدرسے کی بینک اکاؤنٹ کھلا ہے۔ کسی ایک مدرسے کی رجسٹریشن ہوئی ہے۔ کسی ایک مدرسے کے لیے بیرونی طالب علم کو ایک ویزہ دیا گیا ہے۔ تین شقیں ہیں اس کی اور تینوں کے خلاف ورزی اب تک ایسی ہوئی ہے کہ آدمی حیران ہوتا ہے کہ مجرم وہ اور بڑی ہوشیاری کے ساتھ ہمیں کہہ دیا گیا کہ آپ تو غلطی کر رہے ہیں۔

سو میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے کوئی غلطی نہیں کی، ہمارا ذمہ دار تو ایوان صدر ہے۔ ایوان صدر کے بارے میں بھی وضاحت کر دینا چاہتا ہوں ہمارے پاس پورا ریکارڈ موجود ہے ہم دستاویزی بات کرتے ہیں۔ کیا صدر مملکت ایک ایکٹ کے اوپر یا ایک آئینی ترمیم کے اوپر جو پارلیمنٹ سے پاس ہو جائے دو بار اعتراض بھیج سکتا ہے۔ جو اعتراض انہوں نے آٹھ نکات پر مشتمل بھیجا ہے کیا اس سے قبل وہ ایک نقطے پر مبنی قلمی غلطی کی بنیاد پر وہ اعتراض بھیج نہیں چکا، کیا رولز کے تحت اس کو دوبارہ اعتراض پارلیمنٹ میں بھیجنے کا آئینی قانونی حق ہے؟ سو ایک اعتراض اس سے قبل وہ بھیج چکا ہے اور سپیکر صاحب نے اس کی اصلاح کر کے اس پر دستخط کر کے واپس کیے ہیں۔ چیئرمین سینٹ جو قائم مقام تھے اس وقت انہوں نے اس پر اصلاح کر کے اس میں دستخط کر کے ایوان صدر کو واپس بھیجے ہیں۔ پھر اس کے بعد اس پر دستخط کیوں نہیں کیے جا رہے۔ اور اگر دس دن تک اس پہ دستخط نہیں ہوتے تو کیا وہ خود بخود ایک ایکٹ نہیں بن جاتا! ہمیں بتایا جائے کہ بیس اور اکیس اکتوبر کو پاس ہونے والا بل اس پر جو اعتراضات بھیجے گئے ہیں وہ تو ڈیڑھ مہینے کے بعد بھیجے گئے ہیں۔ اب کیا ایوان صدر اور پارلیمنٹ یا ایوان صدر یا لاء منسٹری اس میں تو جو چیزیں جاتی رہتی ہیں وہ تو چند منٹوں میں پہنچ جاتی ہیں۔ ڈیسپیچ فوراً چلا جاتا ہے۔ ڈیڑھ مہینے تک کس ڈاک میں پڑا رہا، بیک ڈیٹ میں دستخط کرکے آپ جھوٹ چھپا سکیں گے پھر، لہٰذا ہمارا دعویٰ ہے کہ ایکٹ بن چکا ہے، صدر نے ایک اعتراض بھیج دیا ہے۔ اس کے بعد اگر اس نے آئینی مدت کے اندر اندر اس پر دستخط نہیں کئے تو حکومت نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں اس کا گزٹ کرنے کے لیے اور صدر عارف علوی انہوں نے جو دستخط نہیں کیے تو کیا اس وقت حکومت نے اس پر باقاعدہ نوٹیفکیشن نہیں کیا۔ اس ایکٹ کا گزٹ نہیں کیا انہوں نے، یہ کیا چیزیں ہیں جو ریاست، ریاستی ادارے حکمران، ذمہ دار ملک بحرانوں کی طرف دھکیلتے ہیں۔ ہم نے تو اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم تو ملک میں جو بھی کام کرنا چاہتے ہیں ایک ایکٹ کے تحت کرنا چاہتے ہیں۔ کسی معاہدے کے محتاج ہم کیوں ہوں۔ اور پھر بنایا بھی حکومت نے ہے اور ان علماء کو برانگیختہ بھی حکومت والے کر رہے ہیں۔ بنایا بھی ادارے کے لوگوں نے ہے اور ان علماء کرام اور تنظیموں کو برانگیختہ بھی یہی لوگ کر رہے ہیں۔ اور یہ ان کے کہنے پر بندے برانگیختہ ہو بھی جاتے ہیں۔ اس سادگی پہ میں کیا کروں۔

لہذا ہماری پوزیشن بالکل واضح ہے دو جمع دو چار کی طرح اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایکٹ پاس ہو چکا ہے اس کا نوٹیفکیشن فوراً ہونا چاہیے۔ اور میری تجویز ہوگی اتحاد مدارس دینیہ کو بھی جس کا اجلاس 16 دسمبر کو ہو رہا ہے کہ اس پر ہمیں اگر کورٹ کو بھی رجوع کرنا پڑے تو ہم جائیں گے ان کے ساتھ، ہمیں جانا چاہیے۔ لیکن میں فیصلہ اس لیے نہیں کہہ رہا اس وقت کہ الریڈی اجلاس بلایا جا چکا ہے۔ تو ان کی مشاورت سے یہ ساری باتیں ہونی چاہیے۔ لیکن میں یہ موقف واضح کرنا چاہتا تھا کہ تنازعہ کسی اور جگہ پر ہے شور کہی اور مچ رہا ہے۔

لہذا اس چیز کو کلیئر ہونا چاہیے بلا وجہ یہ مسئلے پیدا کرنا کہ مدارس تو تعلیمی ادارے ہیں تو تعلیمی اداروں کو تو وزارت تعلیم کے ساتھ تو کتنے تعلیمی ادارے ہیں جو آپ کے ملک میں ہیں اور اس کے ساتھ کیوں نہیں ہو رہا، اور آج تک کیوں نہیں ہوتا رہا اس کے اوپر، ایک وزارت بنائی ہی اسی لیے گئی تھی اس کی ذمہ داری قرار دے دی گئی تھی کہ جتنے بھی پرائیویٹ ادارے رجسٹر ہوں گے وہ آپ کی وزارت کے تحت ہوں گے۔ انہوں نے ڈائریکٹریٹ نہیں بنایا ہمارے لیے، ڈائریکٹ بنانا مدارس کے اندر مداخلت اور مدارس آزاد رہنا چاہتی ہے۔ کیونکہ ہم نے تجربہ کیا ہے پاکستان کی تاریخ میں کہ جتنے مدارس میں اگر حکومت مداخلت کی ہے یا حکومت نے اپنی تحویل میں لیا ہے آج جو مدرسہ نہیں رہا ہے۔ سندھ میں دو مدرسے ہیں وہ سکول ہیں اور کالج ہیں۔ بہاولپور کا آج وہ اسلامیہ کالج بن گیا جس میں کسی زمانے میں بڑے بڑے علماء کرام حدیث و قرآن پڑھایا کرتے تھے۔ پشاور کا دارالعلوم الاسلامیہ کے بعد اسلامیہ کالج بن گیا اور آج وہ اسلامیہ کالج ہے عام کالجوں کی طرح، کہاں گیا دینی تعلیم وہاں پر، تو سرکار نے تو جو ادارے اپنے ہاتھ میں لیے ہے اور ان کے زیر اثر تھے اس میں دینی علوم ختم کر دیے تھے جو جاری بھی تھے پہلے، اور ہم ان پر اعتماد کرے! تو مدارس میں وہ جس طرح مداخلت کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں اور کسی طریقے سے اس میں گھسنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لہذا اگر ہمیں آپ کوئی معاہدے یاد دلانا چاہتے ہیں تو یہ جو ابھی معاہدہ ہوا جس میں 26ویں ترمیم پاس ہوئی ہے اس میں یہ بھی شامل ہے۔ تو سب سے بڑی مخالفت تو آپ کر رہے ہیں ایکٹ کی مخالفت کر رہے ہیں آپ، ترمیم کی مخالفت کر رہے ہیں، پارلیمنٹ کی مخالفت کر رہے ہیں، اور جو پارٹیاں ہے اس کی تدوین میں ہمارے ساتھ موجود تھیں وہ کیا بہانہ بنائیں گی اور جو ادارے اس پہ ان فٹ دے رہے تھے اور ہمارے ساتھ انگیج تھے اس حوالے سے وہ کیا جواب دیں گے ہمیں، تو کب تم پر یہ راز کھلا، انکار سے پہلے یا کے بعد، ذرا اپنے سے سوال کرے یہ لوگ، اور ہمارے علماء کرام بھی ذرا تھوڑا سا دانشمندی کا مظاہرہ کریں کہ جنہوں نے بل بنایا ہے وہی آپ کو اکسارہے ہیں اور اس کو متنازعہ بنانے کے لیے آپ کو ابھار رہے ہیں۔ تو یہ چیز تھی جس پر میں آپ حضرات سے کچھ بات کرنا چاہتا تھا تاکہ شاید کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کی ڈیرہ اسماعیل خان میں اہم پریس کانفرنس