بنگلہ دیش میں دینی تعلیم دینے والے مدارس کی تعداد اس وقت اٹھارہ ہزار سے زائد ہے جن میں ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ طلبہ اور طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں ساڑھے چھ ہزار مدارس وہ ہیں جو عوامی چندہ سے چلتے ہیں، ان مدارس کی تعداد بھی کم و بیش اتنی ہی ہے جنہیں حکومت کی طرف سے امداد دی جاتی ہے جو مختلف مدارج میں اخراجات کے اسی فیصد تک بھی جا پہنچتی ہے، جبکہ کچھ دینی مدارس ایسے ہیں جو صرف حکومت کے خرچہ پر قائم ہیں۔یوں تو بنگلہ دیش میں برصغیر کا روایتی مذہبی نظام تعلیم غالب ہے جیسے پاکستان اور بھارت میں، مگر بنگلہ دیش ماڈل کی کچھ خصوصیات ایسی بھی ہیں جو منفرد ہیں۔ اس مضمون میں ان خصائص کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔
بنگلہ دیش میں دینی تعلیم اور مدارس
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرحمان کی حکومت نے ان دینی مدارس کو بند کرنے کا پروگرام بنایا تھا، ان مدارس پر الزام تھا کہ انہوں نے پاکستان کی حمایت کی ہے اور ان سے فارغ ہونے والے علماء بنگلہ قومیت کی بجائے اسلام کی بات کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ایک کمیشن قائم کیا گیا جس نے رپورٹ میں یہ سفارش کی کہ ان مدارس کو بند کر دیا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی مجیب حکومت نے ایک عوامی سروے کا بھی اہتمام کیا جس کی رپورٹ حیران کن تھی کیونکہ اس کے مطابق ملک کے نوے فیصد عوام نے جن میں جدید پڑھے لکھے حضرات کی اکثریت تھی دینی مدارس کو بند کر دینے کی تجویز کی سختی کے ساتھ مخالفت کی تھی اور حکومت سے کہا تھا کہ وہ دینی مدارس کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہ کرے۔ اس سلسلہ میں بنگلہ دیش کے عوامی حلقوں میں یہ روایت بھی مشہور ہے کہ اسی دوران ایک روز مولانا عبد الحمید بھاشانی نے شیخ مجیب الرحمان کی گاڑی کو ایک سڑک پر جاتے ہوئے راستہ میں رکوا کر ان سے کہا کہ آپ کی بہت سی باتیں برداشت کرتا رہا ہوں اور اب بھی کر رہا ہوں مگر دینی مدارس بند کرنے کی بات برداشت نہیں کروں گا اور اگر اس سلسلہ میں کوئی قدم اٹھایا گیا تو اس کی مزاحمت کے لیے میں خود میدان میں آؤں گا۔ چنانچہ شیخ مجیب الرحمان نے دینی مدارس پر ہاتھ ڈالنے کا ارادہ ترک کر دیا اور بنگلہ دیش میں دینی مدارس پوری آزادی اور پہلے سے زیادہ وسعت کے ساتھ دینی خدمات میں مصروف ہیں۔[1]
مدارس کے امور میں حکومت کا عمل دخل
بنگلہ دیش کےمدارس کی اکثریت جن میں ملک کے نمائندہ مدارس شامل ہیں؛ دیوبندی مکتب فکرسےتعلق رکھتی ہے۔’’سلہٹ‘‘ میں مولانا حسین احمد مدنی سے ارادت وعقیدت رکھنے والوں کی بڑی تعداد ہے۔ یہاں دو طرح کے مدارس پائے جاتے ہیں: قومی مدارس اورعالیہ مدارس۔ قومی مدارس ہندوستان کی طرز کے پرائیویٹ اورعوامی چندوں سے چلنے والے مدارس ہیں ۔جب کہ عالیہ مدارس کو حکومت امداد فراہم کرتی ہے۔ تقریباً تمام ہی قومی مدارس دیوبندی مکتب فکرسےتعلق رکھتےہیں۔ بریلوی اوراہل حدیث مکتب فکرسے تعلق رکھنے والےافراد زیادہ ترعالیہ مدارس سے وابستہ ہیں۔عالیہ مدارس پر حکومت بے تحاشا خرچ کرتی ہے تاکہ ان کے فضلاء کومین اسٹریم میں لایا جا سکے۔ ان کےفاضلین کی اکثریت کوسرکاری ملازمت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں قومی مدارس کے ذمہ داران کسی بھی صورت میں حکومت سےامداد لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس کی وجہ وہی اندیشہ ہے کہ اس سےان کی خودمختاری حکومتی زد میں آجائے گی اورحکومت کو ان کے معاملات میں مداخلت کا جوازحاصل ہوجائےگا۔
بنگلہ دیش میں درس نظامی کی باقاعدہ تعلیم دینے والے قومی مدرسوں کی تعداد آٹھ ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے جبکہ وفاق المدارس العربیہ بنگلہ دیش کے نام سے جو سب سے بڑا وفاق ہے اس سے صرف پندرہ سو مدارس ملحق ہیں۔ اور اتحاد المدارس العربیہ کے نام سے دوسرے وفاق سے ملحق مدارس کی تعداد پانچ سو بتائی جاتی ہے۔
عالیہ مدارس کے فضلاء کو ملک یا ملک سے باہراعلی تعلیم کے حصول اور زندگی کو بہتراورخوشحال بنانے کے جوامکانات میسرہیں وہ قومی مدارس کے فضلاء کونہیں ہیں۔ بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی کے دارالعلوم دیوبند کےانتظام وانصرام کےحوالےسےطے کردہ آٹھ اصولوں(اصول ہشتگانہ) میں شامل اس اصل پردیوبندی مکتب فکر کے مدارس کے ذمہ دارسختی کے ساتھ عمل پیرا ہیں کہ حکومت مدرسے کے حق میں حکومت کی طرف سے مالی تعاون کوقبول نہ کیا جائے۔ مدرسہ دیوبند کے فروغ واستحکام اورعوام کے ساتھ وابستگی میں اس نے اہم رول ادا کیا لیکن یہ یا اس طرح کے اصول کی معنویت ہرزمان ومکان کے لیے یکساں نہیں ہوتی۔
وہاں درس نظامی کے ابتدائی چارسالوں میں تمام ضروری عصری مضامین پڑھائےجاتے ہیں۔ بعض مدارس جن میں بنگلہ دیش کا سب سے بڑا ہزاری کا مدرسہ ’دارالعلوم معین الاسلام‘شامل ہے؛اس میں صنعت وحرفت کی تعلیم بھی شامل ہے۔ پہلےعربی سیکھنے کے لیے اردو پڑھائی جاتی تھی پھر فارسی اوراس کے ذریعہ عربی۔ اب یہ واسطے ختم کر دیئے گئے ہیں۔ ہندوستان میں اب بھی یہ صورتحال بہت سے مدارس میں برقرار ہے۔عربی کی پہلی گرامر’نحو میر’ فارسی میں پڑھائی جاتی ہے۔
مدارس کی تعلیم کےشعبےمیں کچھ نئے تجربے بھی کیےجاتےرہےہیں جیسےڈھاکہ کے ایک مدرسے کی تدریسی زبان انگریزی ہے۔ ڈھاکہ میں ہی ’مدرسۃ القرآن‘ کے نام سے تیسری صنف کیلئے حال میں ہی ایک مدرسے کا قیام عمل میں آیا ہے۔ قومی اورعالیہ دونوں مدارس کا اپنا وفاق ہے جوامتحانات اور دیگر امور سے متعلق معاملات کو طے کرتا ہے۔ ڈھاکہ کامدرسہ ’دارالرشاد‘صرف ان طلبہ کوداخلہ دیتا ہے جو پہلے Graduation کرچکے ہوں۔ بنگلہ دیش میں لڑکیوں کا سب سے پہلا مدرسہ 1972میں قائم کیا گیا جس کے بانی مولانا عبد الملک حلیم ہیں جودیوبندی مکتب فکرسے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں اس کی تحریک حجازمیں قیام کے دوران ملی۔ وہ مولانا تھانوی سے بھی متاثرتھے۔
بنگلہ دیش میں اب کئی مدارس کو حکومتی امدادی رقوم سے چلایا جا رہا ہے، جبکہ بدلے میں مدارس کی طرف سے حکومت کو نصاب میں تبدیلی جیسے اختیارات دیے گئے ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت کی طرف سے یہ بھی مطالبہ کیا گیاہے کہ بچوں اور بچیوں کو اکٹھے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔[2]
وہاں مکمل درس نظامی پڑھا یا جاتا ہے اس میں سے 30فیصد مدارس میں دورہ حدیث بھی ہوتا ہے 1993ء میں ایسے مدارس کی تعداد صرف 12یا 13فیصد تھی جہاں دورہ حدیث کا انتظام تھا اس اضافے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بنگلہ دیش کے علماء کی بہت بڑی اکثریت درس نظامی مکمل کر کے دورہ حدیث کے لیے دیوبند جایا کرتی تھی ۔لیکن اب بنگلہ دیش میں مدارس نے خود دور ہ حدیث کے انتظامات کئے ہیں۔ اس وقت صرف ڈھاکہ میں 28مدارس ایسے ہیں جہاں دورہ حدیث ہوتا ہے قومی مدارس کے اساتذہ کی تعداد ایک لاکھ 30ہزار اور طلبہ کی تعداد14لاکھ62ہزار5سو ہے۔
انگریزی زبان
تمام قومی مدارس میں انگریزی زبان لازمی قراردی گئی ہے۔ اس وقت کوئی ایک بھی ایسا قومی مدرسہ نہیں ہے جس میں انگریزی زبان نہ پڑھائی جاتی ہو۔ ان مدارس میں انگریزی کی تدریس کے معیار میں ضرور فرق ہو گا، کسی میں بہترہے کسی میں کم بہتر ،لیکن پڑھائی ہر جگہ جاتی ہے۔ایک اہم بات یہ ہے کہ تمام قومی مدارس میں پرائمری ایجوکیشن تدریس کا حصہ بنادی گئی ہے ۔پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ طلبہ کو براہ راست درس نظامی میں لیا جاتا تھا اب پرائمری تعلیم درس نظامی کا لازمی حصہ بن گئی ہے۔جو بچہ پرائمری اسکول سے شروع کرتا ہے اسے سائنس سوکس جغرافیہ ،انگریزی زبان، بنگلہ زبان سب پڑھایا جاتا ہے۔ پرائمری کایہ سارا نصاب پڑھ کے طالب علم درس نظامی میں جاتا ہے۔
میر پورڈھاکہ میں ایک اور مدرسہ قائم ہے اس کا نام ہے ڈھاکہ کیڈٹ مدرسہ اس میں عام مضامین کے لیے ذریعہ تعلیم انگریزی ہے اور اسلامی علوم کے لیے عربی۔ ان کے طلبہ ڈھاکہ کہ یونیورسٹی کے گریجوایٹس سے بہت بہتر ، ان کے علم کی وسعت بھی یونیورسٹی گریجوایٹس کے مقابلے میں بہتر ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ اس مدرسے کا گریجویٹ بنگلہ دیش کے چوٹی کے انگلش میڈیم اسکولوں کے گریجوایٹس کے مقابلے میں کھڑا ہو سکتا ہے۔
مدارس کے بورڈ
ایک اور تبدیلی جو آئی ہے وہ یہ کہ مدارس پاکستان کی طرح اپنے اپنے وفاق میں شامل ہیں۔ اس وقت دو بڑے وفاق ہیں: ایک وفاق المدارس ہے۔ جس کا صدر مقام پوٹھیاں مدرسہ ہے جو چٹا گانگ کے پاس ہے، دوسرا انجمن اتحاد المدارس ہے جس کا صدر مقام ڈھاکہ میں ہے۔ ایک کے ساتھ ایک ہزار5سو اور دوسرے کے ساتھ 850مدارس کا الحاق ہے ۔یہ دونوں وفاق ہر سال کے امتحان الگ لیتے ہیں اور فائنل امتحان الگ لیتے ہیں۔پورے بنگلہ دیش میں ایک وقت میں ہی امتحانات ہوتے ہیں۔امتحانی مراکز نگران اور سپر وائزرسب خود مقرر کرتے ہیں اور سندیں وفاق کی طرف سے دی جاتی ہیں۔ ایک بڑی تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ داخلے امتحان سب پیشہ وارانہ انداز سے ہو رہے ہیں۔تین چار مدرسے ایسے ہیں جن کا سارا ڈیٹا Dataکمپیوٹر پر موجود ہے۔
ٹیکنیکل ایجوکیشن
کئی مدارس میں ٹیکنیکل ایجو کیشن بھی بڑی حد تک موجود ہے۔ آٹھ ہزاری مدرسہ پورے برعظیم میں دوسرا بڑا مدرسہ ہے جو دیوبند سے 7سال بعد قائم ہوا ۔اس میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کا پوارا انتظام ہے۔ طلبہ کو باقاعدہ جدید ٹیکنیکل مضامین کی تعلیم دی جاتی ہے۔ پوٹھیاں مدرسہ جو 1937ءمیں قائم ہوا اس میں بھی ٹیکنیکل تعلیم دیا جا تی ہے۔ پوٹھیاں مدرسے میں تقریباً 50 فیصد طالب علم ایسے ہوتے ہیں جو فاضل گریجویٹ ہونے کے بعد کسی بھی ہسپتال میں جاکر میڈیکل پریکٹیشز کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔ ہر طالب علم کو انجکشن لگانا آتا ہے ۔ہرفرد بنیادی طبی کورس کر چکا ہو تا ہے۔
قومی تعلیمی دھارے سے اشتراک
عالیہ مدرسے میں میٹرک ،ایف اے، بی اے،ایم اے ،ان چار سطحوں تک تعلیم دی جاتی ہے۔ اسے داخلی عالم فاضل اور کامل کہتے ہیں بنگلہ دیش کی حکومت نے داخلی کو میٹرک کے اور عالم کو انٹرمیڈیٹ کے برابر تسلیم کر لیا ہے۔ نتیجتاً عالیہ مدرسے کے 80فیصد گریجوایٹس قومی تعلیم کے دھارے میں شامل ہو جا تے ہیں۔یہ ڈھاکہ یونیورسٹی ،چٹا گانگ یونیورسٹی اور راج شاہی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیتے ہیں اور پھر اپنے اپنے مضامین میں ایم اے ،بی اے کرلیتے ہیں۔اس وقت بنگلہ دیش کی سول سروس ،آرمی پرائیویٹ سیکٹراور بنک کاری میں بہت بڑی تعداد ایسی ہی ہےجو عالیہ مدرسوں کے گریجوایٹس ہیں۔وہ درس نظامی کے مکمل طور پر ماہر ہیں۔ مزید یہ کہ انھوں نے ایف اے بی اے سطح کے جدید مضامین بھی پڑھے ہوئے ہیں ۔اس وقت ڈھاکہ، راج شاہی، چٹا گانگ، جہانگیر، ان ساری یونیورسٹیوں میں فارسی اردو عربی اسلامی تاریخ اسلامیات ان تمام شعبوں کے 100فیصد اساتذہ عالیہ مدرسوں کے گریجوایٹس ہیں۔عالیہ مدرسوں سے بہت سے نامی گرامی لوگ نکلے ہیں ۔اس وقت بنگلہ دیش کے جو چوٹی کے اہل علم دانش ہیں ان کی خاصی بڑی تعداد عالیہ مدارس سے نکلی ہے۔
مذہبی عنصر کے قومی تعلیمی ڈھانچے پر اثرات
پچھلے دو ڈھائی عشروں کے دوران بنگلادیش میں دائیں بازوسوچ تیزی سے پروان چڑھی ہے۔ دائیں بازو نے سیکولراِزم کی بات کرنے والے دانشوروں کا بہت مقابلہ کیا ہے۔ طرف بنگلادیشی معاشرے میں ایسی خواتین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جو پردے کی طرف مائل ہیں۔ وہ اب حجاب استعمال کرنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ مدارس میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
بنگلادیش میں اسلامی تنظیمیں اپنی بات منوانے کے لیے غیر معمولی حد تک کوشاں رہی ہیں۔حتی اب قومی تعلیمی دھارے پر بھی اثرانداز ہیں، اور اس میں کئی کتب کا نصاب بھی تبدیل کرایا ہے۔بنگلادیش میں اسکول کی سطح کے نصاب میں اسلامی امور داخل کرائے گئے ہیں۔ سابق مشرقی پاکستان نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان سے الگ ہوکر جب بنگلادیش کی شکل اختیار کی تھی تب اس ریاست کے قیام کا بنیادی مقصد سیکولراِزم اور جمہوریت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا تھا۔
بنگلادیش کے قیام کے دو ڈھائی عشروں بعد تک معاملات قابو میں رہے۔ سیکولر اور جمہوری روایات کا غلغلہ رہا۔ مگر اب چند برسوں کے دوران بنگلادیش میں اسلامی عنصر نے تیزی سے زور پکڑا ہے۔اسلامی تنظیمیں بہت منظم ہوکر کام کر رہی ہیں۔ عوام کو بڑے پیمانے پر متحرک کرنے کے حوالے سے ان کی مہارت سے انکار کیا جاسکتا ہے نہ اسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ حکومت چاہے بھی تو اُنہیں غیر اہم قرار دے کر نظر انداز نہیں کرسکتی۔
درسی کتب میں تبدیلی کا مطالبہ سب سے پہلے ڈھاکا میں قائم ایک تنظیم حفاظتِ اسلام نے ۲۰۱۳ء میں کیاتھا۔بنگلادیش میں اسلام اور سیکولراِزم کے درمیان تناؤ ہر دور میں رہا ہے مگر ۲۰۱۳ء میں یہ تقسیم زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آئی۔ اِس سال مدارس کے ہزاروں طلبہ نے دارالحکومت ڈھاکا کے وسط میں جمع ہوکر مطالبہ کیا کہ الحاد کو فروغ دینے والے بلاگر کو سزا دی جائے، مجسمہ سازی پر پابندی عائد کی جائے اور درسی کتب میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ناگزیر نوعیت کی تبدیلیاں کی جائیں۔مدارس سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے حکومت کو چند تحریری تجاویز پیش کیں۔ ایک اہم تجویز یہ تھی کہ درسی کتب میں غیر ضروری طور پر پائے جانے والے غیر اسلامی نام خارج کردیے جائیں۔ ان کا استدلال تھا کہ توحید پرست معاشرے میں درسی کتب میں کوئی بھی غیر اسلامی نام غیر ضروری طور پر قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ درسی کتب میں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان گفتگو پیش کرنے سے حتی الامکان گریز کیا جائے۔حکومت نے مدارس کے علماء کرام کی طرف سے پیش کی جانے والی تجاویز اور مطالبات کو تسلیم کیا۔ مدارس میں پڑھائی جانے والی درسی کتب سے تمام ہندو، عیسائی اور دیگر غیر اسلامی نام خارج کردیے گئے ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان گفتگو بھی کتب سے نکال دی گئی ہے۔ ایسی تمام تصاویر بھی درسی کتب سے نکال دی گئیں جن میں لڑکیوں کو برہنہ سر دکھایا گیا ہے۔ ان کتب پر ٹیکسٹ بک بورڈ کے ہندو چیئرمین، پروفیسر نارائن چندر ساہا، کا نام بھی شائع نہیں کیا جاتا۔
[1] دینی مدارس روایت وتجدید، ڈاکٹر ممتاز
[2] ڈاکٹر وارث مظہری