پاکستان میں اقلیتوں کی عبادت گاہیں اور بھارت میں عمومی تاثر

0

فاروق اعظم

”کیا یہ مندر اب تک موجود ہے؟“

”یہ ویڈیو دیکھ  کر میں حیران رہ گیا۔“

”ہم نے سنا تھا کہ پاکستان کی حکومت نے اس مندر کو منہدم کر دیا ہے۔“

یہ وہ کمنٹس یا تبصرے ہیں جو یوٹیوب پر بھارتی شہریوں نے میرے ایک وی لاگ پر تسلسل سے کیے ہیں۔ ان کی حیرانی دیکھ کر میں خود حیران رہ گیا کہ اس نوعیت کے کمنٹس کثرت سے کیوں کیے جا رہے ہیں؟ بھارتی شہریوں کی اس حیرت سے مجھے یہ بات سمجھنے میں مدد ملی کہ پاکستان میں اقلیتوں یا ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے تناظر میں بھارت میں حساسیت پائی جاتی ہے۔ اس احساس کے پیچھے وہ منفی پروپیگنڈا کارفرما ہے  جو وہاں کی میڈیا پر کثرت سے کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں اور ان کی عبادت گاہیں غیر محفوظ ہیں۔

بالخصوص ہندو آبادی اور مندروں کے متعلق وہاں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں ریاستی سرپرستی میں تمام مندروں کو منہدم کر دیا گیا ہے۔ ہندو شہری حملوں کی زد میں رہتے ہیں اور ان کو مقامی طور پر غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان تمام احساسات کا مجھے براہ راست اس وقت اندازہ ہوا جب بھارتی شہریوں نے مجھے کمنٹ بار میں مخاطب کیا، سوالات کیے اور پاکستان میں  موجود دیگر مندروں اور ہندو کمیونٹی کے رہن سہن پر وی لاگ بنانے کی درخواستیں کیں۔بہت سے لوگ مجھے اپنی وضع قطع کے ساتھ ہندوؤں کے قدیم مندر میں دیکھ کر حیرت زدہ بھی ہوئے۔ اسی حیرت نے مجھے بھی ورطہ حیرت میں ڈالا کہ وہ مندر جہاں ہر سال باقاعدگی سے میلہ سجتاہے۔ ہزاروں ہندو یاترا کرنے آتے ہیں۔ اگر اس مندر کے متعلق بھارتی شہریوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ اس کو گرا دیا گیا ہے، تو باقی مندروں کے متعلق شاید وہ  یقین ہی نہ کرسکے کہ پاکستان میں اقلیتوں کی عبادت گاہیں محفوظ ہیں۔

یہ سلسلہ ایک سال قبل اس وقت شروع ہوا، جب مجھے بلوچستان کے حیرت کدے ہنگول نیشنل پارک کے سیاحتی دورے کا موقع ملا۔ ایک شام دوست کے ہمراہ کنڈ ملیر سے واپسی پر مکران کوسٹل ہائی وے سے ہنگول ندی کے کنارے ہنگلاج ماتا مندر کی طرف سفر کا ارادہ کیا۔ یہ بات مجھے بعد میں بھارتی شہریوں سے کمنٹس سے معلوم ہوئی کہ ہنگول کے پہاڑوں میں واقع یہ قدیم مندر ان کے ہاں بہت زیادہ معتبر ہے۔ جب ہم پندرہ کلو میٹر کا سفر ہنگول کے بیابان میں طے کرکے مندر کے مرکزی دروازے پر پہنچیں تو سیکیورٹی پر مامور اہل کار نے ہمیں شناخت کے لیے روک لیا۔ تعارف کے بعد کہنے لگا کہ مندر میں آپ کیا کریں گے؟ یہاں تو ہندو یاتری آتے ہیں۔ہم نے درخواست کی کہ اس قدیم مندر کی راہداریوں میں گھوم پھر کر مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں مندر میں داخلے کی اجازت دے دی گئی۔ اس وقت یہ معلوم نہیں تھا  کہ ہنگول کے ان ہیبت ناک بلند پہاڑوں کے بیچ جس مندر کے مقام پرہم  چل پھر رہے ہیں اور اپنے مشاہدات پر مبنی وی لاگ بنا رہے ہیں، اس کو آگے چل کر بھارت میں بھرپور پذیرائی ملے گی۔

دراصل ہنگلاج ماتا مندر اور وہاں موجود درجن بھر دیگر مندروں کے عقیدت مندوں کی بڑی تعداد بھارت میں پائی جاتی ہے۔ بالخصوص بھارتی گجرات میں ہنگلاج ماتا سے عقیدت رکھنے والے زیادہ ہیں۔ ہنگول میں واقع اس مندر میں اردد، سندھی اور انگریزی کے علاوہ گجراتی زبان میں ہدایات اور تحریریں جابجا دیکھنے کو ملیں۔پہلی نظر میں ہم گجراتی کو ہندی سمجھ رہے تھے،  اس کی تصحیح بھی بھارتی شہریوں نے کی کہ اس مندر میں گجراتی زبان میں تحریریں لکھی  ہوئی ہیں۔

جب ہم نے ہنگول کا دورہ  کیا تو اس وقت بارشیں ہو رہی تھیں۔ برسات  کے بعد بلوچستان میں برساتی ندیوں میں بہتا پانی دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ منظر خوب صورتی میں اضافہ ضرور کرتاہے، لیکن برساتی ریلے جب بڑھ جائیں تو راستے بھی مسدود ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ برسات میں سفر سے کتراتے ہیں۔ جب ہم مندر میں موجود تھے تو وہاں چند ایک ہندویاتری ہی دیکھنے کو  ملے۔ مندر کے پجاری نے بھی بتایا کہ برسات میں لوگوں یہاں کم ہی آتے ہیں۔

ہنگلاج ماتا مندر بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں ہنگول کے دور دراز پہاڑوں میں واقع ہے۔ مندر تک جانے کے لیے مکران کوسٹل ہائی وے سے پختہ سڑک تعمیر کی گئی ہے اور راستے میں ہنگول ندی پار کرنے کے لیے ایک  بڑا پل بھی بنایا گیا ہے۔ ہنگول کے اس علاقے میں چند گوٹھ واقع ہیں، جہاں محدوود پیمانے پر کچے گھر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ تاہم مندر کا احاطہ ایک مکمل کمپلیکس کی صورت میں تعمیر  کیا گیا  ہے۔ یہاں یاتریوں کی  رہائش کے لیے درجنوں کمروں پر مشتمل رہائشی عمارتیں بنائی گئی ہیں۔ حکومت کی جانب سے وہاں ایک ایمولینس بھی موجود تھی۔ اسی طرح ہنگلاج ماتا مندر اور کالی ماتا مندر جو پہاڑ کے نیچے بنائے گئے ہیں وہاں اعلیٰ قسم کے ٹائل لگے ہوئے ہیں۔ یہ کمپلیکس اور اس سے متصل علاقہ اس قدر پرامن ہے کہ سرشام وہاں ہمارے گھومنے پھرنے پر کسی نے باز پرس نہیں کی اور ہم نے مندر سے واپسی کا سفر بھی غروب آفتاب کے وقت کیا۔

اسی مندر سے کچھ فاصلے پر کوسٹل ہائی وے سے سپٹ بندر کی طرف مٹی  کا آتش فشاں (Mud Volcano)  واقع ہے، جہاں سے کیچڑ ابلتا ہے۔ ہندو یاتری ہنگلاج مندر جانے سے قبل یہاں بھی آتے ہیں اور ابلتے کیچڑ میں ناریل(Coconut) ڈالتے ہیں۔مٹی کے اس آتش فشاں کو وہ چندر گپ کا نام دیتے ہیں۔ مذکورہ آتش فشاں انتہائی بلندی پر واقع ہے۔ جہاں چڑھنے کے لیے پختہ سیڑھیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ الغرض بلوچستان میں واقع ہندوؤں کے ان مقدس مقامات کی طرف سفر کرنے والے ہندو یاتری عام دنوں کے علاوہ اپریل میں سالانہ میلے کے موقع پر ہزاروں کی تعداد میں جاتے ہیں، لیکن انہوں نے کبھی خود کو  غیر محفوظ نہیں سمجھا اور یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔

اسی طرح سندھ  کی اقلیتوں  میں ہندوؤں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور ان کے صدیوں پرانے مندر  نہ صرف کراچی کے قدیم علاقوں میں واقع ہیں، بلکہ اندرون سندھ بالخصوص تھرپارکر اور عمر کوٹ میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔تھرپارکر کے ضلعی صدر مقام مٹھی شہر میں جہاں مسجدوں کے مینار نظر آتے ہیں، وہیں پر اطراف میں مندروں کے گنبد بھی دکھائی دیتے ہیں۔سندھ کے ان شہروں میں مسلمان اور ہندو برسوں سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں، لیکن یہاں مذہبی بنیادوں پر فسادات نہیں دیکھے گئے۔

دوسری جانب پنجاب میں سکھوں کے مقدس مقامات واقع ہیں، جہاں بھارت سے بھی سکھ یاتری آتے ہیں۔چند سال قبل کرتار پور کوریڈور بھی بنایا گیا جو اس خطے میں مذہبی سیاحت کی ایک انوکھی مثال ہے۔ ملک کے تمام حصوں میں وہ مقامات جو کسی بھی مذہب کے حاملین کے لیے اہمیت کے حامل ہیں، وہ نہ صرف قائم ہیں بلکہ محفوظ بھی ہیں۔ ہم نے آج تک نہیں سنا کہ پاکستان میں حکومت نے  کسی مذہبی مقام کو منہدم کر دیا ہو۔ معلوم نہیں بھارت میں یہ خبریں کیوں پھیلائی جاتی ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں بالخصوص ہندوؤں کے مقدس مقامات کو  ختم کردیا گیا ہے۔ شاید اس منفی پروپیگنڈے کے پیچھے سیاسی مقاصد کارفرما ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بھارتی شہری تسلسل سے یہ سوال نہ کرتے کہ کیا یہ مندر اب بھی موجود ہے؟ چند ایک شہریوں نے لکھا ہے کہ”مندر کو درست حالت میں دیکھ کر حیرت ہوئی،اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں یہاں بھارت میں جھوٹ بتلایاجاتا ہے۔“

ہنگول نیشنل پارک اور وہاں موجود ہنگلاج ماتا مندر کا جب دورہ کیا تو اس وقت یہ بات ذہن میں بالکل بھی نہیں تھی کہ یہاں وی لاگ بنانے سے اس پروپیگنڈے کو زائل کرنے میں بھی مدد ملے گی جو اقلیتوں کے تحفظ کے تناظر میں پاکستان کے متعلق کیا جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس سے قبل مجھے اس حساسیت کا اندازہ بھی نہیں تھا  کہ بھارتی شہری پاکستان میں اقلیتوں کےبارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟جب کمنٹس کی کثرت ہوئی تو اندازہ ہوا کہ اگرچہ میں نے سیاحتی نقطہ نظر سے ہنگول نیشنل پارک کا دورہ کیا تھا اور وہاں موجود مندر بھی دکھلایا۔ لیکن اس وی لاگ سے ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ پاکستان کے حوالے سے، بالخصوص ہندو مندروں کے متعلق بھارتی عوام کےذہنوں  میں جو تصور پایا جاتا ہے اس کا اثر بھی زائل ہو رہا ہے، اور ان کے سامنے تصویر کا اصل رخ پیش ہو رہا ہے۔

ہنگلاج ماتا مندر پر میرے بنائے گئے وی لاگ کو  یوٹیوب پراب تک بھارت میں ایک ملین سے زیادہ لوگوں نے دیکھا اور اکثریت نے وہاں کا دورہ کرنے پر شکریہ ادا کیا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ بھارتی شہریوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے میں یہ نتیجہ اخذ کر رہا ہوں کہ اگر پاکستان میں مذہبی سیاحت کو فروغ دیا جائے تو عقیدت مندوں کی بڑی تعداد اس جانب متوجہ ہوسکے گی اور پاکستان کے حوالے سے جو غلط تصور بنایا گیا ہےاس کا سدباب بھی  کیا جاسکے گا۔

٭٭٭