دہشت گردی کا عفریت: پالیسی کنفیوژن اور یکسوئی کا فقدان

0

گزشتہ روز ضلع باجوڑ کے صدر مقام خار میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ورکرز کنونشن میں دھماکے سے 43 افراد جاں بحق جبکہ 150 سے زائد زخمی ہوگئے۔پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں پتاچلا ہے کہ واقعہ میں کالعدم تنظیم داعش ملوث ہے۔

اس بدترین دھماکے کی ساری دنیا سے شدید مذمت کی جارہی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم( او آئی سی) نے بھی باجوڑ میں خودکش حملے کی مذمت کی ہے۔ سیکریٹری جنرل او آئی سی حسین ابراہیم طہ کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم دہشتگردی کے واقعے کی پر زور مذمت کرتی ہے۔

پاکستان میں حالیہ چند سالوں کے دوران دہشت گردی اور پرتشدد واقعات میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے۔ اس میں صوبہ خیبرپختونخواہ سب سے زیادہ متأثر ہوا ہے۔ سی ٹی ڈی کی رپورٹس  کے مطابق خیبرپختونخوا میں جون 2022 سے اب تک دہشتگردی کے 665 سے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں جس میں 15 خودکش اور 15 راکٹ حملے بھی شامل ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات سکیورٹی اداروں کے لیے چیلنج بن گئے ہیں۔ایک کمزور اور لڑکھڑاتی معیشت کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ بہت  تشویشناک ہے۔کچھ عرصہ سے ملکی اور علاقائی سطح پر جس طرح کا منظرنامہ تشکیل پارہاہے،یہ صورتحال قومی سطح پر ایسے سنجیدہ اقدامات کا تقاضا کرتی تھی جن کی مدد سے دہشت گردی کے عفریت پر جلد قابو پایا جاسکے،مگر اس سارے عرصے کے دوران دیکھا یہ گیا ہے کہ پالیسی سطح پر ایک کنفیوژن چھائی رہی اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی طویل المدتی سنجیدہ حکمت عملی کو آگے نہیں بڑھایا گیا۔ ملک میں امن وامان کی ابتری میں اضافے  کے باوجوداس مسئلے پر بہت کم توجہ دی گئی،اور سیاسی عدم استحکام غالب رہا۔تیزی سے بدلتے علاقائی  منظرنامے کے تناظر میں ملکی اشرافیہ اور  عوام کا ایک بڑا طبقہ جس دُہرے ذہنی معیار میں الجھا ہوا ہے، اسے ختم کرکے فوری طورپر یکسو ہونے کی ضرورت ہے۔

2019 کے بعد ہر سال دہشت گردی کے واقعات میں پھر سے اضافہ ہونا شروع ہے اور اوسط ماہانہ حملے 30 سے زائد ہو گئے ہیں۔اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ گزشتہ سال کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں رواں سال کی پہلی ششماہی میں دہشت گردی کے واقعات میں 79 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

تقریباً ہر بڑے واقعے کے بعد پاکستان میں حکام  کی طرف سےفوری اقدامات کا اعلان کیا جاتا ہے۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلایا جاتا ہے، پارلیمنٹ میں قرارداد بھی منظور کی جاتی ہے اور نئے عزم کے ساتھ دہشت گردی سے نمٹنے کا اعلان بھی ہوتا ہے مگر کچھ ہی عرصہ  بعد پھر دہشت گردی کا عفریت قوم پر مسلط ہو جاتا ہے۔

قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ اِس وقت تمام سیاسی قیادت اپنی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قوم کو درپیش دہشت گردی کے خلاف ایک موقف اپنائے۔نیشنل ایکشن پلین پر عمل درآمد کے لیے حکو مت کی طرف سے 17 کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں،لیکن عملی طور پہ یہ سب اپنے اہداف کے لیے پوری طرح فعال نہیں ہیں۔20 نکاتی ایجنڈہ تیار کیا گیا تھا جس میں وقت کے ساتھ رونما ہوئیں۔ ہم اس وقت جس بند گلی میں کھڑے ہیں اور جو صورتحال بن چکی ہے،ایسے میں پاکستانی اشرافیہ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ جس سے سنجیدگی کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے وہ دہشت گردی کی روک تھام ہے جس کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔