مذہب و ریاست کے مابین تعلق اور اس کی نوعیت پر ایک عالمی تحقیقاتی مطالعہ

0

جوناتھن فاکس (Jonathan Fox) اسرائیل کی ایک یونیورسٹی میں  شعبہ ’مذہب وسیاسیات‘ کے پروفیسر ہیں۔وہ 90 کی دہائی سے بین الاقوامی سطح پر ایسے تحقیقاتی منصوبوں کے ساتھ منسلک ہیں جن میں یہ جائزہ لینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دنیا بھر کے ممالک میں مذہب کا اثرورسوخ کتنا ہے، اس کی شرح کیا ہے، ان خطوں میں مذہبی اثرات کی نوعیت اور اس کا پس منظر کیا ہے،اور مذہب وریاست کے تعلق میں مضبوطی آرہی ہے یا اس میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اسی  طرح ریاستوں اور معاشروں کے اندر مذہب کا دیگر عناصر کے ساتھ کیا ربط ہے، جیسے ان کی ایک تحقیق اس پر بھی ہے کہ دنیا میں مذہب اور نسل پرستی کے عنصر کاباہمی تعلق کیا ہے اور خطوں کے اعتبار سے اس کی نوعیت کیا ہے۔مذہب اور مذہبی اثرات وعوامل کے ساتھ جڑے مسائل اور پہلوؤں پر جوناتھن فاکس کی زیرسرپرستی بہت سے دلچسپ  موضوعات زیربحث لائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے مزید چند موضوعات یہ ہیں:

سیکولرازم اور مذہب کے مابین مسابقت، 1990 سے 2014 تک کی ریاستی پالیسیوں کا عالمی تحقیقاتی سروے۔

بین الاقوامی تعلقات کے نظریات میں مذہب کا تصور اور اثرورسوخ۔

مذہب اور جمہوریت: ایک بین الاقوامی تقابلی مطالعہ۔

روس یوکرین تنازعہ میں مذہب  کا کردار اور حیثیت۔

اقوام خدائی حکم کے ماتحت:گرجاگھر کیسے اپنی اخلاقی اتھارٹی کو استعمال کرتے ہوئے ریاستی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

عرب  بہار کے بعد حکومتوں کی تبدیلی اور مذہبی امتیاز۔

مذہبی آزادی کے فروغ سے دہشت گردی کا مقابلہ۔

زیرنظر سروے جس پر ہم بات کر رہے ہیں اس کا عنوان ہے ’مذہب اور ریاست سے متعلق ایک عالمی سروے‘(A world survey of religion and the state) اس مطالعہ میں بہ ظاہر کچھ سادہ س اور آسان سوالات کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جیسے حکومتوں کا مذہب سے متعلق رویہ کیا ہے، اس میں ان کے کردار اور فعالیت کی نوعیت کیا ہے، کیا اس کردار اور فعالیت کی حدود و شرح میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے، کونسے سماجی وسیاسی عوامل ہیں جو ان امورمیں اہم سمجھے جاتے ہیں ، کیا بعض مذاہب کے  لیے ترجیحی رویہ اختیار کیا جاتا ہے،کیا ریاست کا کوئی سرکاری مذہب ہے،کیا اقلیتوں کے خلاف  مذہبی امتیاز برتا جاتا ہے؟وغیرہ۔ اس سروے میں 175 ممالک کو شامل کیا گیا ہے۔اور اس تحقیقاتی مطالعے کا دورانیہ 1990 سے 2002 تک کا ہے۔

مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ جس طرح بہ ظاہر ان سوالات کے جوابات بہت سادہ ہوسکتے ہیں، لیکن حقیقیت میں یہ ایک پیچیدہ عمل ہے اور ہر ملک و معاشرے کے اعتبار سے عوامل و اسباب اور اثرات  کا ایک الگ ڈھانچہ ہے ۔مذہب، ریاست اور معاشرے کے درمیان تعلق پیچیدہ ہے اور پوری طرح سے سمجھ میں نہیں آتا۔ اس سروے کا عمومی مقصد 1990 اور 2014 کے درمیان سالانہ بنیادوں پر 175 ریاستوں کے تناظر میں مذہب اور ریاست کے تعلق سے جڑے متعدد پہلوؤں پر تفصیلی توضیحات فراہم کرنا ہے۔

سروے کے اندر بنیادی طور پہ خطوں کی تقسیم کی گئی ہے، پھر اس میں ممالک اعتبار سے امور کو زیربحث لایا گیا ہے۔ سروے میں ایک تقسیم سابق سوویت بلاک کی شامل ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ کیمونسٹ مرحلے کے دوران اس بلاک میں مذہب کی اہمیت کو سختی سے کم کیا گیا تھا اور اس کے لیے باقاعدہ ریاستی و فکری سطح پر اقدامات کیے گئے تھے۔ البتہ سرد جنگ کے اختتام کے بعد اس بلاک میں مذہب کی واپسی ہوئی ہے، لیکن اس میں یہ یقینی بنایا گیا ہے مذہبی حیثیت، اثرات اور اس کی حدود پر ریاست کا کنٹرول باقی رہے۔لہذا ان ممالک میں مذہبی کردار کا دائرہ ریاستی مفادات اور اس کی پالیسیوں کے ماتحت تشکیل پایا ہے۔

براعظم ایشیا میں مذہب کا تنوع دیگر خطوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ایسے ریاستی کردار کے حوالے سے بھی تنوع ملتا ہے۔اس خطے میں ممالک کے اندر کسی نہ کسی  ایک مذہب کے لیے بہت زیادہ حمایت پائی جاتی ہے۔اگرچہ چند ممالک ایسے بھی ہیں جہاں ریاست تمام مذاہب کے خلاف ہے۔البتہ خطے کے تمام ممالک میں ایک چیز مشترک ہے کہ اس کی ریاستیں نمایاں طور پہ مذہبی امور میں بہت زیادہ مداخلت کرتی ہیں۔28 ممالک میں سے 9 کا سرکای مذہب ہے،دس ممالک مذہب کی طرف میلان اور اس کے لیے حمایت رکھتے ہیں،پانچ ایسے ہیں جو مذہب اور مذہبی جکڑبندی کا شکار ہیں، جبکہ  چار ممالک میں ریاست اور مذہب کی علیحدگی کو قائم رکھا گیا ہے۔

مشرق وسطی اور شمالی افریقا ایسے خطے ہیں جہاں ریاست اور مذہب کے مابین تعلق سب سے زیادہ اور گہرا ہے۔اگررچہ  ان ممالک میں کئی چیزوں پر اشتراک ہے لیکن حکومتوں کی مذہبی مداخلت  کی نوعیت میں فرق بھی پایا جاتا ہے۔اس خطے میں اسلام نمایاں مذہب ہے۔مشرق وسطی کی بیس ریاستوں میں سے اٹھارہ میں مسلمان حکمران ہیں۔اسرائیل میں یہودی حککومت ہوتی ہے لیکن وہاں مسلمانوں ی آبادی بھی  ہے  اور وہاں پارلیمان میں منتخب بھی ہوتے ہیں۔جبکہ لبنان میں مسیحی اور مسلمان دونوں کی مشترک حکومت ہوتی ہے۔اس خطے میں تین ممالک ایسے ہیں جوآئین میں  سرکاری مذہب کا دعوی کرتے ہیں۔

صحرائے اعظم افریقا کے جنوب میں واقع خطے (Sub-Saharan Africa) میں مذہب کے اعتبار سے کافی تنوع ہے۔اس خطے میں  کوئی بھی ایسا ملک نہیں جو مذہب وریاست کے مابین علیحدگی کا قائل ہو۔اوراس کے باوجود بہت کم ایسی ریاستیں ہیں جہاں ریاست کی مذہبی امور میں مداخلت زیادہ  ہو۔اس میں بیس ریاستیں ایسی ہیں جو کسی ایک مذہب پر زور نہیں دیتیں اور نہ سرکاری طور پہ مذہبی حدود پر زور دیا جاتا ہے۔اکیس ممالک ایسے ہیں جو کسی ایک مذہب پر زور دیتے مذہبی حدود کا تعین کرتے ہیں۔اس خطے کے پانچ ممالک ایسے ہیں جہاں کسی نہ کسی ایک مذہب کو غیرقانونی قرار دیا گیا ہے۔

لاطینی امریکا میں زیادہ تر لوگ کیتھولک مسیحی ہیں اور غیرکیتھولک ہیں وہ بھی بہرحال مسیحیت سے تعلق رکھتے ہیں۔عموما کیتھولک مسیحی ریاستیں مسیحیت کے لیے ترجیحی پالیسی رکھتی ہیں۔کیتھولک ریاستوں کا سرکاری مذہب مسیحیت ہے۔ایسے ممالک جہاں کیتھولک  آبادی زیادہ ہے ان میں چار ممالک برازیل، میکسیکو،یوراگوئے اور ایکواڈور ایسے ملک ہیں جہاں کیتھولک چرچ کے لیے ترجیحی رویہ اختیار نہیں کیا جاتا ہے۔غیرکیتھولک مسیحی ریاستوں میں صرف جمیکا ایسا ملک ہیں جہاں مسیحیت کے لیے ترجیحی پالیسی اختیار کی جاتی ہے۔اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے معاملے میں لاطینی امریکا مکمل طور پر تو نہیں البتہ نسبتا ایک روادار خطہ سمجھا جاتا ہے۔

یورپ میں مسیحیت سب سے بڑی آبادی والا مذہب ہے۔یورپ کی 72 فیصد آبادی مسیحی ہے،اس میں کیتھولک آبادی کا تناسب 48 فیصد ہے۔عموما وہاں مذہب اور ریاست کے مابین علیحدگی کی حمایت کی جاتی ہے۔لیکن یورپ میں مذہب کے ساتھ  ایک خاص طرح کا ریاستی ربط بھی موجود ہے، جیساکہ انگلینڈ، فن لینڈ، ڈنمارک اور یونان میں۔جبکہ فرانس اور نیدرلینڈ ایسے ملک ہیں جہاں مذہب و ریاست کے مابین علیحدگی کا تصور بہت سخت ہے۔