عرب خلیجی ریاستوں کے لیے ایران کیا چیلنجز پیدا کر رہا ہے؟

0

اِس وقت مشرق وسطی کی صورتحال ساری دنیا کے میڈیا اور بین الاقوامی سیاست میں  نمایاں اور زیربحث ہے۔اکتوبر میں طوفانِ اقصی اور پھر اسرائیلی جارحیت کے بعد شروع ہونے والے مسائل اور ان کی چنگاریاں  اب اسرائیلی فلسطینی حدود سے باہر سرک رہی ہیں۔ دیکھا جائے تو مشرق وسطی میں کوئی بھی علاقائی اور عالمی فریق جنگ نہیں چاہتااور سب اس کی حساسیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔لیکن اس کے باوجود، سب کچھ کنٹرول میں بھی نہیں ہے۔ اس مسئلے کے کئی پہلو ہیں جن پر بات کی جا رہی ہے، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایرانی پالیسی اور اقدامات خلیجی ممالک کی عرب ریاستوں کے لیے کیا کیا چیلنج پیدا کر رہے ہیں اور کیا عرب حکام اس سے خائف ہیں؟

اسرائیل نے شام میں ایرانی مفادات کو نشانہ بنایا تو اس کے بعد ایران نے اسرائیل پر براہ راست میزائل  حملے کیے، اور اب خبریں ہیں کہ اسرائیل نے بھی جواب میں ایران کے اندر کچھ اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔

ایران نے جب اسرائیل پر میزائل اور ڈرونز سے حملے کیے ، اس بات سے قطع نظر کہ وہ کتنے مؤثر ثابت ہوئے، اس امر میں شک نہیں ہے کہ یہ اقدام  بہرحال غیرمعمولی تھا۔اس دوران یہ بھی سامنے آیا کہ عرب خلیجی ریاستوں نے اگرچہ غیرجانبدار رہنے کی بات کی اور کسی فریق کا حلیف نہ بننے کا اعلان کیا ، مگر جو کچھ ہو رہا تھا، اس میں یہ ممکن نہیں کہ پلڑے کا وزن کسی ایک طرف نہ جھکے ، کیونکہ تقسیم بالکل واضح ہے اور غیرمتعلق رہنا ممکن ہی نہیں۔ لہذا، اس  مرحلے میں عرب ملکوں کے پلڑے کا جھکاؤ کس جانب رہا ، وہ بھی سب کو نظر آیا۔

اس کے بعد  ہمارے ہاں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ ایران بمقابلہ اسرائیل کی صف بندی میں عرب ریاستوں کا جھکاؤ کیوں اسرائیل کی طرف محسوس ہوتا ہے؟ وجہ ظاہر ہے کہ، ایران انہیں زیادہ بڑا خطرہ لگتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایران عرب ملکوں اور ان کے حکام کے لیے کتنا بڑا چیلنج ہے؟

ایران نے غزہ کے معاملے کے بعدجو بیانیہ اختیار کیا اور اب اسرائیل کو براہ راست نشانہ بنانے کے بعد یہ تأثر تو بہرحال مسلم معاشروں میں کسی نہ کسی حد تک ابھرا ہے کہ ایران نے جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔لیکن کیا یہ تأثر عرب خلیجی ممالک میں بھی اتنا ہی گہرا ہے اور اس سےعرب حکام کو کوئی خدشات لاحق ہیں؟

عرب خلیجی ممالک کے لیے ’ایرانی خطرہ‘ محض ھوا نہیں ہے، بلکہ حقیقت ہے۔ عراق، شام، لبنان، یمن اور اب غزہ میں اس کی موجودگی کو عربوں کے لیے نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان ممالک میں ایران کی طاقتور پراکسیز ہیں  جو ریاستوں سے لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔  عربوں کو مغربی  حلیف طاقتوں پر بھی  اب زیادہ اعتماد نہیں ہے۔ ایران کے موجودہ وزیرخارجہ ڈاکٹر عبداللہیان نے اپنی کتاب ’صبحِ شام‘ جو انہوں نے ملک شام کی خانہ جنگی اور اس سے جڑی یادداشتوں  پر لکھی ہے، اس میں وہ کہتے ہیں کہ عرب بہار کے وقت شام میں جب معاملات  بگڑنا شروع ہوئے تھے، تو اس وقت امریکا نے جوہری معاہدے اور اس میں کسی حل تک پہنچنے کی بنیاد پر پس پردہ ایران کو شام میں رسائی اور فعالیت کی اجازت دی تھی۔گویاایران کے حق میں شام سے دستبرداری کرلی گئی تھی۔ظاہر ہے کہ ایک حلیف ہونے کے ناتے عرب حکام کے لیے یہ تجربہ کافی تلخ رہا ہوگا اور وہ جانتے ہوں گے کہ   مستقبل میں بھی بوقت ضرورت ایسا ہوسکتا ہے۔ یہ چیز ایرانی خطرے کو مزید گہرا بناتی ہے۔

ڈاکٹر عبداللہیان نے کتاب میں لکھا ہے کہ عرب ملکوں میں اٹھنے والی لہر ’عرب بہار‘ اصل میں عرب بہار نہیں تھی، بلکہ یہ ’اسلامی بہار‘ تھی جس میں امام خمینی کے افکار کے اثرات شامل تھے۔ کتاب کی مباحث  میں جگہ جگہ عربوں کے مقابلے میں ایرانی یا شیعہ عنصر  کے امتیاز اور انفرادیت کا قوی تأثر ملتا ہے۔

غزہ معاملے کے بعد توایرانی بیانیہ عوامی سطح پر ایک حد تک شیعہ سنی لبادے سے نکل کر  اسلامی نظریاتی خول پہن چکا ہے۔یہ ایران کی بڑی کامیابی ہے۔اگرچہ  خاص خلیجی ریاستوں کے سنی عوام  اس سے زیادہ متأثر نہیں ہوں گے جس کی اپنی وجوہات ہیں، مگر باقی مسلم ممالک میں کہیں نہ کہیں بہرحال  ایک سوچ ضروری ابھری ہے۔طوفان اقصی اورغزہ کی صورتحال کو ایران نے اپنے حق میں بہت اچھے سے استعمال کیا ہے۔ اب عرب ممالک کے فلسطین و اسرائیل سے جڑے کئی منصوبے ہوا میں لٹکے ہیں اور ان کے سامنے ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔

کتاب ’صبحِ شام: شامی بحران سے متعلق میری کہانی‘ کا سرورق

خطے کے اندر عرب خلیجی حکام کو خارجی سطح پر ایران سے خطرات لاحق ہیں، تو داخلی سطح پر بھی اگر انہیں کوئی خدشات درپیش ہیں تو اس کا سبب بھی ایران ہے۔ضروری نہیں کہ ہر شیعہ شہری ایران کو رہنما مانتا ہو،لیکن ایران کی یہ خواہش ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ تمام  دنیا کےاہل تشیع ایرانی آئیڈیالوجی کو تسلیم کرتے ہوں۔عرب ریاستوں میں اہل تشیع پر ایران کاثرورسوخ ہے بھی۔ڈاکٹر عبداللیان کی کتاب  مشرق وسطی میں جاری تنازعے اور اس میں ایران کے موقف و میلانات کو بخوبی واضح کرتی ہے، اور اس میں خاص شیعہ نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے ولایت فقیہ اور ایران کی حکمت و پالیسیوں بیان کیا گیا ہے۔

عرب خلیجی ریاستیں، بالخصوص سعودی عرب، پرانے فرقہ وارانہ تنازعات سے باہر نکلنا چاہتے ہیں، یا کم ازکم اس لڑائی کا اور طرح سے تصفیہ چاہتے ہیں، اور معاشی طاقت بننے کے لیے وقت و صلاحیتیں زیادہ صرف کرنے پر مائل ہیں۔ اس ضمن میں ان کے کئی فیصلے یا مستقبل کے منصوبے ممکن ہے درست نہ بھی ہوں۔ لیکن ایران جو کچھ کر رہا ہے، عوامی سطح پر اس کا ظاہری تأثر نظریاتی، دینی حمیت کا یا کچھ بھی ہوسکتا ہے، لیکن یہ بہرحال طاقت کی کشمکش ہے، جس میں فرقہ وارانہ عنصر بھی واضح شامل ہے۔ ایران طاقتور پراکسیز رکھتا ہے اور وہ اپنے نفوذ کو بڑھانے کے لیے ہر طرح کے حالات کے لیے تیار ہے۔ البتہ عرب ہر طرح کے حالات کے لیے تیار نہیں ہیں۔اور یہی ان کے لیے بڑا مسئلہ ہے۔