آزادی فیلوشپ پروگرام(II) کا کامیاب انعقاد

فرید بگٹی

0

انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور، کے زیراہتمام ،آزادی فیلو شپ پروگرام (ii) میں 15 اضلاع سے، تین مذاہب سے تعلق رکھنے والے اور 5 مختلف زبانوں کے شرکاء نے شرکت کی۔امریکا، برطانیہ، ابوظہبی، جامعۃ الازہر مصر، رومانیہ، انڈونیشیا، پاکستان اور دیگر کئی ممالک و اداروں سے تعلق رکھنے والے مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔شرکاء کو قومی اسمبلی سمیت مختلف تھنک ٹینکس، لوک ورثہ، اسلام آباد کلب، تھیٹر والے میوزک کلب، چرچ اور مندر کا دورہ کرایاگیا۔مختلف زبانوں اور پس منظر سے آنے والے نوجوان ایک دوسرے کے قربب ہوئے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملا۔سب نے عہد کیا کہ وہ سماجی ہم آہنگی کے قومی بیانیے کو فروغ دیں گے اور پیغامِ پاکستان کے سفیر کے طور پر کام کریں گے۔

بین المذاہب و بین المسالک امور سے متعلق ایک طرف جہاں کچھ خدشات اور مسائل ہیں، وہاں اس کے ساتھ، معاشرے میں  مثبت سوچ و فکر کو بنیاد بنا کر  خوبصورت پیغام بھی  دیا جارہا ہے۔ تمام مذاہب میں اگرچہ امن، محبت و بھائی چارگی کا درس یکساں طورپر بنیادی تعلیمات کا حصہ ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مذاہب اپنی رفتار کو معاشرتی و انسانی شعوری رفتار کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں کسی حدتک ناکام بھی رہے ہیں،  جس کی وجہ سے مذاہب کے  کردار اورمستقبل  بارے مختلف تصورات سامنے آئے کہ شاید مذہب کی اب افادیت باقی نہیں رہی۔ ہمارے ہاں جب مادی تعليم و ٹکنالوجی کے استعمال کی افادیت بتائی جاتی ہے تو اس میں مذہب کا عنصر نکال دیا جاتا ہے۔سماج کو مذاہب کے معاشرتی اصولوں سے جدا کرکے اسے امتیازی نظر سے دیکھنے سے مذہب کی اہمیت اور اس کا کردار مزید کم ہوگیا۔ یوں سماجی ہم آہنگی میں بھی مذہب کا کردار متأثر ہوا۔

مذہبی سے متعلق، اب ہمیں اپنا سفر وہاں سے شروع کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے جہاں سے ہم نے انسانی فکر کی بنیادی اکائی کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے کا عزم کیا تھا۔  ہم نے شاید یہ سمجھ لیا  تھا کہ ٹکنالوجی، نئے معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کرے گی لیکن کسی بھی معاشرے میں سماجی اخلاق استوار کرنے کے لیے اعتقاد اور روحانیت کے فلسفے کی سخت  ضرورت سمجھی جاتی ہے۔مذہب معاشرہ اور انسانی حقوق پر اب جس قدر کام ہورہا ہے یہ قابل ستائش ہے کیونکہ مذاہب روحانیت، اعتقاد و اعتماد کے تالے کھولنے کی کنجی ہیں۔ یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ مذاہب ظلم و جنونیت کا تختہ الٹنے پر قادر ہیں۔ ہمارے نزدیک جنونیت مذاہب کی پیداوار ہے لیکن مذاہب صبر و سلامتی کے پورے باب اپنے اندر لیے ہوئے ہیں۔

اسی ضرورت کے پیش نظر انٹرنیشنل یسرچ کونسل برائے مذہبی امور (IRCRA) نے معاشرے کی مختلف اکائیوں کو ایک ساتھ جوڑنے کا اہم قدم  اٹھایا۔ جس کا مقصد نہ صرف حقائق کی درست تفہیم، بلکہ سائنسی طورپر معاشرے کے بنیادی فلسفے کو مذاہب کے ساتھ یوں جوڑ کر پیش کرنا ہے کہ اس سے باہمی محبت و اخوت کا عنصر قوی ہوسکے۔

مجھے سوشل میڈیا کے ذریعے سے علم ہوا کہ اسلام آباد میں ایک پروگرام اسی موضوع سے متعلق منعقدر ہونےجا رہا ہے۔

یہ میرے لیے اس لیے بھی غیر معمولی تھا، کیونکہ میں نے مذاہب کی بنیاد پر اٹھنے والے فسادات کو بڑے قریب سے دیکھاہے  اور اس پر لکھنے اور حلقہ احباب میں بولنے کا موقع بھی ملتا رہا ہے۔ میں نے بڑی امید کے ساتھ رجسٹریشن فام بھرا اور جواب کے لیے منتظر رہا۔ چند دن گزرنے کے بعد مجھے مبارکبادی کا پیغام موصول ہوگیا۔

اس کے بعد وہ گھڑی آگئی جس میں مجھے اپنے چند ضروری سامان کے پیکنگ کرنے کے بعد اسلام آباد کے لیے عازم سفر ہوا۔ اسلام آباد کے مارگلہ پہاڑوں کے درمیان واقعہ خوبصورت فیصل مسجد کے دائیں جانب موجود ’آئی آر ڈی گیسٹ ہاؤس‘ میں پہنچے۔

پہلے روز صرف یہی جاننے کی آرزو رہی کہ اور کون کون اور کہاں کہاں سے نوجوان آئے ہوئے ہیں کیا کوئی میرے علاوہ بلوچستان سے بھی ہے ؟ بہرکیف ان سوالات کے ساتھ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد مجھے پیغام موصول ہوا کہ مغرب تک تمام شرکاء آئی آر ڈی مہمان خانے میں تشریف لائیں۔ میں مقررہ وقت پر وہاں پہنچا تو دیکھا کہ یہاں مرد حضرات کے ساتھ ساتھ خواتین بھی شامل ہیں اور کل شرکاء کی تعداد تقریباً بیس 20 ہے۔ ہمارے درمیان ادارے کے چند مرد و خواتین بھی تشریف فرما تھے۔ ان کے انداز سے مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ ہمارے میزبان ہیں مگر ہمارے دلوں میں اب ایک دوسرے کو جاننے کی جستجو بڑھتی چلی جارہی تھی۔

تھوڑی دیر بعد ہمارے درمیان ایک شخص کھڑے ہوئے اور اپنا تعارف شروع کیا اور پھر تمام شرکاء سے اپنا تعارف کرنے کی گزارش کی۔ یوں ہمیں اندازہ ہوا کہ کوئی لاہور۔ پنڈی، بہاولپور، بونیر، لکی مروت، کوئٹہ ،پنجگور، تربت، مردان، کراچی، چمن، ہنزہ،  آزاد جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے اور اپنے شہروں میں غیرمعمولی خدمات انجام دینے والے حضرات یکجا ہوئے ہیں۔

پہلے روز کے سیشن میں شرکاء کو چند ضروری ہدایات کے ساتھ انہیں ایک بیگ دیا گیا جس میں ضروری سامان موجود تھا۔ ہم نے رات کا کھانا کھایا اور اپنے کمروں کی طرف نکل پڑے۔ اگلی صبح سورج کے طلوع سے قبل ہمیں اٹھایا گیا اور maditation کیلے فیصل مسجد کے قریب بنے لان میں لےجایا گیا۔ پہلے روز کے سیشن میں صبح کی ورزش کے ساتھ ساتھ خوب گپ شپ بھی ہوئی۔ یوں مجھے دو شرکاء کے نام بھی یاد ہوگئے جو کاشف شاہ صاحب لاہور سے اور عبداللہ امتیاز صاحب کشمیر سے تھے۔ اس ایکسرسائز کے بعد ہم واپس اپنے کمروں میں فریش ہونے کیلے چلے گئے اور پھر ناشتے کے بعد ہم آئی آر آئی کے کانفرنس ہال چلے گئے جہاں تمام شرکاء تیار ہوکر نشست کے آغاز کے منتظر تھے۔

سیشن کے شروعات کے ساتھ یہ ہمارے تعلق کی بھی شروعات تھی۔  یوں قرآن پاک کی تلاوت شروع ہوئی۔ اس کے فوراً بعد سناتن دھرم کی گیتا کی تلاوت اور عیسائی مذہب کی دعا کی گئی۔ یہاں سے مجھے اندازہ ہوا کہ صرف مختلف شہروں سے نہیں بلکہ مختلف مذاہب سے بھی شرکاء موجود ہیں۔ راج کمار سندھ تھرپارکر اور سویرا پرکاش بنیر سے اور نادیہ حیات صاحبہ اسلام آباد سے سیشن اٹینڈ کرنے کیلے موجود تھے۔ تھوڑی دیر بعد جناب اسرار مدنی صاحب تشریف لائے اور تمام شرکاء کے تعارف کے بعد انہوں نے اپنا اور اپنی ٹیم کا تعارف کرایا۔ ان کے ساتھ جناب تحمید جان، محترمہ بشریٰ علی، مقدس صاحبہ ،مجتبیٰ راتھوڑ صاحب، محترمہ ماہم صاحبہ اور شیرشاہ صاحب موجود تھے ۔

انہوں نے ادارے کے قیام سے قبل اپنے متعلق بتانا پسند کیا۔ ان کا تعلیمی پس منظر ایک مدرسے سے تھا۔ یعنی انہوں نے درسِ نظامی کی ہوئی تھی۔  ان کا کہنا تھا کہ مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب میں نے بین المذاہب پر مبنی تعلیمات کو اپنے نصاب کا حصہ بنایا تو مجھے کئی ممالک میں جاکر مذہبی ہم آنگی پر مشتمل کئی سیمینارز و کانفرنسز میں حصہ لینے کا موقع ملا مختلف اقوام و افراد کی اجتماعی و انفرادی مذہبی سوچ کو بڑے قریب سے نہ صرف دیکھنے کا بلکہ لکھنے کا بھی موقع ملا۔

یہ تمام تر سفر اس دور میں ہورہے تھے جب پاکستان سمیت دیگر ہمسائے ممالک میں مذہبی دہشتگردی اپنے عروج پر تھی۔ اس موضوع پر بات کرنا، لکھنا اور سیمینارز وغیرہ کرنا موت کو دعوت دینے کی مترادف تھا۔ تبب یہ سوال میرے جستجو کا حصہ بن گیا کہ آخر ہم مذہبی تصورات کو کب تک یوں غیروں کے ہاتھ چھوڑتے رہیں گے۔ مجھے یہ سمجھ آئی کہ مذاہب کے درمیان بڑھتے مسائل کا حل موجود ہے اور اس پر کام کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ آگ اب اپنی ہی جھونپڑیوں کو زد میں لارہی تھی۔ ایسے میں ہم نے IRCRA کے نام سے ادارہ بنا دیا۔ ہم نے 2014 میں مذاہبی ہم آنگی پر کام شروع کیا۔

ادارے میں موجود محترمہ مقدس صاحبہ اس فورم کے کوارڈینیٹر کے طورپر اپنی خدمات انجام دے رہی تھیں۔ ان کا مزاج بھی قابلِ دید تھا۔ محترمہ نے اس فیلو شپ پروگرام میں دوستانہ طرز میں خدمات انجام دیں۔ اسی طرح محترمہ بشریٰ علی جوIRCRA کی پروگرام مینیجر کی حیثیت سے کام کررہی ہیں ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ ہی سجی رہتی تھی۔ ان کے تاثرات و جزبات انتہائی خوبصورت تھے۔

اسرار مدنی صاحب کے بعد محترم ڈاکٹر رستم صاحب تشریف لائے جو  islamic research institute islamabad کے ڈپٹی منیجر تھے۔ انہوں نے ادارے کے قیام کی تاریخ پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے وجود کے ساتھ ہی اس ادارے کا ظہور ایک think tank کے طورپر ہوا۔ 1956 کے آئین پاکستان کے آرٹیکل 197 تحت کام کرنے کی اجازت دی گئ اور 1960 میں باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ بعدازاں 1980 میں اسلامک یونیورسٹی کا قیام زیرِ عمل آیا اور یوں 1985 میں اسلامک یونیورسٹی کو عالمی یونیورسٹی قرار دیا گیا۔

ایک گھنٹے کی بریفنگ کے بعد چائے کا وقفہ دیا گیا۔ اس پورے آزادی فیلو شپ میں پروگرامز کی ترتیب کچھ یوں تھی کہ صبح نو بجے سے گیارہ بجے تک دو سپیکرز کی نشست رہتی۔ پھر چائے کیلے بریک اور پھر ایک گھنٹے کیلے ایک سپیکر اور اس کے بعد دوپہر کا کھانا پھر پانچ بجے تک دو لیکچر، یا یھر پینل ڈسکشن چلتی۔

اس کے بعد محمد عدیل صاحب تشریف لائے جو muslim council of elders کے جانب سے بطور نمائندہ پیش ہوئے۔ انہوں نے اپنے ادارے کے متعلق انتہائی خوبصورتی کے ساتھ تعارف پیش کیا۔ دراصل اس ادارے کا قیام 19 جولائی 2014 عرب امارات میں شیخ الازہر   کے دست سے  وجود میں آیا اور  2019 میں  شیخ  الازہر اور  پوپ  فرانسس کے درمیان ین المذاہبہم آہنگی  دستاویزات پر دستخط کرکے مذہبی ہم آنگی کیلے باقاعدہ کام شروع کردی۔

اس کے بعد مختصر  ٹی۔بریک لینے کے بعد انتہائی جاندار موضوع کا سیشن شروع ہوا۔جو محترمہ حمیرا مسیح الدین صاحبہ نے دیا جو پاکستان کے بہترین ٹرینرز میں  شامل ہیں۔ محترمہ پولیس اور ججز کو ٹریننگز دیتی ہیں۔ انہوں نے فلسطین کیی حمایت سے لیکر ہندوؤں کے مندر کے جلانے کے بعد ، اور تعمیر کرنے تک تمام تر حقائق پر تبصرہ کیا۔ ان کے موضوع کا محور انسانیت اور انسانی فروغ پر تھا۔ انہوں نے چار سوالات دیکر شرکاء کے چار گروپ بنا لیے اور انہیں ان سوالات کے متعلق اپنے خیالات قلمبند کرنے کو کہا۔

اس کی بعد تنازعات کے حل پر محترم رشاد بخاری صاحب نے شرکاء کو بریف کیا اور انتہائی خوبصورت مثالوں کے ساتھ کہ تنازع درحقیقت ہے کیا، اور تنازعے کی انسانی نفسیات کے ساتھ کس قدر ہم آہنگی ہے۔ یوں اس خوبصورت موضوع کے ساتھ پہلے روز کے سیشنز کا اختتام ہوا اور ہم سب اپنے گیسٹ ہاوسز چلے گئے۔ کچھ دیر آرام و نماز کے بعد رات کے کھانے پر یکجا ہوئے اور اس دوران ہمیں صرف ایک گھنٹے کیلے موبائلز دئیے گئے یقیناً یہ کچھ مشکل تھا پر لیکن ادارے کے قاعدوں کا خیال رکھنا ہمارا فرض تھا۔

اگلے روز یعنی سیشن کے دوسرے دن صبح maditation اور یوگا کیلے ڈاکٹر محمد رضوان صاحب تشریف لائے۔ڈاکٹر محمد رضوان صاحب نے maditation کا عمل مکمل کروایا صبح  میڈیٹیشن و ناشتے کے بعد ہم IRI کانفرنس حال پہنچ گئے۔

دوسرے روز  پہلا لیکچر ڈاکٹر ظفراللہ خان صاحب کا تھا جو پاکستانی آئین پر عبور رکھتے ہیں۔ وہ ایک معروف شخصیت ہیں۔ پاکستانی آئین پر ان کی بےمثال خدمات ہیں۔ آئین کی تعارف، آئین کیوں بنایا گیا ؟ آئین کہتے کسے ہیں ؟ آئین آرٹیکل کی طرح کیوں لکھا گیا ؟ وغیر وغیرہ۔ سوالات کے ساتھ گفتگو کا آغاز ہوا ڈاکٹر ظفراللہ خان صاحب نے آئین کی تاریخ اور اس کے تمام تر خدوخال پر خوبصورت گفتگو کی جس میں انہوں نے تقسیم برصغیر ہند پر بھی روشنی ڈالی وہ واقعی اپنے موضوع پر کمال کا عبور رکھتے ہیں۔ انہوں نے آخر میں شرکاء کے سوالات کے جوابات دئیے اور نیک تمناؤں کے ساتھ رخصت ہوئے۔ اس کے بعد ڈاکٹر محمد رضوان صاحب کا ذہنی دباؤ اور ڈپریشن وغیرہ پر لیکچر ہوا۔ یہ سیشن قدرے مشکل تھا مگر اپنے معیار سے کم نہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی خوبصورت مثالوں سے سٹریس و ڈپریشن وغیرہ کی وضاحت کی اور اس کے حل کیلے مختلف ایکٹیوٹیز بتائیں۔

ہمارے ساتھ سویرا پرکاش صاحبہ موجود تھیں جنہوں نے حال ہی میں جنرل الیکشن میں حصہ لیا اور خوب سیاسی کیمپین چلائی۔ پہلی اقلیتی خاتون کا الیکشن لڑنا انڈین چینلز پر انتہائی انہونی شے تھی۔ وہ میڈیا میں اپنے کئی سیاسی نعروں کے ساتھ مشہور ہوئیں۔ انہوں نے بونیر سے الیکشن لڑا۔ یہ خاتون واقعی کمال کی تھیں۔ ان کے مزاج و بول چال میں زبردست نرمی عیاں تھی۔ اسی طرح شاری بلوچ صاحبہ جو تربت بلوچستان سے تھی انتہائی ایکٹو اور انگریزی مطالعہ سے لبریز تھیں۔

اسی طرح باقی شرکاء بھی اپنے اپنے دائرے میں اپنا معاشرتی کردار ادا کررہے ہیں۔ اس کے بعد پاکستان کے مشہور سپیکر میجر جنرل ریٹائرڈ سمریز سالک صاحب تشریف لائے  جنہوں نے گورنمنٹ کے مسائل و قومی دہشتگردی کے خاتمے پر بھرپور و سیر حاصل گفتگو کی۔ انہوں نے سول معاشرے میں انقلاب کے موضوع پر بھی خوب گفتگو کی کہ معاشرے میں زوال کیوں آیا ؟ ہم پہلے کہاں تھے اور اب کہاں ہیں ؟ آخر اس زوال کے کیا اسباب ہوسکتے ہیں ؟ اس طرح خوبصورت سوالوں کو یکجا کرکے ان پر دلچسپ تبصرہ کیا۔ یہ سیشن انتہائی کمال کا تھا۔ خوبصورت و دھیمے لہجے سے شرکاء کے سوالات کے جوابات پر اختتام ہوا۔

ہم اپنے آزادی فیلو شپ کے تیسرے روز کا آغاز کرتے ہیں جس میں صبح کی تمام تر ایکٹیویٹیز کے بعد ہم کانفرنس حال میں حاضر ہوئے جہاں پیغام پاکستان کے بانی ڈاکٹر محمد ضیاءالحق صاحب نے لیکچر دیا۔ وہ اپنے نظریات پر انتہائی مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہنے والی شخصیت تھے۔ انہیں قومی بیانیہ ہر بیانیے سے عزیز تھا۔ اسی پینل ڈسکشن میں میڈیا سے تعلق رکھنے والے حسن خان صاحب جو خیبر نیوز سے تھے وہ بھی تشریف فرما تھے۔ انہوں نے میڈیا کے کردار پر انتہائی غیرجانبدارانہ گفتگو کی کہ کہاں عوام کی غلطیاں ہیں اور کہاں میڈیا کی۔ البتہ وہ یہ بات مان گئے کہ میڈیا شتر بےمہار کی طرح اچھلتا ضرور ہے۔ یوں اس پینل ڈسکشن کا اختتام ہوا ۔ اس ڈسکشن میں خاران سے آئے امتیاز بلوچ ضمان باجوہ صاحب نے خوب دلچسپی لی کیونکہ ان دونوں شرکا کا تعلق میڈیا سے تھا۔ چائے کے وقفے کے بعد سابق وزیر محترمہ ستارہ ایاز صاحبہ تشریف لائیں جنہوں نے موسم کے اتار چڑھاؤ پر قومی و ملکی فریضے کی نشاندہی کی کہ آخر ہم موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے کب نبردآزما ہونگے ؟

پھر اگلے پینل ڈسکشن میں ڈاکٹر شمس الرحمن محمد جان اور ہمارے شرکاء میں موجود نوجوان لیڈر محترم سویرا پرکاش بھی پینل ڈسکشن میں شامل ہوئیں۔ ان کے موضوعات عالم مذاہب کو درپیش چیلنجز و مذہبی آزادی مذہبی ہم آنگی اور نوجوانوں کا ہم آہنگی پر خدمات ان موضوعات پر انتہائی سخت و ترش گفتگو رہی کیونکہ یہ وہ موضوعات ہیں جن سے کسی نا۔کسی طرح ہمارے جزبات کے تعلقات ہیں ۔

اس پینل ڈسکشن   کے بعد ہم مندر اور چرچ کے وزٹ پر نکلے جو راولپنڈی میں واقع تھے۔ مندر کے متعلق مکمل بریفنگ اور پھر چرچ کے متعلق آگہی حاصل کرنے کے بعد ہم نے اسلام آباد میں واقع لوک ورثہ کا وزٹ کیا جہاں پاکستان میں موجود تمام تر ثقافتوں کے مختلف انداز میں ان کی شناخت آویزاں تھیں۔

اگلے دن آزادی فیلو شپ کے چوتھے روز کا آغاز ہوا۔ یہ سیشن کسی عالمی سیشن سے کم نہ تھا جس میں امریکہ و برطانیہ کے سفارتخانے سے نمائندے تشریف لائے ہوئے تھے جس میں پاک و امریکہ کے تعلقات اور خطے کے استحکام اور پاک و افغان کے تعلقات پر گفتگو رہی۔ اس پر بھی شرکاء کے بہترین و سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں موضوعات دلچسپ تھے۔ ان صاحبان کی گفتگو کے فوراً بعد ہم وزٹ کیلے نیشنل ڈفینس یونیورسٹی کے اندر موجود ISSRA تھنک ٹینک کا وزٹ کرنے گئے۔ جہاں ہمیں ڈی جی ISSRA اور ڈائریکٹرز نے بریفنگ دی۔ یہ پاکستان کے بڑے اداروں میں شامل تھنک ٹینک ہے اور اسی طرح اسلام آباد میں موجود ISSI نامی تھنک ٹینک بھی وزٹ ہوا۔ وہاں کے نمائندوں نے بھی اپنے ادارے کے متعلق خوب بریفنگ دی۔ یوں ہم نے ان دو اداروں کے وزٹ کے بعد پاکستان قومی اسمبلی دیکھنے اسمبلی ہال چلے گئے اسمبلی کے متعلق وہاں کے نمائندوں سے گفتگو رہی یوں اس روز ہم نے سیشنز کے ساتھ ساتھ مختلف اداروں کے وزٹ بھی کیے۔

اسی طرح چوتھے روز کا اختتام ہوا اب ہمارے پاس سونے سے قبل کچھ باہمی گفتگو کرنے کا بھی موقع ملا۔کیونکہ موبائل ہمارے پاس موجود ہی نہیں تھے، سو وقت گزارنے کیلے ہم نے اپنے اپنے خیالات شئیر کئیے۔

اگلی صبح اپنی روٹین کے مطابق ہم IRI حال پہنچے اس بار سمندر پار حضرات سے آنلائن سیشن تھا جس میں نیشنل انڈومنٹ فار ڈیموکریسی کے نمائندے ولسن لی اور امریکہ موجود نیشنل ڈفینس یونیورسٹی کے ڈین جناب ڈاکٹر حسن عباس موجود تھے۔ دونوں مہمان امریکہ سے حاضر خدمت تھے جنہوں نے جدید جمہوریت اور جمہوری خدوخال پر گفتگو کی مذاہب کا جمہوریت کے اندر عمل دخل وغیرہ موضوع کے دلچسپ پہلوں تھے۔ اس کے بعد چئیرمین رحمت العالمین  و خاتمن نبین ﷺ اتھارٹی ڈاکٹر خورشید ندیم صاحب تشریف لائے۔ اس سے پہلے راقم نے ان کے کے مختلف کالمز پڑھے تھے۔ پاکستان کے انتہائی نامور دانشوروں میں شامل ہیں ۔ انہوں نے سماج و مذاہب و جمہوریت پر جس طرح گفتگو کی شاید مجھ جیسے طالبعلم سے یہ ممکن نہ ہوگا کہ میں بیان کرسکوں۔ آپ نے اقلیت و معاشرتی اخلاق پر خوبصورت لہجے میں گفتگو کی۔ اس کے بعد عالم اسلام کے مایہ ناز ماہر عالمی قانون جناب احمر بلال صوفی تشریف لائے جنہوں نے وراثت کے حقوق اور انسانی دماغی ایجادات پر معاشی حقوق یعنی intellectual property  پر مکمل بریف کیا۔ آپ کی شخصیت واقعی کمال کی تھی۔ آپ اپنے موضوع پر عبور رکھتے تھے ۔ اس کے بعد شاور فاونڈیشن اور پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے نمائندوں نے اپنے اپنے اداروں کے متعلق بریفنگ دی اور یوں اس خوبصورت دن کا اختتام ہوا ۔

اب  ہم آخری روز کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ آزادی فیلو شپ کا چھٹا دن ہے جس میں ہم یہ ہے کہہ سکتے ہیں کہ  فکری موضوعات پر یہ آخری ڈائلاگ ہونا تھا۔ ہم کانفرنس حال گئے جہاں بعینہ پچھلے سیشنز کی طرح اس بار بھی اسی انداز پینل ڈسکشن ہوئی جس میں محترمہ فرخندہ صاحبہ جو دخترانِ پاکستان کو لیڈ کررہی ہیں اور دوسرے کرسٹوفر شیرف جو سائبان پاکستان کی قیادت کررہے ہی،ں اسی طرح ڈاکٹر زاہد حسن جو باچاخان یونیورسٹی کے  وائس چانسلر تھے، یہ سب شامل تھے۔ یہ سیشن پاکستان کے قومی بیانیہ برائے اقلیتی امور  پر تھا۔  اس پر ڈاکٹر زاہد حسن صاحب نے اینے یورپی زندگی کے تجربات سے پاکستان کے معاشرتی پہلوؤں پر روشنی ڈالی جوان کے ذاتی تجربات کا حصہ تھے۔ اسی طرح محترمہ فرخندہ صاحبہ نے بھی انسانیت کے موضوع پر درس دیا اور کرسٹوفر شیرف نے ہندو ، عیسائی اور مسلمانوں کے باہمی اور تاریخی تعلقات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ اس کے بعد muslim council of elders کے نمائندے تشریف لائے جو مصر کے جامعہ الازہر کے پروفیسرز تھے جنہوں اس فورم کے بنیادی مقاص اور مستقبل کے نظریاتی گولز پر لیکچر دیا انہوں نے شرکاء سے مختلف سوالات بھی لئیے اور بڑے تحمل مزاج سے جوابات پیش کئیے۔

اور یوں اس فیلو شپ کے اہم دنوں کا اختتام ہوتا ہے اور اگلے روز الوداعی تقریب منعقد کی جاتی ہے جس کے مہمان خصوصی انڈونیشیا اور رومانیہ کے سفیر بطور مہمانِ خاص تشریف لائے۔ الوداعی تقریب میں مختلف شرکاء نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اختتام میں سرٹیفکیٹ و تحفوں کے ساتھ نیک تمناؤں و خوبصورت احساسات کے ساتھ رخصت ہوئے۔ یہ میرے نزدیک انتہائی بہترین فیلو شپ تھی جہاں مجھے بہت کچھ سیکھنے کے ساتھ ساتھ کئی نقاط پر نظر ثانی کا موقع ملا۔