مسلم دُنیا اور مذہبی تعلیم، اصلاحات کیوں ناگزیر ہیں؟

0

یہ مضمون تحقیقات کے نئے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ میں بطور پیش لفظ شائع ہوا ہے۔

مسلم دنیا میں مذہبی تعلیم کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے، یہ صدیوں پرانا نظام ہے جو ایک وقت میں شعور و ترقی پسندی کا معیار سمجھا جاتا تھا۔مسلم دنیا کے مدارس نے انسانی تہذیب کو فروغ دینےمیں جو کردار ادا کیا ہے اس کا مغرب کو بھی انکار نہیں ہے۔البتہ پچھلے تین سو سالوں سے مسلم دنیا کے تعلیمی ادارے کہیں نہ کہیں تنزل کا شکار ہوئے ہیں جس کے اثرات مسلمانوں کے سیاسی ، معاشرتی اور معاشی ڈھانچے پر بھی واضح نظر آتے ہیں۔یہ جمود عمومی تعلیمی نظام کا خاصا تو ہے، مذہبی تعلیم بھی اس سے مستثنی نہیں ہے۔اس میں بھی شک نہیں کہ استعماری مرحلے میں مذہبی اداروں نے شاندار کام کیا اور ساری مسلم دنیا میں ایک تاریخ رقم کی۔لیکن اس کے بعد وقت کے حساب سے جن اصلاحات  کی ضرورت تھی اس میں ایک گونہ سستی رہی۔

مسلم دنیا کے کئی خطے ایسے ہیں جہاں مذہبی تعلیم کا کردار وقت کے ساتھ ارتقاپذیر ہوتا رہا۔ آج انڈونیشیا اور ملائشیا جیسے ممالک میں دینی اداروں کے فضلاء سیاست و سماج میں بڑا کام کر رہے ہیں۔ترکی کا دینی نظام تعلیم بھی ایک بہت اچھا ماڈل ہے۔بنگلہ دیش کے مدارس کئی پہلوؤں سے قابل تقلید ہیں۔ اسی طرح عرب دنیا میں مصر کے بعض مذہبی ادارے بھی نصاب اور طریقہ تدریس میں بہت عمدہ مثالیں ہیں۔اس طرح کے ماڈل مدارس کے اندر زیربحث آنے چاہیئں ، تاکہ نظامِ تعلیم کے حوالے سے نئے اُفق کھل کر سامنے آئیں۔مدارس کی نئی نسل میں کچھ کرنے کا بہت جنون ہے،انہیں راہیں دکھائی جائیں، رہنمائی کی جائے تو وہ  وقت کے ساتھ بہترین مناہج پروان چڑھا سکتے ہیں۔

پاکستان میں دینی مدارس کا مسئلہ لمبے عرصے سے کئی حوالوں سے زیربحث ہے۔ خصوصا پچھلی تین دہائیوں سے تو پوری دنیا میں اس پر بات ہورہی ہے۔ خود مدارس کے اندر سے بعض اصلاحات کے لیے آوازیں سامنے آتی رہتی ہیں۔پاکستان کے دینی مدارس مکمل طور پہ جمود کا شکار نہیں ہیں، جیساکہ بعض حلقے تأثر دیتے ہیں۔دینی مدارس کے نصاب میں ابتداء ہی سے ازخود علماء  مختلف ادوار میں وقت کی ضروت کےمطابق تبدیلیاں لاتے رہے ہیں۔یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خود علماء میں احساس اور ادراک ہے کہ حالات کے تناظر میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔

بہت سی خوبیوں کے ہونے کے باوجود،ہر نظام میں مزید اصلاح کی گنجائش ہوتی ہے۔ ایسے ہی پاکستان کے دینی مدارس اور عصری نظام تعلیم میں بھی باقی مسلم تجربات کو دیکھتے ہوئے،محسوس ہوتا ہے کہ کچھ اصلاحات ہونی چاہیئں۔ان میں سے بعض کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔

تمام مدارس اور طلبہ کے لیے اگرچہ یہ ممکن نہ ہو مگر یہ لازم ہے کہ زیادہ تر مدارس میں تخصص کاکچھ سلسلہ شروع ہونا چاہیے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ کچھ علماء حضرات اور خواتین عالمات کو جدید موضوعات کے بارے میں اس نقطہ نظر سے باقاعدہ تربیت دی جائے کہ عالمی مسائل، مطالبات اور تقاضوں کی روشنی میں وہ اپنے مؤقف کو مضبوط دلائل کے ساتھ اور مؤثر انداز میں پیش کرنے کے قابل ہوں۔ بلاشبہ دینی مدارس، قرآن مجید اور حدیث کی تفہیم کا اہتمام بھی کرتے ہیں اور انہی کی وجہ سے نئی نسل اور دین کا تعلق برقرار ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن کریم اور علوم اسلامیہ کو اصل عربی مآخذ کے ذاریعے سمجھا جائے اور پھر علماء میں سے کچھ ایسے باصلاحیت لوگ ہوں جو انگریزی اور دوسری بین الاقوامی زبانوں میں یہ پیغام دنیا تک پہنچا سکیں۔ اس ابلاغ میں عصری اور بین  الاقوامی زبانوں کا محاورہ موجود ہونا وقت کا ایک اہم تقاضا ہے۔

اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح مغرب کے اندر استشراق ہے، ہمارے مدارس اور یونیورسٹیوں میں ایک چھوٹا سا مگر سنجیدہ شعبہ استغراب کا ہو، جس میں مغربی افکار، سوچ، مغربی تاریخ اور مغربی انسان کی نفسیات کا تحقیقی اورناقدانہ مطالعہ کیا جاتا ہو۔ اگرچہ اس وقت بھی ہم میں کچھ لوگ موجود ہیں جو اس نوعیت کا کام کرنا چاہتے ہیں۔ مرعوبیت کے مقابلہ میں ناقدانہ صلاحیت  ہمارے لوگوں میں اب تک پیدا نہیں ہوئی، نہ اس طرف ہماری کوئی پیش رفت ہو رہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس طرف بھی متوجہ ہوں کہ مغرب نے مادی ترقی کیسے کی اور اس ضمن میں ان کے کیا افکار و حالات ہیں؟ ہمیں ان کی نفسیات اور افکار کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ یہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ میری رائےہے کہ دینی مدارس میں اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ مثلاً منطق کے علوم، ہیئت اور دیگر علوم، مثلاً اقلیدس اور ریاضی کے حوالہ سے ایک دور میں مغربی علوم سے دینی مدارس نے استفادہ کیا اور ان کو سیکھا۔ امام غزالی اسی طرح علم فلسفہ کے ماہر بنے۔ گویا استغراب کی جڑیں دینی مدارس میں گہری ہیں۔ اس وقت ہمیں اس طرف متوجہ ہو جانا چاہیے۔

اسلامی تاریخ کے حوالے سے بھی ہماری مذہبی تعلیم میں کچھ کمی ہے۔ اسلامی تاریخ، بالخصوص سپین میں مسلمانوں کے عروج و زوال، صلیبی جنگیں، ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت اور زوال، نیز منگولوں کی آمد اور عباسی خلافت کا خاتمہ وغیرہ، سب بہت اہم موضوعات ہیں۔ جب تک ہمارے دینی سکالرز، علماء اور طلباء کو ان حالات کا پتا نہ ہو، وہ جدید دور میں اپنے راستے کا انتخاب نہیں کرسکتے۔ جب تک ہم اپنے ماضی کو صحیح طریقے سے اپنے سامنے نہ رکھیں اور عروج و زوال کے اسباب کا کھوج نہ لگائیں، غیر مسلموں کی کوششوں کاتحقیقی اورتنقیدی مطالعہ نہ کریں اور خود اپنے گریبان میں نہ جھانکیں، ہم اپنے لیے درست سمت کا تعین نہیں کرسکتے۔

ایک اور اہم بات جو اس وقت ہماری ضرورت ہے وہ یہ کہ مذہبی تعلیم میں اختلاف رائے اور تعبیری تنوع کو باقاعدہ ایک حصے کے طور پر نصاب میں شامل کیا جائے۔ دیگر فقہی مسالک کی امہات الکتب سے ایک خاص درجے کے بعد طلباء کو متعارف کروایا جائے۔ ظاہر ہے کہ ہر ایک کے لیے یہ ممکن نہیں مگر کچھ ادارے اور افراد ایسے ہونے چاہئیں۔ ایسے دلائل اور تعبیری، فقہی تنوع کی بھی ہمارے ہاں بہت گہری جڑیں ہیں۔ اختلافی اور تعبیری اختلاف امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ خود ان کے شاگرد امام ابو یوسفؒ، امام محمدؒ اور امام زفرؒ نے ان سے اختلاف کیا ہے اور نہ صرف اختلاف کیا ہے بلکہ بارہا امام ابو حنیفہؒ نے ان کی طرف رجوع کیا اور وہ رجوع ثابت ہے۔ یہ چیز ہماری بنیاد میں موجود ہے۔ ایسی صورت میں ہم ان بنیادوں کی طرف واپس کیوں نہ جائیں؟ اس طریقے سے جو سوچ سامنے آئے گی اس کا افق زیادہ وسیع ہوگا۔

مذاہب عالم کے مطالعہ کی ابتداء ہم نے کی ہے۔ امام ابن حزم کی الملل والنحل اور دیگر بہت سی کتب کی مثالیں بھی اس ضمن میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ جدید اور قدیم مذاہب اور افکار اب ختم ہوگئے ہیں۔ ان کا تاریخی طور پر تو ہم مطالعہ کر سکتے ہیں مگر یہ نئے افکار کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔ ان تمام ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ نصاب میں تھوڑی بہت تخفیف کی ضرورت ہے۔ بہت ساری کتابیں ایسی ہیں جن میں تکرار اور اعادہ ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیں کہ انہیں کم کردیا جائے اور انہیں ایک موبوط طریقے سے پڑھانے کی کوشش کی جائے۔ ان کی زبان بہت مغلق ہےکیونکہ  یہ دور وسطی میں لکھی ہوئی کتابیں ہیں۔ ان میں بھی اصلاح اور کچھ زائد مواد شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً ان میں کچھ مواد خارج کرنا ہے اور کچھ کو شامل کرنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔  اس کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔

اسی طرح پاکستان کے تناظر میں یہ ضروری ہے کہ مدارس دیگر مسلم ممالک کے دینی تعلیم کے تجربات سے بھی استفادہ کریں۔ ایسے کوسز کرائے جائیں جن میں باقی مسلم ممالک کے نظام تعلیم کا تعارف ہو۔ اس طرح سیکھنے اور طریقہ تدریس کے علاوہ نصاب اور تعلیم سے فراغت کے بعد سماجی تحرک کے حوالے سے بھی نئے اُفق سامنے آئیں گے۔حکومتوں کی بجائے اصلاحات کے یہ اقدامات اگر خود مدارس اپنی سطح پر کریں تو زیادہ مفیدومؤثر ہوگا۔

مجلہ تحقیقات کے تیسرے شمارے پر ادارتی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اُمید رکھتا ہوں کہ قارئین اس سے استفادہ کریں گے۔