مدارس کی رجسٹریشن اور سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ ۱۸۶۰ء
علامہ راغب حسین نعیمی
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل
سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ ۱۸۶۰ء انگریز دور میں بنا۔ اس کا بنیادی مقصد ادب، سائنس، فنون لطیفہ، مفید علوم کی آبیاری اور خیراتی مقاصد کے لیے بنائی جانے والی تنظیموں کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے۔
اس کی دفعہ ۲۰ کے مطابق درج ذیل سوسائٹیز اس قانون کے تحت رجسٹرڈ ہو سکتی ہیں۔
خیراتی ادارے، سائنس کی ترقی، ادب، فنون لطیفہ، مفید علم کے پھیلاؤ کے لیے قائم کیے گئے ادارے، اراکین یا عامۃ الناس کے استفادہ کے لیے قائم کی جانے والی لائبریری، مطالعاتی و تعلیمی حلقہ جات، عوامی عجائب گھر اور فنون لطیفہ کے لیے قائم گیلریز، قدرت کی تاریخ کے عجائب گھر، تکنیکی اور فلسفیانہ تخلیقات، آلات موسیقی اور مختلف ڈیزائن تیار کرنے والے اداروں کا قیام اس سوسائٹی ایکٹ کے ذیل میں ہے۔
جنرل مشرف دور سے قبل تک مساجد اور مدارس بھی اسی ایکٹ کی دفعہ ۲۰ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے رہے ہیں اور اس کےلیے بنیاد ’’خیراتی ادارے‘‘(Charitable Societies) یا ’’مفید علوم کی آبیاری‘‘ (The diffusion of useful knowledge) کے الفاظ ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں مدارس اصلاحات کا عمل شروع ہوا۔ مدارس کی اصلاحات کے لیے چھ ارب کی امداد عالمی ڈونرز کی طرف سے فراہم کی گئی تاکہ مدرسہ کلچر میں جدت اور اعتدال پسندی لائی جا سکے، مدارس کو باقاعدہ نظم میں لانے کے لیے Pakistan Madrassahs Education (Establishment and Affiliation of Model Decni Madaris) Board Ordinance 2001 اور بعدازاں Voluntary Registration and Regulation Ordinance 2002. جاری کیا گیا لیکن حکومت کے ان اقدامات کو اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان نے مسترد کر دیا۔ اس عبوری حکم کی روشنی میں اسلام آباد میں سرکاری دینی مدرسہ کا قیام بھی عمل میں آیا لیکن یہ اب ختم ہو چکا ہے۔
اسی دور میں مدارس کو کہا گیا کہ مذکورہ آرڈیننس کے تحت اپنے مدارس رجسٹرڈ کروائیں لیکن مدارس کی تنظیمات نے ایسا نہ کیا۔ مشرف دور کے ابتدائی تین سال اور بعدازاں مسلم لیگ (ق) کے دور کے ابتدائی دو سال “ITMP” کے مذاکرات حکومت سے جاری رہے۔ حکومت نے مدارس کی رجسٹریشن کو حسب سابق ۱۸۶۰ء کے ایکٹ کے ذریعے تسلیم کر لیا اور اسی ایکٹ میں ترمیم کر کے دفعہ ’’۲۱‘‘ کا اضافہ کیا گیا اور پہلی دفعہ مدارس کی رجسٹریشن کے لیے اہل مدارس کی ایما پر سوسائٹی ترمیمی ایکٹ ۲۰۰۵ء نافذ کیا گیا۔ یہ ۸؍ نومبر ۲۰۰۵ء کو نافذ ہوا۔ ۱۸۶۰ء کے ایکٹ میں ترمیم کے بعد دفعہ ۲۱ کا اضافہ ہوا اور اس کی سرخی یہ تھی۔ ’’دینی مدرسہ کی رجسٹریشن‘‘ اس دفعہ کے مطابق:
۱- ایک دینی مدرسہ (اس کا جو بھی نام ہو) اس سوسائٹی ایکٹ کے تحت ایک سوسائٹی کے طورپر رجسٹرڈ کروائے بغیر نہ تو قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی عمل میں رہ سکتا ہے۔
۲- دینی مدرسہ کو ان شرائط پر عمل کرنا ہوگا۔
- رجسٹرار کو سالانہ تعلیمی کارکردگی رپورٹ پیش کرنا ہوگی۔
- سالانہ بنیاد پر اخراجات و آمدن کا حساب و کتاب رکھنا ہوگا اور اس کی رپورٹ رجسٹرار کو جمع کروانی ہوگی۔
- کسی بھی آڈیٹر سے آڈٹ رپورٹ سالانہ بنیاد پر رجسٹرار کو جمع کروانا ہوگی۔
۳- کوئی بھی دینی مدرسہ نہ ایسی تعلیم دے گا اور نہ ایسا مواد چھاپے گا جو عسکریت، مسلکی منافرت اور مذہبی دشمنی کو ترویج دے۔
اس ترمیم کے مطابق دینی مدرسہ ایسا تعلیمی ادارہ ہے جو مذہبی تعلیم فراہم کرے۔ چاہے وہاں رہائش ہو یا نہ ہو۔ مذہبی تعلیمی ادارہ کسی بھی نام (دارالعلوم، سکول، کالج، یونیورسٹی یا مذہبی ادارہ) کا ہو سکتا ہے۔
اس طرح پہلی بار مذہبی تعلیمی ادارہ کی باقاعدہ رجسٹریشن کا طریقہ عمل میں لایا گیا۔ ہر ضلع میں سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کے دفاتر موجود ہیں۔ یہ مدارس ان دفاتر میں جا کر اپنے آپ کو رجسٹر کرواتے رہے۔ مگر حیران کن معاملہ یہ رہا کہ مدرسہ کی یہ رجسٹریشن سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ کے تابع محکمہ صنعت کے تحت تھی۔
ابھی اس نئے ترمیمی قانون پر عمل درآمد شروع ہوا ہی تھا کہ ۱۱؍ جولائی ۲۰۰۶ء کو اسی دفعہ میں مزید ترمیم کر کے نیا ترمیمی قانون سامنے آ گیا۔ دفعہ ۲۱ میں اضافہ کو درج ذیل الفاظ سے تبدیل کر دیا گیا۔
عنوان: دفعہ ۲۱ بعد از ترمیم: دینی مدارس کی رجسٹریشن
جبکہ پہلے میں تھا دینی مدرسہ کی رجسٹریشن۔ اس نئے اضافہ کے بعد دفعہ ۲۱ (اکیس) اب یوں ہوگی:
۱- تمام دینی مدارس ان کا جو بھی نام ہو اپنے آپ کو رجسٹرڈ کروائے بغیر کام نہ کریں گیں۔
جو مدارس اس قانون کے بعد قائم ہوں گے! وہ ایک سال کے عرصہ میں اپنے آپ کو رجسٹر کروائیں گیں۔
مزید وضاحت یوں کی گئی۔
(i) ایک دینی مدرسہ جس کی ایک سے زائد شاخیں ہیں، انہیں ایک ادارے کی ہی رجسٹریشن کروانی ہوگی۔
(ii) تعلیمی سرگرمیوں کی سالانہ رپورٹ رجسٹرار کو دینا ہوگی۔
(iii) ہر مدرسہ اپنے اکاؤنٹس کا آڈٹ کسی بھی آڈیٹر سے کروا کے اس آڈٹ کی کاپی رجسٹرار کو جمع کروائے گا۔
(iv) کوئی بھی دینی مدرسہ نہ تو تعلیم دے گا اور نہ ہی ایسا مواد شائع کرے گا جوکہ عسکریت، فرقہ واریت یا مذہبی منافرت کو پھیلائے تھا۔ مذاہب اور مسالک کا تقابلی مطالعہ جوکہ قرآن، سنۃ اور اسلامی فقہ کی روشنی میں ہوگا پر کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
(v) ’’دینی مدرسہ‘‘ سے مراد ایسا مذہبی ادارہ ہے جو ’’جامعہ، دارالعلوم، سکول، کالج، یونیورسٹی یا کسی بھی اور نام سے موسوم ہو‘‘، تصور کیا جائے گا۔ اور اس کا بنیادی مقصد مذہبی تعلیم دینا ہو اور یہ دارالاقامہ کی سہولت دیتا ہو۔
اس سے پہلے قانون میں دارالاقامہ کی سہولت ہو یا نہ ہو دونوں ہی دینی مدرسہ کہلائے گئے۔ لیکن اس قانون ۲۰۰۶ء کے مطابق صرف وہی ادارہ مذہبی ادارہ کہلائے گا جوکہ دارالاقامہ کی سہولت دیتا ہوگا۔
سوسائٹی ایکٹ کے اسی ۲۰۰۶ء کے ترمیمی قانون کے تحت سینکڑوں مدارس کے ناظمین نے اپنے اپنے اداروں کی رجسٹریشن کروائی۔ اس قانون میں ایک قباحت تھی کہ ایک سال کے دفتری معاملات سے فارغ ہوتے ہی کہ اگلے سال کی رپورٹ پیش کرنے کا وقت آ جاتا۔
۲۰۰۵ء سے قبل بھی جب اس قانون کے تحت مدارس کی رجسٹریشن ہوئی تھی تو ایک دفعہ رجسٹرڈ کروانے کے بعد مدارس میں سے شاید ہی کوئی ایسا مدرسہ ہوگا جو اس رجسٹریشن کی تجدید سال بہ سال کرواتا ہو لیکن ۲۰۰۶ء کے بعد ہر سال تجدید کروانا ضروری ٹھہر گیا جوکہ اہل مدارس کے لیے ازحد مشکل ثابت ہوا۔ اہل مدرسہ کی یہ مشکلات چلتی رہیں اور اس میں اضافہ ہوتا گیا جوکہ درج ذیل رہیں:
(۱) رجسٹریشن کے معاملات میں غیر ضروری تاخیر اور نامناسب دفتری رویہ
(۲) غیر ملکی دینی طلبہ کے ویزے کا اجراء غیر ضروری التوا و تاخیر
(۳) مدارس کے بینک اکاؤنٹس کا نہ کھلنا یا بند ہونا
(۴) مختلف سکیورٹی اداروں کی طرف سے طلباء اور اساتذہ حتیٰ کہ خواتین کے مدارس سے بھی کوائف طلبی
(۵) مختلف دینی اداروں پر چھاپے وغیرہ
جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو مذاکرات کا آغاز دوبارہ ہوا اور ۶؍ مئی ۲۰۱۹ء سابق وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود صاحب کے زیرصدارت اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے ذمہ داران سے وزارت میں ہی میٹنگ ہوئی۔ اجلاس کی کارروائی انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ اور خوش گوار ماحول میں مکمل ہوئی۔ تفصیلی گفت شنید کے بعد درج ذیل فیصلے اتفاق رائے سے کیے گئے۔
(الف) اجلاس میں متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ تمام دینی مدارس و جامعات اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے ساتھ طے شدہ رجسٹریشن فارم کے مطابق وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹریشن کرانے کے پابند ہوں گے۔
(ب) اس مقصد کے لیے وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت پورے ملک میں ۱۰ (دس) ریجنل دفاتر رجسٹریشن کے لیے قائم کرے گی۔
(ج) وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت مدارس و جامعات کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے کی واحد مجاز اتھارٹی ہوگی۔
(د) وہ مدارس و جامعات جو وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹرڈ نہ ہوں گے، وفاقی حکومت انہیں بند کرنے کی مجاز ہوگی۔
(ھ) جو مدارس و جامعات رجسٹریشن کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کریں گے ان کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جائے گی۔ بیرونی ممالک کے طلباء کی تعلیم اور ویزا کا اجراء وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹرڈ مدارس و جامعات غیر ملکی طلباء کو تعلیم کی سہولت مہیا کر سکیں گے۔ اس سلسلے میں وزارت تعلیم کی سفارش پر ان طلباء کو ان کی مدت تعلیم (جو زیادہ سے زیادہ ۹ (نو) سال ہوگی) اور حکومتی قواعد و ضوابط کے مطابق ان کے لیے ویزا کے اجراء میں معاونت کرے گی۔ ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے لیے وزارت کے ساتھ رجسٹرڈ مدارس و جامعات میٹرک اور ایف اے کے بعد فنی تعلیمی بورڈ کے ساتھ الحاق کر سکیں گے۔ ۱۶؍ جولائی کو چیف آف آرمی اسٹاف سے ملاقات ہوئی جبکہ ۱۸؍ جولائی کو وفاقی وزیر تعلیم کے ساتھ مذاکرات ہوئے۔
مولانا قاری حنیف جالندھری صاحب اپنے کالم ’’حکومت مدارس مذاکرات و معاہدات۔۔۔ پس منظر اور حقائق‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں۔حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب، راقم الحروف، مفتی منیب الرحمان صاحب اور دیگر نے زبانی طورپر بھی چیف آف آرمی اسٹاف سے عرض کیا کہ سابقہ ملاقاتوں اور مذاکرات میں طے پانے والے امور پر تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، کوئی عملدرآمد نہیں ہوا جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان امور پر فی الفور اور غیر مشروط عملدرآمد ہو۔ ہم نے آرمی چیف سے عرض کیا کہ یہاں اور بات طے ہوتی ہے لیکن عملی طورپر کچھ اور ہوتا ہے، آپ کے واضح احکامات کے باوجود نیچے جو لوگ ہیں ان کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی اور مدارس کے حالات میں کوئی بہتری دیکھنے میں نہیں آتی اس پر چیف آف آرمی اسٹاف نے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود صاحب کو ایک مرتبہ پھر واضح ہدایات جاری کیں کہ ۶؍ مئی کے معاہدوں اور طے شدہ امور پر فی الفور عملدرآمد کروایا جائے۔ بعدازاں وزارت تعلیم میں ہونے والے مذاکرات میں ہم نے سب سے پہلے ۶؍ مئی کے معاہدوں پر عملدرآمد پر زور دیا۔ ہے اس کے بعد ہم نے ایک ایک کر کے ۶؍ مئی کے معاہدے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا اور طے پایا کہ رجسٹریشن کا معاملہ زیادہ سے زیادہ سہل اور آسان بنایا جائے گا، کسی نئے ضابطہ یا فارم کے تحت نہیں کسی قسم کی اضافی شرط کے بغیر دینی مدارس کی رجسٹریشن کی جائے گی اور ملک بھر میں ۱۲ ریجنل آفس قائم کیے جائیں گے جہاں دینی مدارس کی رجسٹریشن ہوگی۔ ہم نے کہا کہ ہم ہر ریجنل آفس کے ساتھ رابطوں اور معاملات کے لیے کوئی آرڈینیٹر مقرر کریں گے تاکہ اہل مدارس کے لیے آسانی ہو۔ واضح رہے کہ طے شدہ طریقہ کار اور اتفاق رائے سے تیار کیا گیا جو فارم ہے اسی کے مطابق رجسٹریشن ہوگی فرق صرف اتنا ہوگا کہ پہلے انڈسٹریز کے تحت رجسٹریشن ہوتی تھی جبکہ اب وزارت تعلیم میں رجسٹریشن ہوگی۔