ملائشیا: ایک متنوع سماج میں مذہبی تعلیم کی نوعیت

0

دیگر متعدد مسلم ممالک کی طرح ملائیشیا میں دینی مداراس کا ہدف یہ ہے کہ خود اسلامی تعلیم کو کس طرح جدیدیت سے ہم آہنگ بنایا جائے، اور اس تعلیم سے کس طرح کے لوگ تیار کیےجائیں؟ اور یہ کہ اسلامی تدریس و تحقیق کے لیےمتاثر کن اہلیت رکھنے والےلوگوں کی کمی کوکیسے پورا کیا جائے؟ اس مقصد کےلیے بعض کلاسیکی اسلامی مضامین کے اور کچھ جدید مضامین کےمرکب کا  تجربہ کرنے سے مفر نہیں ہے۔ ملائشیاکے مذہبی سکولوں سے نکلنے والے طلبہ، اسلامی اور عصری تعلیم کے دونوں دھاروں کا فہم رکھتے ہیں،اور بعد ازاں اپنے رجحان طبع کے تحت دینی یا دینوی علوم میں سے جس جانب جانا چاہیں سہولت سے جاسکتے ہیں۔ عام سرکاری سکولوں کی بہ نسبت  ان کے طالب علم سماجی علوم کے ساتھ عربی، قرآن اور اسلامی تعلیمات کے وسیع فہم سے بھی روشناس ہوتے ہیں۔ اس لیے مدرسہ سسٹم کے لیے معاشرے میں خاصا احترام پایا جاتا ہے۔ اس میں مضمون میں ملائشیا کے مذہبی نظام تعلیم کا جائہ لیا گیا ہے۔مضمون نگار محقق اور ’انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور‘ کے ڈائریکٹر ہیں۔

یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔

نسلی و مذہبی تنوع اور تعلیم پر اثرات

1957 میں انگریزوں سے آزادی کے بعد ملائیشیا کو ’فیڈریشن آف ملایا‘ کے نام سے جانا جانے لگا۔ملائیشیا کی آبادی مختلف نسلی گروہوں پر مشتمل ہے، جن میں مختلف تناسب کے ساتھ ملائی (51فیصد)، بومیپوٹیرا (15فیصد۔یہ بھی مقامی گروہ ہے)، چینی (22فیصد)، ہندوستانی (7فیصد)، اور دیگر (0.8فیصد) نسلی قومیتیں شامل ہیں،اور ان سب کا الگ الگ مذہبی تشخص بھی ہے۔

چونکہ تنوع بہت زیادہ تھا جو نہ صرف نسلی تھا،بلکہ مذہبی بھی تھا، اس لیےملائیشیا کی آزادی کے ابتدائی مرحلے میں ہی  ایک بڑا متنازعہ مسئلہ مختلف نسلی گروہوں کے درمیان شہریت اور اس کی حیثیت  کےسوال تھا۔ مقامی لوگوں کے ساتھ ملائی تشخص کواس  زمین  کا سب سے نمایاں حقدار تسلیم کیا گیا،توچینی اور ہندوستانی لوگوں کی شہریت کے حق پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ ایک تلخ کشمکش کے بعد مختلف نسلی گروہوں کے درمیان ان کے سیاسی نمائندوں کے ذریعے ایک معاہدہ طے پا یا۔ یہ معاہدہ ملائیشیا کے آئین کے آرٹیکل 153 میں لکھا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ غیر ملائی باشندوں کو ملک کی شہریت دی جاتی ہے، اس شرط کے ساتھ کہ  مالے گروہ کو تعلیم، عوامی خدمات اور تجارت کے میدان میں خصوصی حقوق حاصل ہیں۔

اس تاریخی رعایت وامتیاز کا ملائیشیا میں تعلیم کے ڈھانچے پر گہرا اثر نظر آتاہے۔ ایجوکیشن ایکٹ (1961) میں ملائشیا کے قومی نصاب میں ملائی تشخص و زبان کو فوقیت دی گئی۔نیز، ایکٹ 1961 کا مذہبی تعلیم کے نفاذ پر گہرا اثر پڑا۔ ایکٹ کے اجراء سے پہلے، اسلامی تعلیم  ایک غیر رسمی سرگرمی تھی جو سکول کے اوقات میں شامل نہیں تھی۔مگر اس ایکٹ اس کے نفاذ کے بعدیہ تبدیلی آئی کہ مذہبی تعلیم کو سکول کے اوقات میں اور سرکاری خرچ پر شامل کردیا گیا۔غیر مسلم طلبہ بھی یہ مذہبی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، لیکن صرف اس صورت میں جب والدین کی رضامندی موجود ہو۔

نسلی تنازعات اور جدید تعلیمی فلسفہ

13 مئی 1969 کو ہونے والے نسلی فسادات کے بعد حکومت نے کئی اقدامات کیے،تاکہ قومی سالمیت اور نسلی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔تب یہ رائے سامنے آئی کہ ملائیشیا کو اپنے لوگوں کو اتحاد میں رکھنے کے لیے ایک مضبوط قومی نظریے کی ضرورت ہے۔ انڈونیشیا کے نمونے سے متاثر ہو کر، ملائیشیا نے 1970 میں ایک نیا قومی نظریہ تیار کیا جسے’رکن نگارا‘(Rukun Negara) کے نام سے جانا جاتا ہے، جو کہ پانچ اصولوں پر مشتمل ہے:خدا پر یقین، بادشاہ اور ملک سے وفاداری، آئین کی پاسداری، قانون کی خودمختاری، اور حسنِ سلوک و اخلاقیات۔ بعد میں، یہ نیانظریہ  پرائمری اور سیکنڈری اسکول کے نصاب میں اخلاقی تعلیم کی بنیاد بن گیا۔تعلیمی اداروں میں یہ اخلاقی تعلیم دراصل غیرمسلموں کے لیے شامل کی گئی تھی،یہ غیر مسلم طلبہ کے لیے لازمی ہے، اور مسلمان طلبہ کو اس سے استثنیٰ حاصل ہے کیونکہ وہ پہلے ہی اسلامی مذہبی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

1969کے نسلی فسادات کے بعد ایک اور اہم پیش رفت بھی سامنے آئی۔وہ یہ کہ مالے زبان کو تعلیم کی واحد زبان بنا دیا گیا، جبکہ اس سے قبل مالے کے ساتھ انگریزی بھی تعلیم کی بنیادی زبان تھی۔یہ اقدام ظاہر ہے کہ تعلیم پر مالائی لوگوں کے بڑھتے ہوئے کنٹرول کی نشاندہی کرتا ہے۔گویا نسلی بنیادوں پر جنم لینے والے فسادات نے مالے کو جہاں ایک نئی  اقتصادی پالیسی اپنانے پر مجبور کیا، وہیں اس کے ساتھ ہی اس چیز  نے ریاست پر مالائی تسلط کو واضح طور پر مزید گہرا کردیا۔مگروقت کے ساتھ سرکاری یونیورسٹیوں میں محدود نشستوں، داخلہ کی بلند شرح، اور بیرون ملک مہنگی تعلیم کی وجہ سے،1980 کی دہائی کے اوائل سے تعلیمی پالیسی میں تبدیلی آئی ۔ ایجوکیشن ایکٹ 1996 کے ذریعے حکومت نے  نجی تعلیمی اداروں کے دروازے کھول دیے، اور اس کے ساتھ ہی یہ ایکٹ مالے کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی تعلیم کی اجازت دیتا ہے۔ایکٹ 1996 کو ملک کی تاریخ  کا سب سے جامع تعلیمی قانون سمجھا جاتا ہے۔

 تب پہلی بار، ملائیشیا نے اپنا قومی تعلیمی فلسفہ  لکھا:

“ملائیشیا میں تعلیم مکمل اور مربوط انداز میں افراد کی صلاحیتوں کو مزید فروغ دینے کی ایک کوشش ہے تاکہ ایسے افراد پیدا کیے جا سکیں جو فکری، روحانی، جذباتی اور جسمانی طور پر متوازن اور ہم آہنگ ہوں، خدا پر پختہ یقین  رکھتے ہوں۔ . اس طرح کی کوشش ملائیشیا کے ایسے شہریوں کو پیدا کرنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے جو باشعور اور قابل ہوں، جو اعلیٰ اخلاقی معیار کے حامل ہوں، اور جو لچکدار اور اعلیٰ درجے کی ذاتی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ خاندان، معاشرے کی بہتری میں اپنا حصہ ڈالنے کے قابل ہوں۔”

مذہبی تعلیم کے ادارے اور ان کی اقسام

ملائشیا میں مذہبی تعلیم کی مانگ میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔اس کا ثبوت ’تحفیظ‘اسکولوں کی بہت بڑی تعداد ہے جہاں قرآن حفظ کرایا جاتا ہے۔ملک بھر میں تقریباً 1,200 تحفیظ اسکول رجسٹرڈ ہیں۔ انہیں حکومت کی طرف سے  مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ملائیشیا میں بچوں کی مذہبی تعلیم کے لیے کل وقتی مدارس سے لے کر ہفتہ وار قرآنی کلاسز تک کےمختلف اور متنوع ماڈل دستیاب ہیں۔ان لوگوں کے لیے جو زیادہ گہرائی کے ساتھ مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں ہیں،ان کے لیے وہاں پرائیویٹ مدارس ہیں جنہیں ’پونڈوک‘ یا’ پیسنٹرین‘ کہا جاتا ہے۔اگرچہ پونڈوک اداروں کو قدامت پسند اور جدید علم سے محروم ہونے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن وہ ملائیشیا میں مسلم کمیونٹی کے کچھ طبقات میں کافی مقبول ہیں۔

ملائشیا میں سرکاری سطح پر سکولوں کا ایک ایسا نیٹ ورک موجود ہے جو دینی تعلیم کے لیے خاص ہے۔ یہ نیٹ ورک دو طرح کا ہے:

ایک ’قومی اسلامی ثانوی سکول‘(Sekolah Menengah Kebangsaan Agama :SMKA) کے نام سے کام کرتا ہے۔یہ سکول ملائشیا کی وزارتِ تعلیم کے زیراہتمام  چلتے ہیں اور 1977 سے قائم ہیں۔ دوسرے عام ثانوی اسکولوں کے مقابلے میں مختلف ہوتےہیں۔ یہ ان بچوں کے لیے قائم کیے گئے ہیں جو اسلامی ثقافت کو سیکھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ان سکولوں میں  نہ صرف عربی زبان اورقرآن کی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ اس کے ساتھ فقہ اور دیگر مذہبی علوم  بھی سکھائے جاتے ہیں۔ان اداروں کے طلبہ کے پاس یہاں سے اپنی گریجویشن مکمل کرنے کے بعد، مختلف شعبوں میں مقامی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی تعلیم کو آگے بڑھانے کے مواقع موجود ہوتے ہیں۔یہ اسکول نہ صرف اسلامی مبلغ پیدا کر تے ہیں، بلکہ اسلامی علوم کے ماہرین بھی معاشرے کو فراہم کرتے ہیں۔ان مدارس میں داخلے کے لیے امیدوار کی عمر 13 سال سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے،ناظرہ قرآن پڑھنا بھی آنا چاہیے۔جاوی رسم الخط میں مہارت ہونی چاہیے،لکھنے پڑھنے کی بنیادی صلاحیت موجود ہونی ضروری ہے اور اس کے علاوہ اسکول کا اپنا ایک ٹیسٹ ہوتا ہے جو پاس کرنا ضروری ہوتا ہے۔

دوسری قسم کے مذہبی اسکول جو حکومت کی طرف سے چلائے جاتےہیں انہیں ’حکومتی فنڈڈدینی اسکول‘(Sekolah Agama Bantuan Kerajaan: SABK)کہا جاتا ہے۔یہ بھی ملائشیا کی وزارت تعلیم کے زیرانتظام چلتے ہیں۔ان اداروں کی شروعات بھی 1977 میں ہوئی تھی۔یہ اسکول پہلے ریاستوں کی سطح پرمقامی سرکاری ڈھانچے کے تحت چلتے تھے، مگر پھر مرکزی حکومت نے اپنی سربراہی میں لے لیا تھا۔پھر 1983 میں جب ریاستوں کے مرکزی حکومت کے ساتھ کچھ اختلافات ہوئے تو مرکزی حکومت نے ان اسکولوں کو فنڈز فراہم کرنے سے انکار کردیا اور بند کرنے کا عندیہ دے دیا تھا۔ مگر پھر 2005  میں انہیں دوبارہ بحال کردیا گیا اور ان کی مالی معاونت بھی مرکزی حکومت کی طرف سے جاری کردی گئی۔ پورے ملائیشیا میں اب ان اسکولوں کی کل تعداد219  کے قریب ہے۔ ان میں سے 41  کو پرائمری اسکولوں کا درجہ حاصل ہے اور باقی سب ثانوی درجے تک کے ہیں۔

ملائشیا میں سرکاری دینی مدارس کے تحت جہاں 90,000 طلبہ زیرتعلیم ہیں۔یہ تعداد پورے ملک میں طلبہ کی کل تعداد(پانچ ملین) کا دو فیصد بنتی ہے۔یہ قومی مذہبی اسکول وزارت تعلیم کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور وفاق سے فنڈ حاصل کرتے ہیں اورحکومت کی طرف سے متعین کردہ قومی نصاب پڑھاتے ہیں۔

اس کے برعکس دوسری قسم نجی مذہبی اسکولوں کی بھی ہے،جن کی تعداد اس وقت ملک بھر میں تقریباً 350 ہے اور ان میں زیرتعلیم طلبہ کی تعدادملائشیا کے کل طلبہ کا ایک فیصد ہے۔ نجی مذہبی اسکول ریاستوں اور وفاقی حکومت دونوں کے ساتھ رجسٹرڈ ہوتےہیں اور عام طور پر شہری علاقوں میں ہوتے ہیں۔

مذہبی اداروں  کا نصاب

عام طور پہ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے ایک اچھی تعلیم حاصل کریں اور ان کی توقع ہوتی ہے کہ ان تعلیمی اداروں کے نصاب میں اسلامی علوم اور جدید مضامین دونوں شامل ہوں۔ملائیشیا میں،اسلامی اسکولوں میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے، وزارت تعلیم اس کے لیے رہنما اصول طے کرتی ہے۔نصاب میں عام طور پر تجوید، عربی زبان، اسلامی تاریخ اور فقہ کے ساتھ ساتھ سائنس، ریاضی، سماجی علوم اور انگریزی زبان کے اسباق شامل ہیں۔ ان اسلامی اسکولوں میں  کھیل اور بحث ومباحثہ جیسی غیر نصابی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں۔بہت سے اسکول طلبہ کو پیشہ ورانہ تربیت بھی دیتے ہیں جس کے لیے تجارتی سرگرمیوں سے متعلق پروگرام کرانا،یا بڑی عمر کے طلبہ کے لیے انٹرنشپ کے لیے مقامی کاروباری کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری  شامل ہیں۔ملائیشیا میں اسلامی اسکولوں کے نصاب کا مقصد طلباء کو مذہبی علم اور عملی مہارت دونوں میں ایک مضبوط بنیاد فراہم کرنا ہوتاہے جو انہیں زندگی کے تمام پہلوؤں میں کامیابی کے لیے تیار کرے۔

مدارس میں تدریس کے طریقے

ملائیشیا کے اسلامی اسکول طلباء میں اسلامی اقدار وعلوم بارے فہم پیدا کرنےکے لیے روایتی اور جدید طریقوں کا استعمال کرتے ہیں۔اساتذہ اسباق کو دلفریب اور دلکش بنانے کے لیے ملٹی میڈیا ٹولز جیسے ویڈیوز، آڈیوز، اینیمیشنز اور پریزنٹیشنز کا استعمال کرتے ہیں۔طلباء ایسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں جو انہیں سیکھی ہوئی چیزوں کوعملا پیش کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، سماجی خدمات کےپروجیکٹس میں شامل کیا جاتا ہے جوانہیں یہ سمجھنے کے قابل بناتے ہیں کہ اسلام کو حقیقی زندگی میں کیسے لاگو کیا جا سکتا ہے۔یہ تدریسی طریقے نہ صرف اسلام کی گہری تفہیم فراہم کرتے ہیں بلکہ  طلبہ میں تنقیدی سوچ کی صلاحیت بھی پیدا کرتے ہیں جو آج کی دنیا میں کامیابی کے لیے ضروری ہے۔

مذہبی اداروں کی تنظیم میں حکومت کا کردار

ملائیشیا میں اسلامی تعلیم سے متعلق ضوابط کی نگرانی پوری طرح حکومت کرتی ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ اسکول ان  معیارات پر پورا اترتے ہیں اور ایک متوازن نصاب شامل درس کرتے ہیں۔وزارت تعلیم نے پرائیویٹ اسلامی اسکولوں کے لیے بھی رہنما اصول مرتب کیے ہوئے ہیں جن پر عمل کرنا  ضروری ہوتا ہے۔ اساتذہ کی اہلیت، تدریسی مواد، اور طلبہ  پرمثبت و پیداواری  اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ان رہنما خطوط کے علاوہ، حکومت اسلامی اسکولوں کا باقاعدہ معائنہ بھی کرتی ہے تاکہ ضوابط کی تعمیل کو یقینی بنایا جا سکے۔حکومت کے پیش نظر یہ ہے دینی اداروں میں طلباء کو اعلیٰ معیار کی تعلیم حاصل ہو اور ساتھ ہی مذہبی ہم آہنگی کو بھی فروغ دیا جائے اور انتہا پسندانہ خیالات کو سکولوں میں پڑھائے جانے سے روکا جائے۔لہذا، والدین اس بابت  پر اعتماد ہوتے ہیں کہ ان کے بچے ملائیشیا کے اسلامی اسکول میں داخلہ لیتے وقت ایسی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو مذہبی اور جدید، دونوں معیارات پر پورا اترتے ہیں۔

بعض غیر رجسٹرڈ اسلامی اسکولوں/مدارس کو درپیش چیلنجز

ملائیشیا میں بعض غیررجسٹرڈ اسلامی اسکولوں کو درپیش کچھ عام چیلنجز یہ ہیں:

  1. فنڈنگ: کئی اسلامی اسکول ایسے بھی ہیں جو محدود فنڈنگ اور وسائل کی کمی کا بھی شکار ہوتے ہیں،اس لیے معیارکے لحاظ سے وہ ان مدارس سے ذرا نیچے ہوتے ہیں جنہیں حکومت کی طرف سے فنڈنگ ملتی ہے۔
  2. نصاب: جو مدارس یا اسکول رجسٹرڈ نہ ہوں ان میں نصاب کے حوالے سے مضامین کا تناسب غیرمتوازن ہوسکتا ہے،جبکہ رجسٹرڈ مدارس میں دینی اور سیکولر مضامین کا باقاعدہ توازن رکھا جاتا ہے۔
  3. اعلی تعلیم کا حصول: جو اسلامی اسکول ملائیشیا کی وزارت تعلیم کے ذریعہ تسلیم شدہ نہیں ہوسکتے ہیں،ان سے فارغ ہونے والے طلبہ کو بعد میں اعلی تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بعض اداروں کو دپیش ان چیلنجز کے باوجود، ملائیشیا میں اسلامی اسکول اور مدارس کی اکثریت معیاری تعلیم فراہم کر رہی ہے۔

ان رکاوٹوں کو سمجھ کر، آپ اپنے اختیارات کو بہتر طریقے سے نیویگیٹ کر سکتے ہیں اور اپنی تعلیم یا اپنے بچے کی تعلیم کے بارے میں باخبر فیصلے کر سکتے ہیں۔

ملائیشیا میں اسلامی تعلیم کا مستقبل

ملائیشیا میں دینی تعلیم کے فروغ اور ترقی کے حوالے سے مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ ٹکنالوجی کی طرف پیشرفت اور جدید تدریسی طریقے اپنانے کی وجہ سے وہ ادارے سماج میں اپنی جگہ بنائے ہوئے ہیں۔ملائیشیا کی حکومت ثقافتی ورثے کے تحفظ اور مذہبی اقدار کے فروغ  کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسلامی تعلیم میں بھی بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہی ہے۔جیسے جیسے دنیا تیزی سے ایک دوسرے سے جڑرہی ہے، ایسے افراد کی بھی مانگ بڑھتی جا رہی ہے جو اسلام کے بارے میں گہری جانکاری رکھتے ہوں اور متنوع پس منظر کے لوگوں سے رابطہ قائم کرنے کے قابل ہوں۔ملائیشیا میں اسلامی اسکول اور مدارس جہاں ایک طرف طلباء کو اسلامی علم میں ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں وہیں اس کے ساتھ  وہ ان کے اندر تنقیدی سوچ پیدا کرتے ان میں اورانہیں  جدید نقطہ نظر سے روشناس بھی کراتے ہیں،یوں وہ تعلیمی لحاظ سے ایک اچھے معیار پر قائم ہیں جولوگوں کو پسند  آتا ہے۔ ان تمام پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملائشیا میں مذہبی اسلامی تعلیم کو کوئی خطرات لاحق نہیں اور مستقبل میں یہ ایسے ہی جاری رہے گی۔