ملائیشیا اور انڈونیشیا کے مذہبی ماڈل مختلف کیسے ہیں؟
ملائیشیا اور انڈونیشیا مشرقی ایشائی مسلم ممالک ہیں۔ انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے مسلم دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، جبکہ ملائیشیا کی آبادی اگرچہ اکثریت مسلمان ہے لیکن یہ بہت متنوع ہے، وہاں ایک بڑی تعداد غیرمسلموں کی بھی ہے۔ ان دونوں ممالک میں مذہبی عنصر بہت زیادہ فعال ہے۔ ان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کا اثرورسوخ ریاست کی جانب سے بھی مسلم ہے جس کو کم کرنے یا اسے مسترد کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ سوال یہ ہے کہ وہاں کا مذہبی عنصر اتنا کامیاب اور متحرک کیسے ہے اور اس کا ماڈل کیا ہے؟ بروکنگز میں شائع ہونے والے اس مضمون میں شادی حامد نے اس کا جواب دیا ہے۔ مصنف امریکا میں مقیم ہیں اور بین الاقوامی ادارے بروکنگز کے ساتھ منسلک ہیں۔ مسلم دنیا کی سیاست وسماج ان کا موضوع ہیں۔
ملائشیا اور انڈونیشیا میں اسلامائزیشن
بات نظریے کی ہو یا عمل کی، اسلام اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ بہت سے مسلم معاشروں نے اس معاملے میں خاصی مزاحمت دکھائی ہے۔ مغرب میں یہ تصور اب راسخ ہوچکا ہے کہ مذہب کو سیاست کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیےیعنی یہ کہ دینی تعلیمات کو بنیاد بناکر ریاست کے امور انجام تک نہیں پہنچائے جاسکتے۔ اس حوالے سے سوچنے اور لکھنے والوں میں اختلاف رہا ہے۔ ترکی اور تیونس میں سیکولر عناصر نے دین کو سیاست سے الگ رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ مزاحمت اس قدر بڑھ گئی کہ اب یہ دونوں ممالک بہت سے معاملات میں حوالے کا درجہ رکھتے ہیں۔
دنیا بھر میں کسی بھی مذہب کو ریاستی امور انجام دینے کے معاملے میں کلیدی کردار کا حامل خیال نہیں کیا جاتا۔ لوگ دین اور سیاست کو الگ الگ خانوں میں رکھتے ہیں۔ ہندو ازم ہو یا بدھ ازم، عیسائیت ہو یایہودیت، تمام ہی مذاہب یا ادیان کے پیروکار اس بات کو پسند نہیں کرتےیا زیادہ اہمیت نہیں دیتے کہ دین کو سیاسی امور میں مداخلت کا موقع دیا جائے۔ وہ دین کو سیاست سے اس قدر الگ رکھتے ہیں کہ اس فرق کو صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اسلام کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ متعدد ریاستوں میں اسلامی تعلیمات کو ریاستی امور کی انجام دہی اور قوانین پر موثر عمل یقینی بنانے کے لیے بروئے کار لایا جاتا رہا ہے۔ بعض مسلم معاشروں نے مزاحمت بھی کی ہے مگر اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ اسلامی دنیا مجموعی طور پر دین کو سیاست سے الگ رکھنے پر غیر متزلزل یقین رکھتی ہے۔ میں نے اپنی کتاب Islamic Exceptionalism میں اِسی نکتے پر بحث کی ہے یعنی یہ کہ اسلام اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس کی تعلیمات کو بنیاد بناکر قوانین مرتب کیے جاسکتے ہیں اور ریاستی امور کو بہتر طریقے سے انجام دیا جاسکتا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں اسلام اور سیاست کے تعلق کی جو بھی کیفیت ہے اُسے تسلیم تو کرنا ہی پڑے گا۔ یہ الگ بحث ہے کہ ہماری قبولیت کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔
اگر کہیں مذہب اور سیاست کے درمیان تناؤ ہے تو وہاں جمہوریت کو لبرل ازم پر ترجیح دی جارہی ہے۔ لوگوں کو سیکولریا لبرل بننے پر مجبور کرنے کی کوئی سبیل تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ معاملہ سراسر ان کی ترجیح اور پسند و ناپسند کا ہے۔ اگر لوگوں کو مجبور کیا جائے تویہ امریکا میں دائیں بازو کا سرپرستانہ انداز سمجھا جائے گا۔ اگر اوباما کہتے ہیں کہ امریکا کے لوگ ایک خاص تناظر کے تحت لبرل اور ڈیموکریٹک ہیں تو پھر یہ بات ماننا پڑے گی کہ اردن، مصر یا پاکستان کے لوگ بھی ایک خاص تناظر میں وہ ہیں، جو وہ سیاسی طور پر ہیں۔
دنیا بھر میں لوگ اس بات سے خوف زدہ رہتے ہیں کہ ان پر کوئی ماڈل مسلط کیا جائے گا۔ کسی بھی دوسرے معاشرے یا خطے کا کوئی سیاسی و معاشی ماڈل جوں کا توں اپنایا نہیں جاسکتا۔ ہر چیز اپنے حالات کی پیداوار ہوتی ہے۔ اگر کوئی ماڈل مسلط کیا جائے تو فطری طور پر مزاحمت تو کی ہی جاتی ہے۔ ہر طریقِ سیاست اور ہر سیاسی نظام کسی خاص پس منظر کا منطقی نتیجہ ہوتا ہے۔ بہت سے ممالک میں ترکی کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر اس حوالے سے خوفزدہ رہنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ترک ماڈل میں کچھ لوگوں کے لیے اگر تحریک تھی تو کچھ دوسرے لوگوں کے لیے تھوڑی بہت مایوسی بھی تھی۔
ملائشیا اور انڈونیشیا کے مذہبی ماڈل کی خصوصیات
اسلامی دنیا میں مشرق وسطٰی سے بھی ہٹ کر بعض اچھی مثالیں اور نمونے موجود ہیں۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا کو اس حوالے سے روشن مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان دونوں معاشروں میں رواداری بھی ہے، شائستگی بھی اور دوسروں کو خوش دِلی سے قبول کرنے کا جذبہ بھی۔ ان دونوں ممالک میں اُردن، تیونس اور مراکش سے زیادہ شرعی قوانین و ضوابط موجود اور نافذ ہیں۔ بیشتر معاملات میں اُنہوں نے شریعت کے اصول اپنائے ہیں۔
انڈونیشیا کے اسکالر رابن بش کہتے ہیں کہ انڈونیشیا کے قدامت پسند علاقوں میں شرعی اصولوں پر مرتب کیے جانے والے قوانین اور ضوابط نافذ ہیں۔ طالبات اور سرکاری ملازمت کی خواہاں خواتین کے لیے اسکارف لازم ہے۔ جامعہ میں داخلے اور شادی کے اندراج کے لیے لازم ہے کہ چند قرآنی آیات سنائی جائیں۔ جکارتہ میں قائم واحد انسٹی ٹیوٹ نے تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ انڈونیشیا میں یہ لازم نہیں کہ اسلامی قوانین پر وہی جماعتیں زور دیں جو اسلام کی بات کرتی ہیں بلکہ سیکولر جماعتیں بھی اسلامی قوانین پر عمل کو اہمیت دیتی ہیں۔ مثلاً جن صوبوں میں گولکر جیسی سیکولر جماعت کی پوزیشن مستحکم ہے وہاں بھی اسلامی قوانین کے نفاذ ہی پر زور دیا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے تادیبی کردار کے لیے قبولیت موجود ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی میں اسلام قوانین کے ذریعے بھی موجود اور متحرّک رہے۔ سیاسی جماعتوں کے نظریات اور پالیسیاں اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ زندگی میں اسلام چاہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی مذہب کو نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
ایسا کیونکر ممکن ہوا؟
ایسا نہیں ہے کہ انڈونیشیا اور ملائیشیا میں اسلام کا نفاذ کوئی چھوٹا مسئلہ تھا۔ ایک بنیادی سہولت البتہ یہ تھی کہ مذہب سیاست میں لانے سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل موجود تھا اور ہے۔ اسلام کی تمام تعلیمات پر عمل سے دورِ حاضر میں یقینی طور پر چند ایک مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ اب بگاڑ بہت بڑھ گیا ہے۔ دین کی تعلیمات بگاڑ کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ جن کا مفاد بگاڑ کے برقرار رہنے سے وابستہ ہے وہ تو لازمی طور پر مزاحمت ہی کریں گے۔ کسی بھی بگاڑ کو دور کرنے میں ہر مذہب کی تعلیمات کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کے لیے ذاتی مفادات ترک کرنا آسان نہیں ہوتا۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا میں آسانییہ رہی ہے کہ معاشرہ اسلامی تعلیمات کو دبوچنے یا محدود کرنے کے بجائے بہت حد تک انہیں قبول کرنے پر آمادہ تھا۔
عرب دنیا اور دیگر اسلامی ممالک میں اشرافیہ نے ہمیشہ اس بات کی مخالفت کی ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو سیاست کے میدان میں لاکر قوانین کی تشکیل و تنفیذ میں کوئی کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔ وہ اسلامی تعلیمات کو صرف عبادات اور مساجد تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ یعنی لوگ علمائے کرام سے خطاب سنیں اور مطمئن ہو رہیں۔ یہی سبب ہے کہ شرعی قوانین کی تشکیل اور نفاذ کی نہ صرف یہ کہ حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی بلکہ باضابطہ مخالفت کی جاتی ہے، اس راہ میں روڑے اٹکانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ مجموعی کیفیت یہ ہے کہ جہاں ضروری ہو وہاں دین کو گلے لگایا جاتا ہے اور جہاں اپنے یعنی ذاتی مفادات پر ضرب پڑتی ہو وہاں دین کو خیرباد کہنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جاتی۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا میں ایسا نہ تھا۔ دونوں ممالک میں عوام اسلام کو عملی زندگی میں بھی قبول کرنے کے لیے اس قدر تیار تھے کہ اشرافیہ میں شرعی قوانین کے خلاف جانے کی ہمت پیدا نہ ہوئی۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ بیشتر اسلامی ممالک میں اسلام کی بات کرنے والی سیاسی جماعتیں بہت مضبوط ہیں۔ ان میں آپس کی کشمکش ہی ختم نہیں ہوتی۔ وہ ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتے رہتے کمزور ہوجاتی ہیں۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا میں ایسا نہ تھا۔ ان دونوں ممالک میں اسلام کا پرچم لے کر چلنے والی جماعتیں بہت مضبوط نہ تھیں اور پھر اسلام کی بات کرنے کا مکمل اختیار چند ایک سیاسی جماعتوں کے پاس نہ تھا۔ ہر جماعت اسلامی قوانین کی حامی تھی۔ اسلام کی بات کرنے والوں کو سیکولر عناصر سے مدد درکار تھی، اور سیکولر عناصر سے اسلام پسند افراد تعاون کرتے تھے۔ عوام میں پائی جانے والی قدامت پسندی ان دونوں سیاسی عناصر کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ دونوں ہی ممالک میں قدامت پسندی خاصی غیر متنازع رہی ہے۔ اس میں انتہا پسندی آئی نہ تشدد۔ یہی سبب ہے کہ قدامت پسندی کو قبول کرنے میں کبھی کسی نے کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔
جنوب مشرقی ایشیا میں اسلام عملی سطح پر سیاست کا حصہ ہے۔ اسلامی قوانین محض وضع نہیں کیے جاتے بلکہ ان پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ مگر مغرب میں اس معاملے پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ اسلامی دنیا میں اسلامی تعلیمات اور قوانین پر عمل کی بات سے بدکنے والے مغرب کو جنوب مشرقی ایشیا میں اسلامی قوانین پر عمل سے کوئی خاص چڑ نہیں۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مغرب کی اجتماعی حکمت عملی میں یہ خطہ زیادہ اہم نہیں۔ اور اس خطے میں رونما ہونے والے واقعات سے باقی اسلامی دنیا میں کوئی بڑی تبدیلی بھی رونما نہیں ہوتی۔
انڈونیشیا اور ملائیشیا میں عوام نے اسلام کو اپنی زندگی میں عملی سطح پر قبول کرلیا ہے۔ وہ اسلام کے وسیع تر کردار کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ مشرق وسطٰی میں اب تک ایسا نہیں ہو پایا ہے۔ لوگ اسلام کی باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر اسے اپنی زندگی میں عملی سطح پر قبول کرنے اور اپنانے کے لیے تیار نہیں۔