مذہبی عدم برداشت اور اقلیتوں کے امور پر اہلِ دانش و علما کی آراء

0

سانحہ سیالکوٹ کے بعد کونسل نے کئی اہل دانش و علما کو خصوصی طور پہ مدعو کیا اور ان سے ان سوالات کے تناظر میں آراء طلب کیں کہ کیسے ملک میں مذہبی رواداری کو یقینی بنایا جاسکتا ہے اور اقلیتوں کے لیے ماحول کو سازگار بنایا جاسکتا ۔ ان میں سے نمایاں مباحث و آراء پیشِ خدمت ہیں:

نوجوانوں کی صلاحیتوں کا ضیاع تناؤ اور لاقانونیت کو جنم دیتا ہے

ڈاکٹر جہانزیب

سانحہ سیالکوٹ بلاشبہ ایک قومی نقصان ہے جس سے من الحیث القوم  ہماری بین القوامی سطح پر سبکی  ہوئی ہے۔ بلاشبہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اور جس رخ پر ہم جا رہے ہیں مجھے نہیں لگتا کہ اس واقعے کے محرکات یہیں پر ختم ہو جائیں گے۔ ستر کی دہائی سے جو سوچ پروان چڑھ چکی ہے اور جس قسم کی تبدیلی ہمارے لوگوں میں آ چکی ہے اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ میری ناقص رائے میں یہ ہمارے ہی بوئے ہوئے بیج ہیں جس کی فصل ہم کاٹ رہے ہیں۔ مختلف ملکی  حالات و ضروریات کے نام پر ہم نے نفرت اور تقسیم کے بیج کی  آبیاری کی یا اس کو قابو کرنے میں سستی اور کاہلی سے کام لیا۔ نفرت اور تقسیم سے شاید ہمیں وقتی فائدہ ہوا ہو  مگر یہ منفی جذبات پھر رکتے نہیں اور نفرت مزید نفرت اور تقسیم مزید تقسیم(درتقسیم) کا باعث بنتی ہے۔ اصل میں انسان میں اللہ نے خیرو شر دونوں کی استعداد رکھی ہے۔ اگر خیر کی آبیاری کی جائے تو خیر کی قوت مضبوط ہوگی اور  اگر شر کو کھاد اور پانی مہیا کیا جاتا رہے تو اس سے شر ہی پیدا ہوگا۔ ہمیں وقت پر یہ نہ احساس ہوا  اور نہ ہی دلایا گیا کہ جس مادےکو  ہم تقویت دے رہے ہیں وہ ہمیں بہت مہنگا پڑے گا۔ اب ہم سب مل بیٹھے ہیں کہ آخر یہ ہوا کیا ہے اور اسے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گو کہ اس سانحے کو مذہبی رنگ میں دیکھا جا رہا ہے مگر میرے خیال میں یہ ایک معاشرتی اور نفسیاتی معاملہ ہے اور اگر ہم نے اسے ٹھیک طور پر نہیں سمجھا تو مزید نقصانات کی قوی اندیشہ موجود ہے۔

ہجوم کی نفسیات

نفسیات کا بنیادی اصول ہے کہ ’’کل اپنی اکائیوں کے   مجموعے سے کچھ زیادہ ہوتا ہے‘‘ یعنی کل میں کچھ ایسا ہوتا ہے جو اکائیوں میں نہیں ہوتا جیسا کہ چراغاں میں دوڑتی ہوئی روشنیوں کو اگر اکیلے اکیلے دیکھا جائے تو اس  میں حرکت کا عنصر نہیں پایا جائے گا۔ اسی طرح جب ہجوم اکٹھا ہوتا ہے تو  اس میں موجود عقل مند اصحاب کی انفرادی عقل پس پشت چلی جاتی ہے اور ان پر ہجوم کی نفسیات غالب آجاتی ہیں۔ اسی طرح سے ہجوم یعنی  (Crowd) جب پرتشدد ہو جائے تو اس کو (Mob ) کہتے ہیں۔ ہجوم میں (suggestibility )یا تجویز  قبول کرنے کی صلاحیت بہت بڑھ جاتی ہے اور افراد ایک آواز پر کوئی بھی کام کرنے  دوڑ پڑتے ہیں۔ اس دوران سوچنے  سمجھنے کی صلاحیت ماند پڑ جاتی ہے اور جذبات غالب آجاتے ہیں۔ انسان ہر وہ کام کرنے پر آمادہ ہوتا ہے جس کا عام حالات میں وہ  تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس بنیادی نکتے کے علاوہ ہجوم کی نفسیات کے بارے میں دو نظریات پائے جاتے ہیں۔  ایک نظریہ کو Contagion Theory  کہتے ہیں جس کے مطابق  کوئی بھی عمل یا بات ایک متعدی مرض کی طرح ہجوم میں پھیل جاتی ہے۔ اس عمل میں انسان اپنی سوچ کو پس پشت ڈال کر دوسروں کی سوچ پر چلتا ہے اور یہ کیفیت پورے ہجوم میں پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔

چونکہ ہجوم زیادہ ہوتا ہے اور اس میں ایک احساس قوت موجود ہوتا ہے اس لیے وہ کوئی بھی کام کر ڈالتا ہے۔ جنتا بڑا ہجوم ہوگا اتنا زیادہ یہ بھی امکان ہوگا کہ کسی بھی غلط کام کا صدور ہوجائے۔ اس ہجوم میں انسانوں کے اندر بہیمانہ جذبات غالب ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ پر کنٹرول کمزور پڑ جاتا ہے۔ چونکہ بنیادی طور پر ہجوم ایک دوسرے سے صحیح واقف نہیں ہوتے اس لیے معاشرتی قدروں کی زیادہ پرواہ نہیں کی جاتی۔ ہجوم کی پہلے سے کسی خاص منصوبہ بندی یا ترتیب بھی ضروری نہیں ہوتی بلکہ اکثر و بیشتر پیشگی منصوبہ بندی ہوتی بھی نہیں۔ امکان ہے کہ چند لوگ ہجوم کو استعمال کر لیں۔ اس نظریہ کے مطابق انسانی سوچ انفرادی سوچ کے اصولوں پر تخلیقی یا  تنقیدی نہیں ہوتی بلکہ Irrational یا غیر معقول ہوجاتی ہے۔ انسان کی انفرادیت نہیں رہتی اور ایک عمل جسے deindividuation (انسان کا انفرادیت والے کام کے لیے چلے جانا) کہتے ہیں، وقوع پذیر ہوتا ہے اسی لیے ہجوم کی صورت میں کیے گئے غلط اقدامات کے لیے قانون سازی ایک مشکل عمل ہوتا ہے۔جیسا کہ پہلےذکر کیا گیا ہے کہ جذباتیت کا عنصر ہجوم میں بہت غالب ہوتا ہے اورجہاں جذبات ہوںوہاں عقل ٹھیک طور پر کام نہیں کرتی اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بہت محدود ہوجاتی ہے۔ دوسرا نظریہ جو ہجوم کی نفسیات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے اس کو Emergent Norm Formation Theory  کہتے ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق ہجوم کا کوئی منصوبہ طے نہیں ہوتا بلکہ ہجوم کے اندر ہی اندر بغیر کسی اعلان کے لوگ ایک خاص ایکشن یا عمل کی طرف مائل ہو جاتے ہیں جو کہ غلط اور غیر سماجی رویے پر بھی مبنی ہو سکتا ہے۔ افواہوں کا اس قسم کے ماحول  میں بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ افواہیں پیدا ہو جاتی ہیں یا پیدا کر دی جاتی ہیں اور بہت تیزی سے پھیلتی ہیں اور لوگوں میں ایک تیز ردعمل پیدا کرتی ہیں اور لوگ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ایک ایسے عمل میں شریک ہو جاتے ہیں جس میں ان کی قوت فیصلہ، سوچ اور فکر کا بہت کم عمل دخل ہوتا ہے اور ایسے کام کر جاتے ہیں جس پر وہ اکثر بعد میں نادم بھی ہوتے ہیں۔

فرد کی حیثیت اوراجتماعی اخلاقیات

تحقیق سے یہ بات اخذ کی گئی ہے کہ اکثر انسانوں کو اگر غلط کام کرنے کا نسبتاً محفوظ موقع میسر آئے تو وہ گناہ کر لیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر بیرونی  رکاوٹیں یعنی قانون، معاشرتی دباؤ اور لوگوں کا ارد گرد نہ ہونا یا ایک فرد کا نہ پہچانا جانا  جیسے عوامل موجود ہوں تو انسان غلط کام کر سکتا ہے (اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خوف خدا یا مذہب سے حقیقی لگاؤ کتنی ضروری  چیز ہے)۔ suicide baiting یا خود کشی پر ابھارنا ایک ایسا عمل ہے جس میں لوگ کسی فرد کو خود کشی کرنے کی کوشش کرنے پر ترغیب دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک تجربے میں ایک بہت اچھی یونیورسٹی کے طالب علموں کو دیکھا گیا کہ وہ اندھیرے کی وجہ  سے نہ پہچانے جانے کے سبب ایک شخص کی خود کشی کی کوشش پر اسے خود کشی پر ابھار رہے تھے۔ اگر پہچانے جانے کا خوف ہوتا تو شاید وہ ایسا بالکل نہ کرتے۔ ہجوم  میں اکثر یہ صورتحال ہوتی ہے اور چونکہ جرم مشترکہ ہوتا ہے اسی لیے کسی پر ذمہ داری ڈالنا مشکل ہوتا ہے۔ اس قسم کی صورتحال میں موقع کی عکس بندی ایک اچھا عمل ہو سکتا ہے کیونکہ اسی سے بندوں کی پہچان ممکن ہو سکتی ہے اور پکڑے جانے کے خوف سے لوگ غلط کام سے بچیں گے۔

نوجوانوں کی توانائیوں کو محفوظ بنایا جائے

ہمارا ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی توانائیاں صحیح طور پر استعمال کرنے کے مواقع میسر نہیں آتے۔ نہ تو ہمارے ہاں کھیلوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور نہ ہی ہم نصابی سرگرمیوں کے مناسب مواقع موجود ہیں۔ نتیجتاً ہماری توانائیوں کے منفی سرگرمیوں کے استعمال  کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ توانائی نے کہیں نہ کہیں تو اپنا راستہ بنانا ہوتا ہے۔ ہم نے بحیثیت قوم اداروں کی ترقی پر توجہ نہیں دی، نتیجتاًہمارے نظام عدل اور انتظامی ڈھانچے پر لوگوں کو اعتماد نہیں ہے جس کی وجہ سے قانون کو ہاتھ میں لینے کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کی سوچ میں radicalization (انتہا پسندی) کا رجحان پایا جاتا ہے۔ میرے خیال میں اداروں کو وقعت دینے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کا اعتماد  ریاستی اداروں پر بحال ہو۔ تعلیم اور تربیت ریاست اور خاندان کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ بنیادی تعلیم اور تربیت پر زیادہ توجہ دے اور اچھے اساتذہ کو بھرتی کرے اور ان کو زیادہ سہولیات دے تاکہ ان کی عزت بنے اور طالب علموں کے دل ان کی مائل ہوں۔ بنیادی تربیت کا کام والدین اور انہی اساتذہ کا ہے، اعلی تعلیم بھی ایک اہم شعبہ ہے، بدقسمتی سے ہائر ایجوکیشن کمیشن(HEC ) نے سائنس اور ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ توجہ دی ہے اور سماجی، مذہبی اور آرٹ کے مضامین کو کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے معاشرے کی سمت میں تبدیلی آتی گئی اور صرف  سائنسی ترقی کو ہی ترقی سمجھا جانے لگا، ابھی بھی وقت ہے کہ کمی کا ازالہ کیا جائے اور معاشرتی بگاڑ کو  درست کیا جائے۔ چاہے وہ علم ہو، محبت و شفقت ہو یا کوئی اور چیز، اگر اس میں خلا(vacuum ) رہ جائے تو عموماً ناپسندیدہ عناصر آکر وہ کمی یا خلا پورا کرتے ہیں اور پھر حالات و نتائج ہماری پسند  کے نہیں ہوتے۔ ہمارا ایک بہت بڑا قومی مسئلہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ہے جس پر ہماری حکومت کا بہت کم کنٹرول ہے اور جس کے کوئی خاص اصول و ضوابط طے نہیں ہیں۔ ٹی وی ایسے رول ماڈل دکھائے جاتے ہیں جن کا واقعتاً معاشرے کی اصلاح اور ترقی میں کردار نہیں ہوتا۔ تشدد کی ترویج ڈرامے اور فلم کےذریعے بڑے  عرصے سے کی جارہی ہے۔ اس طرف اصلاح کی بہت ضرورت ہے۔ منبرو محراب اور اسکول و مدرسے کا معاشرے کو سنوارنے میں بہت بڑا کردار ہے، عوام کو برداشت کی تعلیم دینا وقت کا بڑا تقاضا ہے، اساتذہ کرام کی تربیت ان خطوط پر ہونی چاہیے کہ وہ یہ ذمہ داری بطریق احسن نبھا سکیں، جب ہم علم کی قدر کریں گے تو اساتذہ مقتدر ہوں گے اور معاشرے کی سمت صحیح ہوگی۔  صبر، برداشت، تعلیم اور تربیت اور اپنی اصل  سے جڑے رہنا ہی وہ عناصر ہیں جن کی بدولت ہم ابھی بھی کھوئی ہوئی منزل پا سکتے ہیں، نفرت صرف نفرت کو اور تقسیم مزید تقسیم کو جنم دے گی اور اس کی روک تھام ہم سب کا فرض ہے۔

توہینِ مذہب کا مسئلہ اور قانونی مسائل و خلا

پروفیسرڈاکٹر مشتاق احمد

متشدد رویوں کی جڑیں

سب سے پہلے تو ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہمارے ہاں یہ پر تشدد رویہ آیا کہاں سے ہے؟ اس کی جڑیں واقعی ہماری مذہبی روایت میں پائی جاتی ہیں؟ یا یہ معاشرے میں پائی جانے والی عمومی لاقانونیت اور بے چینی کے بہت سے مظاہر میں ایک مظہر ہے؟ کیا جب قومی مفاد کے نام پر طاقت کے بل بوتے پر ملک کے آئین کو معطل کر دیا جاتا ہے اور اس فعل کا ارتکاب کرنے والے عدالت اور قانون کی گرفت سے بچ جاتے ہیں، باوجود اس کے کہ ملک کا آئین اس فعل کو سنگین غداری سے تعبیر کرتا ہے، تو کیا  اس طرح ملک کا طاقتور طبقہ اپنے طرز عمل سے پورے معاشرے کو یہ پیغام نہیں دے رہا ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لینا کوئی بڑی بات نہیں ہے، اگر آپ اپنے تئیں خود کو درست سمجھتے ہوں؟ کیا عوام تک یہ تاثر صاحبان اقتدار و اختیار کی طرف سے نہیں پہنچا؟! میرے نزدیک یہ مسئلے کی جڑ ہے اور اگر اس مسئلے کو جڑ سے پکڑنا ہے اور اس فساد کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو اس کا واحد مؤثر  اور یقینی حل یہ ہے کہ معاشرے کا بالا دست طبقہ قانون کی حکمرانی کا علمبردار بن جائے۔جب تک یہ بالا دست طبقہ خود قانون کی بالادستی تسلیم  نہیں کرتا اور قانون کی دھجیاں بکھیرنے کو معمولی کام سمجھتا ہے، عوام سے قانون کی حکمرانی منوانا ممکن نہیں ہے۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایک عام انسان جو عام حالات میں کسی چیونٹی کہ بھی کچلنے سے کتراتا ہے، کیسے بھیڑ اور ہجوم  کا حصہ بن کر ایسی درندگی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے جس کا شاید وہ خود بھی تصور نہیں کر سکتا تھا؟! ہجوم کی نفسیات کے خصوصی مطالعے کی ضرورت ہے۔  کیسے ہجوم کا حصہ بن کر کسی فرد کی انفرادی شخصیت پس منظر میں چلی جاتی ہے اور  اگر وہی شناخت، عصبیت اور نفسیات کو بالاتر حیثیت حاصل ہوجاتی ہے؟! اس کے بعد اخلاقی لاتعلقی کی ڈھال تعمیر کی جاتی ہے کہ گروہ کے ہدف کو ایک ایسا غیر انسانی وجود فرض کر لیا جاتا ہے جس کے ساتھ جتنا سخت سلوک کیا جائے، کم نظر آتا ہے، اور پھر نہ صرف اسے وحشیانہ طریقے سے کچلنا جائز ہو جاتا ہے بلکہ اس کی لاش کو جلا کر بھی تسکین نہیں ملتی!

کم علمی

اس مسئلے کا ایک سبب کم علمی ہے، جیسے چرچ پر حملہ کرنے والے گروہ میں شامل ایک نوجوان کا موقف یہ تھا کہ وہ امریکہ میں ایک پادری کے قرآن جلانے کا ’’قصاص‘‘ لینا چاہتا  تھا! اب اس  بے چارے کو واقعی یہ علم نہیں تھا کہ ایک کے کیے کی سزا دوسرے کو دینا قصاص نہیں بلکہ ظلم ہے۔ تاہم یہ کم علمی ہی اس کا واحد سبب نہیں ہے۔ بسا اوقات علم کے باوجود بھی ہجوم کا حصصہ بن کر  انسان یہ سب کچھ کر گزرتا ہے۔ ایسے میں کیا چیز ہے جو انسان کو روک دیتی ہے، یا روک سکتی ہے؟ مثلاً اس نوجوان نے بتایا کہ جب اس کا  ایک ساتھی توڑ پھوڑ کرتا ہوا چرچ کی عمارت پر پہنچا تاکہ وہاں  سے صلیب گرادے، تو اچانک ہی رک گیا اور پھر واپس آگیا۔ جب اس سے پوچھا گیا، تو اس نے جواب دیا کہ وہاں انجیل کی آیت میں خدا کا نام لکھا ہوا تھا اور اس کے اوپر میں چڑھ نہیں سکتا تھا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ خدا کے احکام پر چڑھائی کرنے والے خدا کا نام دیکھ کر رک بھی جاتے ہیں!

انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی رپورٹس کی اہمیت

انسانوں کی وحشت و بربریت کا مظاہرہ جنگوں میں بھی اکثر دیکھنے میں آتا ہے۔ چنانچہ بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی نے اس موضوع پر ایک اہم تحقیق کی کہ اس وحشت و بربریت کے اسباب معلوم کیے جائیں اور ان کاتدارک کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اس تحقیق کو پہلے Roots of Behavior in War  کے عنوان سے شائع کیا گیا۔ بعد میں اس میں مزید اضافہ کر کے اس کو Roots of Restraint in War کا عنوان دیا گیا۔ ہم نے پاکستان کے پس منظر میں اور اسلامی قانون کے اصولوں کی روشنی میں اسی نوعیت کی ایک ابتدائی تحقیق کی ہے جسے ریڈ کراس کمیٹی نے ہی شائع کیا ہے۔ اس کا عنوان ہے:Islamic Perspective on the Roots of Restraint in War: A Case Study of Pakistan ۔ میری تجویز ہوگی کہ پالیسی سازی اور قانون سازی کے لیے اس طرح کی تحقیقات کو مدنظر رکھا جائے۔

محاربہ کے قوانین کا اطلاق

بعض احباب نے مولانا امین احسن اصلاحی اور جاوید احمد غامدی  کی رائے پر انحصار کرتے ہوئے یہ تجویز دی ہے کہ ہجوم میں شامل سب افراد کو ’’محاربہ‘‘ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان پر سورۃ المائدہ کی آیت 32 کا اطلاق کیا جائے اور ان محاربہ کی سزا  دی جائے، بجائے اس کے کہ ہر فرد کی الگ  فوجداری ذمہداری کا تعین کیا جائے۔ انھوں نے اس ضمن میں اہل صنعاء کے متعلق سیدنا عمرؓ کے مشہور قول کا حوالہ بھی دیا جسے فقہ کی کتب میں عموماً ’’قتل الجماعة بالواحد‘‘ (ایک مقتول کے کئی قاتلین کی سزائے موت) کے عنوان  کے تحت ذکر  کیا جاتا ہے۔ تاہم اس رائے میں اس طرف توجہ نہیں دی گئی کہ سورۃ المائدہ کی مذکورہ آیت میں بھی جرم کی ایک نہیں بلکہ چار سزائیں رکھی گئی ہیں اور اگر فقہائے کرام کی تحقیق کو  نظر انداز کر کے صرف مولانا اصلاحی اور جناب غامدی کی رائے کو ہی دیکھا جائے، تب بھی اتنی بات تو ماننی پڑے گی کہ سزا اور جرم میں  نسبت و تناسب  کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ یہ دیکھنا تو بہرحال ضروری ہے کہ جرم میں کس کا  کتنا حصہ تھا اور کس کو کس حد تک ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے؟ اسی طرح سیدنا عمرؓ کے قول سے استدلال کرتے ہوئے بھی یہ تو ضرور دیکھنا چاہیے کہ کیا اس گروہ نے مل کر اس ایک فرد کے قتل کی منصوبہ بندی کی  یا موقع پر ہی  ہجوم بنا اور کسی ابتدائی منصوبہ بندی کے بجائے بس لوگ لہر اور رو میں بہہ گئے؟ اسی سوال کے جواب  کے لیے ہمرے ہاں قانون میں بھی ’’مشترک ادارہ‘‘    (common intention)                    اور ’’مشترکہ ہدف‘‘ (common object) کی اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں۔ (دیکھیے، مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی  دفعہ 34 اور دفعہ 149 )۔ نیز فوجداری قانون کا بنیادی اصول فرد کی انفرادی ذمہ داری کا ہے۔ ہر فردکو اس کے کیے کی سزا ملنی چاہیے۔ ہجوم کا حصہ بننا بھی جرم ہے اور قتل بھی جرم ہے لیکن قانون بہرحال مباشر اور متسبب کا فرق دیکھتا ہے اور سببِ قریب اور سببِ بعید میں فرق کو بھی  اہمیت دیتا ہے۔ چنانچہ پولیس، تفتیش اور پروسیکیوشن سب کی کار کردگی پر نظر رکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔

مثلاً پولیس کی جانب سے جناب عمر سعید(ڈی پی او سیالکوٹ) نے بریفنگ دیتے ہوئے واضح کیا کہ تمام ملزمان گرفتار کر لیے گئے ہیں، کوئی مفرور باقی نہیں رہا، اور یہ کہ ’’پولیس نے صرف تعداد ہی پوری نہیں کی‘‘۔ یہ آخری جملہ خود شاہد ہے کہ پولیس پر لوگوں کو اعتماد نہیں ہے اور اس کے بارے میں یہ تاثر موجود ہے کہ وہ صرف تعداد پوری کرنے کے لیے بہت سارے لوگوں کو گرفتار کرلیتی ہے۔ ان میں سے کئی ایک بے گناہ بھی ہو سکتے ہیں۔ کئی ایک ایسے بھی ہوں گے جو اس سے قبل کسی جرم میں ملوث رہے ہوں گے اور اس بنا پر پولیس کی نظر میں مشتبہ ہوں گے لیکن اس مخصوص موقع پر اس  مخصوص جرم میں ان کی شرکت کا ثبوت فراہم کرنا بہرحال پولیس، تفتیش اور استغاثہ کی ذمہداری ہے۔ ثبوت ایسے ہوں جو ان کی جانب سے جرم کا ارتکاب اس طور پر یقینی دیکھائیں کہ شک کی گنجائش باقی نہ رہے، تبھی عدالت سزائیں دے سکے گی، ورنہ پھر ہوگا یہ کہ عدالت عدمِ ثبوت کی بنا پر بری کر دے گی اور لوگ عدالت کو ہی موردِ الزام ٹھہرانا شروع کردیں گے۔

مسئلہ قوانین کی کمی نہیں

پولیس کی جانب سے یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ ہجوم کے جرم کے متعلق نئی قانون سازی کی جائے کیونکہ پہلے سے موجود قوانین کے ذریعے ایسے جرائم سے نمٹنا مشکل ہے۔ میری رائے اس کے بالکل برعکس یہ ہے کہ پاکستان میں مسئلہ قوانین کی عدم موجودگی یا اقلیت کا نہیں، بلکہ قوانین کی کثرت کا ہے اور میں قانون کے ایک طالب علم کے طور پر یقین رکھتا ہوں کہ کسی نئی قانون سازی کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اصل ضرورت قوانین کے مؤثر نفاذ کی ہے۔ اس وقت بھی مسئلہ ہ ہے کہ ایک ہی جرم پر کئی قوانین کا بیک وقت اطلاق ہوتا ہے اور اس وجہ سے غیر ضروری پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ یقین نہ ہو، تو فساد فی الارض کے متعلق مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 311 کے اطلاق کے متعلق عدالتی فیصلے دیکھ لیجیے۔ اسی طرح پولیس ہر معاملے میں دہشت گردی کی دفعات ڈالنا ضروری سمجھتی ہے کیونکہ اس طرح ملزم کی ضمانت مشکل اور بعض اوقات ناممکن ہو جاتی ہے لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہر جرم کو دہشت گردی قرار دے کر دہشت گردی کی دہشت ختم کر دی گئی ہے۔ نیز انسداد دہشت گردی کی عدالتوں پر غیر ضروری بوجھ کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ البتہ توہینِ رسالت کی سزا کے متعلق قانون پر نظرِثانی کرنے اور اس میں بہتری لانے کی ضرورت یقیناً  ہے ۔

شدت پسندی کے سدِباب کے لیے تربیت اور صحیح معلومات کی اہمیت

ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی

تکفیر اور توہینِ مذہب سے متعلق درست آگہی کی ضرورت

معاشرے میں شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا ایک سبب مشروعات اور ان کی حیثیت سے عدم واقفیت بھی ہے۔ ادلہ سمعیہ کی دلالت و ثبوت کے اعتبار سے تقسیم اور فرض و حرام، واجب و مکروہ تحریمی، سنت مؤکدہ اور اساءت ، سنت غیر مؤکدہ و مکروہ تنزیہی، مستحب و خلاف اولی اور مباح سے متعلق شرعی احکامات سے ناواقفیت اکثر اوقات اس تفریق کو بھلا دیتی ہے کہ کس عمل پر عتاب ہوگا اور کس عمل پر سزا و عقاب ہوگا۔ لہذا لوگوں میں شعور و آگہی کی مہم کے ساتھ تکفیر اور توہین رسالت سے متعلق بنیادی مسائل کا علم دینا ضروری ہے۔ دینی مسائل اور قانون سے جہالت، ذاتی دشمنی، زمین کے جھگڑے، لاقانونیت، توہین رسالت کی بین الاقوامی مہم کے مقابلہ میں کچھ نہ کر سکنے کے سبب احساس محرومی اور عدل کا عدم نفاذ لوگوں کو توہین مذہب کا غلط الزام لگانے پر جری کر دیتا ہے۔ جب قوم ایک خاص مرحلہ سے گزر کر Redicalised ہو چکی ہو تو اسے De-Redicalised کرنے کے لیے مثبت سرگرمی اور درست علم فراہم کرنا ہوگا۔ اسی طرح ایسے واقعات کے تناظر میں ان لوگوں پر سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر پابندی لگا دی جائے جو لوگوں کو مزید شدت پسند بنانے کے لیے توہین رسالت کے  قانون کو ختم کرنے پر زور لگا تے ہوئے فرانس اور دیگر ممالک میں ہونے والے توہین مذہب کے واقعات کو آزادی اظہار کے نام پر صرف برداشت کرنے کا درس دے رہے ہیں۔

توہین کا قانون موجود ہونے کے باوجود از خود سزا کے رجحان کا سبب

اس موضوع پر سب سے اہم اور بنیادی نکتہ یہی ہے اور بندہ کے خیال میں  ازخود سزا دینے کے رجحان میں اضافہ کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ لوگوں کو عدالتوں پر اعتماد نہیں رہا۔ عوامی سطح پر یہ بات زبان زد عام ہے کہ حکومت و عدالت ایسے مجرموں کو سزائیں نہیں دیتی، ہمارا عدالتی نتہائی سست اور فرسودہ ہو چکا ہے۔ ماضی میں گستاخی کے حقیقی یا کم از کم ایسے مشکوک مجرم جن کو تین تین نچلی عدالتوں نے سزائیں دی وہ اوپر اوپر عدالتوں میں نہ صرف بری ہوئے بلکہ ماضی میں انہیں فخریہ انداز میں آزاد کیا گیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ غیر ملکی مداخلت، حکومتوں کا عدالتوں پر اثر انداز ورنا اور غیر ملکی پریشر  یہ وہ بنیادی اسباب ہیں جن کی بنا پر کم از کم توہین کے معاملہ  پر عوام میں عدالت پر بھروسہ نہیں رہا۔ اگر ماضی میں گستاخی کے حقیقی مجرموں کو عدالتی سزائیں دی گئی ہوتیں تو آج عدالتی سسٹم پر عوامی بد اعتمادی کی فضا ہرگز نہ ہوتی۔ لہذا توہین کے معاملہ میں قانون کی پاسداری اور از خود سزا کے رجحان کے خاتمہ کا واضح اور صاف راستہ صرف اور صرف یہی  عدالتیں ان جیسے حساس معاملات میں speedy اور quickly فیصلے کریں اور مداخلت و پریشر سے پاک منصفانہ فیصلے صادر کریں، جب تک یہ نہیں کیا جائ۔ گا عوام کا موجودہ عدالتی سسٹم پر اعتماد بحال نہیں ہو سکے گا اور از خود سزا دینے کا رجحان برقرار رہے گا۔ (یہاں یہ واضح رہے کہ بالفرض عدالت اور حکومت فوری اور درست فیصلے نہ بھی کریں تب بھی ازخود سزا دینے اور قانون ہاتھ میں لینے کی پھر بھی شرعاً اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ اسلام کسی صورت بھی انار کی ای فسادو انتشار کی اجازت نہیں دیتا۔ عدالتی کمزوریوں کے با وجود عوام کی ذمہ داری ایسی صورت میں صرف اس حدتک ہے کہ وہ کسی بھی مجرم کو پکڑ کر قانون کے حوالے کر دیں۔ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے)۔

عوام میں قانون کی پاسداری کے شعور کے لیے مناسب نعروں کی تجویز

قانون کی پابندی اور پاسداری کے لیے عوام میں شعور بیدار کرنے کی غرض سے مختلف اسباب اختیار کئے جا سکتے ہیں جن میں مناسب اور سنجیدہ نعرے بھی شامل ہیں  مگر قانون پر عملدرآمد کے سلسلے میں ہر اسٹیک ہولڈر کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی جن میں والدین، اسکول، مدرسہ، مکتب، کالج یونیورسٹی، دینی جامعات اور مساجد کے منبرو محراب اور میڈیا سب شامل ہیں، ان سب ذرائع کو اختیار کر کے کمپین کی شکل میں  مستقل بنیادوں پر تعمیری اور مثبت کام کی ضرورت ہے۔

ذاتی مفاد اور ذاتی انتقام کے پیش نظر توہین مذہب کے الزام کا سدباب

ہمارے معاشرے میں جس طرح دیگر مقدمات مثلاً 302 جیسے مقدمات میں جھوٹ، غلط بیانی اور جعلسازی کا رجحان ہے اسی طرح توہین مذہب کے مقدمات میں بھی ذاتی مخاصمت، عصبیت، ذاتی انتقام اور سیاسی مفادات جیسے اسباب بھی پائے جاتے ہیں مگر اس سلسلے میں بھی گزارش یہ ہے کہ اس رجحان کے سدباب میں بھی عدالتی کمزوری واضح ہے کیونکہ جب ہم عدالتی نظام کی کمزوری کی بات کررہے ہیں تو یہ بات دو طرفہ ہے، یکطرفہ نہیں ہے یعنی جہاں توہین کے حقیقی مجرمین کو سزائیں نہیں دی جاتیں تو دوسری طرف اگر کسی پر توہین مذہب کا جھوٹا اور غلط الزام لگایا گیا تو اتنا سنگین الزام  لگانے والوں کو بھی سزائیں دینے کی کوئی قابل قدر عدالتی کار کردگی سامنے نہیں آئی لہذا عدالتی کمزوری دو طرفہ ہے۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ توہین کے مرتکب کو بھی سخت اور کڑی سزا دی جائے اور جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی عبرتناک سزا دی جائے۔ ہر صورت میں عدالتی رٹ مضبوط اور فعال نظر آنی چاہیے۔ اور مذکورہ خطوط پر استوار ایک مضبوط، منصفانہ  اور توانا عدالتی نظام ہی دراصل مذکورہ خرابیوں کا سدباب کر سکتا ہے۔