النہضہ: بنیاد، عروج اور ڈگمگاہٹ

0

تیونس کی جماعت النہضہ 2011ء سے حکومت کا حصہ ہے۔ یہ جماعت بین الاقوامی سطح پر اپنے معتدل سیاسی مذہبی ماڈل کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے سے یہ تیونس کے اندر بحران کی زد میں ہے اور اسے پر پارلیمان اور اس سے باہر عوام کے ایک بڑے حلقے کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ یہ جماعت اگرچہ پارلیمان میں اب بھی اکثریت رکھتی ہے لیکن مخلوط حکومت کا حصہ ہے۔ اس کی مقبولیت کا گراف پہلے سے کچھ کم ہوا ہے۔ زیرنظر مضمون میں بتایا گیا ہے کہ اس جماعت کی کامیابی کے اسباب کیا تھے اور اب ایسے بحران کے وقت اس کی ڈگمگاہٹ کے عوامل کیا ہیں۔ مصنف مصطفی بکری مصر کی پارلیمان کے رکن ہیں اور پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں۔ وہ ملک کے نمایاں جرائد میں لکھتے رہتے ہیں۔ یہ مضمون عربی سے ترجمہ کیا گیا ہے۔

جماعت النہضہ اور تیونس کا سیاسی بحران

2011ء میں عرب بہاریہ کا آغاز تیونس ہی سے ہوا تھا اور اس وقت عوامی انقلاب کے باعث طویل عرصے سے برسر اقتدار زین العابدین بن علی اقتدار سے الگ ہو گئے تھے۔ اس کے بعد ملکی تاریخ میں سب سے پہلے جمہوری انتخابات میں تیونس کی النہضہ پارٹی کو پارلیمان میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ عرب بہار کے بعد سے اب تک کے دس سالوں میں النہضہ تمام مخلوط حکومتوں کا حصہ رہی ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں ہونے والے انتخابات میں بھی جماعت نے اکثریت حاصل کی تھی اور ایک مخلوط حکومت کا حصہ تھی۔

تیونس عرب دنیا کا وہ واحد ملک تھا جہاں عرب بہار کے بعد صحت مند طریقے سے ایک جمہوری نظم تو تشکیل پاگیا مگر پے درپے برسراقتدارآنے والی حکومتیں تیونس کودرپیش معاشی، سماجی اور سیاسی مسائل سے نجات نہیں دلاسکیں۔ اب عوام کی ایک بڑی تعداد النہضہ کو بھی ملکی مسائل کا ذمہ دار گرداننے لگی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 2011ء کے عرب بہار انقلاب کے بعد اس جماعت نے عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورانہیں کیا ہے۔ گزشتہ برس تیونس کے پارلیمانی انتخابات میں النہضہ کو سب سے زیادہ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں تاہم وہ اکثریت سے محروم رہ گئی تھی۔ اس کی وجہ سے اس نے مخلوط حکومت قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن اس نئی حکومت میں اسے جس طرح نظر انداز کیا گیا ہے اس سے پارٹی کے اپنے لوگ بھی ناراض تھے اور کئی ممبران سے جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی۔

رواں برس 25 جولائی کو تیونس کے صدر پیس سعید نے پارلیمنٹ کو ایک ماہ کے لیے معطل کردیا تھا۔ بعد میں ہشام مشیشی کو وزیراعظم منتخب کیا لیکن بعدازاں صدر قیس سعید نے وزیر اعظم ہشام مشیشی کو برطرف کر دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ ملک کے انتظامی امور خود ہی سنبھالیں گے۔ ملک میں پر تشدد مظاہروں کے بعد انہوں نے اپنے فیصلے کا یہ کہتے ہوئے دفاع کیا تھا کہ ملک کو تباہی سے بچانے کے لیےیہ ضروری ہے۔ النّہضہ پارٹی کے رہنما راشد غنوشی نے صدر کے ان اقدامات کو بغاوت قرار د یا تھا اور عوام سے اس کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کو کہا تھا۔ یہ واضح نہیں کہ صدر کو اپنے ان اہم اقدامات کی سیاسی سطح پر حقیقت میں کتنے فیصد حمایت حاصل رہی۔ تاہم ماہرین کے مطابق اس سے انکار ممکن نہیں کہ 2011ء کے بہارعرب کے بعد پارلیمان میں النّہضہ پارٹی جو سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری تھی اس سے بھی لوگ کافی ناراض ہیں اور شاید اسی رسہ کشی کی وجہ سے یہ سیاسی بحران کھڑا ہوا۔ حالیہ سیاسی بحران کے دوران جماعت کے اندر اور باہر سے النہضہ کے سربراہ راشد الغنوشی پر بہت زیادہ تنقید کی گئی۔جماعت کا ایک گروپ راشد الغنوشی کی سبک دوشی اور پارٹی قیادت میں نیا خون لانے کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ اب 22 نومبر کو ڈاکٹر نجلاء بودن کو وزیراعظم منتخب کیا گیا ہے اور ایک نئی حکومت تشکیل دی گئی ہے۔

النہضہ میں فکری تبدیلیاں

راشد الغنوشی کی سربراہی میں اس جماعت کی بنیاد 1972ء میں رکھی گئی تھی لیکن تب اس کا پہلا نام ‘الجماعہ الاسلامیہ’ تھا۔ بعدازاں یہ نام تبدیل ہوا اور ‘الجہاد الاسلامی’ رکھا گیا۔ اس کے بعد یہ جماعت حرکۃ النہضہ کے نام سے سامنے آئی اور یہ نام اس کی پہچان بن گیا۔ جماعت کے ناموں کی تبدیلی اس امر کی غماز ہے کہ تحریک میں ہمیشہ سے تبدیلی کو قبول کرنے کا عنصر موجود رہا ہے۔ یہ جماعت کے ناموں کی تاریخ ہے لیکن نظریاتی لحاظ سے بھییہ پارٹی خود کو تبدیل کرتی رہی ہے۔

النہضہ کا پہلا دور 1972ء سے 2011ء کا ہے۔ یہ جماعت اپنی تاسیس کے بعد تقریباََ چالیس برسوں تک سیاسی اسلام کی داعی رہی ہے اور یہ اخوان کی ذیلی شاخ بھی سمجھی جاتی رہی۔ بلکہ بعض مفکرین کا کہنا ہے کہ راشدالغنوشی کے القاعدہ رہنماؤں کے ساتھ بھی روابط رہے ہیں۔

جماعت کا دوسرا دور عرب بہار کے بعد کا ہے جو 2011ء سے شروع ہوا۔ اس وقت جماعت نے خود کو ایک معتدل جماعت کے طور پہ پیش کیا تھا اور کہا کہ وہ سیاست میں تمام فریقوں کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔ جمہوریت کے لیے اس کی سنجیدگی اور مذہب پر زیادہ زور نہ دینے کی وجہ سے اس کو بہت پذیرائی ملی اور حکومت کا حصہ بنی۔

النہضہ پارٹی کا تیسرا دور 2016ء میں شروع ہوا جو حقیقت میں اس کا وہ چہرہ ہے جس کے لیے وہ آج جانی جاتی ہے اور اسے مسلم دنیا میں ایک ماڈل کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے۔ یہ دور ہے سیاست ومذہب کے مابین علیحدگی کے اعلان کا۔

النہضہ نے 2011ء کے عام انتخابات میں 89 نشستیں حاصل کیں تھیں، جبکہ 2020ء میں یہ نشستیں کم ہو کر 54 تک آگئی ہیں۔ اگرچہ حکومت میں النہضہ کی کمان 2014ء کے بعد سے نہیں ہے لیکن وہ حکومت کا اہم حصہ رہی ہے اور کوئی بھی پارلیمانی فیصلے اس کی موافقت کے بغیر ممکن  نہیں تھے۔ اس بات کا اظہار راشد الغنوشی نے 2014ء کے انتخابات کے بعد خود بھی کیا تھا کہ ‘‘چاہے ہم حکومت نہ کر رہے ہوں لیکن حکومت ہمارے بغیر کام نہیں کر سکتی’’۔ لہذا اس بات سے قطع نظر کہ النہضہ پارلیمان میں کتنی عددی حیثیت رکھتی ہے یہ اہم ہے کہ اس کا کردار کتنا اہم ہے اور ملکی مسائل کو حل کرنے میں اس نے کیا اقدامات کیے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس وقت تنقید کی زد میں ہے کہ تیونسی عوام نے اس جماعت کے ساتھ جو امیدیں باندھیں تھیں وہ رائیگاں ثابت ہوئیں اور النہضہ نے کوئی قابل قدر اقدامات نہیں اٹھائے۔

النہضہ کی سیاسی کامیابی کے اسباب

تیونس میں مذہبی تشخص کی حامل سیاسی جماعت النہضہ کی کامیابی کے اسباب کیا ہیں؟ اس بارے میں ماہرین نے جو کچھ رقم کیا ہے اس کا خلاصہ ان نکات میں درج ذیل ہے:

1-     تیونس کی آزادی کے بعد وہاں سیکولر طبقہ حکمران رہا ہے جس نے انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا اور مذہبی تشخص کو ہمیشہ دبا کر رکھا۔ اس کے سبب تیونسی عوام کی نفسیات میں ایک حد تک سیکولر حلقے سے بدگمانی پیدا ہوچکی تھی۔ اس لیے النہضہ جیسی جماعت کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اسے جو کامیابی ملی وہ ساری دنیا کے لیے حیران کن تھی۔

2-     راشد الغنوشی اپنی گفتگو میں ایک نئے بیانیے کو اپنائے ہوئے تھے، جس میں مذہب و شریعت کے نفاذ کی بجائے منڈی، معاشی ترقی کی اہمیت اور نظریاتی سیاست پر زور تھا۔ اس سے عوام میں النہضہ کے لیے امید کے جذبات پیدا ہوئے۔

3-     النہضہ شہری ریاست کے نظریے کو قریب قریب اپنا چکی ہے۔ یہ ترکی کی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ کے ماڈل سے نزدیک جبکہ مصر کے اخوانی ماڈل سے دور ہوگئی تھی۔ 2011ء میں ترکی کا ماڈل ساری مسلم دنیا کے لیے قابل رشک تھا۔

4-     انہوں نے آزادی پسند اور سیکولر تنظیموں کو اپنے ساتھ اقتدار میں شریک کرنے کا اعلان کیا جو جماعت کی سیاسی وسعت ظرفی کی علامت بنی اور اسے مقبول بنایا۔

5-     2016ء میں راشدالغنوشی کی جماعت اگرچہ داخلی سطح پر مسائل کا شکار تھی اوراس کی مقبولیت میں کچھ کمی واقع ہوئی تھی لیکن 2016ء میں ان کے اس اعلان نے کہ وہ اپنا تعلق سیاسی اسلام سے توڑتے ہوئے مسلم ڈیموکریٹس کہلائیں گے، النہضہ میں نئی جان پھونک دی تھی۔ بالخصوص عالمی سطح پر ان کے اس اعلان نے سب کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرلی تھی اور النہضہ ماڈل کو کم ازکم نظری اعتبار سے متعدل ترین ماڈل کہا جانے لگا۔ اس سے بھی جماعت کو فائدہ ہوا۔

النہضہ بحران کے گرداب میں:عوامل کیا ہیں؟

النہضہ ویسے تو 2014ء کے بعد سے مسلسل تنقید کی زد میں ہے اس کی ابتدائی وجوہات میں یہ دو چیزیں شامل تھیں:

–       معاشی ابتری اور بے روزگاری

–       حزب مخالف کے دو اہم سیاسی رہنماؤں (شکری بلعید، محمد ابراہیمی) کا قتل۔ یہ قتل اب تک معمہ ہیں اور اس کی حقیقی کرداروں کا علم نہیں ہوسکا لیکن چونکہ مقتول النہضہ کے مخالفین میں سے تھے اس لیے حزب اختلاف کی جماعتیں اس کو موردالزام ٹھہراتی آئی ہیں۔

یہ دو وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر النہضہ کو مسلسل نشانہ بنایا گیا۔ لیکن یہ اسباب ابتدائی نوعیت کے ہیں جن کی وجہ سے عوامی حلقے میں برارہ راست النہضہ کی مقبولیت پر اثر پڑنے لگا۔ اس کے علاوہ اصل مسائل سیاسی بحران کے تھے جن کی وجہ سے راشدالغنوشی اور النہضہ کا عالمی امیج بھی خراب ہوا اور ملک کے اندر افراتفری کے ماحول نے جنم لیا۔ ان میں سے بعض اسباب یہ تھے:

  • گزشتہ دس سالوں کے دوران تیونس میں 8 حکومتیں بن چکی ہیں۔ کئی انتخابات اور حکومتوں کے آنے جانے کی وجہ سے ریاستی ادارے شدید متأثر ہوئے۔ ان حکومتوں کی تبدیلی کے پیچھے سیاسی جماعتوں کی طاقت کے حصول کے لیے رسہ کشی تھی۔ اس کا براہ راست اثر عوام کی معاشی حالت پر مرتب ہوا۔ کوئی ایک پالیسی نہ ہونے کی بنا پر معیشت تباہ ہو کر رہ گئی۔ بالخصوص کورونا وبا کے بعد صورتحال بالکل خراب ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب صدر قیس سعید نے پارلیمان کو معطل کیا تو ان کے حق میں لوگوں کا جم غفیر باہر نکلا۔ عوام ملک میں سیاسی بحران اور حکومتوں کی پے درپے تبدیلیوں کی ذمہ داری میں النہضہ کو بھی شریک سمجھتے ہیں۔ اسی لیے جماعت کی مجلس شوری کے بعض ارکان نے راشد الغنوشی کے بطور سپیکر عہدے سے استفعے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
  • النہضہ کی قیادت نے تیونس کے باہر اسلامی ممالک اور مذہبی جماعتوں کے معاملات میں دخل اندازی شروع کردی تھی۔ بالخصوص لیبیا، سوڈان، شام اور ترکی کے امور میں وہ کردار ادا کرنے کے خواہاں تھے۔ اس سے النہضہ کی شبیہ کو دھچکا لگا، کیونکہ یہ وہ جماعت تھی جس نے اپنے اندر تبدیلی کے وقوع کا اعلان کیا تھا اور خود کو ملکی داخلی سماجی سیاسی معاملات کے حل کا نمائندہ بنا کر پیش کیا تھا۔ اس سے تیونس کے عوام نالاں ہوئے کہ النہضہ کو پہلے اپنے ملک کے دگرگوں معاشی سماجی وسیاسی مسائل پر توجہ دینی چاہیے، نہ کہ دوسرے ممالک کے معاملات میں۔
  • 2011ء سے 2017ء تک کے مرحلے میں تیونس کے اندر سخت گیر مذہبی جماعتیں زیادہ فعال ہوئیں اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہونے لگا۔ حتی کہ 2016ء میں لیبیا کے ساتھ کے تیونسی سرحدی علاقے بن قردان میں داعشی عناصر نے اپنی حکومت کے قیام کا اعلان بھی کردیا تھا۔ عوام اور حزب مخالف کی سیاسی جماعتوں نے النہضہ کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا کہ حکومت کا حصہ بننے کے بعد جماعت نے ملک کے سخت گیر مذہبی طبقات کو کھلی آزادی دیے رکھی اور ان کی فعالیت کو ختم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ جبکہ جماعت کا جدید نظریہ اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ ان کی ذمہ داری زیادہ بنتی ہے کہ وہ ان عناصر کی فعالیت کو ختم کریں۔
  • عرب بہار کے بعد سے تیونس کی معاشی حالت ابتری کا شکار ہوتی گئی۔ اِس ملک کی جی ڈی پی منفی آٹھ اعشاریہ آٹھ تک پہنچ چکی ہے اور تیونس بیرونی قرضوں میں گھرا ہوا ہے۔ غربت اور بے روزگاری نے بھی حکومت میں شریک جماعت النہضہ کی مقبولیت میں کمی لائی۔ جولائی 2021ء کے ایک سروے کے مطابق عوام کا 92 فیصد حکومت سے شدید نالاں تھا اور جب ان سے سوال کیا گیا کہ سیاسی جماعتوں میں سے اس حالت کا زیادہ ذمہ دار کون ہے تو پہلے نمبر پر النہضہ کو رکھا گیا۔ زمینی حقائق کے تناظر میں یہ درست بھی ہے کہ النہضہ کے کندھے پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ کیونکہ گزشتہ دس سالوں کی حکومتوں میں شراکت کے دوران اس نے بیوروکریسی اور مالیاتی اداروں میں اپنے ہم فکر عناصر کی خاطر خواہ تعداد بھرتی کی ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی سیاسی یا معاشی بحران جنم لیتا ہے تو عوام النہضہ کی جانب دیکھتے ہیں۔
  • جماعت کے داخلی اختلافات اور ٹوٹ پھوٹ۔ وقت کے ساتھ النہضہ پارٹی سے اس کے اہم رہنما الگ ہوتے گئے۔ اس کی وجہ جماعت کے اندر سیاسی اور تنظیمی اختلافات کا شدت اختیار کرجانا تھا۔ پچھلے چند ماہ میں جماعت کے اہم ممبران میں سے 113 نے استعفی دیا ہے۔ جماعت کے الگ ہوجانے والے رہنماؤں میں سے سابق وزیراعظم حمادی الجبالی، مسؤول مرکزی عبدالحمید جلامی، راشدالغنوشی کے سیاسی مشیر لطفی زیتون شامل ہیں۔ ستمبر میں النہضہ کی مجلس شوری کے رکن زبیر الشہودی نے راشد الغنوشی کو جماعت کی قیادت سے علیحدہ ہونے کا مطالبہ بھی کرڈالا تھا۔ جماعت میں پائی جانی والی اس کشیدگی کی وجوہات کئی ہیں، ان میں سے ایک صحت مند شورائی عمل کا مضمحل ہونا بھی ہے جماعت کے سیاسی وتنظیمی فیصلے اس طرح نہیں ہوتے جیساکہ جماعت کے ممبران چاہتے ہیں۔
  • دیگر سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے ساتھ کشیدگی۔ 2011ء کے عام انتخابات کے بعد النہضہ کا تصور قائم ہوا تھا کہ یہ جماعت تمام سیاسی مکاتب فکر کے ساتھ چل سکتی ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ جماعت کے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعلقات خراب ہونے لگے۔ 2019ء میں جماعت اپنا صدارتی امیدوار کامیاب کرانے میں اس لیے ناکام ہوگئی کہ اس کے دیگر جماعتوں کے روابط اچھے نہیں رہے۔

اِس وقت تیونس کی النہضہ پارٹی کو ملک کے اندر ایک بڑے چیلنج کا سامنا درپیش ہے۔ اس پر عدالتوں میں مقدمات بھی دائر کیے جاچکے ہیں اور عوام میں اس پر اعتماد کم ہوا ہے۔ راشدالغنوشی طویل تحریکی تجربہ رکھتے ہیں جو ان کی بہترین صلاحیتوں کی نشانی ہے لیکن جماعت کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ نے جو اثرات ڈالے ہیں وہ اسے واپس اپنے مقام پر لانے میں مشکلات پیدا کرتی رہیں گی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ سوال کہ جماعت کے سیاسی مستقبل کا کیا ہوگا تو اس کا اندازہ فی الحال لگانا مشکل ہے لیکن شاید جماعت کو اپنا پہلے والا اعتماد بحال کرنے میں وقت لگے۔