علاقائی استحکام کے لیے افغان طالبان کے ساتھ بات چیت اور تعامل کی ضرورت

0

افغان طالبان بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعمیری وثمرآور روابط چاہتے ہیں۔ اگر وہ بات چیت اور باہمی تعامل میں دلچسپی نہ رکھتے ہوتے تو  2020 میں امریکا کے ساتھ دوحہ معاہدے پر دستخط نہ کرتے۔ ان خیالات کا اظہار’مستحکم افغانستان کے لیے بین الاسلامی سطح کے مذاکرات‘ کے امکانات کے حوالے سے اسلام آباد میں ہونے والے ایک مشاورتی اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام کے رہنما جلال الدین ایڈووکیٹ نے اوراجلاس کے دیگر شرکاء نے کیا۔ اس مشاورتی اجلاس کا اہتمام ’انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور‘ (IRCRA) نے 27 مئی 2023 کو اسلام آباد میں کیا تھا۔ مشاورتی اجلاس میں افغانستان اور علاقائی روابط میں دلچسپی رکھنے والے ماہرین کو مدعو کیا گیا۔

اجلاس کا مقصد افغانستان میں استحکام اور امن کے فروغ کے لیے مذہبی علما اور مختلف شعبوں کے دیگر ماہرین کے درمیان مؤثر بات چیت کے لیے سہولت فراہم کرنا تھا۔ IRCRA کے صدر محمد اسرار مدنی نے مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے وضاحت کی کہ اس مشاورتی اجلاس کا مقصد افغان طالبان کے ساتھ تعامل کے ایک کامیاب ماڈل اور مذہبی سفارت کاری سے متعلق امکانات پربات کرنا ہے جس سے مختلف افغان  اور علاقائی اسٹیک ہولڈرز اور بین الاقوامی برادری کے درمیان بہتر افہام و تفہیم کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے،اور جس کا فائدہ انجام کار اِس خطے میں رہنے والے لوگوں کو ہوگا۔

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر ابرار حسین نے اس بات پر زور دیا کہ افغان طالبان کے زیر انتظام موجودہ افغان حکومت کے ساتھ روابط کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ایسے کسی بھی تعامل  کا آغاز آج کے افغانستان کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے اور انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے اقتصادی تعاون، تجارت اور سرمایہ کاری جیسے اقدامات کے ساتھ ہونا چاہیے۔ لڑکیوں کی تعلیم اور تمام اکائیوں کی شراکت پرمشتمل حکومت جیسے دیگر تمام حساس مسائل کو بتدریج حل کیا جا سکتا ہے کیونکہ اصولی طور پر افغان قیادت کی اکثریت تمام شہریوں کے لیے برابری اور تعلیم کے حق میں ہے۔

مولانا یوسف شاہ جو دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے ترجمان اور طالبان اور دیگر گروہوں کے مابین مذاکراتی عمل میں سرگرم رہے ہیں، نے کہا کہ مسائل کو مذاکرات اور بات چیت سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ طالبان برابری کی سطح پر مذاکرات کے خلاف نہیں ہیں اور وہ افغانستان میں معاشی اور سیاسی استحکام میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ عالمی برادری کے ساتھ  بہرحال برابری پرمبنی بہرحال اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔

اس اجلاس میں مولانا طیب طاہری (صدر اشاعت التوحید، پاکستان)، مفتی شوکت اللہ خٹک (دارالعلوم حقانیہ)، ملک حبیب نور اورکزئی (سابق فاٹا قبائلی رہنما)، ریما شوکت (انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز،اسلام آباد) شامل تھے۔اس کے علاوہ آصف لقمان قاضی( جماعت اسلامی میں خارجہ امور کے سربراہ) طاہر خان (صحافی)، ڈاکٹر ماہان مرزا ( نوٹرے ڈیم یونیورسٹی،امریکا)، پروفیسر لاری ناتھن (ڈائریکٹر،کرُوک انسٹی ٹیوٹ ثالثی پروگرام)، محمد جان، محمد اسماعیل، اور دیگرنے بھی شرکت کی۔ IRCRA کے ڈائریکٹر کمیونیکیشن اینڈ ڈیولپمنٹ رشاد بخاری نے اجلاس میں میزبانی کے فرائض انجام دیے۔

اجلاس کا اختتام تمام شرکاء کی جانب سے اس عزم کے ساتھ کیا گیا کہ وہ ہر  ایسے اقدام کی حمایت کریں گے جو افغانستان اور پاکستان میں استحکام اور خوشحالی اور بین الاقوامی اور علاقائی روابط کو یقینی بنانے میں مدد دے سکے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ خطے میں دہشت گردی، بداعتمادی، غربت اور پسماندگی کے موجودہ چیلنجز کو طالبان سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مؤثر بات چیت وتعامل کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔