چین سعودی تعلقات میں گرمجوشی اور خطے میں نئی پیش رفت

0

رواں ہفتے سعودی عرب میں منعقد  ہونے والی دسویں عرب چین تجارتی کانفرنس(10th arab china business conference) اختتام کو پہنچ گئی ہے۔اس میں سعودی عرب اور چین کے مابین دس بلین ڈالرکے تجارتی معاہدے ہوئے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق اس دو روزہ کانفرنس میں سعودی عرب نے 24 ممالک سے 3500 افراد کی میزبانی کی ہے۔

اس سے قبل چین کی وساطت سے سعودی ایرانی تعلقات میں بھی سردمہری ختم ہوئی  ہے اور نئے مرحلے کا آغاز ہوا ہے۔ اس کے فورا بعد روسی وساطت سے سعودی عرب میں شام کا سفارت خانہ کھولنے کا اعلان کیا گیا۔ مزید برآں سعودی کمپنی آرامکو نےچین میں ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کمپلیکس بنانے کے لیے بیجنگ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط بھی کیے۔ یہ منصوبہ 2026 تک فعال ہوجائے  گا۔ چین آرامکو سے اس کمملیکس کے لیے یومیہ دو لاکھ دس ہزار بیرل خام تیل درآمد کرے گا۔

گزشتہ دسمبر میں چینی صدر کے سعودی دورے کے دوران  تزویراتی شراکت کے داری  کے  کئی اہم معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔اس دورے میں بھی 30 بلین ڈالر کے مختلف تجارتی معاہدوں پر اتفاق کیا گیا تھا۔

سعودی عرب اور چین کے مابین بڑھنے والی قربت صرف تجارتی نہیں ہے۔ بلکہ اسے اُس نئے بلاک کی کوششوں کے سیاسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے جو خطے میں تشکیل پارہا ہے۔سات سال بعد ایران سعودی تعلقات کی بحالی کے موقع پر دونوں ممالک نے چین کے وزیرخارجہ نے کہا کہ ’یہ مکالمہ اور امن کی فتح ہے،یہ ایک بڑی خوشخبری ہے ایسے وقت میں جب دنیا اضطراب کا شکار ہے‘۔یہ اقدام ایک ایسے خطے میں چین کی سفارتی کامیابی ہے جس کی جغرافیائی سیاست پر امریکا کا غلبہ ہے۔

یہ سب ایسے وقت میں ہورہا ہے جب چین یوکرین جنگ میں بھی مذاکرات اور بات چیت کے لیے زور دے رہا ہے۔چینی وزیرخارجہ نے کہا کہ ’چین ایک بڑی قوم کے طور پہ دنیا میں قیام امن کے لیے اور تنازعات میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے کردار ادا کرتا رہے گا‘۔

ایرن سعودی پیش رفت پر امریکی ترجمان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں معاہدے پر تشویش ہے لیکن امریکا مشرق وسطی میں قیام امن کے لیے کسی بھی کوشش کا خیرمقدم کرتا ہے۔

’وال سٹریٹ جرنل‘ نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں سعودی شامی تعلقات  پر امریکی خواہش کو بالائے طاق رکھا گیا ہے۔اس پیش رفت پر امریکا نے کہا کہ وہ بشاراسد کی بربریت کو دیکھتے ہوئے اس حق میں  نہیں ہے کہ خطے کے ممالک شام کے ساتھ تعلقات بحال کریں۔

2020 میں جوبائڈن کے صدر بننے کے بعد واشنگٹن  اور ریاض کے درمیان تعلقات تنزلی کا شکار ہوئے ہیں۔ بہت سے مسائل ایسے ہیں جن کے باعث دونوں ممالک میں اختلافات بڑھے۔ ان میں یمن جنگ،حوثی گروہ کو دہشت گردی کی عالمی فہرست میں شامل کرنے کا مسئلہ،صحافی جمال خاشقجی کا قتل نمایاں رہے۔ اور اب یوکرین جنگ پر سعودی عرب  کا فریق نہ بننے کا فیصلہ بھی ایک وجہ ہے۔