سات روزہ پروگرام ’آزادی فیلوشپ‘ کی رُوداد

0

اسلام آباد میں قائم غیر سرکاری ادارہ انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور کے زیر اہتمام دعوہ اکیڈمی اسلام آباد میں انصاف، آزادی اورجمہوریت کے موضوع پر سات روزہ فیلو شپ پروگرام  کا انعقاد کیا گیا جو 22 مئی سے 28 مئی تک جاری رہا۔ انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بین الاقوامی معیار کے فیلو شپ کا انعقاد کیا جس میں خیبرپختونخوااور سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے مختلف مکاتب فکر کے نوجوانوں نے شرکت کی۔ یہ فیلو شپ پروگرام ’آزادی فیلو شپ‘ کے نام سے منسوب کیا گیا۔

اس پروگرام کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم اورمذہبی و غیر مذہبی حلقوں میں در آنے والی خلیج کے تناظر میں مختلف متعلقہ موضوعات پر مکالماتی و تربیتی نشستوں کا انعقاد کرنا تھا۔ اس میں متنوع شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین شامل تھے جنہوں نے کھل کر ان مباحث میں حصہ لیا اور مسائل کی جہات پر اپنی آراء پیش کیں۔ آزادی فیلو شپ پروگرام میں روزنامہ ’دی کیپٹل پوسٹ اسلام آباد‘ پشاور کے بیورو چیف فرحان اللہ خلیل، لیکچرار مقدس صمدخان،ہندو کمیونٹی کے پردیپ کمار،ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے امجد یاسین، اور شعبہ تدریس سے وابستہ نیلم آفریدی، ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے سوشل ورکرر ارسلان ٹکر،کوہاٹ سے نوشین خان، دیر سے نازیہ رسول، سیدفواد باچا، عدنان باچا، سوات سے رامبیل، ذیشان خان، تنویر خان اور دیگرنے شرکت کی۔

مختلف موضوعات پر گفتگو کے لیے ملک بھر سے کئی اسکالرز کو مدعو گیا۔ ایک نشست میں طالب علم کو بھی گفتگو کا موقع ملا۔ ہمیں جس موضوع پر گفتگو کا کہا گیا وہ تھا: Understanding and deconstruction of extremist narratives Debate on political Islam۔ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے سیاسی اسلام کی اصطلاح، اس اصطلاح کے ناقدین اور اس اصطلاح کو درست ماننے والوں کا موقف تفصیل سے بتایا گیا۔ کچھ اہل دانش کا خیال ہے کہ یہ اصطلاح غلط اور بے معنی ہے۔ یہ اسلام دشمنوں اور مستشرقین کی وضع کردہ اصطلاح ہے جس کا مقصد اسلام کو بدنام کرنا ہے۔ جبکہ اہل علم کا ایک بہت بڑا طبقہ اس اصطلاح کو درست مانتا ہے۔ دونوں موقف اور دونوں کے دلائل بیان کرنے کے بعد انتہا پسندی،  اور متعلقہ اصطلاحات پر مختصر گفتگو کی، جس کے بعد شرکا ورکشاپ نے بھی اس موضوع پر اپنی تفہیم اور مطالعہ پیش کیا۔اس کے بعد سیاسی اسلام کی تاریخ، بنیادی مقدمہ اور اس مقدمہ پر قائم مذہبی انتہا پسندی پربھی  مختصر گفتگو کی گئی۔ افغانستان، پاکستان،مصر، ایران اور عراق میں سیاسی اسلام کی ابتدا اور موجودہ صورتحال پر بھی گفت وشنید ہوئی۔زیادہ تر گفتگو دو طرفہ رہی جس کو شرکا نے سراہا۔ بعد میں شرکا کی طرف سے بہت زبردست اور موضوع سے متعلق اہم سوالات بھی ہوئے۔

انٹر نیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور کے صدر محمد اسرار مدنی نے آزادی فیلوشپ کی افتتاحی تقریب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں پہلی دفعہ ایک بین الاقوامی معیار کی فیلو شپ کا انعقاد کر رہے ہیں جس کا مقصد ملک کی  مذہبی اور سماجی ہم آہنگی کے فروغ کے ساتھ ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم اور نفرت کو کم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال آزادی، انصاف اور  جمہوریت جیسے موضوعات کی تفہیم ہمارے بنیادی مقاصد میں شامل ہے ہے۔ اس موقع پر شریعہ اکیڈمی اسلام آباد کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر فرخندہ ضیا نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ اکیڈمی 42 سال سے پاکستان میں قانون کی بالادستی، خواتین کی شمولیت اور اسلامائزیشن کے لئے سرگرم عمل ہے۔  اور ہمیں فخر ہے کہ اس پروگرام کو اپنے ادارے اور دختران پاکستان کی طرف سے میزبانی کر رہے ہیں۔

دوسرے سیشن میں مشہور کالم نگار  نامور دانشور اور وکیل آصف محمود نے اپنے خطاب میں کہا کہ موجودہ سیاسی، سماجی اور عدالتی بحران کی سب سے بڑی وجہ نوآبادیاتی ریاستی ڈھانچہ ہے۔ نوآبادیاتی نظام قانون وانتظام سے نکلے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ ایڈوکیٹ آصف محمود نے پاکستان میں موجودہ سیاسی، سماجی اور عدالتی بحران کے حوالے  سےبحث کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہماری ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ نو آبادیاتی نظام ہے جو ہمارے اوپر مسلط کیا گیا ہے، جب تک اس کو ختم نہیں کیا جاتا ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

تیسرے سیشن میں انسانی حقوق کے نامور کارکن ظفر اللہ خان نے کہا کہ آئین پر مکمل عمل کئے بغیر ہم موجودہ بحران سے نہیں نکل سکتے۔ کسی بھی ملک کے چلانے کے لئے آئین اصول اور سافٹ ویئر کا درجہ رکھتا ہے۔بدقسمتی سے 75سالوں میں بیشتر عرصہ آئین معطل رہا ہے۔ انہوں نے آئین کو سمجھنے پر زور دیا کہ یہی دراصل پارلیمانی جمہوریت کا دماغ ہوتا ہے اور ملک چلانے کے لئے مینول سافٹ وئر کا درجہ رکھتا ہے۔

آزادی فیلو شپ کے دوسرے دن کے مہمان معروف کالم نگاراور پاکستان ٹیلی ویژن اسلام آباد کے مذہبی پروگرام کے ڈائریکٹر جنرل خورشید ندیم تھے۔انہوں نے مسلم دنیا میں جمہوری عمل پر بحث کی جس میں ان کا فرمانا تھا کہ کوئی بھی نظام تمدنی ارتقا سے بنتا ہے۔ مذہب کوئی نظام نہیں دیتا البتہ امور ریاست کے لئے اخلاقی نظام کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمیں مذہب دیتا ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جمہوریت اور ریاست کے بارے میں خورشید ندیم کے افکار ونظریات تقریبا جاوید احمد غامدی سے ملتے جلتے ہیں۔

اسی دن کے دوسرے سیشن میں مسئلہ تکفیر پر پینل ڈسکشن ہوئی جس میں شمس الدین شگری نے مشکل سیاسی ومذہبی اصطلاحات کی توضیح و تشریح کے ساتھ ساتھ ‘سیاسی اسلام’ اور اسلام ازم پر گفتگو کی تیسرے سیشن میں ڈائریکٹر جنرل برائے مذہبی تعلیم ڈاکٹرغلام  قمرنے مدرسہ اصلاحات: چیلنجیز اور مواقع کے موضوع پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ سن 80 کے بعد پاکستان نے ذاتی مقاصد کے لئے مدرسے بنائے جو دراصل افعان جہاد کے لئے بطورِ ٹریننگ سینٹر استعمال کیے جاتے تھے لیکن اب وہ  مدرسے ریاستی کنٹرول سے باہر ہیں۔ ان کو قومی دھارے میں لانے کے لئے ریفارمز کی ضرورت ہے جن میں غیر نصابی سرگرمیاں بھی لانے کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ کے اذہان تنگ نظری کا شکار نہ ہوں اور جدید دنیا سے ہم آہنگ ہو جائیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ہم مدارس اپنے کنٹرول میں نہیں لانا چاہتے بلکہ رجسٹریشن کے ذریعے قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں اور اب تک تقریبا ہزار سے زیادہ مدارس رجسٹرڈ بھی ہوچکے ہیں۔

آزادی فیلو شپ پروگرام کے تیسرے روز کے مہمان خصوصی آسٹریلین ہائی کمشنر اور نامور سکالر نیل ہاکینز نے شرکت اور اظہار خیال کیا۔ انہوں نے خیبرپختونخوا اور سابقہ فاٹا سے شرکت کرنے والے نوجوانوں کے مختلف سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں باہمی سطح پر مل کر بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا۔انہوں نے انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور کے فیلو شپ پروگرام منعقد کرنے پر خراج تحسین اور میزبان کا شکریہ اداکیا۔ نیل ہاکنز نے مزید کہا کہ آسٹریلیا کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔پاکستان اور آسٹریلیا کے تعلقات انتہائی گہرے اور تاریخی ہیں۔

پروگرام کے چوتھے روز انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور کے ڈائریکٹر تحمید جان ، بشری بی بی اور محبوب خان کے علاوہ دیگر انتظامیہ کی طرف سے مطالعاتی دورے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں پاکستان کے بڑے تھینک ٹینکس میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ صبح کا آغاز انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز اسلام آباد سے کیاگیا، جہاں پر پاکستان کی خارجہ پالیسی اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات پر پینل ڈسکشن ہوئی، سوال جواب کا سیشن ہوا ۔بعد ازاں فیڈرل شریعت کورٹ جانا ہوا جہاں پر فیڈرل شریعت کورٹ کے طرزِ عمل کے ساتھ ساتھ کئی شرعی فیصلوں پر نظر ڈالی گئی اور آخر میں چیف جسٹس آف فیڈرل شریعت کورٹ کے ساتھ انٹریکٹیو سیشن ہوا۔اس کے بعد قومی اسمبلی کا دورہ کیا گیاجہاں پر پارلیمانی طریقہ کار پربریفینگ دی گئی۔قومی اسمبلی کے دورے کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل گئے، وہاں پر اسلامی نظریاتی کونسل کی ذمہ داریوں اور ملک میں اس کے کردار پر بریفینگ دی گئی،جبکہ شریعت سے متصادم فیصلوں پر نظرثانی کے حوالے سے بھی آگاہ کیاگیا جن میں حالیہ ٹرانس جینڈر ایکٹ قابلِ ذکر ہے۔

انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور اور شریعہ اکیڈمی اسلام آباد کے زیر اہتمام آزادی فیلوشپ کے پانچویں روز مختلف بین الاقوامی سکالرز اور سفارتکاروں نے اظہار خیال کیا۔الیکس زینڈرا برطانوی سفارتکار نے علاقائی سیکیورٹی سمیت چند اہم مسائل اور امکانات پر گفتگو کی۔ انہوں نے نوجوانوں کو متوجہ کیا کہ مقامی تنازعات کے حل میں کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ علاقائی تعاون کوبھی بڑھانا ہوگا۔ سات روزہ فیلو شپ پروگرام کی تقریب میں  امریکہ سے آئے ہوئے دو مہمانوں ڈاکٹر ماہان مرزا نے عالمی تعلقات میں مذہب کی افادیت سمیت مسائل اور مواقع پر گفتگو کی جبکہ ڈاکٹر لوری نے عالمی تنازعات میں اقوام متحدہ کے کردار پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔

پروگرام کے اختتام پر سید رشاد بخاری اورمحمد اسرار مدنی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اعزازی شیلڈ بھی پیش کی گئیں۔ آزادی فیلو شپ پروگرام کے  چھٹے روز پاکستان میں بین المذاھب ہم آہنگی پر مکالمہ ہوا جس میں عیسائی برادری سے کرسٹوفر شرف نے بطورِمہمان خصوصی  شرکت کی۔ دوسرے سیشن میں بیرسٹر ظفر اللہ نے پاکستانی عدالتی اصلاحات پر تفصیلی گفتگوکی۔

پروگرام کی اختتامی تقریب سے مہمان خصوصی خواجہ عمران وفاقی سیکرٹری وقار نسواں کمیشن اور نیلوفر بختیار کمیشن برائے وقار نسواں اوروزیر مملکت سمیت سماجی رہنما ملک حبیب اورکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس فیلوشپ سے حاصل کیے ہوئے تجربات کے بعدسب نوجوانوں کوسماجی تبدیلی، ہم آہنگی کے فروغ  اور کمیونٹی کی سطح پر امن، برداشت اور ترقی کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ تقریب کےاختتام پرمحمد اسرار مدنی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان میں اپنی  نوعیت کی ایک منفرد فیلو شپ ہے کیونکہ اس میں بیرون ملک کے سفارتکاروں اور بیرون ملک کے پروفیسرز نے براہ راست گفتگو کی۔ اور معاشرے کے متحرک نوجوانوں سے براہ راست مکالمہ کیا۔ ایک طرف نوجوانوں نے اپنا نقطہ نظر پیش کیاتو دوسری طرف انہوں نے دیگر مذاہب اور ثقافتوں سمیت اپنے ملک کے اداروں کےبارے میں بھی آگہی حاصل کی۔ شرکا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیشن کے سپیکرز اور موضوعات کا انتخاب انتہائی معیاری تھا۔ اسلام، جمہوریت، عدالتی اصلاحات، مذہبی ہم آہنگی اور آزادی سمیت اقلیتوں، خواتین اور انسانی حقوق سمیت بہت سارے حلقوں کےمسائل کا گہرائی سے جائزہ لیا گیا اور درست تفہیم پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ نیز معاشرے میں تعمیری کام کرنے کیلئے طریقہ کار کو واضح کیا گیا۔اس کے ساتھ ہی فیلوشپ پروگرام منعقد کرنے پر میزبان اور انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور کے صدر محمد اسرار مدنی کی کوششوں کو سراہاگیا۔