عالمِ اِسلام میں جمہوریت کے مختلف مظاہر اور ان کی اساسات

0

ڈاکٹر قبلہ ایاز کی کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ پاکستان کے علمی حلقے کا ایک نمایاں نام ہیں، اور اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کے طور پہ ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ زیرنظر مضمون میں انہوں نے اس جانب روشنی ڈالی ہے کہ مسلم دنیا میں پائے جانے والے مختلف سیاسی نظام کیا ہیں اور وہ کن تاریخی و فکری بنیادوں پر قائم ہیں۔ مضمون میں اس پر بھی گفتگو کی گئی ہے کہ پاکستان میں اور مسلم دنیا کے بعض ممالک میں جمہوریت کی ناکامی کے اسباب کیا ہیں۔

عصرحاضر کی مسلم سیاسی فکر میں جن موضوعات کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے ان میں سے ایک ‘اسلام اور جمہوریت’  کا مسئلہ ہے، کہ جمہوریت کے بارے میں مذہبی نقطہ نظر کیا ہے، یہ نظم مسلم معاشروں کے لیے سودمند ثابت ہوسکتا ہے یا نہیں، مزیدبرآں اس کا تعلق تہذیبی وثقافتی کشمکش سے ہے یایہ محض ریاستی انصرام کا جدید نمونہ ہے۔ نظری اعتبار سے جمہوریت کے متعلق مسلم سماج میں اس حد تک غیرشفافیت پائی جاتی ہے کہ  علمی حلقوں میں یہ بحث ابھی تک جاری ہے اور عام لوگ اب بھی اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کے بارے میں ابہام کا شکار ہیں۔

میرے خیال میں جمہوریت کے بارے میں بدگمانی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں حقیقی جمہوریت اپنی معیاری اقدار کے ساتھ متعارف نہیں ہوسکی۔ لیکن ان کے سیاسی ڈھانچے چونکہ ظاہری طور پہ جمہوری کہلاتے ہیں اس لیے  گورننس کے مقامی مسائل، مالی بدعنوانی ،  ناانصافی اور عدم مساوات جیسی برائیوں کو جمہوری نظم کی دین خیال کر لیا جاتا ہے۔ یہ تصور پروان چڑھا کہ جمہوریت اپنے اندر ایسے خلا رکھتی ہے جس کی بنیاد پر یہ تمام سماجی مسائل جنم لیتے ہیں، اس لیےیہ نظام درست نہیں ہے۔ حالانکہ یہ جمہوریت کی ناکامی نہیں ہے،بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوری اصولوں کی پاسداری نہیں کی جاتی۔ جمہوریت صرف انتخابات کے انعقاد کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی بہت اہم اقدار ہیں جن پر اس کا ڈھانچہ استوار ہوتا ہے۔ اس میں بدعنوانی، ناانصافی اور میرٹ کے خلاف کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی اس نظام کا یہ تقاضاہے کہ ادارے رُوبہ انحطاط ہوں۔ جمہوریت درحقیقت شفافیت کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرتی ہے۔

پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کے اسباب

پاکستان آئینی اعتبار سے ایک جمہوری ملک ہے۔ دستور میں ان تمام اصولوں واقدار کے تحفظ کی بات کی گئی ہے جن پر ایک جمہوری نظام قائم ہوتا ہے۔ اس لیےپاکستان بننے سے اب تک سماجی مسائل کے حل کے لیے جتنی بھی دشواریاں اور مسائل درپیش آتے رہے، ان کا سبب یہ خیال کرلیا جاتا ہے کہ جمہوریت اس کی ذمہ دار ہے۔ لیکن غیرجانبدارانہ اور گہرائی سے کیا جانے والا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان اگرچہ آئینی طور پہ ایک جمہوری ملک ہے، لیکن یہاں جمہوری عمل نہایت کمزور  رہاہے۔ پاکستان میں جمہوری عمل کے کمزور ہونے کی تین بنیادی وجوہات ہیں:

1-     ہمارے ملک میں باصلاحیت افراد کا انتخاب نہیں ہوپاتا یا انتخابی طریقِ کار میں سقم پائے جائے جاتے ہیں۔

2-     پارلیمان کے کردار کو اہمیت نہیں دی جاتی یا اس ادارے کا درست استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک مثال یہ ہےگزشتہ حکومت کے دوران ایک بِل پاس کیا گیا تھا جس کے مندرجات سے لوگوں کو یہ شک گزرا کہ شاید اس کے تحت ایک غیرمسلم طبقے کو مسلمان قرار دیا جارہا ہے۔ جس کے بعد ایک نئی جماعت وجود میں آگئی اور شدید مسائل پیدا ہوئے جن کا تسلسل ابھی تک جاری ہے۔ اس بِل کو پارلیمان کی سٹینڈنگ کمیٹی میں پیش نہیں کیا گیا تھا، نہ متعلقہ ماہرین کی رائے لی گئی تھی۔ ملک میں جب بھی پارلیمانی عمل کو غیراہم سمجھ کر نظرانداز کرنے کی کوشش کی گئی اس سے بحران نے جنم لیا۔

پاکستان دنیا کے ان معدودے چند جمہوری ممالک میں سے ایک ہے جہاں ایگزیکٹو حکم نامے کے ذریعے قانون کی منظوری کا اختیار دیا گیا ہے۔ حقیقی جمہوریتوں میں قانون کی منظوری کا استحقاق پارلیمنٹ کی مجلس قانون ساز کو حاصل ہوتا ہے لیکن پاکستان اور کچھ دیگر ممالک میں آئینی طور پہ یہ اختیار ایگزیکٹو اتھارٹی کو بھی دیا گیا ہے کہ وہ اسے بغیر بحث ومباحثے کے منظور کرلے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 89 میں درج ہے کہ ‘‘جب سینٹ اور قومی اسمبلی کا اجلاس جاری نہ ہو اور حالات ایسے ہوں کہ متعلقہ معاملے میں فوری اقدام درکار ہو تو ایسی صورتحال میں صدر کو یہ اختیار ہے کہ وہ آرڈیننس تیار کرکے اس کا اجراء کردے’’۔ بادی النظر میں آئین اس استثنا کی اجازت صرف غیرمعمولی صورتحال میں فراہم کرتا ہے، جب پارلیمنٹ کا اجلاس جاری نہ ہو اور نہ نزدیکی تاریخ میں اسے طلب کیا جاسکتا ہو، اور قانون ایسی فوری اہمیت کا حامل ہو کہ اسے پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس تک مؤخر نہ کیا جاسکتا ہو۔ تاہم اگر 1973ء کے آئین کی تشکیل سے اب تک جتنے بھی آرڈیننس منظور کیے گئے ہیں اگر ان کے اجراء کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی بمشکل ایسا ہوگا جس کے لیے پارلیمنٹ کے اجلاس کا انتظار نہ کیا جاسکتا تھا۔

3- پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کی تیسری وجہ انتقالِ اقتدار کے مرحلے کو صحت مند اور شفاف انداز میں آگے نہ بڑھانا ہے۔

ریاستی نظم کے حوالے سے ان تین امور کو بہت اساسی درجہ حاصل ہے ۔ان کی پاس داری کرنا ہر جمہوری ریاست میں ضروری ہوتا ہے۔ جمہوریت اپنے ثمرات تب دیتی ہے جب اس کے اصولوں کا پاس رکھا جائے۔ ہم اس نظام کے ساتھ انسلاک میں مذکورہ بالا تین امور میں سے کسی نہ کسی امر میں غلطی کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں جس کے سبب معاشرتی اور معاشی بحران پے درپے چلے آتے ہیں۔ پاکستان کی بہتّر سالہ تاریخ آئینی تاریخ ہے جس کی فکری بنیاد جمہوریت ہے۔ جمہوریت صر ف اقدار و مزاج کا نام ہی نہیں یہ ایک ڈھانچہ، لائحہ عمل اور طریقہ کار کا نام بھی ہے۔ یہ طرز حکمرانی ہے جو نچلی سطح سے بالائی سطح تک باقاعدہ عملی شکل اختیارکرتی ہے۔

عالمِ اسلام میں جمہوریت کی مختلف شکلیں

مسلم دُنیا کے بیشتر ممالک استعماری قوتوں کے ماتحت رہ چکے ہیں۔ استعمار اپنے رویے کے اعتبار سے استحصالی نوعیت کا حامل ہوتا ہے۔ البتہ تقابلی جائزے میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کی مختلف شکلیں ہیں جن کے اثرات مسلم دنیا میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ سترھویں و اٹھارویںصدی کے دوران یورپ استعماری قوتوں کا مرکز سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس کے تین ملک بالخصوص زیادہ فعال اور نمایاں رہے ہیں۔ برطانیہ، فرانس اور پرتگال۔

برطانوی استعمار کی خصوصیت یہ رہی ہے کہ یہ جدھر بھی گیا وہاں اس نے جہاں ایک طرف مالی مفادات سمیٹےوہیں اس کے ساتھ کچھ اچھے کام بھی کیے۔ مثال کے طور پہ ریل گاڑیوں کے جال بچھائے، سڑکیں بنائیں، مقامی قومی زبانوں کو فروغ دیا اور ان کے قواعد ترتیب دیے، صحت کے جدید ادارے بنائے، تعلیمی اداروں کی کی بنیاد رکھی۔ اس طرح کے کاموں سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ لوگ جمہوریت سے واقف ہوئے، تعلیم حاصل کی اور استعمار کو باہر نکالنے میں ان تعلیمی اداروں سے پڑھے ہوئے لوگ صف اول کے قائدین بھی بنے۔

جبکہ فرنچ استعمار کی خصوصیت یہ رہی ہے کہ اس نے ماتحت ممالک پرپابندیاں عائد کیں۔ تعلیمی وتعمیری سرگرمیوں کو آزاد نہیں کیا اور عوام کو ترقی کے جوہر سے مانوس یا واقف نہیں ہونے دیا۔

پرتگالی استعمار کا نمایاں مظہر یہ تھا کہ اس نے مذہب کو مقدم رکھا۔ جہاں بھی گیا مسیحیت کو فروغ دیا اور مذہبی سرگرمیوں میں تیزی لائی۔

ان تینوں استعماری قوتوں کے زیرنگین رہنے والے ممالک میں ان کی خصوصیات کے عملی مظاہر آسانی کے ساتھ محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ برطانوی زیرنگین ممالک میں ایک گونہ جمہوری نظام کچھ زیادہ نمایاں ہے۔ اگرچہ یہ سیاسی اعتبار سے آزاد اور مکمل فعال نہیں ہے لیکن جمہوری سوچ موجود ہے۔ اس کی مثال برصغیر ہے۔ نائیجیریا اور نائجر دو ہمسائے ممالک ہیں۔ نائجر میں فرانس قابض رہا ہے، وہاں لوگ ترقی کے بنیادی مظاہر سے ابھی واقفیت حاصل کررہے ہیں، ابھی سڑکیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ جبکہ نائجیریا اس کی بہ نسبت کافی بہتر اور خوشحال ہے۔ ایسے علاقے جہاں پرتگالی گئے وہاں مسیحیت کو فروغ ملا۔ بھارت کے ساحلی علاقے گووا میں مسیحیت کی ترویج پرتگالیوں نے کی تھی۔افریقہ کا ملک مالی اب تک بحران کی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ اس کے ایک حصے پر القاعدہ نے قبضہ کرلیا تھا جسے فرانسیسی فوج کی مدد سے واپس لیا گیا لیکن ابھی بھی وہاں سیاسی ابتری غالب ہے۔ گینی ایک چھوٹا سا مسلمان ملک ہے، او آئی سی کے ایک سابق صدر اس سے تعلق رکھتے تھے، وہاں بھی حالات شدید دگرگوں ہیں۔

ملائشیا آہستہ آہستہ جمہوریت کی جانب رواں دواں ملک ہے۔ اس ملک میں خوشحالی اور ترقی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ سابق صدر مہاتیر محمد کا ایک نقطہ نظر تھا، ان کے مطابق ترقی کے لیے سیاسی استحکام کی بہت ضروری ہوتی ہے جس کے لیے حکومت کو زیادہ وقت دینا ناگزیر ہوتا ہے۔ یوں وہ زیادہ دیر حکومت میں رہے لیکن ان کی قیادت میں ملائشیا نے ترقی کی طرف واضح پیش قدمی کی۔

ایک اور مسلمان ملک کا نظام بھی قابل توجہ ہے۔ اسے دنیا میں ایک بہترین نظیر کے طور پہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ عرب ملک تیونس میں راشد الغنوشی نے ایک ممتاز اسلامی جمہوری نظام متعارف کرایا۔ انہوں نے اپنی اوائل سیاسی زندگی القاعدہ اور اخوان کے قریب گزاری اور وہ ان سے متأثر رہے ہیں۔ پھر انہوں نے اس سے رجوع کرتے ہوئے کہا کہ ہم جمہوریت کو ماڈل بناتے ہیں اور مذہب کو سیاسی عمل سےَ ایک حد تک فاصلے پر رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ ماڈل متعارف کرایا، جو کافی مقبول ہوا اور ابتدائی طور پہ کامیاب بھی ثابت ہوا اور اس ماڈل کی ساری دنیامیں پذیرائی ہوئی۔ لیکن حال ہی میں وہاں سیاسی تبدیلی آئی ہے اور راشد الغنوشی کی جماعت النہضہ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کی وجہ شایدیہ ہے کہ یہ نیا ماڈل ابتدائی عمل میں کامیاب تو ثابت ہوا کہ اس نے سیاسی استحکام دکھایا لیکن یہ انجام کار ترقی وخوشحالی کو نہیں لاسکا۔ تیونس کے صدر قیس سعید نے پارلیمنٹ کو توڑا تو اس کی سول سوسائٹی نے تو مذمت کی کہ یہ جمہوری رویہ نہیں لیکن اکثریت عوام نے اس کا خیرمقدم کیا۔

ایک اور مثال ہمارے پڑوسی ملک افعانستان کی ہے جہاں حال ہی میں ایک سیاسی تبدیلی آئی ہے۔ اس کے بارے میں فوری طور پہ کوئی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ کیایہ تبدیلی طاقت کے زور پہ آئی ہے؟۔ وقت ثابت کرے گا کہ یہ پہلو درست ہے یا غلط۔ البتہ کچھ اور ایسے اشارے ہیں جن سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ تبدیلی محض طاقت کے بل بوتے پر نہیں آئی ہے۔ 2011ء سے مذاکراتی عمل جاری تھا۔ اس دس سالہ طویل مذاکرات کے نتیجے میں بجاطور پہ کچھ چیزوں پر باہمی افہام وتفہیم کی گئی ہوگی جو واضح تو نہیں ہیں لیکن ان کے آثار موجود ہیں۔

پاکستان میں جمہوریت بلاشبہ کمزور ہے۔ جمہوری عمل اور جمہوری رویے مضبوط نہیں ہیں، لیکن یہاں مباحثہ ممکن ہے، جو  ہوتا بھی رہتا ہے۔ بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ تنقید کی جاسکتی ہے۔ یہ عوامل وآثار بتاتے ہیں کہ جمہوریت اگرچہ کمزور ہے لیکن یہاں اس کے راستے مکمل طور پہ مسدود نہیں ہیں۔ یہاں ادارے جیسے تیسے کام کررہے ہیں۔ اس کی ایک مثال اسلامی نظریاتی کونسل ہے کہ جس سے متعلقہ معاملات میں مشاورت کی جاتی ہے اور رائے طلب کی جاتی ہے۔ اس کی افادیت و کردار کو بالائے طاق نہیں رکھا جاتا۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہے اور بہتری کے لیے کوششیں کی جاتی رہیں تو مستقبل میں جمہوری رویوں کو پنپتا بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

جمہوری رویے ترقی کی ضمانت

حقیقی جمہوری نظام میں ترقی اور خوشحالی اپنے راستے خود بناتی ہے۔ جب معاشروں میں خوف وقدغن کے سائے نہ ہوں اور سوچنے کے عمل کو آزاد رکھا جائے تو صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں نمو کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔ ترقی کے پیراڈائم کو محصور نہیں رکھا جاسکتا۔ جمہوری رویے علم کی افزائش وحوصلہ ا فزائی کرتے ہیں۔ سوسائٹی جوکہ اس میں بسنے والے تمام افراد کا مجموعہ ہوتی ہے  یہ اپنی ساخت میں کثیرالجہتی ہوتی ہے،کیونکہ اس کے ممبر افراد میں ترجیحات اور قابلیتوں کی بنیاد پر تنوع پایا جاتا ہے۔سیاسی نظام اگر ان قابلیتوں وصلاحیتوں کو راستہ نہیں دے گا تو ترقی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ وہ معاشرے جن میں صنعتی انقلاب برپا ہو، فکر نہ صرف آزاد ہو بلکہ اپنے عصر کو سمجھ سکےاور اس کی ترقی میں اور سائنس و ٹکنالوجی کی افزائش میں اپنا کردار ادا کرےوہاں سیاسی ، معاشی اور سماجی ترقی ناگزیر ہے۔ جہاں  جمہوری رویے مضبوط ومستحکم نہ ہوں وہاں کسی بھی قسم کی ترقی اپنی مستحکم بنیادوں سے محروم  رہتی ہے۔ ہمارے ہاں ایسی اقدار کے نہ پنپ سکنے کےدو اسباب ہیں:

(1)   ہم زرعی اور صنعتی معاشرے کے بیچوں بیچ لٹکے کھڑے ہیں۔ ہماری سیاسی اقدار جہاں ایک طرف زرعی معاشرے کے فرد کی آرزوؤں کا مکمل اظہارنہیں رہیں وہیں یہ جدیدمعاشرے کی ضرورتوں کو سمجھنے میں بھی ناکام ہیں۔

(2)   ہم  سیاسی رویوں کے اعتبار سے اس طور تنزلی کا شکار ہیں کہ معاشرے کی مقصدیت اور معاشرتی اقدار کی اہمیت کو نہ سمجھ  رہے ہیں اور نہ ہی فکری طور پہ اس  کے لیے فکری طور پر قائل ہوتے ہیں۔

جمہوری نظام میں علم کی افزائش تخلیقی بنیادوں پر ہوتی ہے۔ لوگ سیکھنے کے نئے نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں۔ علمی سرگرمیوں کو آسان اور فعال بناتے ہیں۔ اس طرح خودبخود ایک ایسی روایت چل پڑتی ہے جس کے تحت انفرادی وسماجی زندگیوں میں بھی خوشحالی کے اثرات نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ علم کی افزائش کا خصوصی مظہر یہ ہوتا ہے کہ سکھانے والا اور سیکھنے والا دونوں علمی وتخلیقی سرگرمیوں میں برابر کے شریک ہوں۔ یہ نہیں کہ صرف اساتذہ پڑھائیں اور شاگرد سنتے رہیں اور یاد کریں۔ علمی جمود ترقی کا راستہ مسدود کردیتا ہے۔

مسلم معاشروں میں ظاہری جمہوری ڈھانچےتو موجود ہیں لیکن جمہوری عمل اور جمہوری رویے کمزور رہے ہیں اس لیے عوام کا اعتبار اس نظام سے کم ہوگیا ہے۔ عوام جمہوریت کی اس لیے حمایت کرتے ہیں کہ ان کی ضرورتوں، حقوق، عزت نفس اور سماجی زندگی میں سہولیات کے حصول کا یہی واحد راستہ ہے۔ اور صرف جمہوریت ہی وہ راستہ ہے کہ جس میں ووٹرز سیاسی جماعتوں کو مجبور کرتے ہیں کہ ان کے اقتدار کی آرزو صرف اس صورت میں پایا تکمیل تک پہنچ سکتی ہے، جب وہ وہی منشور لائیں جو ان کی ضرورتوں کا پورا پورا عکس ہو۔ ووٹرز جمہوریت کو سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں لانے کی خاطر پسند نہیں کرتے بلکہ اپنے مفادات کی جستجو میں ایسا کرتے ہیں،یہ بات انتہائی اہم ہے۔ لیکن جب انتخابات تو ہوں لیکن جمہوری عمل کام نہ کرے تو جمہوریت پر سوال اٹھنے شروع ہوجاتے ہیں، حالانکہ اصل سوال جمہوری رویوں پر اٹھتا ہے جو ترقی وخوشحالی کی اصل ضمانت ہیں۔

بہرحال عالمِ اسلام میں جمہوری عمل کی کمزور تو ہے لیکن داخلی سطح پر کچھ بہتری کی کوششیں بھی ہو رہی ہے۔ اس وقت ہم مابعد عالمگیریت کے دور میں ہیں جہاں خامیوں پر تنقید کی جاسکتی ہے۔ ساری دنیا کے مدنی معاشروں میں ہر ملک کے سیاسی معاملات پر گفتگو ہوتی ہے جس سے بہتری کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت اب ملکوں کا داخلی مسئلہ نہیں رہا ہے بلکہ سیاسی مسائل پر ہر جگہ بات ہوتی ہے اور ایک دوسرے کے نظام ومسائل پر مکالمہ ہوتا ہے۔ اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ مسلم دنیا میں سیاسی عمل مزید بہتری کی جانب آگے بڑھے گا۔