اُردو کی بھولی بسری خواتین صحافی اور تحریکِ آزادی میں ان کی خدمات
مصنف علی گڑھ، بھارت میں مقیم تاریخ دان اور ماہر سماجیات ہیں۔
اردو میں نسائی صحافت کی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ انیسویں صدی کے آخر تک پورے ملک(ہندو پاک) سے جاری ہونے والے نسائی رسائل و جرائد کی تعداد جہاں صرف نو تھی، وہیں بیسویں صدی کے آغاز(1901) سے ملک کی آزادی(1947) تک یہ تعداد سو سے زائد تجاوز کرچکی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر کامقصد خواتین میں تعلیم کو فروغ دینااور ان کی علمی،ادبی اورسماجی اصلاح کرنا تھا۔ اس زمانے کے چند اہم نسائی رسائل جرائد جنہوں نے خواتین کونہ صرف متاثر کیا بلکہ سماج پر مثبت اثر ڈالا اور تبدیلی کی ایک روش ڈالی،ان میں شریف بیویاں (لاہور، 1893)، معلم نسواں (حیدرآباد دکن،1894)، تہذیب نسواں (لاہور،1898)، خاتون(علی گڑھ،1904)، پردہ نشیں (آگرہ، 1906)،عصمت (دہلی،1908)، ظل السلطان (بھوپال، 1913) وغیرہ شامل ہیں۔ یہ جرائد خواتین کے اندر سے اندھی تقلید اور بے جا رسم و رواج کو ختم کرنے میں بھی معاون بنے۔
ان جرائد نے خواتین قلم کاروں کے لئے ایک پلیٹ فارم بھی مہیا کیا، ان کے اندر بیداری پیدا کی، ان کی ادبی ترشحات اور تخلیقات کو جگہ دی اور،ان کے خیالات کو شائع کیا۔ ایسا نہیں اس دور میں خواتین سے متعلق جو جرائد جاری ہوئے، وہ سب کے سب مو ضوعاتی طور پر صرف تعلیمی، سماجی، مذہبی اور اصلاحی ہی تھے، بلکہ ا ن کے علاوہ بھی،بیسویں صدی کی پہلی نصف میں چند ایسے اختصاصی تحریکی جرائدجاری ہوئے، جو موضوع کے اعتبار سے کلی طور پر سیاسی تھے اور جن کا مقصد خواتین میں سیاسی شعور پیدا کرنا اور قومی تحریک آزادی کے جذبے کو پروان چڑھانا تھا۔ البتہ ایسے جرائد اور ان کے مالکان اور مدیروں کو حکومت کا عتاب ضرور جھیلنا پڑا۔
ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں جہاں مردوں نے اہم کردار ادا کیا، وہیں خواتین نے بھی شانہ بشانہ ان کا ساتھ دیا۔ بیگم حضرت محل(1820-1879) ہوں یا رانی لکشمی بائی(1828-1856) یاپھر بی اماں (1850-1924) ہوں یا نشاط النساء بیگم(1884-1937)،ایسی خواتین مجاہدین آزادی کی ایک لمبی فہرست ہے، جنہوں نے مردانہ وار طریقہ سے ہندوستانی جنگ آزادی میں میں حصہ لیا۔
تاریخ صحافت کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ تحریک آزادی میں مردوں کے ساتھ اردو کی ایسی خاتون صحافیوں، قلم کاروں اور ادیبوں کا بھی حصہ رہا ہے،جنہوں نے اپنے قلم سے مختلف اردو اخبارات اور رسائل میں سیاسی و سماجی مسائل اور جنگ آزادی کے تناظر میں قومی سیاست پر مضامین تحریر کئے اور اپنے تخلیقی فن پاروں میں بھی انگریزی راج کے ظلم و ستم اور استبدادی رویہ کو گفتگو کا موضوع بنایا۔ ان میں چند اہم نام نذر سجاد حیدر(1894-1967)،زخ شروانیہ(1894-1922)، رشید جہاں (1905-1952)، عصمت چغتائی(1915-1991)، وغیرہ ہیں۔اس طرح ان خواتین قلم کاروں اور صحافیوں نے ہندوستانی جنگ آزادی کی تحریک میں اپنا بھرپور تعاون پیش کیا۔
تحریک آزادی کے دوران چند خواتین مجاہدین آزادی ایسی بھی تھیں، جنہوں نے خود کے ا پنے سیاسی اور تحریکی جرائد جاری کئے اور ان کے وسیلے سے خواتین کے اندر تعلیمی، سماجی اور سیاسی شعور اور قومی یکجہتی پیدا کرنے کی کوشش کی۔،لیکن عام طور پر لوگوں کو ان کے اور ان کی خدمات کے بارے میں واقفیت نہیں ہے یا کم ہے۔
اس تحقیقی مقالہ میں ایسی ہی تین بھولی بسری مسلم خواتین مجاہدین آزادی اور ان کی صحافت پر گفتگو کی جائے گی، جن کی ادارت میں سیاسی جرائد اردو میں جاری ہوئے۔ ان جرائد کے وسیلے سے انہوں نے تحریک آزادی کے مشن کو آگے بڑھایا، عورتوں میں خود اعتمادی پیدا کی، ان کے اندر سماجی مسائل سے نبرد آزما ہونے کا شعور بھی پیدا کیا،ان کو قومی یکجہتی اور امن کا پیغام دیا اور ان کو ان کی قومی ذمہ داری اور فرائض کا احساس دلایا۔’
ان اخبارات و رسائل نے آزادی کے بعد کے نئے ہندوستان میں خواتین کو کس طرح کی ذمہ داری اداکرنی ہے اس پر بھی گفتگو اورمباحثہ کیا۔ ان خواتین میں بیگم خورشید خواجہ(1894-1981) جو معروف کانگریسی لیڈر عبدالمجید خواجہ(1885-1964) کی زوجہ تھیں،نے علی گڑھ سے1920 میں ہفت روزہ ”ہند“ جاری کیا۔ کلثوم سایانی(1900-1987) کی ادارت میں 0194 میں بمبئی سے ہفت روزہ ”رہبر“ نکلا۔ اور ہاجرہ بیگم(1910-2003) نے1945میں ماہنامہ”روشنی“ اپنی ادارت میں بمبئی سے جاری کیا۔
یہاں یہ بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ تاریخ ا ردو صحافت کے متعلق اب تک جو تحقیقی کام ہوئے ہیں، ان میں مذکورہ تینوں جرائد و رسائل کے بارے میں تذکرہ نہیں ملتا۔ تاریخ اردو صحافت کے محققین بشمول امداد صابری، عتیق صدیقی، اورڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے بھی اپنے تحقیقی کاموں میں ان جرائد کو موضوع گفتگو نہیں بنایا ہے۔ البتہ پروفیسر عابدہ سمیع الدین (ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ، پٹنہ1990)اور ڈاکٹرجمیل اختر(اردو میں جرائد نسواں کی تاریخ، 2016) نے ثانوی ماخذ کو بنیاد بناکر ہفت روزہ ”ہند“‘کا رسمی تذکرہ تو کیا ہے، لیکن ان کے یہاں ”رہبر“ اور”روشنی“ کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں ملتی۔ ذیل کی سطور میں ان تین گمنام خواتین مجاہدین آزادی کی قومی اور صحافتی خدمات کا معروضی محاکمہ ان کی ادارت میں جاری ہوئے جرائد کے حوالے سے پیش کیا جارہا ہے، تاکہ قارئین کوان خواتین صحافیوں کی جنگ آزادی میں کردارکے بارے میں معلوم ہوسکے۔
بیگم خورشید خواجہ اور ان کا اخبار ہفتہ وار”ہند“:
بیگم خورشید خواجہ ہماری جدوجہد آزادی کا ایک نمایاں چہرہ تھیں۔ وہ 1894 میں نواب سربلند جنگ حمیداللہ خاں کے یہاں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں۔ ان کی شادی ممتاز آزادی پسند اور قوم پرست رہنما عبدالمجید خواجہ سے ہوئی تھی۔عبدالمجید خواجہ نے نوآبادیاتی حکومت کے خلاف گاندھی جی کی عدم تشدد کی مزاحمت کی فعال حمایت کی تھی۔ بیگم خورشید خواجہ نے اپنے شوہر کے ساتھ جدو جہد آزادی میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔انہوں نے علی گڑھ سے ایک اردو ہفتہ وار ”ہند“ جاری کیا تاکہ مسلم خواتین کو جدوجہد آزادی میں حصہ لینے اور ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔
علی گڑھ میں انہوں نے آزادی کی جدوجہد، خاص طور پر سودیشی تحریک میں بھی جوش و خروش سے حصہ لیا، اور1920ں علی گڑھ میں کھادی بھنڈار بھی قائم کیا تھا۔ وہ 1920میں آل انڈیا کانگریس کی رکن بنیں اور تاحیات اس ممبر شپ کو برقرار رکھا۔1921میں، انہوں نے آل انڈیا نیشنل کانگریس کی سبجیکٹ کمیٹی میں یوپی کی نمائندگی کی۔ انہوں نے مسلمانوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے بھی انتھک کوششیں کیں اور 1932میں الہ آباد میں حمیدیہ پرائمری اسکول قائم کیا، جو1975میں حمیدیہ ڈگری کالج بن گیا۔ بیگم خورشید خواجہ کا انتقال جولائی 1981 کو ہوا۔
ہفتہ وار ہند کی ادارت:
ہفتہ وار’ہند‘ایک اہم قوم پرست اردواخبار تھا، جو جدوجہد آزادی کے پس منظر میں شائع ہوتا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا سیاسی اخبار تھا، جسے ایک مسلمان خاتون بیگم خورشید خواجہ نے ایڈٹ کیا تھا۔اس ہفتہ وار نے خواتین میں علمی بیداری کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی جنگ آزادی میں ہندوستانی مسلم خواتین کی رائے کو ہموار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے اس اخبار کے وسیلے سے مسلم خواتین کو آزادی کی تحریک میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا اور یہ بتایا کہ وہ اس اخبار کے وسیلے سے اپنے قومی احساسات اور جذبات کو پیش کر سکتی ہیں۔ اس اخبار میں اور خواتین کی تعلیم اور ان کو بااختیار بنانے پر بھی توجہ دی گئی۔ یہ16صفحات پر مشتمل ہوتا تھا،اور اس میں مضامین اور خبریں تین کالم میں درج ہوتی تھیں مطبع ملیہ میں باہتمام علی محمد خاں چھپتا اور دفتر ہند سے سعیدالدین خاں پبلیشر شائع کرتے تھے۔ اس اخبار کی قیمت سالانہ چھ روپیہ اور سہ ماہی دو روپیہ تھی۔
ہفتہ وار”ہند“ کا سرورق دو حصوں میں منقسم ہوتا تھا، اوپر کا نصف حصہ یعنی ماسٹ ہیڈ ٹائٹل سے مزین ہوتا تھا۔ ٹائٹل میں ہندوستان کا نقشہ اور دائیں بائیں (گجرات اور آسام) حصہ میں کانگریس کانقشہ مع چرخہ چھپا ہوتا تھا نیز پیٹ میں جلی حروف میں اخبار کانام ’ہند‘ اور اس کے اوپر’اللہ اکبر‘ درج ہوتا تھا نیز اس سے اوپر سورج کی شعاعیں نکلتی ہوئی دکھائی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ ا وپر دائیں اور بائیں دونوں کناروں پرعلامہ اقبال کے یہ اشعار درج ہوتے تھے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا
سرورق کے نیچے کے حصے میں آزادی کے متوالوں کی نظم پیش کی جاتی تھی،دراصل ہفت وار ہندیک سیاسی اخبار تھا جس کا مقصد خواتین میں سیاسی اور علمی بیداری کو تحریک دینا اور ان کو عالمی طور پر ہونے والی سیاسی سرگرمیوں سے آگاہ کرنا تھانیز ان کے اندر جدوجہد آزادی کے تئیں جذبہ بیدارکرنا تھا۔ اخبار کے صفحات پر مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی سیاسی قلمی کاوشیں جابجا دیکھنے کو ملتی تھیں، جن کو”عالم نسواں“ کے عنوان سے ایک علیحدہ گوشے میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا جاتا تھا۔ نیز یہ اخبار دیگر قومی اخباروں اور رسائل سے بھی سیاسی مضامین اخذ کرتا تھا مثلاًمسلم آؤٹ لک، لاہور، جوہر، زمانہ،کانپور،ہمدم، وکیل وغیرہ۔
”ہند“ کے اولین جلد کے شمارہ نمبر16بابت27 ستمبر1922میں جو مشمولات درج ہیں ان میں افادات آزاد (نظم مولانا آزاد سبحانی)،ایڈیٹوریل: مشرق قریب، انور پاشا، انگورہ کی فوجی مدد، اکالی سکھ، ہمارے اعتدال پسند، مولانا رشید احمد صاحب کی وفات(خورشید خواجہ)، کوائف، عالم نسواں:بہنوں سے دو دو باتیں، زنانہ دعا و نماز شکریہ سولن میں (نذر سجاد حیدر)، سوراج کب ملے گا (رضویہ خاتون)،’اوبرا مرگاؤ‘ یوروپ کی عیسائیت سے وابستگی کا خلوص (م۔ ح۔ ف)، اصلی اور نقلی مجنوں،باسفورس اور درہ دانیال کی آزادی، رئیس وفد عرب فلسطین کا خط عالی جناب سیٹھ چھوٹانی کے نام،ایڈیٹر چہرہ نما (فارسی اخبار)سے ملاقات(مسلم آؤٹ لک لاہور، بحوالہ کانگرس)، یونانی مظالم کی دردناک داستاں (ایک فرانسیسی جریدہ نگار کے قلم سے، بحوالہ زمانہ)، غازی مصطفے کمال پاشا اور درہ دانیال و شا ح زریں (بحوالہ ہمدم)، ہندوستان کی مشہور درسگاہیں (جناب سعید متعلم تاریخ، بحوالہ جوہر)، بعد از انکشاف (بحوالہ وکیل)صلح جویوں کی آزمائش،انقلاب امریکہ پر ایک اجمالی نظر مصطفے کمال پاشا، تازہ خبر، بلوہ ملتان مراسلات،مکتبہ جامعہ ملیہ علی گڑھ، اشتہارات
اسی طرح جلد1شمارہ 28بابت20دسمبر1922میں درج تحریروں کے عناوین یہ ہیں: نظم(رشحات جو ہر)، اڈیٹوریل، برقیات، عالم نسواں، شری متی پاربتی ہندوستانی خاتون پرزور،شری متی پاربتی جی کا پر جوش تحریری بیان، مسئلہ مشرق قریبہ، ہندوستان کا دور جدید، اقتباسات
ہفتہ وار”ہند“کے27ستمبر1922کے پرچے میں ’افادات آزاد‘ کے عنوان سےمجاہد آزادیمولانا آزاد سبحانی(1884-1957) کی نظم شائع ہوئی،جس کو ذیل میں درج کیا جارہا ہے:
کبھی یہ گھر بھی تھا آباد یعنی عشق کا گھر تھا
تمہیں تم دل میں تھے او ر غیر یعنی میں بھی باہر تھا
خوشا ایام وصل و کامرانی جب کہ جان من
ترا در تھا میرا سر تھا ترا سر تھا مرا د ر تھا
گرا قصر تمنا ایک آہِ نامرادی میں
جو قصر آہنیں سمجھا گیا تھا ریت کا گھر تھا
حر یفو خوش نہ ہو یہ گردش چشم زمانہ ہے
کبھی اس آ ستان ناز پر اپنا بھی بستر تھا
مبارک تم کو عیش و کامرانی اہل خوش بختی
گوارا کرلیا ہم نے بھی جو اپنا مقدر تھا
گل افتادہ رکھ کر سامنے بلبل یہ کہتی تھی
ابھی یہ نو بلادیدہ ذرا پہلے گل تر تھا
ہوس کاری نے کھودی آبروئے عشق دنیا سے
یقین مانو مقام عشق اس سے پہلے برتر تھا
جہان دل کی قطع راہ اک تفسیر وحدت تھی
کہ دل ہی راہ تھا رہرو تھا اور رہرو کا رہبرتھا
کہاں تک کوئی سنتا سننے والے تھک اٹھے آخر
ترا آزاد اک حرف الم طو مار دفتر تھا
پرچے کے اڈیٹوریل اور مضامین کو پڑھ کر مدیرہ کی سیاسی فہم ودرک کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ خورشید خواجہ نہ صرف ایک قوم پرست بلکہ ایک منجھی ہوئی سیاست داں تھیں اوراپنے وقت کے قومی اور بین الاقوامی واقعات پر ان کی گہری نظر بھی تھی۔ ایک ایسے ہی اداریہ میں مدیرہ ’ہمارے اعتدال پسند‘ کے عنوان سے اعتدال پسندوں کی ایک میٹنگ پر تبصرہ کرتی ہوئی لکھتی ہیں:
”ہندوستانی کونسل کی نیابت اس وقت جن صاحبان ہوش و خرد کے ہاتھوں میں ہے ان کی صحت رائے کے متعلق تو یہ تاویل ہو سکتی ہے کہ وہ ہم سے ایک اصولی اختلاف رکھتے ہیں لیکن جب ان کے کاروائیوں کو دیکھا جاتا ہے اور اس میں بھی ان قابل ذکر امور پر خیال کیجئے جو ایک سچے ہندوستانی کے لیے یقیناً قابل افسوس ہیں تو ہم کو بھی ان کی حالت زار اور اپنی بدقسمتی پر رنج ہوتا ہے گزشتہ ہفتہ میں مسلمانان ممبران کونسل کا ایک وفد وایسرائے کی خدمت میں مسلمان ترکی کی حمایت میں گیا جس میں جناب وائسرائے سے برطانوی ڈاکخانہ کا کام لیا گیاتھا یعنی جو کچھ ان سے کہا جائے وہ انگلستان کی وزارت تک پہنچا دیں۔ ہم کو اس طر یق عمل سے چندان بحث نہیں لیکن جو کچھ ان صاحبوں نے مطالبات کیے تھے ان میں وہ دانیال کا بین الاقوامی ہو جانا بھی بطور ایک امر منظور شدہ کے قرار دیا گیا تھا جس کو اگر چہ مصطفے کمال پا شا کی طرف سے یا ترکی کی حکومت کی جانب سے کبھی تردید نہیں ہوئی لیکن مسلمانان ہندوستان نے جو کہ کبھی بھی پسند نہیں کیا۔ایسی حالت میں ہندوستانی مسلمانوں کی نیابت ان صاحبوں کی زبان سے ایسا ہے جیسا کہ فلسطین کا کوئی یہودی اس ملک کی طرف سے وفد لے کر مسٹر لائڈ جارج سے عرض معروض کرے۔
اس ہی ہفتہ میں سر ولیم ونسنٹ کو ہندوستانی ممبروں کے جانب سے ایک الوداعی ڈنر دیا گیا اور سر ڈنشا واچا مشہور حب وطن تقریباً جو پچاس سال سے کانگریس کی خدمت کرتے رہے ہیں اس کے صدر تھے جناب کے سن وسال نے جس طرح ان کے سیاسی خیالات کو نیم مردہ اور ان کی فہم و فراست کو ہضم کرلیا ہے اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ جذبہ وطن پرستی بھی شاید اب ختم ہونا چاہتا ہے ورنہ سر ولیم کی تعریف میں آپ نے جو بے تان کی اڑائی وہ شاید کبھی بھی سنائی نہ دیتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ سرولیم کی ان تقاریر کے بعد جو انہوں نے مولانا محمد علی اور مہاتما گاندھی کی ذات کے متعلق کونسل میں کی ہیں کسی ہندوستانی کا ان کی عزت کرنا خود اپنی عزت کو کھوٹے داموں میں فروخت کرنا ہے اور ہم محو حیرت ہیں کہ ان ہندوستانی ممبران کونسل کو کیا کہیں جو شملہ کی چوٹیوں پر سر ولیم کی ہوا خوانی کے لیے طبع (جمع)ہوئے اور خود اپنی عزت اورہندوستان کی لاج کا پاس نہ کیا۔
بیجا باش و ہرچہ خواہی کن! “ (ص3)
جیسا کہ اس ہفت روزہ کا ایک مقصد خواتین کے اندربھی سیاسی فہم وشعور اورجدوجہد آزادی کا جذبہ بیدارکرنا تھا اسی وجہ سے مدیرہ ’عالم نسواں‘ کے گوشے کے تحت ’بہنوں سے دو دو باتیں‘ کے عنوان سے خواتین کی سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں مطلع کرتی اور ان کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے شوق اور حوصلہ دلاتیں تاکہ ہماری خواتین قومی سیاست سے متعلق مضامین لکھنے کے لئے آمادہ ہو سکیں، مدیرہ 27ستمبر1922کے پرچے میں ’دو دو باتیں کے تحت رقمطراز ہے:
”اس عرصہ میں اگرچہ عدم موجودگی کی وجہ سے اخبار اور بالخصوص عالم نسواں پر اس قدر توجہ نہ کرسکی جیسی کہ ضرورت تھی لیکن یہ سمجھتی تھی کہ فتح سمرنا کی خوشی میں اکثر مضامین بہنوں کے موصول ہوں گے اور بالخصوص نظمیں اس لیے کہ اس سے قبل خلاف توقع اکثر نظمیں آتی تھیں لیکن اس مرتبہ ایسانہ ہوا۔
آیندہ ہفتہ میں ملک کے مسلمہ لیڈر مہاتما گاندھی کے سالگرہ اگرچہ میری غیر حاضری کے سبب خاص نمبر کا انتظام دشوار ہے لیکن چاہتی ہوں کہ بہنیں ضرور اپنے صفحات کے لیے مہاتما کی سالگرہ کی تقریب میں خاص مضامین عنایت کریں اگرچہ مہاتما گاندھی کے احسانات تمام عالم پر ہیں اور ہندوستان کا توکہ دمہ ان سے واقف ہے لیکن طبقہ نسواں بالخصوص ان کا ممنون احسان ہے۔
اخبار انڈپنڈنٹ الہ آباد کی حق پسندی نے شیخ مبشر حسین صاحب قدوائی کی تجویز حمایت انگورہ کو عملی جامہ پہنایا ہے اور اخبار موصوف نے تجویز کیا ہے کہ ایک مختصر فوج ہندوستانی مسلمانوں کے ترکوں کی مدد کے لیے روانہ کی جائے،اس سلسلہ سے بڑی مسرت ہوئی جب یہ دیکھا کہ ہماری دو بہنوں یعنی بیگم قدوائی اور ان کی صاحبزادی نے بھی اپنے نام اس فوج میں بہ حیثیت نرس دیے ہیں۔ اس اعلان کو بلا شبہ ہماری جدید قومی تاریخ میں ایک نایاب سمجھنا چاہئے۔“ (مدیرہ) (صفحہ6)
ڈاکٹر عابدہ سمیع الدین اپنی کتاب ’ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ‘میں ’ہند‘ کو ہفت روزہ اخبار کے بجائے ماہانہ جریدہ لکھا ہے جو غلط ہے، دراصل ان کی رسائی اصل اخبار تک نہ ہو سکی تھی بلکہ ان کی اس معلومات کا ماخذ پروفیسر جمال خواجہ کا خط تھا۔ڈاکٹر عابدہ سمیع الدین رقمطراز ہیں:
”انہوں نے علی گڑھ میں ایک کھادی بھنڈار بھی قائم کیااور1921میں علی گڑھ سے ہی ’ہند‘ نام کا ایک ماہانہ جریدہ بھی شروع کیا جس کی ادارت کے فرائض بھی انہوں نے خود ہی انجام دئے اپنے ایک پوسٹ کارڈ میں گاندھی جی نے انہیں لکھا تھا کہ وہ انہیں اردو میں اپنا سب سے پہلا خط لکھ رہے ہیں۔“(ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ، ڈاکٹر عابدہ سمیع الدین، ادارہ تحقیقات اردو پٹنہ، ص 161)
امۃ الحمید خانم مرزا اپنے مضمون ’زنانہ اخبارات ورسائل‘ میں اس اخبار کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
”ہند سیاسی ہفتے وار اخبار محترمہ خورشید خواجہ صاحبہ کی ایڈیٹری میں علی گڑھ سے نکلنا شروع ہوا تھا۔ سال بھر بعد اشاعت کا انتظام ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوگیا۔ سنا تھا پھر جاری ہوگا۔ معلوم نہیں کہاں تک ٹھیک ہے۔ سالانہ چندہ چھ روپے۔ خبریں، ایڈیٹوریل اور مضامین زیادہ ہوتے تھے۔ دوصفحے عالم نسواں کے عنوان سے نسوانی مضامین کے لیے مخصوص تھے جو خواتین کی عنایت سے بہ مشکل پر ہوتے تھے۔“(تہذیب نسواں، لاہور 20دسمبر1923،ص 839)
قومی جنگ آزادی سے متعلق علی گڑھ سے جاری ہونے والے رسائل و اخبارات میں ہفت روزہ ’ہند‘ کا شمار ایک اہم نیشنلٹ کے اخبار کے طور پر ہوتا ہے جس نے گاندھی جی کی سرپرستی میں آزادی کی تحریک کے لئے عوامی رائے بنانے میں نہ صرف اہم کردار ادا کیا بلکہ خواتین کی حصے داری کو بھی ممکن بنایا اور ان کے خیالات اور آراء کو بھی فوقیت سے شائع کیا۔
کلثوم سایانی اور ان کا پندرہ روزہ اخبار”رہبر“:
ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی گمنام خواتین میں کلثوم سایانی(1900-1987) کا نام بھی شامل ہے۔ وہ گاندھی جی کے قریبی رفیق اور ذاتی معالج ڈاکٹر رجب علی پٹیل کی بیٹی تھیں۔ ڈاکٹر رجب علی پٹیل کا تعلق مسلمانوں کے سنی خوجہ جماعت سے تھا۔ کلثوم سایانی کی پیدائش21اکتوبر1900کو ہوئی۔ان کا خاندان قومی سرگرمیوں کے لئے ممتاز تھا اس وجہ سے وہ بھی بچپن سے ہی قوم پرستانہ اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگی تھیں۔ان کی شادی ڈاکٹر جان محمد سایانی سے ہوئی تھی جو کہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر رحمت اللہ سایانی (1847-1902)کے بھتیجے تھے۔
ڈاکٹر سایانی خود بھی قومی تحریک میں معاون ہونے کے ساتھ ساتھ آل انڈیا خلافت کمیٹی کے معالج خصوصی بھی تھے۔ انہوں نے کلثوم سایانی کو بھی قومی، سیاسی اور سماجی کاموں میں حصہ لینے کا حوصلہ دیا۔ کلثوم سایانی نے تعلیم خصوصی طور پر تعلیم بالغان میں اپنی دلچسپی کی جہ سے اپنا زیادہ تر وقت بمبئی کے لوگوں کو چرخہ کلاسس میں حصہ لینے کی ترغیب دینے کے لئے وقف کیا۔ وہ 1930میں یونٹی کلب کی سکریٹری مقرر ہوئیں، جس کا مقصد عوامی شعور کو بیدار کرنا تھا۔انہیں 1938ں کانگریس حکومت کی جانب سے قائم کردہ پہلی قومی پلاننگ کمیٹی کی خاتو ن رکن کے طور پر نامزد کیا گیا، انہوں نے اس موقع کا بہترین استعمال کیا اور خواتین کو باختیار بنانے کی سمت میں اہم اقدامات اٹھائے۔
انہوں نے گھریلو تعلیم کی اسکیم تیار کی اور مسلم خواتین کے درمیان کام کرنا شروع کیا۔ بیگم کلثوم سایانی نے بمبئی میں بی جی کھیر(1888-1957) کی قیادت میں قائم 1937 کی حکومت میں تعلیم بالغان کی جو کمیٹی بنی تھی وہ پہلے اس کی رکن کے طور پر نامزد کی گئیں اور بعد میں اس کی نائب صدر کے عہدے پر بھی فائز ہوئیں۔ وہ ہنسہ مہتا (1897-1995)کی گرفتاری کے بعد آل انڈیا ویمنس کانفرنس کی1943 میں ایکٹنگ جنرل سکریٹری مقرر ہوئیں اور1944تا 1946 کے درمیان انہوں نے باقاعدہ جنرل سکریٹری کی حیثیت سے کام کیا۔وہ انڈین ایڈلٹ ایجوکیشن ایسو سی ایشن،نئی دہلی کی آغاز سے ممبر تھیں۔اس کے علاوہ وہ ہندوستانی پرچار سبھا کی بھی شروع سے ہی ممبر رہیں، جس کے تحت انہوں نے متعدد تعلیمی لیکچر اور سمیناروں کا انعقاد کیا۔اور اس طرح انہوں نے گاندھی جی کے مشن کو آگے بڑھایا۔
کلثوم سایانی نے آزادی کے بعدنئے ہندوستان کی تعمیر و ترقی میں ایک سرگرم کردار ادا کیا۔ حکومت نے بھی ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ان کو کئی کمیٹیوں اور اداروں میں ممبر کی حیثیت سے جگہ دی، مثلاً جسٹس آف پیس، بچوں کی عدالت کی آنریری مجسٹریٹ، سینٹرل ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن، قومی یکجہتی کانفرنس، ریڈیو ایڈوائزری بورڈ، بمبئی اور فلم سنسر بورڈ بمبئی۔اس کے علاوہ انہوں نے تعلیم بالغان سے متعلق کئی بین الاقوامی کانفرنسوں اور ورکشاپس میں شرکت کی۔وہ یونسکو کی تعلیم بالغان کی مشاورتی کمیٹی میں ہندوستانی کی نمائندہ تھیں۔ بیگم سایانی کو 1959 میں حکومت ہند نے پدم شری ایوارڈسے نوازا اور1969میں انڈین ایڈلٹ ایجوکیشن ایسو سی ایشن کی جانب سے ان کو نہرو لٹریسی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بیگم سایانی کا انتقال 28مئی1987 کو چھیاسی برس کی عمر میں ہوا۔
رہبر کا اجراء:
سن 1940میں انہوں نے سادہ ہندوستانی میں ایک پندرہ روزہ اخبار”رہبر“ جاری کیا۔رہبر کے زیادہ تر مضامین سماجی، تعلیمی، اصلاحی اور سیاسی ہوتے تھے اس کا مقصد وہ لوگ جو نئے پڑھے لکھے ہیں، ان کو ہندوستانی زبان میں تعلیم دینا تھا۔یہ ایک قوم پرست اخبار تھا اور یہ اردو کے علاوہ دیو ناگری اور گجراتی رسم الخط میں بھی شائع ہوتا تھا۔16جنوری 1945 کو لکھے گئے خط میں گاندھی جی نے سایانی کو بیٹی کلثوم کے نام سے مخاطب کیا اور ان کے پندرہ روزہ اخبار کی تعریف کی۔
انہوں نے لکھا:”مجھے رہبر کا ہندی اور اردو کو متحد کرنے کا مشن پسند ہے، میں اس کی کامیابی کے لئے دعاگو ہوں“۔1942میں سینکڑوں مجاہدین آزادی جو کہ سیاسی قیدی کے طور پر ملک بھر کے جیلوں میں بند تھے، رہبر کا مطالعہ کرتے تھے۔ اس زمانے میں اس نے مختلف زبان بولنے والے سیاسی قیدیوں کو ہندوستانی زبان کی تعلیم دی۔کلثوم سایانی نے پندرہ روزہ رہبر کو 20برس1940 تا 1960تک جاری رکھا اور وہ پوری طرح اس کی ادارت میں منسلک رہیں۔ رہبر کے وسیلے سے انہوں نے گاندھی جی کے ہندوستانی زبان کے نظریہ کو فروغ دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے تعلیم بالغان کے مشن کو بھی پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
راقم الحروف کو پندرہ روزہ ”رہبر“ کی جلد7 نمبر15،15فروری1947کے پرچے کا پہلا صفحہ ردی کی دوکان سے حاصل ہوا۔ اس کے سرورق کا جائزہ لینے پر یہ معلومات حاصل ہوتی ہے کہ یہ رسالہ دو کالموں میں ٹیبلائیڈ شکل میں چھپتا تھا۔ جس کی قیمت فی پرچہ ڈیڑھ آنہ تھی۔ سرنامہ پر ’بالغوں کا پندرہ روزہ اخبار‘ اورپھر اس کے ذیل میں جلی حروف میں ٹائیٹل ’رہبر‘ درج ہے۔ اس کا مقصد نو آموز بالغوں میں تعلیمی اور سیاسی شعور کو پروان چڑھانا تھا۔ رہبر کے مضامین ہلکے پھلکے ہوتے تھے اور ان کی زبان آسان ہندوستانی ہوتی تھی۔
مذکورہ پر چہ کا جائزہ لینے پر یہ پتا چلتا ہے، کہ اخبار کا آغاز’نیک بات‘ کی سرخی سے ہوتا ہے، جس کے تحت یہ حدیث درج ہے’عالم کی سیاہی کی بوند شہیدوں کے خون کے برابر ہے‘۔ اس کے بعد اپنی باتیں کے تحت قومی، سیاسی، اور سماجی خبریں درج ہیں۔ بیرسٹرآصف علی کے امریکہ میں پہلا سفیر مقرر ہونے کی خبر ہے نیز مولانا ابوالکلام آزاد کے وزیر تعلیم مقرر کئے جانے پر خوشی کا اظہار کیا گیا ہے۔ ایک خبر سبھاش چندر بوس کے جنم دن پر لوگوں کی ہلڑ بازی پر ہے اور اس پر سخت اعتراض جتایا گیا ہے۔ بمبئی میں ہوئے فساد پر بھی ایک خبر ہے، جس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔اخبار میں خواتین کی اصلاح کے لئے مضامین بھی شامل ہیں۔
ہاجرہ بیگم اور ان کا ماہنامہ”روشنی“:
ہاجرہ بیگم(1910-2003) کا تعلق رامپور کے ایک معروف خانوادے سے تھا۔ ان کی پیدائش سہارنپور میں 24دسمبر 1910کو ہوئی۔ والد ریاست رام پور میں نائب تحصیلدار تھے۔ والدہ کا انتقال بچپن میں ہوا۔ ابتدائی روایتی تعلیم گھر پر ہوئی1926میں کوئنیز میری کالج، لاہور سے میٹری کولیشن کیا۔ پہلی شادی خاندان میں ہوئی لیکن شوہر سے نبھی نہیں اور انہوں نے1932 میں طلاق لے لی۔ 1933 میں وہ اپنے دو سالہ بیٹے کے ساتھ لندن گئیں جہاں انہوں نے مانٹی سوری کالج ٹیچرس کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ لندن میں وہ سجاد ظہیر (1899-1973) اور دیگر ہندوستانی طلباء کے ساتھ کمیونسٹ تحریک سے وابستہ ہوگئیں اور فاشزم اور جنگ کے خلاف کام کیا۔
واپس آنے کے بعد وہ کرامت حسین کالج، لکھنؤ میں ٹیچر انچارج کی حیثیت سے منسلک ہوگئیں جہاں ان کا تقرر ٹیچر انچارج جونیر اسکول ہوا۔لکھنؤ میں ہی انہوں نے سجاد ظہیرکے ساتھ ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس کے انعقاد کے لئے کام کیا۔اس دوران وہ کمیونسٹ پارٹی کے لئے پی سی جوشی(1907-1980) کے ساتھ بھی انڈر گراؤنڈ کام کرتی رہی تھیں۔1935میں ہی انہوں نے معروف کمیونسٹ لیڈر زیڈ اے احمد(1908-1999) کے ساتھ دوسری شادی کی۔یہ شادی سجاد ظہیر کے مکان پر ہوئی۔شادی کے فوراً بعد دونوں نے الہ آباد میں کمیونسٹ پارٹی کے لئے کام کرنا شروع کیا۔ ہاجرہ احمد نے پارٹی کے حکم سے انڈین نیشنل کانگریس اور سوشلسٹ پارٹی کی رکنیت بھی حاصل کی۔
اس دوران وہ کمیونسٹ پارٹی کی سرگرم ممبر کے طور پر بھی خفیہ طور پر کام کرتی رہیں۔ اس خفیہ کام کرنے والوں کی ٹیم میں زیڈ اے احمد اور کنور محمد اشرف(1903-1962) بھی شامل تھے۔1936 میں انہوں نے کانگریس کے ماس کانٹیکٹ پروگرام کے تحت خصوصی طور پر خواتین کے لئے کام کیا اور 1937کے ضمنی انتخابات میں سرگرم رول ادا کیا۔وہ کانگریس کے فیض پور، ہری پور اور رام نگر کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوئیں۔1940میں ہاجرہ بیگم اور زیڈ اے احمد کانگریس سے علیحدہ ہوگئے اور کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے۔
ہاجرہ بیگم نے 1940میں آل انڈیا وومینس کانفرنس کی آرگنائزنگ سکریٹری کے طور بھی خدمات انجام دی۔و ہ کمیونسٹ پارٹی کے ہفتہ وار اخبار”قومی جنگ“ کی مستقل مضمون نگار تھیں۔ انہوں نے اس دوران ٹریڈ یونین تحریکوں اور خواتین کی تنظیموں میں نمایاں کام کیا،قومی یکجہتی اور امن پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا نیز پنڈت سندر لال کی رہنمائی میں امن دستوں میں شامل ہوکر فرقہ وارانہ فسادات ختم کرانے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔
آزادی سے قبل اور بعد میں ملک میں پیدا ہوئے فرقہ وارانہ حالات کا انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیااور پنجاب اور سرحدی علاقوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے تدارک کے لئے دیگر خواتین کے ساتھ دورے کئے، علاقائی امن کمیٹیاں قائم کیں اور آپسی بھائی چارے کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس دوران انہوں نے ہندوستان اور پاکستا ن میں پھنسی ہوئی خواتین اور بچیوں کی حفاظت کے ساتھ بازیابی کروائی اور ان کو ان کے خاندان والوں تک بحفاظت پہنچایا۔1949میں حکومت کے کمیونسٹوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں ان کو بھی گرفتار کیا گیا اور وہ پانچ برس لکھنؤ جیل میں قید رہیں۔ہاجرہ بیگم کا انتقال20جنوری 2003 کو ہوا۔
ماہنامہ روشنی کا اجراء اور اس کی ادارت:
ماہانہ روشنی ہاجرہ بیگم نے بمبئی سے1946میں جاری کیا تھا۔یہ انجمن خواتین ہند(آل انڈیا وومین کانفرنس) کا ماہانہ رسالہ تھا اور یونائیٹیڈ فائن آرٹ لیتھو، مازگاؤں، ممبئی سے چھپتا تھا۔ یہ رسالہ34صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔اس رسالہ کا مقصد خواتین کو معاشی طور پرخود اختیار بنانا تھا اور اس کی اصلاح کی تدابیرکرنا تھا نیز ان کے اندر قومی معاملات سے متعلق سوجھ بوجھ پیدا کرنا تھا۔تاکہ وہ بعد آزادی ہندوستان کی ترقی میں بھرپور حصہ لے سکیں۔اس کی مجلس ادارت میں لیڈی راما راؤ، بیگم معصومہ حسین علی خاں، مسز وجے لکشمی پنڈٹ، مسز رامیشوری نہرو، بیگم کلثوم سایانی اور راج کماری امرت کور شامل تھیں۔
ریختہ کی ویب سائٹ پر راقم الحروف کو روشنی کے تین پرچے دستیاب ہوئے ہیں، جن میں دو آزادی سے قبل کے اور ایک آزادی کے بعد کا ہے۔ان تینوں پرچوں کا معروضی جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ ا س رسالہ نے آزادی سے قبل اور بعد میں فرقہ وارانہ حالات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور خواتین کو سیاسی طور پر بیدار کر نے میں بھی اس کی کوششیں بہت نمایاں تھیں۔ ان شماروں کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں صرف خواتین قلم کاروں کے مضامین ہی شامل ہوتے تھے۔
ہمارے سامنے جلد ۱کا شمارہ چار بابت اگست1946موجود ہے جس کا اداریہ ’کانفرنس کی نئی تجویزیں‘ کے عنوان سے ہے جس میں مدیر نے انجمن خواتین ہند کی کانفرنس میں جو تجویزیں پاس کی ہیں ان پر گفتگو کی ہے نیز ہندوستان کے سماجی وسیاسی منظرنامہ پر جو تبدیلی آرہی تھی، اس پر بھی روشنی ڈالی، اداریہ کا یہ اقتباس دیکھیں:
آج ہندوستا ن میں صرف پڑھے لکھے لوگوں میں ہی ہل چل نہیں ہے بلکہ ان لوگوں میں بھی ایک نئی بیداری پائی جاتی ہے جو ابھی تک آزادی کی لڑائی سے بہت دور رہتے تھے۔کارخانوں کے ضروری نہیں بلکہ کلرک،ڈسٹرکٹ بورڈ کے ٹیچر میونسپلٹی کے مہتر حتیٰ کی اینگلو انڈین اور عیسائی لڑکیاں، پولس اور فوج کے سپاہی تک نڈر ہوکر اپنی حالت بہتر کرنے کے لئے احتجاج کررہے ہیں۔ اسی طرح ایسی ریاستوں کے رہنے والے جو ابھی تک باقی ہندوستان کے رہنے والوں سے الگ رکھے جاتے تھے ایسا راج اپنی ریاستوں میں قائم کرنے کی تحریک کررہے ہیں۔جس میں ان کی بھی شنوائی ہو۔ جہاں ان کو اختیار دئے جائیں اور جہاں صرف راجہ اور نواب کی نادر شاہی نہ ہو بلکہ عام لوگوں کے صلاح مشورے سے کام کیا جائے۔“
ایک مضمون ”ہماری غلہ کی دوکان“ کے عنوان سے بھی اس شمارہ میں شامل ہے، جس میں بڑودہ میں انجمن خواتین نے غریب لوگوں کے لئے راشننگ کا جو نجی طورپر انتظام کیا تھا اس کی تفصیل درج کی گئی ہے۔اسی طرح ایک مضمو ن صوبہئ بمبئی کی کوآپریٹو سوسائٹی کی تجویز پر ہے، اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس طرح کی کوآپریٹو سوسائٹیوں سے خواتین کس طرح فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور خواتین کو امپاور کرنے اور ان باختیار بنانے میں کس طرح مدد کی ہے۔
قانونی معاملات کے تحت ”ہندو قانون سے ولی کون ہوتا ہے“ اس پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ اسی شمارے میں ایک مضمون معروف سماجی کارکن رامیشوری نہرو (1886-1966)اور ان کے خواتین کے لئے اصلاحی کارناموں پر ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی صحت اور ان کی تربیت پر بھی کالم ہے۔ خبروں کے تحت ریاست سانگلی میں میونسپلٹی اور دوسری چنی ہوئی کمیٹیوں میں عورتوں کی نمائندگی پر بات کی گئی ہے۔ایک مضمون”اٹلی کی عورتیں“ کے عنوان سے بھی شامل ہے۔
روشنی کے جلد2نمبر1،2بابت مئی جون 1947کے پرچے میں اداریہ پنجاب میں فساد پر ہے جس میں انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے، کہ جس طرح خواتین کو زود کوب کیا گیا ہے وہ ہندوستانیوں کے لئے افسوس ناک بات ہے۔ تقسیم کے وقت فسادات میں سب سے زیادہ متاثر عورتیں اور بچے ہوئے۔ہاجرہ بیگم اس سے بہت متاثر تھیں۔ وہ اپنے اداریہ میں لکھتی ہیں:
”جو نتیجہ آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہے وہ تو یہی کہ آج کی سیاست ہماری ترقی،تعلیم، سماج سدھار، قومی ایکے اور سیاسی آزادی کی سب ہی سوالوں کودن بدن زیادہ مشکل بنائی جارہی ہے اور ہمارا عزم کہ ہم ہندوستان کی عورتوں کو ایک مضبوط کڑی کی باندھ دیں گے اور اس کا سلسلہ دنیا کی عورتوں کی تحریک سے ملادیں گے۔روز بروز زیادہ دشوار ہوتا جارہاہے۔ مگر ہماری انجمن نے عورتوں کی خدمت اور امداد،ان کی تنظیم اور آزادی کا کام جو ہاتھ میں لیا ہے۔اس کو ہم نہ چھوڑیں گے ہندوستان ہو یا پاکستان ہو۔عورت ذات کی مجبوریاں اور ضرورتیں بدستور قائم ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش ہم جاری رکھیں۔
پنجاب کی دکھی عورتوں کے ساتھ ہماری گہری ہمدردی ہے ساتھ ہی ہم اپنی ان بہادر بہنوں کو مبارک باد دیتے ہیں جو کہ نفرت اور انتقام کے جذبوں سے بالاتر رہیں۔وہ سیکڑوں مسلمان بہنیں جنہوں نے اپنی جان پر کھیل سکھ عورتوں اور بچوں کو پناہ دی اور ان کی امداد کی، وہ ہمت والی سکھ اور ہندو عورتیں جنہوں نے مسلمان مرد اور عورتوں کی جان اور عزت کو بچایا۔
ہماری انجمن کی بہنیں پنجاب میں اب بھی پوری تند ہی سے کوشش کررہی ہیں کہ پنجاب کی عورتیں سمجھ جائیں کہ آپس میں لڑوانے والا کون ہے اور ہندو مسلمان اور سکھ کی لڑائی سے کس کی طاقت مضبوط ہوتی ہے، تاکہ ان کا غم اور غصہ ان کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کردینے کی بجائے مل کر اپنے دشمن سے لڑنے پر تیار کرے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کی یہ کوشش نؤبے کار نہ جائے گی اور پنجاب اور ہندوستان بھر میں وہ اس ایکے کو قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی جس کے بغیر ہم اپنے پیروں پرکھڑے نہیں ہوسکتے اور ملک کوصحیح معنوں میں آزاد نہیں کرواسکتے۔“
اسی پرچہ میں معروف سماجی مصلح اور مجاہد آزای کملا دیوی چٹوپادھیا (1903-1988)کا ایک مضمون بعنوان”انجمن کو کیا کرنا ہے؟“شامل ہے، جس میں انجمن کے مقاصد کے بارے میں درج کیا گیاہے اور اس کو عملی طور پر فعال بنانے کے لئے اقدامات بتائے گئے ہیں۔”پنجاب کے فساد اور ہمارا کام“ کے عنوان سے ایک تحریر پورن مہتا کی بھی ہے۔ چوڑیاں بنانے والی کے عنوان سے ایک مضمون حسنہ بیگم انصاری کا ہے، جس میں انہوں نے ان خواتین کی حالت زار اور ان کی غربت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جو اس صنعت سے وابستہ ہیں نیز ا ن کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی جانب اقدام کی جانب توجہ دلائی گئی ہے۔ یہ ایک اچھا جائزہ ہے۔ ایک مضمون ’کرناٹک میں کستوربا فنڈ کا کام‘ اومابائی کنڈا دیوی کا ہے۔ آخیر میں تھیٹر کی معروف شخصیت اور پنجابی زبان کی معروف شاعرہ شیلا بھاٹیہ (1916-2008 کی ایک طویل پنجابی نظم ”ہندیو!بے خبرو“ پیش کی گئی ہے۔ مدیر ہ نے اس نظم کو اردو پیرائے میں اپنے ایک نوٹ کے ساتھ قارئین کی نذر کیا ہے۔اپنے تعارفی نوٹ میں مدیرہ رقمطراز ہیں:
’’مسز شیلا بھاٹیہ کے گانے آج پنجاب کے گاؤں گاؤں اور گلی گلی میں گائے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں کے مسلم، سکھ، ہندو فساد کے بعد انہوں نے جو گانے لکھے وہ ایک چھوٹے سے ناٹک کی شکل میں لاہور کے محلوں میں عورتوں کی انجمن نے پیش کئے۔ان گانوں سے عورتوں پر بہت اثر پڑا اور آپس کی نفرت و عداوت کم ہونے میں بڑی مدد ملی۔“
شیلا بھاٹیہ کی اس غم ناک اور دل سوز اور غم ناک نظم کے چند بند ملاحظہ فرمائیں، جس میں شاعرہ نے تقسیم اور فسادات کے درد اور آپسی بھائی چارے کے خاتمے کو بیان کیا ہے:
چندا رے تیری چاندنی تارا رے تیری لو
ہولے ہولے سوگئے دھیمے دن دن ہو
چھپ گیا سموچا اب چندا وہ ارمانوں کا
چھائی گھٹا یہ پھوٹ کی بچھڑا سنگ سجنو کا
۔۔۔۔
کھڑکی نیچے جارہا اے راہی تو ہی بول
کیوں آپس میں چھڑ گئے تج آزادی کا بول
اتر گئی تھیں زنجیریں ڈالی گردن میں اور
زنجیروں کے بدلے میں توڑ دیا سر اپنوں کا
چھائی گھٹا یہ پھوٹ کی بچھڑا سنگ سجنوں کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مائیں بہنیں اپنی تھیں تھی اپنی ہی تلوار
اپنے ہی دہی پتر کاٹے چاقو لے اپنے ہاتھ
کنبے اپنے بھون دئے اپنے ہی ہاتھوں ہاتھ
بول سہی اے راہیا کیا تھا یہ کام سیانوں کا
چھاٗی گھٹا یہ پھوٹ کی بچھڑا سنگ سجنوں کا
شیلا بھاٹیہ کی یہ نظم دراصل عام لوگوں کے کرب کو دلسوز انداز میں بیان کرتی ہےاوراس بات کی بھرپورعکاسی کرتی ہے کہ تقسیم اور اپنے گھر اور اپنے وطن کو چھوڑنے سے آپسی محبت میں جو درار اور ایک دوسرے کے لئے بد اعتمادی پیدا ہوئی تھی، اس کو برصغیر ہندو پاک کے عام انسانوں کو بہت زیادہ متاثر کیا تھا۔
”روشنی“آزادی کے بعد لکھنؤ سے شائع ہونے لگا۔ اس کا شمارہ 10، جلد2 بابت فروری1948 گاندھی جی کی شہادت پر خصوصی شمارہ تھا۔ جس میں مدیرہ ہاجرہ بیگم نے8صفحات پر مشتمل ایک طویل تعزیتی اداریہ گاندھی جی کی یاد میں تحریر کیا۔ مدیرہ نے اپنی اس تحریر میں گاندھی جی کی خواتین کو بیدار کرنے کی سمت میں جو خدمات رہی ہیں،اس پر خصوصی طور پر روشنی ڈالی ہے۔مدیرہ اپنے اس اداریہ میں رقمطراز ہے:
”ہندوستان کی عورتوں کو آزادی کی تحریک میں شریک کرنے میں گاندھی جی کا بڑا ہاتھ تھا۔ہر تحریک میں انہوں نے ملک کی رہنما خواتین کو اپنے مشوروں میں شریک کیا اور ان کے لئے خاص کام اور خاص جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔پہلی ستیہ گرہ کمیٹی میں مسز سروجنی نائیڈو اور انسوما بہن ان کی شریک تھیں۔
ہریجن کام میں مسز رامیشوری نہرو اور راجکماری امرت کور کو انہوں نے اپنے ساتھ رکھا،خلافت تحریک میں ہزاروں مسلمان عورتیں ان کا پیغام سن کر آگے بڑھیں اور اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوئیں کستوربا کے مرنے پر ان کی یادگار میں انہوں نے دیہاتی عورتوں اور بچوں کی امداد کا ادارہ قائم کیا۔ ہندوستان کی عورتوں کو انہوں نے سپاہی بننا سکھایا، دیش سیویکا بنا یا، وردی پہنوا کر میدان عمل میں لاکھڑا کر دیا۔کانگریس کی ڈکٹیٹر، کانگریس کی عہدیدار اور وزیر اور سفیر وہ گاندھی جی کی رضامندی سے بنیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان کی عورتیں رورہی ہیں کہ ان کا ایک بڑا سرپرست اور معاون دنیا سے اٹھ گیا۔“
ایک ایسے دور میں جب عام طور پر ہندوستانی مسلمان خواتین کے بارے میں یہ تصور قائم تھا کہ وہ گھریلو ہوتی ہیں نیز ان کا کام خاندان کوسنوارنا اور ان کی خدمت کرناہوتا ہے،اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بیگم خورشید خواجہ، بیگم کلثوم سایانی اور ہاجرہ بیگم کی زندگیاں قومی آزادی کی جدوجہد سے عبارت ہیں۔انہوں نے ا پنی روشن خیالی، اپنی قوت ارادی، اپنے عمل سے پرانی دقیانوسی رسوم وروایات کو توڑا اوراپنے جرائد اور اپنی صحافت کے وسیلے سے جدوجہد آزادی کی تحریک میں روشن مثال قائم کی۔ وہ نہ صرف آزادی کی لڑائی میں پیش پیش رہیں بلکہ انہوں نے صنف نسواں میں سیاسی، سماجی اور تعلیمی بیداری، اور شعور پیدا کرنے اور ان کو باختیار بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔
حوالہ جات
نقوی،سید محمد اشرف، اختر شاہنشاہی، لکھنؤ، 1888
صابری، امدار، تاریخ صحافت اردو، حصہ دوم، حصہ سوم،حصہ چہارم، حصہ پنچم، دہلی1953،1972، 1973
خورشید، ڈاکٹر عبدالسلام، کاروان صحافت، انجمن ترقی اردو، کراچی، 1966
ارشد، محمد(مرتب)،ہندوستانی صحافت۔ محمد عتیق صدیقی کے صحافتی مضامین، 2011
فاروقی،محبوب الرحمن اور کاظم، محمد(مرتبین)، آج کل اور صحافت، پبلی کیشن ڈویزن، دہلی، 2000
سمیع الدین، ڈاکٹرعابدہ،ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ، ادارہ تحقیقات اردوپٹنہ، 1990
اختر،ڈاکٹر جمیل،اردو میں جرائد نسواں کی تاریخ، جلد اول، دہلی، 2016
چندن، جی، ڈی، اردو صحافت کا سفر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی، 2007
فاروقی، اسعد فیصل، علی گڑھ میں اردو صحافت، علی گڑھ،2016
دہلوی، انور علی، اردو صحافت، اردو اکاڈمی، دہلی، 1987
ماہنامہ، تہذیب نسواں، لاہور 2/دسمبر 1923
ہفت روزہ ”ہند“، علی گڑھ(جلد1،شمارہ نمبر 16بابت27/ ستمبر1922)
پندرہ روزہ ”رہبر“، بمبئی(جلد7نمبر 15، بابت15/فروری1947)
ماہنامہ ”روشنی“، بمبئی، لکھنؤ(جلد 1، شمارہ 4،اگست 1947، جلد 2، شمارہ 1، 2، مئی جون 1947، جلد 2، شمارہ 10، فروری 1948)
https://www.s-asian.cam.ac.uk, interview Kulsum Sayan