29 اگست: جب سید قطب کو پھانسی دیدی گئی

0

آج کے دن 29اگست  1966 کو اخوان المسلمین سے وابستہ معروف مفکر سید قطب کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ان کے جنازے میں کسی کو شرکت کی اجازت نہیں ملی، اور آج تک ان کی قبر کا کسی کو علم نہیں ہے۔ایک ادیب،شاعر اور ماہر تعلیم کے طور پہ اپنی فکری زندگی کا آغاز کرنے والی شخصیت جس نے اپنا رشتہ بہت ہی جلد سیاسی اسلام  سے جوڑا اورانجام کارعمومی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے تکفیرِامت کا حکم لگایا۔ وہ بلاشبہ مولانا مودودوی  اور امام خمینی جیسی شخصیات کی طرح عصرحاضر میں مسلم دنیا پر سب سے زیادہ اثرانداز ہونے والے افراد میں سے ایک ہیں۔ان کے متشدد افکار سے خود اخوان کی قیادت نے بھی دستبرداری کا اظہار کیا، مگر ان کی فکرکا ایک حصہ ان کے بعد بھی زندہ رہا اور اسے داعش جیسی تنظیمیں  ایک اہم حوالہ مانتی ہیں۔عبداللہ عزام سےے لے کر ایمن الظواہری تک عسکریت پسند جماعتیں ان کو رہنما مانتی ہیں۔مگر یہ سید قطب کی زندگی کا ایک پہلو ہے۔ کئی اہل علم کے مطابق، باوجود اس کے کہ انہوں نے آخری ایام میں حکومتی جبر کا سامنا کرنے کے بعد یکسر متشدد فکر اظہار کیا،مگر انہوں نے کسی شخص معین کی کبھی تکفیر نہیں کی، بلکہ ماحول اور حالات کے خصائص کے اعتبار سے  ایک حکم لگایا۔جس پر بلاشبہ اہل علم نے گرفت بھی کی، مگر ان کی یہ رائے ویسی ہی علمی تناظر رکھتی ہے جیسے کہ  ماضی کی مسلم فکر میں معتزلہ ،مرجئہ اور خوارج سے متعلقہ مباحث  میں ملتی ہے۔بہرحال سید قطب کی فکر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، مگر ان کے سارے علمی کام کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔سید قطب کی عرب ادب پر لکھی گئی کتب  اورمقالات ایک بہترین شہ پارہ ہیں، مگر اس طرف کم توجہ کی جاتی ہے۔ان کی ابتدائی زمانے میں لکھی گئی ایک کتاب ’کتب وشخصیات‘ میں مشہور مصری ادیب نجیب محفوظ کے ناول ’خان الخلیلی‘ کی خوب توصیف کی گئی ہے اور اس ناول کو عربی قومیت اور رانسانیت پسندی کے حوالے سے ایک بہترین شہ پارہ کہا گیا ہے۔اسی طرح نجیب محفوظ نے بھی اپنی کتاب ’المرایا‘ میں سید قطب کے ادبی کام کی تعریف کی ہے۔

شاید یہ بات بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن ہو کہ سید قطب ابتدائی زندگی میں مغربی تہذیب کے حامی اور اس کی ترویج کے داعی تھے۔یہ ان کی زندگی کا ایک پڑاؤ تھا، مگر بعڈ میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہوتی گئیں۔مصری مؤرخ اور صحافی توحید مجدی نے سید قطب پر لکھی اپنی کتاب میں ایسے کئی حوالے ذکر کیے ہیں۔ ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ 1934 میں سید قطب نے الاہرام اخبار میں ایک مضمون لکھا کہ لوگوں کو ساحل کنارے آزادی سے مختصر لباس میں گھومنے پھرنے دینا چاہیے جس طرح مغربی ممالک میں ہوتا ہے۔جس پر اُس وقت کے شیخ الازہر مامون الشناوی نے سخت سرزنش کی تھی اور ان کے خلاف فتوی دینے کی دھمکی بھی دی تھی۔

سید قطب کا پورا خاندان جیل اور جلاوطنی کا شکار رہا۔ان کے بھائی محمد قطب ان سے بھی زیادہ متشدد افکار کے حامل تھے۔ ان کی ایک کتاب ’ھل نحن مسلمون؟‘ کیا ہم مسلمان ہیں؟ کے عنوان سےشائع ہوئی۔ انہوں نے 1959میں مسلم سماج پر کفر کا حکم لگایا تھا۔ یہ بھی کئی مرتبہ جیل گئے تھے۔ آخر میں 1971 میں سعودی عرب ہجرت کرگئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔ ان کی ایک ہمشیرہ حمیدہ قطب بھی اخوان سے وابستہ تھیں۔انہوں نے دس سال جیل میں گزارے۔رہائی کے بعد ڈاکٹر حمدی مسعود نامی شخص سے شادی کی اور فرانس منتقل ہوگئیں جہاں 2012 میں ان کی وفات ہوئی۔ان کی ایک اور بہن امینہ قطب نے اخوان کے رہنما کمال السنانیری سے شاادی کی تھی جنہیں 25سال کے لیے جیل کی سزا سنائی گئی تھی اور پھر اچانک حکومتی دعووں کے مطابق 1981 میں مبینہ طورپہ انہوں نے جیل میں ہی خود کشی کرلی۔ مگر غالب خیال یہ ہے کہ جیل میں تشدد سے ان کی وفات ہوئی تھی۔ ان کی وفات کے بعد امینہ قطب نے ان  کی یاد میں جو مرثیے کہے  وہ بہت دل گداز ہیں۔خودامینہ قطب نے بھی کچھ وقت جیل میں گزارا۔ ان کی وفات 2007 میں ہوئی۔

سید قطب کی پیدائش 9 اکتوبر 1906ء میں مصر کے ضلع اسیوط کے موشا نامی گاؤں میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں اور بقیہ تعلیم قاہرہ یونیورسٹی سے حاصل کی اوربعد میں یہیں پروفیسر لگ گئے۔ کچھ دنوں کے بعد وزارت تعلیم کے انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1939میں وزارت تعلیم کی طرف سےجدیدتربیت کےمطالعہ کےلیےامریکہ بھیجاگیا.وہاں آپ 1941تک رہےواپسی پراٹلی،سوئیزرلینڈ،اوربرطانیہ کادورہ کرتےہوئےمصرپہنچے۔ امریکہ سےواپسی پرآپ نےتحریک اخوان المسلمون کاتفصیلی مطالعہ کیا اور 1945ء ميں اخوان المسلمين سے رابطہ قائم کیا۔

سید قطب 21 اگست 1966 کو جیل عدالت میں

1952میں جب مصر میں فوجی انقلاب آیا اور اس کے نتیجے میں جمال عبدالناصر نے اقتدار سنبھالا۔اس انقلاب کے لیے اخوان نے بھی راہ ہموار کی تھی اور اس کی حمایتی تھی۔23 جوائی1952ء کے فوجی انقلاب کے برپا ہونے تک سید قطب اپنی تحریکی وابستگی میں صرف دوستی وہمدردی اور فکری ہم آہنگی کی حدود تک محدود رہے۔لیکن اس فوجی انقلاب کے بعد انہوں نے باقاعدہ تنظیمی اورقانونی طور سے ’’اخوان المسلمون‘‘ کی رکنیت اور اس جماعت میں شمولیت اختیار کرلی۔

سید قطب بھی اس فوجی انقلاب کی بھرپور تائید کر رہے تھے اور اس کے دفاع میں انہوں نے متعدد مضامین لکھے۔ فوجی تختہ پلٹ کے بعد سید قطب کو انقلابی قائدین کی مجلسِ سربراہان میں ثقافتی وصنعتی امور کا مشیر عام مقرر کیا گیا۔اس کے کچھ عرصے بعد انہیں فوجی قائدین کی لانچ کی ہوئی پہلی سیاسی پارٹی ’’ھیئۃ التحریر‘‘ کا جنرل سکریٹری بنانے کی تجویز بھی پیش ہوئی، مگر سیدقطب نے سختی سے اسے مسترد کر دیا۔ تاہم معاون سکریٹری کا عہدہ قبول فرمایا۔

یہ سیاسی تنظیم 1953ء میں معرضِ وجود میں آئی تھی۔شروع میں قائدِ انقلاب جنرل جمال عبد الناصرسے ان کی خاص دوستی تھی۔مگر جلد ہی سید قطب کو احساس ہوگیا کہ انقلابی رہنمائوں کے ارادے کچھ اور ہیں۔ ان کا رجحان سید قطب کے اسلامی رجحان سے میل نہیں کھاتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے انقلابی تنظیم سے دوری بنا لی۔

اس کے بعد جب وہ مستقل انداز میں حکومت  کے خلاف مضامین تحریر کرنے لگے،جس سے ان کے تعلقات جمال عبدالناصر سے خراب ہوگئے۔1954 میں انہیں گرفتار کیا گیا اور الزام یہ تھا کہ وہ حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔ انہیں اس مقدمے میں پندرہ برس کی سزا ہوئی۔ مگر بعد میں ان کی خرابی طبیعت اور عراقی صدر عبدالسلام عارف کی درخواست پر 1964 میں  دس سال بعدرہا کردیا گیا۔

اس رہائی  کے بعد انہوں نے جمال عبدالناصر کے خلاف بہت کچھ لکھا اور کہا۔ ان کی ایک نظم ’ھبل ھبل‘ بہت مشہور ہوئی جس میں انہوں نے جمال عبدالناصر کے نظام کو جاہلیت،طاغوت،نفاق اور دجل وغیرہ کے القاب سے نوازا۔

اس مرحلے میں بعد سید قطب کے افکار میں سختی آگئی تھی۔انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ فی الوقت موجود تمام مسلم حکومتیں اور تمام مسلم معاشرے جاہلیت اورکفر کے معاشرے ہیں۔انہوں نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے پوری امتِ اسلامیہ پر ارتداد کا حکم لگایا اور کہا کہ اصل اسلام کا وجود صدیوں قبل ہی دنیا سے معدوم ہوگیا ہے۔

مثلا ایک جگہ انہوں نے لکھا:

’’ہم يہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دنيا جاہليت کے اندر غرق ہے۔ اس جاہليت نے اللہ کے اقتدار اور حاکميت پر غاصبانہ قبضہ کيا ہوا ہے۔ ہم قرآن کو عقيدے کا بنيادی ماخذ قرار ديتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم جاہلی معاشرے سے نجات حاصل کريں ۔‘‘

انہوں نے  اپنی مشہور کتاب ’معالم فی الطریق‘(اردو: جادہ و منزل) میں لکھا ہے کہ امت کے افراد کو اب نئے سرے سے مسلمان بنانے کی ضرورت ہے۔

سید قطب کی رہائی کے کچھ ہی عرصہ بعد اگست 1965میں انہیں اس الزام میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا کہ وہ ایک خفیہ تنظیم کے تحت انقلاب کا راستہ ہموار کرہے ہیں۔اس مقدمے میں انہیں اگلے برس اکیس اگست  کو موت کی سزا سنادی گئی۔

جب 21اگست کو انہیں عدالت میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تو اس پر مولانا ابوالاعلی مودودی نے لکھا:

’’قاہرہ کی تازہ اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں اخوان المسلمون کے خلاف عدالتی کارروائی کا جو ڈراما ہو رہا تھا، اس کے نتیجے میں عالمِ اسلامی کے نہایت ممتاز مفکر، عالم اور صاحبِ قلم سیّد قطب اور چھے دوسرے اصحاب کے لیے سزاے موت کا فیصلہ کیا گیا ہے، اور باقی 28اشخاص کو طویل قید کی سزائیں دی گئی ہیں ، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے 1954ء میں صدر ناصر کی حکومت دنیاے اسلام کی ایک نہایت قیمتی شخصیت سید عبدالقادر عودہ کو اپنی سیاسی اغراض پر قربان کر چکی ہے، جن کی کتاب اسلامی قانونِ تعزیرات کو آج تمام اہل علم خراجِ تحسین ادا کر رہے ہیں۔ اب پھر ایک دوسری قیمتی شخصیت کو انھی اغراض کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے، جس کی کتاب اسلام میں عدل اجتماعی اور جس کی تفسیر فی ظلال القرآن اسلامی لٹریچر میں ہمیشہ یاد گار رہنے والی چیزیں ہیں ۔ درحقیقت یہ ہماری انتہائی بدقسمتی ہے کہ مصر کے حکمران ایسے نازک وقت میں ، جب کہ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات عرب اور اہلِ عرب کے خلاف روز بروز ترقی پر ہیں ، اپنی ساری طاقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صرف کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت ضرورت ہے کہ دنیاے اسلام کے ہر گوشے سے ان حکمرانوں پر اس روش سے باز آجانے کے لیے اخلاقی دباؤ ڈالا جائے۔ جس عدالتی کارروائی کو انھوں نے اخوان پر یہ ظلم ڈھانے کے لیے بہانہ بنایا ہے، اس کو ایمنسٹی انٹر نیشنل پوری طرح بے نقاب کر چکی ہے، اور صدر ناصر کے سوا کوئی شخص بھی یہ باور نہ کرے گا کہ اس نام نہاد عدالت میں فی الواقع یہ مظلوم لوگ مجرم ثابت ہوئے ہیں۔‘‘

پولیس گاڑی سے باہر نکلتے ہوئے

سید قطب کواکیس اگست کے دن عدالت میں موت کی سزا تو سنادی گئی تھی  مگر پھانسی دینے کی تاریخ اور وقت کا کسی کو نہیں بتایا گیا تھا، حتی کہ پھانسی سے قبل تک خود سید قطب کو بھی لاعلم رکھا گیا۔ جب انہیں اس مقصد کے لیے مخصوص مقام کی طرف لے جایا گیا تو ان کے ساتھ دو لوگ اور تھے ،یوسف ہواش اور عبدالفتاح اسماعیل، یہ بھی اخوان سے تھے، اور انہیں بھی سید قطب کے بعد فورا پھانسی  دیدی گئی۔ فواد علام واحد شخص تھا جو اس واقعے کا شاہد تھا اور وہی پھانسی دینے پر مامور تھا۔

سید قطب کی علمی تراث بہت وسیع ہے۔انہوں نے اٹھائیس کے قریب کتب تصنیف کیں۔ ان کی فکرری زندگی کے دیگر پہلووں کی طرف بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔خصوصا ان کی کتاب النقد الادبی: اصولہ و مناہجہ اور التصویر الفنی للقرآن الکریم بہت اہم ہیں۔

جہاں تک ان کو سزائے موت کا تعلق ہے تو اس پر غیرجانبدار مبصرین بھی یہی کہتے ہیں کہ اس کا کوئی جواز نہیں تھا۔