مدارس کی تعلیم: معاصر ذہن اور مذہبی تصورِعلم کے مابین تعلق

طیب عثمانی

0

کالج اساتذہ کی تنظیم ’اتحاد اساتذہ پاکستان‘ کے زیر اہتمام ماہانہ علمی و ادبی نشست کا انعقاد گورنمنٹ دیال سنگھ کالج کے سٹاف روم میں ہوا۔  گفتگو کا موضوع “Discussion on Madrasa Education in Pakistan” تھا۔ میں منتظمین کو ایسی علمی و ادبی بیٹھکوں کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ریسورس پرسن کے طور پروفیسر ڈاکٹر ارشد اقبال صاحب نے پاکستانی مدارس کے نصاب اور ممکنہ خدشات کے حوالے سے گفتگو کی۔ مدرسہ کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں نے اس گفتگو کے مکالمہ میں حصہ لیا۔ مدراس کا قضیہ ہمارے ہر حلقے کے لیے انتہائی ضروری اور اہم و حساس بھی ہے۔ سماج کا ہر فرد اس تعلیمی نظم پر بات کرتا ہے اور کئی افراد کو اس نظم سے جڑے افراد کے حوالے سے فکرمندی بھی رہتی ہے۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہم سب تعلیمی ثنویت اور ان میں ہونے والے معاصر اشتراک کے   منافع و مفاسد ” Merits & Demerits ” کے حوالے سے ادراک نہیں کر پا رہے۔ پاکستانی تعلیمی تاریخ میں تین اہم مزاج رہے ہیں۔

  1. مدرسہ کی دینی تعلیم ہی کافی ہے باقی مغربیت و سیکولرازم سے ملغوب تعلیم ہے جس سے دین سے دوری آتی ہے۔
  2. عصری تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جدید تعلیم و نظام ضروری ہے۔ دینی تعلیم سے افراد سماج سے الگ تھلگ ہو جاتے ہیں۔
  3. تیسرا رجحان یہ رہا کہ دونوں قسم کی تعلیم کو ملا کر پڑھایا جائے۔ اس رجحان میں بھی ثنویت ہے۔ اسلامک سکول میں عربی اور ناظرہ و ترجمہ پڑھا کر مادی سرمایہ داری مقاصد کا حصول ممکن ہو سکے گا۔ ممکن ہے کہ بچوں کو کچھ محدود دینی فائدہ بھی ہو جائے۔ اس کے علاوہ مشترک تعلیم مدارس میں شروع کی گئی ہے۔ اس حوالے سے اختلاط ہے، جیسا کہ دیوبندی مدارس میں بیت السلام، بریلوی مکتب فکر میں جامعہ محمدیہ غوثیہ بھیرہ اور اہلحدیث مکتب میں جامعہ رحمانیہ میں سعودی جامعات سے الحاق ہوتا ہے۔ ایک مزید ماڈل جامعۃ الرشید کراچی میں حفاظ ایجوکیشنل سسٹم  ہے جس میں پہلے دو سالوں میں عربی و انگلش زبانوں پر عبور اور پھر روایتی مدارس و سکول مکسچر ہوتا ہے۔

اصل بحران :

بحران کو سمجھنے کے لیے کئی پہلو ہیں جن کے کچھ بنیادی سوال ہیں۔

  1. اسلام کا تصور تعلیم (Epistemology) کیا ہے؟
  2. اسلام کا تصور تعلیم “Stabile” ہے یا “changeable” ہے؟
  3. کیا تعلیم بین الاقوامی تناظر میں ہوتی ہے؟
  4. تعلیم کی دینی و دنیاوی تقسیم درست ہے اور اس کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟
  5. مدارس کی تعلیم بالخصوص پری کالونیل، کالونیل اور پوسٹ کالونیل میں فروق کیا ہیں؟
  6. کیا ارسطاطالیسی ورلڈ ویو میں پیدا ہونی والی تعبیری تعلیم عصری اقتضاءات contemporary needs کو پورا کر سکتی ہے یا نہیں؟

ان سوالات کو سامنے رکھتے ہوئے خیال یہ آتا ہے کہ ہمارا مدراس کا پہلا رجحان فقط مروج دینی تعلیم سماج سے ہم آہنگ نہیں ہو رہا ہے۔تو اس کا مکسچر کا جو حل تلاش کیا گیا ہے۔ اس کا ایک تناظر سامنے آتا ہے:  صرف دینی تعلیم کے ساتھ نوکری کے حصول کے لیے میٹرک، ایف اے، بی ایس یا ایم اے کر لی جائے۔ تاکہ معاشی ضرورت پوری ہو سکے. لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بعد کیا سماج میں قبولیت پیدا ہو رہی ہے۔ تو میرا جواب یہ ہے یہ مکسچر مزید مسائل پیدا کر رہا ہے….. وہ یہ ہے دینی تعلیمی تعبیرات خواہ وہ علوم آلیہ یعنی منطق، فلسفہ، فلکیات (کوپر نیکن ہےجبکہ اب ہاکنگ کاسمولوجی میں شفٹ ہو چکی ہے.) ، صرف و نحو ، عربی ادب یا علوم عالیہ یعنی تفسیرو تشریح نصوص دینیہ “Religious textual semantics” اور فقہ و متعلقہ علوم ارسطاطالیسی فلاسفی، Epistemology اور ورلڈ ویو میں ہیں۔  اور جس عصری تعلیم کے مضامین پیچ لگائے جا رہے ہیں وہ ماڈرن و پوسٹ ماڈرن ورلڈ ویو اور Epistemology میں ہیں۔ دونوں الگ ورلڈ ویوز کو جمع کرنے کے حوالے سے سعی لا حاصل کی جا رہی ہے جسکا کوئی خاطر خواہ فائدہ ماسوائے چھوٹی موٹی نوکری کے کچھ بھی نہیں۔فکری لحاظ سے کنفیوزڈ جنریشن تیار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے.۔ آج کی اس مکالماتی محفل کے ایک سوال تھا کہ ٹیکسٹ اپنے خاص کانٹییکسٹ میں ہے اور اس کی تعبیر بھی ایک زمانے میں ہے جو کہ زمانی و مکانی ضرورت سے میل نہیں کھاتی۔ تو کیوں اس میں تنوع و تبدل نہیں کیا جا رہا……. اس کا جواب یہ بنتا ہے کہ ذہن جدید کے معاشی مسائل کے تناظر میں جہاں تعلیمی نظم کو ڈھالا جا رہا وہیں انٹر ریلجیس اور انٹرا ریلجیس تکثیریت اور اس کی قبولیت کے تناظر میں ذہن جدید کے فکری سوالوں کو سمجھنے اور ان کے سامنے دینی تعلیم کے مجالات Domains کی وضاحت کے ساتھ اس ذہن سے تخاطب interactions کی اخلاقی و فکری قدروں کے تناظر میں کام کی ضرورت ہے….. اس حوالے سے کام نا کرنے کی وجہ سے مطلوبہ اہداف کا حصول ممکن نہیں ہو رہا اور فکری خلا مزید پھیلتا چلا جا رہا ہے…. اسے بھرنے کی اشد ضرورت ہے…. اس کے کئی ممکنہ حل ہو سکتے ہیں…. ان شاء اللہ پھر کبھی ان پر بات کریں گے۔