امارت اسلامیہ افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد سے پوری دنیا کے مختلف حلقے اپنے اپنے نقطہ نظر ، ماضی کے تجربے اور فکری پس منظر کے تناظر میں متنوع تجزیات پیش کر رہے ہیں۔بین الاقوامی سطح پر البتہ عمومی صورتحال یہ ہے کہ افغان طالبان بارے ایک طرح کا جمود اور سردمہری ہے اور افغان طالبان کی توقعات کے مطابق کوئی مثبت پیش رفت اب تک ہوتی نظر نہیں آرہی۔بہت سے معاملات میں کنفیوژن بھی ہے اور محض قیاس آرائیوں کی بنیاد پر خبریں اور آراء سامنے آرہی ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ افغان طالبان کے سامنے جو چیلنجز ہیں وہ اس قدر وسیع اور بھاری ہیں کہ ان سے نمٹنے میں کافی وقت اور استحکام درکار ہے۔مگر پچھلے دو برسوں کے دوران انہوں نے داخلی امن وامان اور گورننس سے جڑے انتظامی امور میں جس طرح کی عملیت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے،اس کی توقع پہلے کوئی نہیں کر رہا تھا ۔
بہرحال امارت اسلامیہ افغانستان کے گورکھ دھندے میں بہت سے امور ایسے ہیں جو براہ راست مشاہدہ کیے بغیر سمجھ میں نہیں آسکتے۔ اسی لیے ہم نے ایک پروگرام کے تحت یہ قدم اٹھانے کا سوچا کہ امارت افغانستان کا سفر کیا جائے، طالبان رہنماؤں، سیاسی شخصیات اور عام لوگوں سے دوبدو ملاقتیں کی جائیں، ان کی آراء سنی جائیں،ان سے سوالات کیے جائیں، اور حالات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی جائے۔امارت اسلامیہ کے انتظامی ڈھانچے، ان کے منشور اور مستقبل کے لائحہ عمل بارے براہ راست معلومات بھی حاصل کی جائیں۔مزید، اس سفر کا ایک اور محرک یہ بھی تھا کہ پچھلے چند ماہ سے پاکستان اور امارت اسلامیہ افغانستان کے مابین ایک تناؤ کی کیفیت ہے۔ یہاں سے مہاجرین کی نقل مکانی ہورہی ہے، جس کے بعد سے سوشل میڈیا پر طرح طرح کے تبصرے اور بحثیں ہو رہی ہیں۔جبکہ عالمی میڈیااور انسانی حقوق کے اداروں میں بھی اس مسئلے کی گونج الگ ہے۔دونوں ممالک کے درمیان کے حالیہ تناؤ نے کئی دیگر مسائل اور مباحث کو بھی ازسرِنو تازہ کردیا ہے جن سے ہر سوشل میڈیا استعمال کرنے والا بخوبی آگاہ ہے۔لہذا، یہ بھی ایک بڑا داعیہ تھا کہ دوسری طرف جاکر ہم دیکھیں، سنیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ ادھر کیا صورتحال ہے اور دونوں ممالک کے مابین باہمی تعلقات کو کس طرح دیکھا جا رہا ہے۔ہم یہ طے کر کے گئے تھے کہ اپنی ذاتی سوچ کو ایک طرف رکھ کے صرف یہ دیکھنے اور اس کے بعد دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں گے کہ اُس طرف کا ہمارا تجربہ اور مشاہدہ کیا رہا۔اور حقیقت یہ ہے کہ ہمیں کئی خوشگوار چیزیں دیکھنے کا موقع ملا۔
جب ہم نے یہاں پاکستان میں دوست احباب کو بتایا کہ ہم امارت اسلامیہ افغانستان کے سفر کا ارادہ رکھتے ہیں تو کئیوں نے یہ خدشات ظاہر کیے کہ آج کل دونوں ممالک کے درمیان تناؤ چل رہا ہے ،اور ایک دوسرے کے لیے نارضی عیاں ہے، ایسے حالات میں وہاں کا سفر کرنا محفوظ نہیں ہوگا ۔ ہمیں بہرحال اندازہ تھا کہ کچھ گرمی تو سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا نے بڑھا رکھی ہے، حالات ایسے بھی نہیں کہ وہاں جانے کا سوچا ہی نہ جائے۔ اس کے علاوہ ہمار ایک مذہبی پس منظر بھی ہے۔ مزید یہ کہ پختون قومیت بھی رکھتے ہیں جس کے سبب بات چیت اور افہام وتفہیم کے مسائل پیدا ہونے کا ڈر نہیں تھا۔لہذا، ہمارے دل میں توکسی قسم کا خدشہ نہیں تھا کہ سفر کا اردہ ترک کردیا جائے۔ہمیں تو امارت اسلامیہ اپنے دوسرے گھر کے مترادف محسوس ہوتا ہے۔
ہمارا وفد تین لوگوں پر مشتمل تھا، جس میں میرے ساتھ محترم ضیاء الرحمان صاحب اور دوست حافظ ابرارصاحب شامل تھے۔ہم 3 دسمبر کو پاکستان سے کابل کے لیے روانہ ہوئے۔ جانے قبل ہم نے کابل میں موجود اپنے کئی دوستوں اور شناسا احباب سے رابطہ کیا اور انہیں اپنی روانگی کی خبر دے دی تھی۔جب ہم کابل ائیرپورٹ پہنچے تو ہمیں لینے کے لیے پہلے سے دوست موجود تھے۔چونکہ رات ہوچکی تھی اس لیے ،ہم شب بسری کے لیے ان کے ساتھ ہو لیے۔
امارت اسلامیہ افغانستان میں ہمارا قیام 9 دن کا تھا۔ان نو دنوں کے دوران ہم نے سات مختلف وزارتوں کی نمائندہ اہم شخصیات سے ملے۔ اس کے علاوہ کئی سیاسی وغیرسیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئیں۔یہ ایک دلچسپ اور نئی معلومات سے بھرپور سلسلہ تھا۔
ان ملاقاتوں اور بات چیت میں جو اہم موضوعات زیربحث رہے ان میں ایک تو یہ تھا کہ پاکستان اور امارت اسلامیہ افغانستان کے مابین تعلقات کی خرابی کی وجوہات کیا ہیں۔افغانستان میں خواتین کی تعلیم کا مسئلہ کیا ہے اور اس حوالے سے کیا رائے اور لائحہ عمل پائے جاتے ہیں۔جبکہ تیسرا اہم پہلو افغانستان کے نئے داخلی سیاسی و سماجی ڈھانچے کا مشاہدہ اور اسے سمجھنا تھا۔ان حوالوں سے ہم نے بہت سے سوالات کیے اور ہمیں بہتر انداز میں ان کے جوابات بھی دیے گئے۔
یہ نو دن ہمارے لیے بہت عمدہ اور نئی معلومات سے بھرپور تھے۔ ہر جگہ ہمارا دل کھول کر استقبال کیا گیا، مہمان نوازی کی گئی اور محبت و توجہ سے سنا، بتایا گیا۔اس دوران کہیں بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، نہ کہیں سختی کا مظاہرہ کیا گیا۔مجموعی لحاظ سے یہ ایک دلچسپ اور زبردست دورہ تھا۔
جاری ہے۔