پشاور کی تاریخ کا سیاہ ترین دن
16 دسمبر 2014 پاکستان کے شہر پشاور کے لیے ناقابلِ تصور رنج و غم کا دن تھا۔ اس دن 144 معصوم کھلکھلاتی آوازاوں کو خاموش کر دیا گیا کیونکہ 9 بندوق برداروں نے آرمی پبلک سکول پر بے رحمی سے حملہ کیا، جس نے پشاور کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
حملے کی خبر پھیلتے ہی پشاور کی سڑکوں پر سوگ کا سماں تھا۔ ہر گلی غم کا راستہ بن گئی، جنازے کے جلوس معصوم بچوں اور اساتذہ کی لاشیں لے کر جا رہے تھے جو تشدد کے اس سفاک اور بے رحم فعل کا شکار ہوئے۔ غمزدہ والدین اور آہ وبکا کرتے خاندانوں کے دل دہلا دینے والے مناظر نے مایوسی کی ایسی تصویر کشی کی جو کسی کے لیے بھی قابل برداشست نہیں ہوتی۔
اس دن پشاور میں جو درد واندوہ کا منظرنامہ برپا ہوا وہ محض جسمانی نہیں تھا،یہ ایک روحانی زخم بھی تھا جس نے شہر کی روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ایک اسکول، ایک ایسی جگہ جہاں خوابوں کی پرورش کی جاتی ہے، اور مستقبل کی تشکیل ہوتی ہے، اس ظالمانہ اقدام نے درسگاہ کے ماتھے پر ایسے داغ چھوڑے جو ہمیں ہمیشہ کچوکے لگاتے رہیں گے اور جس کی یاد کبھی پشاور کے دل سے مٹائی نہیں جاسکے گی۔
تاہم، اس سانحے کا سامنا کرتے ہوئے، پشاور نے اپنی روح کی مضبوطی کا ثبوت دیا۔ ایک گہرے زخم کے بعدجواتحاد سامنے آیااس نے شہر کے لوگوں کے درمیان یکجہتی کی مثال کو پیش کیا۔لوگ متحد ہو کر دہشت گردی کے خلاف جمع ہوئے اور اس کے خلاف یکسو ہوگئے۔اس کے بعد لوگوں میں جہاں ایک طرف غم تھا تو اس کے ساتھ اس صدمے نے شدت پسندی کی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کے عزم کو مضبوط بھی کیا۔
اس سانحہ سے حاصل ہونے والے اسباق گہرے اور آفاقی ہیں۔ یہ مصیبت کے وقت اتحاد کی اہمیت، انتہا پسندی سے دوچار خطے میں امن کی ضرورت، اور اپنے بچوں کے مستقبل کے تحفظ کے لیے اجتماعی اقدامات کی ضرورت کو واضح کرتا ہے۔ ہمیں اپنے غم کو مثبت عمل میں بدلنا چاہیے۔ انتہا پسندی، عدم برداشت اور تشدد کے خلاف متحد ہونا ہمارا فرض ہے۔ تعلیم، افہام و تفہیم اور ہمدردی کو فروغ دے کر، ہم ان لوگوں کی یاد کا احترام کر سکتے ہیں جنہوں نے اس سیاہ دن میں اپنی جانیں گنوائیں۔
آئیے ہم پشاور کو نہ صرف اس تکلیف کے لیے یاد رکھیں جو اس نے برداشت کی بلکہ اس نے بے مثال مصیبتوں کا سامنا کرنے کے لیے عزم اور ہمت کا بھی مظاہرہ کیا۔پشاور کے دل پر پڑنے والا یہ زخم بہت گہرا ہے ، مگر اس کے ساتھ ہی ایک ایک سبق بھی ملا ہے جو یاد رکھنے کے قابل ہے۔