پاکستان میں مذہبی آزادی سے متعلق بہت سی پیچیدگیاں اور مسائل ہیں جس کے مظاہر وقتا فوقتا ملک میں محسوس کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہ تمام مسائل عملی ہیں جن کے پیچھے گورننس کی اور انتظامی خرابیاں ہیں جو اصل رکاوٹ ہیں۔ اقلیتوں کو تعلیم، روزگار اور ملازمت کے امور میں وہ حقوق نہیں ملتے جو ایک قومی ریاست میں ملنا ضروری ہیں۔ اگر آئینی و قانونی سطح پہ دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ملک میں اقلیتوں اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک اچھا خاصا ڈھانچہ موجود ہے جس کا اطلاق ہوتا نظر نہیں آتا۔ لہذا اصل مرحلہ مزید قوانین کی تشکیل سے زیادہ پہلے سے موجود قوانین سے متعلق سماج میں آگہی اور ان کا نفاذ کا ہے۔ زیرنظر مضمون میں ان قوانین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔ دونوں مضمون نگار سماجی کارکن ہیں اور انسانی حقوق سے متعلق مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔
قیام پاکستان کے پس منظر میں مذہبی آزادی اور اقلیت کا تحفظ
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی قیام پاکستان سے پہلے اسلامی ریاست کا تصور پیش کرتے ہوئے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی مکمل یقین دہائی کرائی تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو اللہ تعالی نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا ۔ آپ انسانیت دوست سیاستدان تھے۔ آپ اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ ملک کو صحیح معنوں میں خوشحال ،مضبوط اور پرامن بنانے کے لیے اشد ضروری ہے کہ پاکستان میں رہنے والے امن پسند شہریوں کے حقوق کی تسلی بخش انداز میں حفاظت کی جائے۔قائد اعظم نے کئی مقامات پر پاکستان میں رہنے والے غیر مسلموں کے ساتھ بہترین سلوک اور رواداری کی اہمیت پر زور دیا ۔اپریل 1941ء میں آل آنڈیا مسلم لیگ کے مدراس اجلاس سے صدارتی تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
“اقلیتوں میں اعتماد اور تحفظ کا احساس پیدا کیے بغیر کوئی حکومت بھی کامیاب نہیں ہوگی۔ اگر کسی حکومت کی پالیسی اور پروگرام اقلیتوں کے بارے میں غیرمنصفانہ نامناسب اور ظالمانہ ہوں گے تو وہ حکومت کبھی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار نہیں ہو سکے گی۔ ہمارے ملک کی اقلیتوں کو معلوم ہوجائے گا کہ ہماری روایات ہمارا ورثہ اور اسلامی تعلیمات ان کے لیے نہ صرف مناسب اور انصاف پسندانہ ہوں گی بلکہ ان کے ساتھ فیاضانہ سلوک بھی کیا جائے گا۔”
اسی طرح 22 اپریل 1944ء کو آل انڈیا مسلم لیگ دہلی کے اجلاس میں خطبۂ صدارت دیتے ہوئے فرمایا:
“اقلیتوں کی بدرجہ اتم حفاظت ہونی چاہیئے ۔ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرمسلموں کے ساتھ نہ صرف عادلانہ بلکہ فیاضانہ سلوک کرکے واضح ترین ثبوت پیش کیا ہے۔”
15نومبر 1942 کوآل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن جالندھرکے سالانہ اجلاس سے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
“ہماری مذہبی تعلیم ہمیں یہ حکم دیتی ہے کہ مسلمان حکومت میں ہر غیر مسلم اقلیت کے ساتھ عدل و انصاف کا برتاؤ کیا جائے۔”
قائداعظم نے یکم فروری1943ء کو اسماعیلی کالج بمبئی سے تقریر کرتے ہوئے کانگریس کے ہندو رہنماؤں سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ :
ہم تمہاری اقلیتوں کے ساتھ مہذب حکومتوں سے بھی زیادہ بہتر انداز میں سلوک کریں گے کیونکہ اقلیتوں کے ساتھ ایسا برتاو کرنے کا ہمیں قرآن کریم نے حکم دیا ہے۔”
24دسمبر 1943 کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں صدارتی تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
“ہندوستان اور پاکستان کا یہ مقدس فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقے کی اقلیتوں کے ساتھ عدل اور انصاف کا برتاؤ کریں اور ان کی حفاظت بھی کریں ۔‘‘
قیام پاکستان کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان نے جو پہلی کابینہ بنائی اس میں ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون بنا کر عزت سے سرفراز کیا۔ 1950ء میں شہید ملت لیاقت علی خان انڈیا گئے تو دونوں ممالک کے درمیان اقلیتوں کے تحفظ کے لیے لیاقت نہرو پیکٹ دستخط کر کے آئے۔ مسلم لیگ کے تیار کردہ 1956ء کے آئین میں اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ اور مذہبی احترام اور فلاح و بہبود کے لیے کئی دفعات رکھی گئیں اور اقلیتوں کو ایک مقدس امانت قرار دیا گیا۔ پاکستان کے موجودہ آئین 1973ء میں بھی اقلیتوں کو برابر کے شہری حقوق حاصل ہیں اور ان کے استحصال کو روکنے کے لیے ہر طرح کے امتیازات کا خاتمہ کیا گیا ہے۔
آئینِ پاکستان کی وہ دفعات جو اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں
قراردادِپاکستان جو پاکستان کے آئین کے لیے راہنما اصول متعین کرتی ہے، اس میں اعلان کیا گیا ہے کہ پاکستانی عوام ایک ایسا نظم قائم کرنا چاہتے ہیں ’’جس میں ایسے ماحول کو فروغ دیا جائے گا کہ جہاں اقلیتیں آزادی کے ساتھ اپنے مذاہب کا اظہار کرسکیں، اس پر عمل کرسکیں اور اپنی ثقافتوں کی نشوونما کرسکیں‘‘۔اور ’’جس میں اقلیتوں ، پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات کے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں گے‘‘۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 20، 21، 25، 26، 27، اور 36 بشمول اقلیتوں کےتمام شہریوں کو مکمل تحفظ اور مساوی حقوق فراہم کرتے ہیں، بغیر کسی رنگ، عقیدے، فرقے، زبان یا جنس کی تفریق کے ،تاکہ وہ آزادانہ طور پہ اپنے مذاہب وثقافتوں کی پیروی کرسکیں:[1]
دفعہ نمبر | 1973ء کے آئینِ پاکستان میں متعلقہ دفعات |
20 | مذہب کا اظہار کرنے اور مذہبی اداروں کے انتظامی اُمور کی دیکھ بھال کی آزادی
قانون، امن عامہ اور اخلاقیات کے تابع رہنے والے، (a)ہر شہری کو اپنے مذہب کا اظہارکرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کا حق حاصل ہوگا۔ اور (b)ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، برقرار رکھنے اور انہیں چلانے کا حق حاصل ہوگا۔ |
21 | کسی خاص مذہب کے لیے ٹیکس وصولی کے خلاف تحفظ
کسی شخص کو کوئی ایسا مخصوص ٹیکس ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا جس سے حاصل ہونے والی آمدنی اس کے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کی تبلیغ یا اس کی دیکھ بھال پر خرچ کی جائے۔ |
25 | شہریوں کے مابین مساوات
(1) تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں اور مساوی طور پہ قانونی تحفظ کے حقدار ہیں۔ |
26 | عوامی مقامات تک رسائی کے معاملہ میں غیر امتیازی سلوک
(1) عوامی تفریحی مقامات اور اجتماع کی جگہیں جو صرف مذہبی مقاصد کے لیے خاص نہیں ہیں،ان تک رسائی کے لیے کسی بھی شہری کے ساتھ نسل، مذہب، ذات، جنس، سکونت یا جائے پیدائش کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ |
27 | شہری خدمات میں امتیازی سلوک کے خلاف تحفظ
(1) کوئی بھی شہری جوپاکستان کے اندر ملازمت کی تقرری کا اہل ہو، اس کے ساتھ نسل، مذہب، ذات، جنس، سکونت یا جائے پیدائش کی بنیاد پر تقرری کے سلسلے میں امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا: تاہم، نفاذ کے دن سے لے کر زیادہ سے زیادہ چالیس سال کے عرصہ تک کے لیے سرکاری ملازمتوں میں مناسب نمائندگی کی غرض سے کسی مخصوص طبقے کے افراد کے لیے اسامیاں مختص کی جاسکتی ہیں۔ مزید یہ کہ، مذکورہ سروس کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے، مخصوص اسامیاں یا محکمے کسی ایک صنف کے افراد کے لیے مخصوص کیے جاسکتے ہیں،بشرطیکہ وہ اسامیاں اور محکمے ایسے فرائض خدمات کی انجام دہی پر مشتمل ہوں جو دوسری صنف کے افراد مناسب طریقے سے انجام نہ دے سکتے ہوں۔ [تاہم، پاکستان میں سروسز وخدمات کے مسئلہ میں کسی بھی طبقے یا علاقے کی کم نمائندگی کا ازالہ ان طریقوں سے کیا جاسکتا ہے جن کا تعین مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے ایکٹ سے کیا گیا ہو۔] |
36 | اقلیتوں کا تحفظ
ریاست اقلیتوں کے جائز حقوق اور مفادات کا تحفظ کرے گی، بشمول وفاقی اور صوبائی ملازمتوں وسروسز میں ان کی مناسب نمائندگی کے۔ |
51 | (4) شق نمبر3 میں مذکور نشستوں کی تعداد کے علاوہ، قومی اسمبلی میں بھی دس نشستیں غیر مسلموں کے لیے مخصوص ہوں گی۔ |
تاہم ہمارے آئین میں بعض دفعات کو اقلیتوں کے اِن بنیادی حقوق کےخلاف سمجھا جاتا ہے۔ یہاں اس کا ایک جائزہ پیش کیا جاتاہے۔
دفعہ نمبر | دفعات اور متعلقہ ذیلی شقیں |
31 | اسلامی طرز زندگی
(1) پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اس قابل بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے کہ وہ اپنی زندگیوں کو اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق ترتیب دیں اور ایسا ماحول فراہم فراہم کیا جائے جس کے توسط سے وہ قرآن وسنت کے مطابق زندگی کے مقصدکو سمجھنے کے قابل ہو سکیں۔ (2) پاکستان کے مسلمانوں کے لیے ریاست کی کوشش ہوگی کہ: (الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی بنایا جائے، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کی جائے اوراس کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں، اور قرآن پاک کی صحیح اور درست طباعت اور اشاعت کا بندوبست کیا جائے۔ |
41 | صدر
(2) کوئی شخص بطور صدر منتخب ہونے کا اہل نہیں ہو گا جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو، اور پینتالیس سال سے زیادہ عمر کا نہ ہو،اور قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل نہ ہو۔ |
91 | کابینہ
(3) سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے بعد، قومی اسمبلی دیگر کسی بھی کام سے پہلے، بغیر بحث کیے اپنے کسی مسلمان ممبر کو وزیر اعظم کے لیے منتخب کرنے کے لیے آگے بڑھے گی۔ |
227-231 | اسلامی دفعات |
اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کو جرم قرار دینے کے قوانین
آئینی دفعات کے علاوہ اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے کچھ مخصوص قوانین بھی وضع کیے گئے ہیں۔ یہاں پاکستان پینل کوڈ کے آرٹیکلز کا ایک مختصر جائزہ پیش کیاجاتاہے جو مذہبی منافرت کو فروغ دینے والے اقدامات کو جرم قرار دیتے اور سزا کا ذکر کرتے ہیں۔
پاکستان پینل کوڈ کی دفعات | متعلقہ دفعات |
153-A | مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی یا منافرت وغیرہ کو فروغ دینا
جو بھی شخص (a)بولے گئے یا لکھئے گئےالفاظ کے ذریعے، اشاروں کے ذریعے، یا کسی بھی اور طریقے سے مذہب، نسل، سکونت،یاکمیونٹی کی بنیاد پر مختلف مذہبی، نسلی، لسانی یا علاقائی گروہوں ، ذاتوں یا برادریوں کے درمیان بدامنی،دشمنی، نفرت یا بدخواہی کے جذبات پیداکرنے یا اُکسانے کی کوشش کرے، (b)خود ایسا اقدام کرے یا کسی دوسرے کو ایسی سرگرمیوں کے ارتکاب پر اُکسائے جن کے باعث مختلف مذہبی، لسانی،نسلی، علاقائی،طبقاتی یا کسی بھی نوع کی دیگر اکائیوں کے مابین آپسی سطح پہ بدامنی وعدم رواداری کا ماحول جنم لے اور امنِ عامہ متأثر ہو، (c)خود ایسا کرے یاکسی دوسرے فرد کو منظم کرکے اسے تربیت دے کہ وہ ایسی کوئی تحریک چلائے یا لوگوں کو اُکسائے جس سے وہ مجرمانہ سرگرمیوں کا حصہ بنیں،یا یہ امکان ہو کہ وہ بعد میں تشدد کا استعمال کرسکتے ہیں، یا ان اقدامات کے باعث مذہب، نسل، سکونت،یاکمیونٹی کی بنیاد پر مختلف مذہبی، نسلی، لسانی یا علاقائی گروہوں ، ذاتوں یا برادریوں کے درمیان بدامنی،دشمنی، نفرت یا بدخواہی کے جذبات پیداہوں، یا کسی گروہ کے لیے عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو، ایسے شخص کو بمع جرمانہ قید کی سزا سنائی جائے گی جس کی مدت پانچ سال تک ہوسکتی ہے۔ |
295 (جسے عام طور پر توہینِ مذہب کا قانون کہا جاتا ہے) | کسی بھی طبقے کے مذہب کی توہین کے ارادے سے عبادت گاہ کو نقصان پہنچانا یا اس کی بے حرمتی کرنا
جوبھی شخص کسی عبادت گاہ کو مسمارکرتا ہے، نقصان پہنچاتا ہے یا اس کی بے حرمتی کرتا ہے، یا یہ کہ کوئی بھی ایسی چیز جو کسی مذہب میں مقدس تصور کی جاتی ہو،اس کا علم ہوتے ہوئے جان بوجھ کر اس چیز کے خلاف ایسا اقدام کرتا ہے جو اُس مذہب وطبقے کے ماننے والوں کے ہاں توہین سمجھی جائے ، تو ایسا اقدام کرنے والے شخص کو دو سال مدت تک کی سزا سنائی جاسکتی ہے، یا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے، اور دونوں سزائیں ایک ساتھ بھی سنائی جاسکتی ہیں۔ |
295A- | کسی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرکے اس کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے قصداً اور بدنیتی پر مبنی اقدامات
جو بھی شخص پاکستانی شہریوں کے کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے دانستہ اور بدنیتی کے ساتھ، تحریر یا تقریر میں، یا کسی بھی قسم کےظاہری فعل کے ذریعے اس طبقے کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کا مرتکب ہو، اسے دس سال کی مدت تک قید کی سزا ہو سکتی ہے، یا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے، اوریا دونوں سزائیں لاگو کی جاسکتی ہیں۔ |
296 | مذہبی اجتماع میں خلل ڈالنا
جو بھی شخص ایسی مذہبی عبادات، یا مذہبی تقاریب کے اجتماعات میں خلل ڈالتا ہے جو قانونی طور پہ انجام دی جارہی ہوں، اسے ایک سال کی مدت تک سزا سنائی جاسکتی ہےہوسکتی ہے، یا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے، اوریا دونوں سزائیں لاگو کی جاسکتی ہیں۔ |
297 | تدفین وغیرہ کےمقامات میں مداخلت کرنا
جو بھی شخص کسی کے جذبات مجروح کرنے کی غرض سے، یا اس کے مذہب کی توہین کی نیت سے، یا اس علم کے ساتھ کہ کسی کے جذبات مجروح ہونے یا مذہبی توہین کا امکان ہے، وہ اس کی عبادت کی جگہ، مجسمہ سازی کے مقام، جنازے کی رسومات اداکرنے کی جگہ ، میت کی باقیات کو رکھنے کی جگہ کے لیے یا کسی انسانی لاش کے لیے بے حرمتی کا ارتکاب کرے، یا جنازے کی تقریب میں خلل ڈالے، ایسے شخص کو ایک سال تک کی قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے، یا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے، اوریا دونوں سزائیں لاگو کی جاسکتی ہیں۔ |
298 | دانستہ طور پر مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے کوئی الفاظ ادا کرنا
جو شخص جان بوجھ کر کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی نیت سے کوئی لفظ ادا کرے، یا اس کی سماعت میں کوئی ایسی آواز پہنچائے، یا ایسا اشارہ کرے، یا اس کے سامنے کوئی ایسی چیز رکھے جس سے اس کی مذہبی احساسات مجروح ہوں، ایسے شخص کو ایک سال تک کی قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے، یا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے، اوریا دونوں سزائیں لاگو کی جاسکتی ہیں۔ |
298-A | مقدس ہستیوں کے بارے میں توہین آمیز کلمات کا استعمال
جو بھی شخص بالواسطہ یا بلاسطہ تحریر یا تقریر کے ذریعے، یا کسی بھی قسم کےظاہری فعل کے ذریعے،بہتان لگاکے،طعن کرکے،یا تنقید کرکے امہات المؤمنینؓ یا خاندانِ اہلِ بیتؓ کے مقدس ناموں کی توہین کرتا ہے،یاخلفاء راشدینؓ وصحابہؓ میں سے کسی کی اہانت کا مرتکب ہوتا ہے،اسے تین سال تک کی قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے، یا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے، اوریا دونوں سزائیں لاگو کی جاسکتی ہیں۔[2] |
[1] Protecting Faith-Based Rights in Pakistan: An Overview of Legislative Framework, A Report by Pak Institute for Peace Studies.
[2] Protecting Faith-Based Rights in Pakistan: An Overview of Legislative Framework, A Report by Pak Institute for Peace Studies.