غیرمسلم شعراء کے ہاں نعت گوئی کی روایت

بلال احمد ڈار

0

نعت عربی زبان کا لفط ہے جس کے معنی تعریف و توصیف،ثنا اور خوبی کے ہیں لیکن عرفِ عام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف، مدحت ،شمائل و خصائص کے نظمی انداز کو نعت کہتے ہیں۔ نعت کا لفظ عام معنوں سے نکل کر پیغمبر اسلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ستائش اور ثنا کے لیے مخصوص ہوگیا ہے۔ہر وہ شعر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں لکھا جائے نعت کے زمرے میں آتا ہے۔صحیح معنوں میں جب ہم نعت کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے محاسن کا ذکرمراد لیا جاتا ہے بلکہ اس میں انؐ کی ذات سے قلبی تعلق بھی نظر آنا چائیے۔ نعت ایک مشکل فن ہے۔ اس میں شاعر کو بہت زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس میں ایسے الفاظ کا استعمال ہونا چاہیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایانِ شان ہو۔جو مقام اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا ہے اس میں ذرہ برابر بھی کمی بیشی انسان کو گمراہ کرسکتی ہے۔نعت لکھنے کا آغاز حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا اور اس زمانے کے بڑے نعت گو شاعرگزرے ہیں جن میں حسان بن ثابت، اسود بن سریع،عباس بن عبدالمطلب، کعب بن زبیر، عبداللہ بن رواحہ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہ حضرات مسجد نبوی میں بیٹھ کرحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اشعار سنایا کرتے تھے اور حضورؐسماعت فرماکر اچھے اشعار پر اظہار پسندیدگی بھی فرماتے تھے۔

نعت گوئی عربی زبان سے فارسی، پھر فارسی سے اردو میں منتقل ہوئی اور اردوزبان کی دیگر اصنافِ سخن کی طرح کثیر تعداد میں شعرا نے نعتیں لکھیں۔ اردو میں نعتیہ شاعری کی روایت اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ اردو شاعری کی تاریخ۔ اردو کی تمام قدیم اصناف کی ابتدا دکن سے ہوئی۔ اردو ادب میں دکنی عہد کی مثنویوں ’’معراج العاشقین‘‘ اور’’ کدم راؤ پدم راؤ‘‘میں نعت کے نمونے مل جاتے ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان ہی مثنویوں سے نعت گوئی کا آغاز ہوا۔ ان مثنویوں میں بہت سے حمدیہ اور نعتیہ اشعار ملتے ہیں اوراگر ان اشعار کو الگ کردیا جائے تو نعتوں کا ایک ذخیرہ جمع ہوجائے گا۔ دکن کے تقریباََ ہر شاعر کی شاعری میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں کوئی نہ کوئی شعر ضرور مل جاتا ہے۔ جب دکن سے اردو شاعری کی موجیں شمالی ہند کی جانب بڑھیں تو دیگر اصناف سخن کے ساتھ نعت و منقبت کے دھارے بھی گلستانِ ادب میں موجیں مارنے لگے، ولی دکنی سے لے کر امیرمینائی تک اردو شعرا کی ایک ٹولی نعت گوئی میں مگن نظر آتی ہے۔بیسویں صدی کے نصف اول اور بعد کے حصے میں یوں تو بہت سے شعرا نے نعت خوانی کی لیکن نعت کے افق پر جو نام چھائے ہوئے ملتے ہیں ان میں حسرت موہانی، اخترشیرانی، حالی، اقبال، امیرمینائی، ظفرعلی خان، محسن کاکوروی، ماہرالقادری، صبااکبرآبادی، مظفروارثی وغیرہ شامل ہیں۔ نعت گوئی ایک نازک ترین فن ہے اس کے باوجود اردوزبان میں نعت کا دامن بہت وسیع ہے۔نعت گوئی میں صرف مسلم شعرا ہی نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اتنی دلکش، پرکشش اور پُر اثرہے کہ غیر مسلم شعرا بھی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکے اور انھوں نے اپنی شعری اصناف میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں اپنے عقیدے کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ یوں تو اردو شاعری میں ایسے غیر مسلم شعرا کی لمبی قطار نظر آتی ہیں جنھوں نے ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں شاعری تخلیق کی ہیں لیکن یہاں کچھ شعرا کا تذکرہ کیا جائے گا جن کی شاعری میں ایسے اشعارملتے ہیں جن میں ذات مصطفی اور صفات  رسول ﷺ کی عکاسی ملتی ہیں۔ ان غیرمسلم نعت گو شعراء میں مہاراجہ کشن پرساد شاد، سرورجہاں آبادی، جگن ناتھ آزاد، فراق گورکھپوری، منشی شنکرلال ساقی، ہری چند اختر، کنورمہندرسنگھ بیدی،عرش ملسیانی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ذیل میں ان شعرا کا مختصر تعارف پیش کیا جائے گا اور ان کے نعتیہ اشعار کے نمونے بھی پیش کیے جائیں گے۔

منشی شنکرلال ساقی 1820ء میں سکندرآباد میںپیدا ہوئے۔ آپ غالبؔ اور مومنؔ کے ہمعصر تھے۔ بہادرشاہ ظفر کے شاعروں میں شرکت کا فخر بھی حاصل تھا۔ فارسی اوراردو دونوں زبانوں میں آپ نے شعر کہے ہیں اور شعروشاعری میںغالب اور مرزاہرگوپال تفتہ سے کسب ِ فیض کیا تھا۔ منشی شنکرلال ساقی کے دل میں سرور دوعالم ﷺ کی عظمت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شان میں نعتیں لکھنے سے اپنے آپ کو روک نہ سکے۔ملاحظہ کیجئے:

تھی شب معراج میں سارے فلک پر چاندنی

نورِ محبوب خدا سے تھی منوّر چاندنی

عرش و کرسی پر کہاں تھا ماہ کا نام و نشاں

روئے احمد چاند تھا، اس سے تھی یکسر چاندنی

کھل گئی جاتے ہوئے جب کا کل ِعنبر فشاں

ہوگئی فیضانِ نکہت سے معطّر چاندنی

کیا کہوں صلِ علیٰ، صلِ علیٰ، صلِ علیٰ

رہ گئی تھی دیکھ کر حیران و ششدر چاندنی

ساقیا جس جا کہیں جاتے ہوئے ٹھہرا براق

بن گئے قندیل تارے،فرش چادر چاندنی

یہ اشعار دیکھ لیجئے:

جیتے جی روضۂ اقدس کو نہ آنکھوں نے دیکھا

روح جنت میں بھی ہوگی تو ترستی ہوگی

نعت لکھتا ہوں مگرشرم مجھے آتی ہے

کیا مری ان کے مدح خوانوں میں ہستی ہوگی

            مہاراجہ کشن پرساد شادؔ1864ء میں حیدرآباد آندھراپردیش میںپیدا ہوئے۔ اردو نعت گوئی میںآپ کا بہت ہی بلند مقام حاصل ہے اور آپ نے کثیر تعداد میں نعتِ رسولؐ کہیںہیں۔ آپ کے اشعار حُبِ رسول سے بھرے ہوئے ہیں۔ آپ کو عربی،فارسی، انگریزی اور اردو زبانوں میں مہارت حاصل تھی۔ شعروشاعری سے دلی لگاؤ تھا۔ مذہب اور تصوف سے آپ کو خاص دلچسپی تھی۔ آپ کی شاعرانہ زبان صاف، شستہ اور رواں دواں ہے۔ آپ کی شاعری کے کئی مجموعے منظرعام پر آچکے ہیں۔ آپ کے نعتیہ کلام کا مجموعہ ’’ہدیۂ شاد‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ شاد ؔکو پیغمبر اسلام سے بے حد عقیدت تھی اور انہوں نے اپنی شاعری میں حضورﷺ کے اوصاف ِحسنہ کا دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔ اشعار ملاحظہ کیجئے:

کانِ عرب سے لعل نکل سرتاج بنا سرداروں کا

نام محمد اپنا رکھا سلطان بنا سرکاروں کا

باندھ کے سر پر سبز عمامہ کاندھے رکھ کر کالی کملی

ساری خدائی اپنی کرلی مختار بنا مختاروں کا

روپ ہے تیرا رتی رتی نور ہے تیرا پتی پتی

مہرو مہ کو تجھ سے رونق بنا سیّا روں کا

کافر ہوں کہ مومن ہوں خدا جانے کہ کیا ہوں

پر بندہ ہوں ان کا جو ہے سلطانِ مدینہ

عاشق ہوں مجھے جنت فردوس سے کیا کام

ہے سر میں ازل سے مرے سودائے مدینہ

            درگاسہائے سرور جہاں آبادی 1873ء میں جہاں آباد ضلع پیلی بھیت میں پیدا ہوئے۔ پہلے وحشتؔ کے نام سے لکھتے تھے پھر اپنا تخلص سرورؔ رکھا۔ سرورؔ کومذہب سے گہرا لگاؤ تھا۔ ہندومسلم اتحاد کے قائل تھے اور یہی وجہ ہے کہ اپنی شاعری میں حضورﷺ کی شان میں اپنے عقیدے کا اظہار کیا ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری میں داخلیت اور خارجیت دونوں کی کامیاب کارفرمائی نظر آتی ہے۔ سرورؔ اسلامی تعلیمات سے بخوبی واقف تھے۔ پیغمبر اسلام سے آپ کی عقیدت ان اشعار سے خوب عیاں ہوتی ہے۔

دلِ بے تاب کو سینے سے لگالے آجا

کہ سنبھلتا نہیں کم بخت سنبھالے آجا

پاؤ ں ہیں طولِ شب غم نے نکالے آجا

خواب میں زلف کو مکھڑے سے لگالے آجا

بے نقاب آج تو اے گیسو ؤں والے آجا

نہیں خورشید کو ملتا تیرے سائے کا پتہ

کہ بنا نور ازل سے ہے سراپا تیرا

اللہ اللہ ترے چاند سے مکھڑے کی ضیا

کون ہے ماہ عرب،کون ہے محبوبِ خدا

اے دو عالم کے حسینوں سے نرالے آجا

فراق گوکھپوری کا اصل نام رگھوپتی سہائے اور فراق ؔتخلص تھا۔ 1896ء میں گورکھپورمیں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد منشی گورکھ پرشاد بھی شاعر تھے اور عبرتؔ تخلص رکھتے تھے۔ فراق ؔکی تربیت میں ان کے والد کا بڑاہاتھ رہا اور یہی وجہ ہے کہ فراقؔ نے ہر درجہ میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ ابتدا میں فراقؔ امیرمینائیؔ،عزیز ؔاور صفیؔؔسے متاثر تھے لیکن بہت جلد ہی اپنی الگ راہ نکالنے میں کامیابی حاصل کی۔ اردو رباعی گوئی میں اہم مقام حاصل کیا۔ آپ نے نعتیہ اشعار بھی لکھے ہیں ۔ اگرچہ آپ کا نعتیہ سرمایہ بہت کم ہے لیکن جتنا بھی ہے وہ تازگیٔ فکر اور ندرت ِ بیان کی وجہ سے کافی اہم ہے۔ اپنی رباعیوں میں سروردوعالمﷺ کی خوبیوں کا تذکر ہ کیا ہے۔  یہ اشعار ملاحظہ کیجئے:

انوار ہیں بے شمار معدود نہیں

رحمت کی شاہراہ مسدود نہیں

معلوم ہے کچھ تم کو محمد کا مقام

وہ امت اسلام میں محدود نہیں

ہری چند اختر1901ء میں ہوشیارپور پنجاب میں پیدا ہوئے۔ پندرہ سال کی عمر سے ہی شاعری کا شوق ہوا اور حفیظ جالندھری سے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے صحافی بھی تھے۔ بنیادی طور پر روایتی انداز میں شاعری کرتے تھے اور آپ کی غزلوں میں سادگی کا پہلو نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ کفرو ایمان‘ کے عنوان سے غزلوں کا ایک مجموعہ آپ کی زندگی کے دوران ہی شائع کیا گیا تھا۔ آپ کی دو نعتیں ’’ ایک عرب‘‘ اور ’’سبز گنبد‘‘ پیغمبر اسلام سے گہری عقیدت کو ظاہر کرتی ہیں۔ چند اشعار بطور نمونہ پیش خدمت ہیں:

کس نے ذرّوں کو اٹھایا اور صحرا کردیا

کس نے قطروں کو ملایا اور دریا کردیا

زندہ ہوجاتے ہیں جو مردہ اس کے نام پر

اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کردیا

شوکتِ مغرور کا کس شخص نے توڑا طلسم

منہدم کس نے الٰہی قصر کسریٰ کردیا

کس کی حکمت نے یتیموں کو کیا دُرّ یتیم

اور غلاموں کو زمانے بھر کا مولیٰ کردیا

سبز گنبد کے اشارے کھینچ لائے ہیں ہمیں

لیجئے دربار میں حاضر ہیں اے سرکار ہم

یا الٰہی کس طرف کو ہے مرا عزمِ سفر

خضر کہتے ہیں کہ ساتھ آئیں ذرا سرکار ہم

نام پاک احمد مر سل سے ہم کو پیار ہے

اس لیے لکھتے ہیں اخترؔ نعت میں اشعار ہم

عرش ملسیانی کا اصل نام بالمکند تھا اور عرشؔ تخلص لیکن ادبی دنیا میں عرش ملسیانی کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کی پیدائش 1908ء کو قصبہ ملسیان ضلع جالندھر میں ہوئی تھی۔ آپ کی نعتیہ شاعری کافی مقبولیت حاصل کرچکی ہیں اور آپ کے نعتیہ کلام کا مجموعہ ’’آہنگ حجاز‘‘ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے جس میں دس نعتیہ غزلیں شامل ہیں جو آپ کے خلوص کی ترجمانی کرتی ہے۔ عرش ملسیانی نے اکثر نعتیں چھوٹی مترنم بحروں میں لکھی ہیں جن میں کیف وسرور، روانی، دلکشی اور الفاظ کا انتخاب قابل ذکر ہے۔ آپ کی زبان میں صداقت، مٹھاس ، سلاست اور وصفی اظہار کے ساتھ داخلی کیفیت کا دلکش امتزاج ہے۔ عرش ملسیانی نے اپنی شاعری میں حضور اقدسﷺ کی ذات ِ اقدس سے عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے۔ بطور نمونہ یہ اشعار ملاحظہ کیجئے:

ہے جبریل در کا غلام اللہ اللہ

نبوت کا یہ اہتمام اللہ اللہ

یہ شان ِ فصاحت ،یہ آیاتِ مصحف

کلیم اللہ اللہ،کلام اللہ اللہ

ہوئے نذر شانِ جہاں رسالت

یہ بخت ِ درود و سلام اللہ اللہ

اب مصطفی پر یہ اسرار وحدت

یہ بادہ، یہ مینا، یہ جام اللہ اللہ

یہ ملت کی شیرازہ بندی کا آئیں

یہ تنظیمِ دیں کا نظام اللہ اللہ

معطر فضا ، مست ساری خدائی

صبا مشک افشاں مدینہ سے آئی

غنیمت ہے قربِ نبی کی یہ صورت

وگرنہ کہاں ہم میں تابِ جدائی

یہ امُی پیمبر کا جوش فصاحت

بشر کی یہ شان حقیقت نمائی

چل اے عرشؔ ہو تو مدینہ کا عازم

نہیں راس دنیا کی ہنگامہ آرائی

            کنور مہندرسنگھ بیدی سحرؔ1909ء میں پیدا ہوئے۔ آپ اردو ادب میں ایک کثیر الجہات شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ آپ کی شاعری میں جدت اور ندرت پائی جاتی ہے اور خاص طور پر آپ کے نعتیہ کلام میں جدت اور فکر آمیز عناصر کی کارفرمائی ملتی ہے۔  اردو نعت گوئی میں آپ کوایک اعلی ٰ مقام حاصل ہے۔ اپنی شاعری میں رسول اکرم ؐ کی شان میں بہت عمدہ خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔  نمونے کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ کیجئے:

تکمیل ِ معرفت ہے محمد رسول کی

ہے بندگی خدا کی اطاعت رسول کی

تسکینِ دل ہے سرور کون و مکاں کی یاد

سرمایۂ حیات ہے الفت رسول کی

انسانیت، محبت باہم،شعورو فکر

جو چیز بھی ہے سب ہے عنایت رسول کی

ہے مرتبہ حضور کا بالائے فہم و عقل

معلوم ہے خدا ہی کو عزت رسول کی

فرمانِ رب پاک ہے فرمانِ مصطفی

احکامِ ایزدی ہیں ہدایت رسول کی

اتنی سی آرزو ہے بس اے ربّ دو جہاں

دل میں رہے سحرؔ کے محبت رسول کی

ہم کسی دین سے ہوں صاحب کردار تو ہیں

جیسے بھی ہیں ثنا خوانِ شہہِ ابرار تو ہیں

عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں ہے

صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں ہے

جگن ناتھ آزادؔ1918ء کو عیسیٰ خیل ضلع میانوالی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام تلوک چند محروم تھا۔ جگن ناتھ آزاد کو شاعری سے دلی لگاؤ تھا۔ بچپن سے ہی شاعری کی طرف میلان تھا۔ اردو کے بڑے شاعروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ غزل ،رباعی اورنظم نگاری میں اپنی طبیعت کے جوہر دکھائے۔ اقبال اور جوش کی شاعری سے کافی متاثر تھے اور ان کی شاعری سے کافی فیض اُٹھایا ہے لیکن اردوشاعری میں اپنی شخصی انفرادیت کو برقرار رکھا۔ آزاد نے بارگاہِ رسالت میں گلہائے عقیدت نعتیہ شاعری کی شکل میں پیش کیے۔ جگن ناتھ آزاد نے حضورﷺ کی شانِ اقدس پر بہت کچھ لکھا ہے خاص طور پر ان کی نعتیہ کاوشات میں ان کا سلام جس کا عنوان’’ فخردوراں‘‘ہے کافی مشہور ہے ۔ یہ جگن ناتھ آزادؔ کا ایک لازوال نمونہ ہے۔

سلام اس ذات اقدس پر،سلام اس فخردوراں پر

ہزاروں جس کے احسانات ہیں دنیائے امکاں پر

سلام اُس پر جو حامی بن کے آیا غم نصیبوں کا

رہا جو بیکسوں کا آسرا، مشفق غریبوں کا

مددگارومعاون بے بسوں کا زیردستوں کا

ضعیفوں کا سہارا اور محسن حق پرستوں کا سلام اُس پر جو آیا رحمتہ للعالمین بن کر

پیام دوست لے کر صادق الوعد دامین بن کر سلام اس پر کہ جس کے نور سے پُرنور ہے دنیا

سلام اس پر کہ جس کے نطق سے مسحور ہے دنیا

سلام اُس پر جلائی شمعِ عرفاں جس نے سینوں میں

کیا حق کے لیے بے تاب سجدوں کو جبینوں میں

سلام اُس پر بنایا جس نے دیوانوں کو فرزانہ

مئے حکمت کا چھلکایا جہاں میں جس نے پیمانہ

بڑے چھوٹے میں جس نے ایک اُخوت کی بناڈالی

زمانے سے تمیز بندہ و آقا مٹا ڈالی

حضور صلی اللہ علیہ وصلم کی ذاتِ مبارک اتنی بلند و بالا ہے کہ بڑے بڑے مسلم اور غیر مسلم مفکر،فلسفی،دانشور اور شاعر تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکے اور آپؐ کی شان میں بے شمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضورؐ سے کہا تھا کہ’’ اے نبیؐ ہم نے تمہارے لیے تمہارے ذکر کو بلند کیا‘‘اور یہ حقیقت ہے کہ حضور ؐ کا ذکر اتنا بلند ہوا کہ عرب کی سرزمین سے لے کر ساری دنیا میں اسی ذکر کے چرچے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وصلم کو دنیا کی تمام غیر مسلم اقوام میں بھی اپنی سچائی،امانت داری،پاک دامنی اور راست گوئی کی وجہ سے سب سے اعلیٰ، برتر اور افضل تسلیم کیا جاتا ہے۔دنیا کی ہر زبان میں پیغمبر اسلام کی تعریف و توصیف میں نعت لکھے گئے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔مختصراََ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وصلم کی پاک سیرت سے متاثر ہوکر مسلم اور غیرمسلم شعرا نے بلا تفریق مذہب و ملت بارگاہ رسالت حضورﷺ کی شان میں نعتیں لکھ کر اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔