اقوام متحدہ کا 78واں اجلاس: دنیا پر بحران اور مایوسی کے بادل

0

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 78واں اجلاس جاری میں جس میں 145 ممالک کے سربراہان  شرکت کے لیے نیویارک میں موجود ہیں۔ پیر سے شروع ہونے والا یہ اجلاس ایک ہفتے تک جاری رہے گا جس میں دنیا کو درپیش کئی اہم مسائل پر بات چیت کی جارہی ہے۔اس میں سرفہرست روس یوکرین تنازعہ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کو سمجھا جا رہا ہے۔اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستانی وزیراعظم بھی نیویارک پہنچ چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کےحالیہ اجلاس میں کورونا وبا کے بعدپہلی مرتبہ اتنی بڑی تعداد میں شرکاء جمع ہو رہے ہیں۔لیکن یہ ایسا وقت بھی ہے جس میں دنیا پر معاشی بدحالی، بدامنی اور سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے ایک شدید بحران کے بادل چھائے ہوئے ہیں، اور عالمی برادری کو ان مسائل سے نمٹنے اور بامعنی اقدامات کو یقینی بنانے کے لیے چیلنج کا سامنا ہے۔

یوکرین جنگ کے بعد پہلی بار یوکرینی صدر زیلنسکی اقوام متحدہ کے کسی اجلاس میں شرکت کے لیے خود موجود ہیں۔ لیکن اس اجلاس میں اقوام متحدہ کے پانچ مستقل رکن ممالک میں سے چار ممالک کے سربراہان شریک نہیں ہیں۔چینی صدر شی جن پنگ ،فرانسیسی صدر میکرون، روسی صدر ولادیمیر پوتن اوربرطانوی وزیراعظم رشی سوناک موجود نہیں ہیں۔

البتہ اجلاس میں امریکی  صدر جوبائڈن نے شرکت کی ہے۔ مگر یہ کہا جارہا ہے کہ صدر کی نیویارک آمد کے ایجنڈے میں آنے والے امریکی انتخابات کا مسئلہ شامل ہے اوروہ اپنی جماعت کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔

اِس وقت دنیا میں کئی ایسے بحران ہیں جو عالمی برادری اور رہنماؤں کی توجہ کے متقاضی ہیں۔روس یرکرین جنگ بلاشبہ ان میں ایک نمایاں مسئلہ ہے کہ جس پر ایک خطیر رقم خرچ ہورہی ہے،اور اس کے سبب غذائی قلت کے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔دنیا ابھی تک کورونا کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکی ہے،اس کی وجہ سے معیشت اب تک غیریقینی صورتحال کا شکار ہے اورکئی ملین افراد فقر اور بغ روزگاری کا شکار ہیں۔کورونا کے بعد مختلف ممالک میں سیلاب اور زلزلوں نے بھی مشکلات پیدا کی ہیں۔افریقی صحرائی پٹی میں عسکری انقلابات، سوڈان کی خانہ جنگی اور لیبیا کی بدامنی سمیت کئی ایسے مسائل ہیں جو عالمی برادری کی فوری توجہ کے طالب ہیں۔

خانہ جنگیوں،سیلاب، زلزلوں، معاشی  بدحالی اور تنازعات نے مشرق وسطی،ایشیا اور افریقا کے کئی پسماندہ ممالک کی صورتحال کو انتہائی مخدوش بنا دیا ہے۔غریب ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے میں بری طرح  ناکام ہیں۔ یہ ملک امید لگائے بیٹھے ہیں کہ عالمی برادری ان کے مسائل کی طرف توجہ کرے گی۔مگریہ مسائل وقت کے ساتھ پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔حالیہ اجلاس میں اقوام متحدہ کے پانچ مستقل رکن ممالک  میں سے چار ممالک کے سربراہان کی عدم شرکت،صدرجوبائڈن  کا اس موقع پر انتخابی مہم کے لیے ملاقاتیں کرنااور پسماندہ ممالک کے لیے عملی اقدامات کے لیے کچھ نہ ہوسکنا، واضح کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کی معنویت عملا کم رہی ہے اور اس کے پاس نفاذ و دباؤ کی جو طاقت تھی وہ غیرمؤثر ہوئی ہے۔مختلف ممالک کی علاقائی اور اقتصادی  تنظیمیں  بہ ظاہر زیادہ فعال و اور مؤثر نظر آتی ہیں ۔ اقوام متحدہ نے 2015 میں پسماندہ ممالک میں بہتری لانے کے لیے SDGs، یعنی ’پائیدار ترقی کے اہداف‘ (Sustainable Development Goals)مقرر کیے تھے جنہیں 2030ء تک پایہ تکمیل تک پہنچایا جانا تھا۔ان اہداف  میں شدید غربت اور بھوک کا خاتمہ، پینے کے صاف پانی تک رسائی یقینی بنانا، ماحول دوست توانائی کا فروغ اور دنیا بھر میں ہر فرد کو معیاری تعلیم اور زندگی کے ہر حصے میں سیکھنے کی مساوی سہولیات کی فراہمی شامل تھی۔ تاہم اقوام متحدہ  کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے حالیہ اجلاس میں خبردار کیا ہے کہ اس وقت صرف 15 فیصد اہداف پر پیش رفت ہی درست سمت میں گامزن ہے جبکہ بہت سے اہداف کی صورتحال 2015 سے بھی بدتر ہے۔