کتاب ’تہذیب کی کہانی‘ کیوں پڑھنا ضروری ہے؟
تہذیب کی کہانی (The Story of Civilization) مشہور مؤرخ اور فلسفی وِل ڈیورانٹ کی کتاب ہے جو انہوں نے اپنی بیوی ایرئل کے ساتھ مل کر لکھی۔ یہ کتاب گیارہ جلدوں پر مشتمل ہے اور اسے تہذیبی تاریخ کے حوالے سے سب سے بڑا انسائکلوپیڈیا سمجھا جاتا ہے۔یہ کتاب بیسویں صدی کی اہم ترین کتب میں شمار کی جاتی ہے جسے عام لوگوں میں خوب پذیرائی حاصل ہوئی، کیونکہ اس کا اسلوب عام فہم اور سلیس ہے۔
چار عشروں میں مکمل ہونے والی اس کتاب کی اہمیت اور فن تاریخ نگاری میں اس کی حیثیت بارے بہت کچھ کہا جاتا رہا،تاہم یہ ہمیشہ جامعات کی لائبریریوں اور گھروں کی بیٹھکوں میں یکساں مقبول رہی۔یہ ایک طرح سے ادبی شہ پارہ ہے جو تہذیب کی کہانی بیان کرتا ہے اور تاریخ نگاری کے روایتی فنی اصولوں سے اتفاق نہیں کرتا۔اس میں نسل انسانی کے تقریبا تمام نمایاں وقائع اور اور موڑ زیربحث لائے گئےہیں ۔مختلف خطوں کےثقافتی اور سیاسی خصائص کو ایک دوسرے میں گوندھ کر دلچسپ انداز بیان کیا گیا ہےاور سب سے اہم یہ کہ مذاہب کی تاریخ اور اس سے جڑے امور کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔یہ کتاب ہر عمر اور ہر شعبے کے افراد کے لیے دلچسپی کا باعث رہی ہے۔
وِل ڈیورانٹ کی سب سے نمایاں خوبی یہ ہے اس نے تاریخ کے شعبے میں اپنے عہد کے روایتی اسلوب سے انحراف کیا جو یورپی تناظر کی مرکزیت پسندی کا حامل تھا۔وِل ڈیورانٹ نے مشرقی ورثے، افریقی خطے اور لاطینی امریکا کی تاریخ کو بہت زیادہ اہمیت دی۔
جو معاشرے تاریخ اورسیاست، سماج اور مذہب کے تاریخی دھاروں سے واقف نہیں ہوتے وہ بہ آسانی جھوٹ اور پراپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سطحی پن غالب آجاتا ہے اور کسی بھی بیانیے کا منجن بیچ کر لوگوں کو لایعنی سمت میں دوڑایا جاسکتا ہے۔یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہو بھی رہا ہے۔پھر سب سے اہم یہ جاننا بھی ہوتا ہے کہ فن تاریخ اپنے جوہر میں دراصل کن خصائص کا حامل ہوتا ہے۔ہمارے ہاں تاریخ پراردو قارئین کے لیے جو مواد شائع ہوتا رہا ہے وہ محض اسطوری، جذباتی پن اورغیر واقعیت پسندی کا مرقع تھا۔کتاب ’تہذیب کی کہانی‘ ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے۔
پاکستان جیسے معاشرے میں کہ جہاں عام طور پہ academic اور پیچیدہ تحقیقی اسلوب نگارش سے فرار اختیار کی جاتی ہے ، تاریخ سے متعلق ول ڈیورانٹ کی کتاب سے بہتر کچھ اور نہیں ہوسکتا۔پاکستان کی طرح کے دیگر ممالک کے تناظر میں دیکھا جائے یہاں یہ کتاب بہت دیر سے ترجمہ ہورہی ہے۔لیکن یہاں کے قارئین کے لیے یہ چیز بہرحال خوش آئند ہے کہ اسے یاسر جواد جیسا شخص اُردو کے قالب میں ڈھال رہا ہے جس کی فن ترجمہ پر گرفت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔وہ صرف ٹھیٹھ مترجم نہیں، بلکہ سماجیات کا نباض بھی ہے اور الفاظ کی حساسیت اور معنویت سے خوب آگاہ ہے۔ انہوں نے گیارہ سو صفحات پر مشتمل پہلی جلد بہت قلیل عرصے میں ترجمہ کردی ہے،جواس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں اس پراجیکٹ سے کتنا لگاؤ ہے اور یہ تندہی اُردو کے قارئین کے لیے بھی نعمت ہے کہ انہیں اس کتاب کے تمام اجزاء کا مکمل ترجمہ جلد مل جائے گا۔
کتاب کی پہلی جلد کا عنوان ہے ’ہمارا مشرقی ورثہ‘۔ اس میں پہلے تہذیب کے قیام کے سماجی، سیاسی، اخلاقی اور ذہنی عناصر پر گفتگو کی ہے۔اس کے بعد مصری، بابلی، اشوری اور زرتشتی تہذیبوں پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔پھر ہندوستان اوربعدازاں چین کی کے تاریخی تہذیبی ورثے کے مختلف پہلوؤں پر کلام ہے۔آخر میں جاپانی قدیم و معاصر تہذیب کا تذکر ہ ملتا ہے۔
یہ کتاب مترجم یاسر جواد نے خوداپنے اہتمام سے شائع کی ہے۔کتاب کی پہلی جلد منگوانے کے لیے ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے:
وٹس ایپ:0300-8045736
ای میل:[email protected]