’کالجز کا ظہور: اسلام اور مغرب میں تعلیم کے ادارے‘(The Rise of Colleges: Institutions of Learning in Islam and the West) جارج مقدسی کی کتاب ہے ۔اس میں انہوں نے بنیادی طور پہ اسلامی مغربی تاریخ میں ایک خاص تاریخی مرحلے کے دوران قائم ہونے والے تعلیمی اداروں کا جائزہ پیش کیا ہے۔ جارج مقدسی کے آباء و اجداد کا تعلق لبنان سے تھا،ان کے والدین پہلی جنگ عظیم سے کچھ عرصہ پہلے امریکا ہجرت کر گئے تھے۔ وہ خود امریکا میں پیدا ہوئے،وہیں پڑھے اور پڑھاتے رہے۔ماہر تعلیم تھے اور انہیں عربی و اسلامی علوم میں بہت زیادہ دلچسپی تھی۔ان کی یہ کتاب تعلیم کی تاریخ کے موضوع پر اہل علم اور محققین میں بہت مقبول و اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔زیرنظر مضمون ان کی اسی کتاب کا تعارف ہے۔
یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔
اس کتاب میں جارج مقدسی نے چوتھی صدی ہجری (گیارھویں صدی عیسوی)کے دوران بغداد میں قائم ہونے والے مدارس اور تعلیمی اداروں کا جائزہ لیا ہے ۔یہ وہ زمانہ کہ جب مدارس کی روایتی شکل میں ارتقاء واقع ہوگیا تھا اور تعلیمی ادارے وسعت اختیار کررہے تھے۔یہ کتاب چارابواب پر مشتمل ہے۔پہلے باب میں فقہی مسالک کی اٹھان اور ان کے مدارس کا جائزہ لیا گیا ہے۔دوسرے باب میں تعلیم کے مختلف شعبوں اور اور اُس وقت کے نظامِ تعلیم اور مناہج پر گفتگو کی گئی ہے۔تیسرے باب میں جارج مقدسی نے مدرسین، طلبہ، تدریس کے طریقوں اور تدریسی مناصب کو موضوع بنایا ہے، جبکہ آخری باب میں اسلامی تہذیب اور مسیحی تہذیب میں تعلیمی اداروں کے فرق اور مسلم تعلیمی رجحانات کے مسیحی دنیا پر اثرات پر بات کی گئی ہے۔
جارج مقدسی نے چوتھی صدی ہجری کے جن تعلیمی اداروں کا ذکر کیا ہے وہ بنیادی طور پہ اسلامی علوم کے مدارس ہیں جن میں فقہ سمیت دیگر علوم پڑھائے جاتے تھے۔ یہ وہ مرحلہ ہے کہ جب مسلمانوں کے ہاں تعلیمی ادارے ایک منظم شکل اختیار کر گئے تھے۔ ان کے مخصوص نام ہوتے تھے،پڑھانے والوں کا اختصاص بھی ہوتا تھا کہ کوئی فقیہ ہے، تو کوئی محدث یا مفسر یا پھر گرامر کا ماہر ہوتا تھا۔اس میں اگرچہ زیادہ تر بغداد کے مدارس کو محور بنایا گیا ہے، لیکن ضمنی طور پہ مکہ مدینہ اور دیگر علاقوں کے تعلیمی اداروں کا بھی کیا گیا ہے اور ان سے متعلق کچھ تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔مصنف کے مطابق باقاعدہ ادارے کی شکل میں مدرسے کی بنیاد رکھنے والے اہلِ نیشاپور ہیں، جنہوں نے مدرسہ بیہقیہ کی بنیاد ڈالی۔علامہ مقریزی نے اُس وقت مصر میں قائم 70 سے زائد مدارس کا تعارف کرایاہے۔ چند دیگر مدارس بھی ہیں جن میں سلطان محمود غزنوی اور ان کے بیٹے سلطان مسعود کے قائم کردہ مدارس، اورمدرسہ نظامیہ، بغداد، دولتِ سلجوقیہ کے علم دوست وزیر نظام الدین طوسی کا قائم کردہ مدرسہ شامل ہیں،جو چوتھی صدی ہجری کے بعد منظم تعلیمی اداروں کی شکل میں وجود میں آئے تھے۔ ان ادوار کے فضلامیں مشہور نام امام محمد بن محمد غزالی رحمہ اللہ، ابو علی حسین بن عبد اللہ ابن سینا رحمہ اللہ، ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی، امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی، اور یوسف بن عبد اللہ المعروف ابنِ عبد البر اندلسی رحمہ اللہ ہیں۔
مصنف نے اسلامی تہذیب کے مدارس و تعلیمی اداروں کے لیے Colleges کی اصطلاح استعمال کی ہے، جامعہ یا university کا لفظ استعمال نہییں کیا۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ اُس وقت تک مسلم تہذیب میں جو تعلیمی نظاام تھا اس نےمعروف مغربی مفہوم میں جامعہ کی شکل اختیار نہیں کی تھی۔ ان تعلیمی اداروں میں جتنے بھی علوم زیردرس ہوتے وہ بنیادی طور پہ اسلامی و دینی مقاصد کے تحت آتے تھے۔جامعہ کے کچھ اپنے خصائص و امتیازات ہوتے ہیں جن پر اُس وقت کے تعلیمی ادارے پورا نہیں اترتے تھے۔یہ منظم انداز کے روایتی تعلیمی مراکز تھے جن میں متعین دینی علوم پڑھے پڑھائے جاتے تھے۔
کتاب کے شروع میں جارج مقدسی اسلامی نظامِ تعلیم کے مراحل کو بیان کرتے ہیں، کہ کس طرح وہ مسجد میں وعظ و نصائح کی شکل سے شروع ہوا،پھر حلقات کی شکل اختیار کی، اور بعدازاں علوم کا اختصاص ہوا، اور آخر میں منظم انداز کے باقاعدہ ادارے وجود میں آگئے۔اس کے ساتھ ہی مقدسی اسلامی تہذیب کے ریاستی شعبے’وقف‘ کی تفصیلات بھی بیان کرتے ہیں کہ وقف کے ادارے کا اسلامی تعلیم و مدارس کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے،بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر مسلم تہذیب میں وقف کا ادارہ نہ ہوتا تو اسلامی مدارس کو بھی کبھی فروغ نہ مل سکتا۔اُس وقت بازنطینی سلطنت کے تحت بھی وقف کا ایک ادارہ کام کر رہا تھا لیکن اس کی ترجیحات میں تعلیم اور تعلیمی ادارے نمایاں نہیں تھے۔اس کے بعداگلی ایک دو صدیوں میں جب مغرب میں تعلیم کو اہمیت ملنا شروع ہوئی تو اس میں بھی اسلامی تہذیب کی طرح وقف کے ادارے نے کردار ادا کیا،جس میں تعلیم کو فوقیت ملی اور مسیحی بادشاہوں نے یورپ میں تعلیم پر توجہ دینی شروع کی،اور بڑے بڑے ادارے قائم ہوئے۔
اس کے بعد جارج مقدسی نے اسلامی مدارس کے تعلیمی نظام کا حال بیان کیا ہے۔اس میں پہلے علوم کی تقسیم کی گئی ہے جو اُس وقت پڑھائے جا رہے تھے۔ان تعلیمی اداروں میں فقہ کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی تھی۔ فقہاء کو ریاست میں بھی بڑا مقام حاصل ہوگیا تھا۔اس لیے مدارس میں مختلف فقہی مسالک کا مطالعہ کرایا جاتا تھا۔اس کے ساتھ ہی مناظرہ اور مباحثہ کی تعلیم بھی دی جاتی تھی جو فقہی تناظر میں ہوتی تھی۔یہ تعلیم صرف انہیں دی جاتی تھی جو طلبہ ابتدائی علوم مکمل کرچکے ہوتے اور انہیں متون ومسائل کی خوب آگہی ہوتی تھی۔
مصنف نے کتاب میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ مسلمانوں میں جو تعلیمی ادارے قائم ہوئے ان کے اثرات مغرب میں بھی پڑے، اور اسی کا نتیجہ تھا کہ وہاں بادشاہوں اور امراء نے وقف کی طرز پہ تعلیمی کی افزائش کا کام شروع کیا۔مغرب میں بارھویں اور تیرھویں صدی عیسوی میں ہی تعلیمی ادارے قائم ہونا شروع ہوگئے تھے، مگر مسلم دنیا سے ان کا یہ فرق تھا کہ یہ کالجز نہیں تھے، بلکہ جامعات اور یونیورسٹیز کی شکل پر بڑے بڑے اداے وجود میں آنا شروع ہوئے۔ان جامعات کو ریاست کی طرف سے سرپرستی حاصل تھی۔ ان کے باقاعدہ ہاسٹل ہوتے تھے جہاں دیگر علاقوں کے طلبہ آکر قیام کرتے تھے۔
اس کتاب میں ایک اہم بحث یہ ہے کہ گیارھویں صدی عیسوی میں مسلم تہذیب میں قائم ہونے والے تعلیمی اداروں کا مغربی تعلیمی اداروں پر کوئی اثرات مرتب ہوئے تھے یا نہیں۔ مصنف نے دونوں قسم کی آراء کا احاطہ کیا ہے اور ہر دو اطراف کے دلائل بھی بیان کیے ہیں۔ ان کے ہاں ترجیح یہی ہے کہ اندلس کے تعلیمی اداروں نے یورپ میں احیاءِ علم کی تحریک برپا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔
چوتھی صدی ہجری میں اسلامی تعلیمی اداروں کی تنظیم وتشکیل میں ایک بنیادی سبب فقہ اور فقہی مذاہب کا تھا۔اُس وقت تک مسلم تہذیب ترقی میں اپنے عروج پر تھی ،نئے نئے ادارے قائم ہو رہے تھے،تجارت کا دائرہ دوردراز ممالک تک پھیل چکا تھا،داخلہ و خارجہ سطح پر ایسے اہل علم کی ضرورت محسوس کی گئی جو ریاستی امور میں رہنمائی کر سکیں۔یوں سلطنت میں فقہاء کی مانگ بڑھ گئی تھی۔اسی طرح ایسے اُمراء و رؤسا پیدا ہوئے جو اُصولی عقائد کے مباحثوں اور علم کلام کے مناظروں سے دلچسپی لینے لگے۔ اس لیے اہل علم بھی علم کلام ہی میں مصروف رہنے لگے۔ کتابیں تصنیف کی جانے لگیں ۔ مناظروں اور مباحثو ں کے فنون اور طریقے مرتب ہونے لگے تاکہ اسلام و سنت کا دفاع اور بدعات کا استیصال کیا جا سکے۔ یوں ، مختلف اسلامی علوم کو سیکھنے سکھانے کی طرف عام لوگوں کا رجحان بھا تو مدارس کی شکل میں مستقل ادارے بھی وجود میں آنے لگے۔اسی دور میں ہی علوم میں اجازت کا سلسلہ بھی جاری ہوگیا، سند کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔اگرچہ زبانی روایت کرنے کا رجحان کم ہوگیا اور کتب پڑھائی جانے لگ تھیں، اس کے باوجود علمی سلاسل کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔
مجموعی طورپہ جارج مقدسی کی یہ کتاب چوتھی صدی ہجری میں ظہورپذیر ہونے والے اسلامی تعلیمی اداروں کی تاریخ وتشکیل کے حوالے سے ایک عمدہ دستاویز ہے، جس میں اُس وقت کے مدارس میں کے ڈھانچے کی جزئیاتی تفصیلات درج کی گئی ہیں، کہ ان مدارس کو کس طرح چلایا جاتا تھا۔ اساتذہ کے کیا عہدے ہوتے،طلبہ کی درجہ بندی کیسے کی جاتی تھی، مختلف علوم کس طرح پڑھائے جاتے تھے ، اوقات کار کیا ہوتے ،اساتذہ کو تنخواہیں کتنی ملتی تھیں، طلبہ کو وظائف کیا دیے جاتے،غرض کہ اسلامی تعلیمی اداروں کی تشکیل کے اولین مراحل کا بہترین انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔