’طالبان کی واپسی‘: ایک عمدہ تجزیے سے بھرپور افغانستان کی کہانی
حسن عباس ’نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی ، واشنگٹن‘ میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ہیں اور شدت پسندی اور افغان امور پر ایک اتھاررٹی سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے رواں برس اپریل میں اپنی ایک نئی کتاب شائع کی جس کا عنوان ہے’طالبان کی واپسی: امریکی انخلاء کے بعدکا افغانستان‘(The Return of the Taliban: Afghanistan After the Americans Left)۔چھ ابواب اور تقریبا تین سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب طالبان اور افغانستان کے حوالے سے ایک معتبر و جامع تجزیہ ہے۔اس میں طالبان کے نظریات، امریکا کے ساتھ مذاکرات، اس کے بعد کی ملکی داخلی صورتحال ، پھر طالبان کے قبضے اور پالیسیوں سمیت دیگر مسلح گروہوں کی فعالیت پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔
اس کتاب کو پوری دنیا کے سکیورٹی و دفاعی ماہرین کے ہاں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔البتہ کتاب کی اشاعت کے بعد مئی کے مہینے میں ذبیح اللہ مجاہد نے اس کتاب میں کیے گئے دعوووں کی تردید کی تھی اور مصنف پر سخت تنقید بھی کی تھی۔
مصنف حسن عباس نےاس کے اندر جہاں حالات کا گہرے انداز میں تجزیہ کیا ہے، وہیں متعدد انکشافات بھی کیے ہیں۔
موجودہ طالبان تبدیل ہوئے ہیں یا نہیں؟ حسن عباس کا خیال ہے کہ طالبان میں آئیڈیالوجی کے لحاظ سے کوئی تبدیلی نہیں واقع ہوئی، لیکن ان کے پاس ملک کو چلانے کے لیے عملی لحاظ سے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ لچک کا مظاہرہ کریں۔مصنف کہتے ہیں کہ نئے طالبان وہ نہیں ہیں جو 90 کی دہائی میں تھے۔پہلے وہ اپنی پالیسیوں میں زیادہ سخت گیر اور متشدد تھے۔انہیں ریاست چلانے کا کوئی سلیقہ نہیں تھا۔لیکن بیس برس بعد کے طالبان میں لچک پائی جاتی ہے۔دوحہ میں ان کا دفتر کھلنے کے بعدانہیں مذاکرات اور بات چیت کے فن سے بخوبی آشنائی ہوئی۔ان میں معاملات کو مختلف پہلوؤں سے دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہوئی ہے۔اب انہوں نے شرعی عدالتوں میں خواتین کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت دے رکھی ہے۔اسی طرح خواتین کی جبری شادیوں کو ممنوع قرار دیا ہوا ہے۔
انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ طالبان کے اندر کابل کا دھڑا قدرے نرم ہے، جبکہ قندھار کا دھڑا سخت گیر ہے۔ خواتین کی تعلیم کے مسئلے میں کابل کا حلقہ تعلیم کے حق میں ہے، مگر قندھار سےملا ہیبت اللہ اور ان کے مشیر وغیرہ اس کے مخالف ہیں۔ایسے کئی امور میں ان دونوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
مصنف کے مطابق افغان طالبان ہر طرح سے ایک متحد گروہ نہیں ہے، بلکہ ان میں سیاسی، نسلی ، لسانی اور قبائلی اختلافات موجود ہیں۔اسی طرح ان میں کچھ زیادہ متشدد ہیں، کچھ کم سخت گیر ہیں ۔
حسن عباس کتاب میں اس سارے دورانیے پر روشنی ڈالتے ہیں کہ کیسے طالبان ایک باغی گروہ سے ایک مقتدر گروہ میں تبدیل ہوئے۔وہ بتاتے ہیں کہ جب نوجوان طالبان کابل کے صدارتی محل کے دروازے پر پہنچے تو افغان سکیورٹی اہلکاروں نے ان کا استقبال کیا اور انہیں یہ لگا کہ شاید اس محل کو آگ لگا دی جائے گی، مگر طالبان کو یہ حکم تھا انہوں نے سرکاری عمارات کی حفاظت کرنی ہے۔ یہ تبدیلی تھی جو 90 کی دہائی کے طالبان سے انہیں ممتاز کرتی ہے۔مصنف جہاں طالبان پر تنقید کرتے ہیں اور کئی پہلوؤں سے مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں ،اسی طرح وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ طالبان اپنی حکومت کو مستحکم کرنے، تسلیم کیے جانے اور عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کے قیام کے لیے بہت سنجیدہ ہیں۔
جب طالبان کابل کے قریب پہنچنے والے تھے تو اشرف غنی نے مزاحمت کا سوچا تھا لیکن اسے یہ علم تھا کہ کوئی بھی مزاحمت زیادہ دیر نہیں چل سکے گی، کیونکہ امریکا کے طالبان کے ساتھ معاہدے کے بعد لڑائی کا چلنا مشکل تھا۔مصنف کے مطابق اشرف غنی نے ملک چھوڑنے سے قبل امریکی وزیر خارجہ بلنکن کو فون کرکے کہا تھا کہ وہ زندگی کے آخری لمحے تک لڑے گا۔ مگر ظاہر ہے کہ حقیقت میں ایسا ہونا نہیں تھا۔
حسن عباس کے مطابق فروری 2020ء میں جب امریکا اور طالبان کا معاہدہ ہوگیا تو اشرف غنی کی امیدیں دم توڑ گئی تھیں۔زلمے خلیل زاد نے کئی بار اشرف غنی کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ طالبان کے ساتھ مل کر کام کریں مگر اشرف غنی نے ہمیشہ انکار کیا۔مصنف کے بقول اشرف غنی اس میں حق بجانب تھے، کیونکہ طالبان کبھی بھی ایک جمہوری نظم کے تحت اشرف غنی کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار نہ ہوتے۔ طالبان سرے سے افغانی دستور کو ہی تسلیم نہیں کرتے تھے۔لہذا یہ ممن نہیں تھا کہ وہ اشرف غنی کی حکومت میں ساتھ مل کر کام کرتے۔
مصنف یہ بھی کہتے ہیں کہ اشرف غنی کا خیال تھا کہ زلمے خلیل زاد،نائب صدر عبداللہ عبداللہ اورسابق صدر حامد کرزئی ان کی حکومت گرانے کی سازش کررہے تھے اور چاہتے تھے کہ ملاعبدالغنی برادر کی قیادت میں طالبان اقتدار پر قابض ہوں۔ جب اشرف غنی کو یہ یقین ہوگیا کہ وہ اس سازش کو نہیں ٹال سکتے تو انہوں نے سراج الدین حقانی کے ساتھ رابطہ کرکے ان سے خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا، تاکہ کابل میں دیگر طالبان گروہوں سے قبل سراج الدین حقانی سبقت حاصل کریں۔یہ اشرف غنی کی طرف سے گویا سازش کا انتقام بھی تھا۔ اور مصنف کے مطابق اس کاایک مقصد آخری وقت میں سراج الدین حقانی کا شکریہ ادا کرنا بھی تھا۔ کیونکہ حقانی گروپ نے 2014کے انتخابات میں اشرف غنی کی مدد کی تھی۔
اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ دوحہ مذاکرات کے دوران عام افغان لوگوں کے ممکنہ مسائل اور حالات کو نظرانداز کیا گیا تھا، جوکہ ایک غلطی تھی، خصوصا خواتین اور غیرپشتوں اقلیتوں کے ممکنہ طور پہ پیش آنے والے مسائل کو توجہ نہیں دی گئی۔اور اس سے بھی بڑی غلطی یہ تھی کہ اُس وقت کے صدر اشرف غنی اور اس کی حکومت کو مذاکرات کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
کتاب میں دعوی کیا گیا ہے کہ طالبان کے قبضے کے ابتدائی ایام میں جنرل فیض حمید نے طالبان کی قیادت سے درخواست کی تھی کہ عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی کو اعلیٰ عہدے دیے جائیں، لیکن طالبان یہ مطالبہ مسترد کردیا۔
افغانستان پر قبضے کی ابتدا میں پاکستان کے اثرورسوخ کے ضمن میں کئی اور چیزوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔مثال کے طور پہ یہ کہ وزیرخزانہ ہدایت اللہ بدری کو یہ وزارت جنرل قمر جاوید باجوہ کے کہنے پر ملی۔وزیرخزانہ نائن الیون کے بعد پاکستان میں کچھ مسائ لکا سامنا کرچکے تھے۔بعد میں وزیر خارجہ امیر خان متقی ہدایت اللہ بدری کو جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملنے لائے تھے تاکہ تلخیاں ختم کی جاسکیں۔قمرجاوید باجوہ نے تب خواہش ظاہر کی کہ بدری کو وزارت دی جائے۔
حسن عباس کا کہنا ہے کہ طالبان کی آمد کےے بعد جنرل فیض حمید کا وہاں جانا پاکستان کے لیے مفید ثابت نہیں ہوا، بلکہ اس کا پاکستان کو اور خود طالبان کو بھی نقصان ہوا۔مصنف کے مطابق پاکستان کی وزارت خارجہ نے جنرل فیض حمید کو اس طرح کھلے عام سامنے آنے اور تشہیر سے منع کیا تھا۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھارت نے طالبان کی آمد کے بعد اپنا سفارتی عملہ واپس بلا لیا تھا، لیکن اب وہ طالبان کے ساتھ تعلقات نارمل کرنے کا خواہاں ہے، اور خود طالبان بھی یہی چاہتے ہیں۔
مصنف اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ افغانستان کا ادب اور دینی روایت جوبرس ہا برس سے تصوف کی طرف مائل رہی تھی، اب ایسے لگتا ہے وہ مٹنے لگی ہے اور اس کی جگہ پرتشدد افکار راسخ ہورہے ہیں جو افغانستان کی قدیم علمی،فکری اور ادبی روایت کو بھلا دیں گے۔
کتاب کے آخر میں مصنف نے یہ کہا ہے کہ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ طالبان پرپابندیاں عائد کرنے اور قظع تعلق کرنے کی بجائے ان کے ساتھ روابط بحال کرے۔ کیونکہ گزشتہ بیس برس کی جنگ نے یہ واضح کردیا ہے کہ ملک میں طالبان کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور فی الحال ان کا کوئی متبادل بھی نہیں ہے۔ اس لیے عوامی بہبود اسی میں ہے ان کے ساتھ روابط بحال کرکے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔