غزہ: مرحلہ وار عارضی جنگ بندی، مگر مکمل کیوں ممکن نہیں؟

0

تقریبا ڈیڑھ ماہ کی مسلسل بمباری اور جنگ کے بعد اسرائیل کی طرف سے پچھلے ایک ہفتے سے مرحلہ وار عارضی جنگ بندی کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔اس دوران دونوں طرف سے قیدیوں کی رہائی کا عمل بھی چلتا رہا۔ یہ جنگ بندی جمعرات کی شب کو ختم ہوگئی ہے اور آج  جمعہ کی صبح سے دوبارہ اسرائیل کے حملے شروع ہوگئے ہیں۔

یہ جنگ بندی ظاہر ہے کہ ’انسانی بنیادوں‘ پر نہیں ہے۔ اگر یہی مقصد ہوتا تو اسرائیل کی جانب سےمکمل جنگ بندی کا اعلان کیا جاتا یا عارضی جنگ بندی کا سلسلہ ہی پہلے سے شروع ہوجاتا ۔جبکہ  بچوں سمیت ہزاروں عام شہری  اس جنگ میں لقمہ اجل بن گئے ہیں۔اس جنگ بندی میں رکاوٹ کی وجہ اسرائیلی وزیراعظم نیتنیاھو اورر دائیں بازو کے حکومت عناصر کی ٹال مٹول رہی ہے۔

سات اکتوبر کے فورا بعد ہی حماس کی طرف سے یہ پیش کش کی گئی تھی کہ اگر جنگ بندی کردی جائے تو وہ تبادلے کے طور پہ یرغمالی بنائے گئے عام اسرائیلیوں اور غیرملکی شہریت  کے حامل افراد کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے۔لیکن اسرائیلی حکام کا خیال تھا کہ اگر عارضی جنگ بندی کی گئی تو اس سے حماس کو فائدہ ہوسکتا ہے۔اس سارے عرصے کے دوران اسرائیل کو اس لحاظ سے ناکامی کا سامنا ہوا ہے کہ وہ عسکری طاقت  کے ذریعہ  یرغمال بنائے گئے اپنے شہریوں کو مخفی رکھے گئے مقام کا پتہ نہیں لگاسکا اور انہیں رہا نہیں کرا سکا۔

اسرائیل حکام اب عارضی جنگ بندی پر تو تیار ہوئے ہیں لیکن وہ فی الحال مکمل جنگ بندی کے حق میں نہیں ہیں، کیونکہ ان کے خیال میں ایسے کسی اقدام کو اسرائیلی عوام کے اندر شکست سمجھا جائے گا۔عارضی جنگ بندی سے جس طرح حماس کو ایک موقع ملا ہے، اسی طرح یہ اسرائیلی فوج کے لیے بھی سانس لینے کا ایک موقع ہے۔اس دوران یرغمالیوں کی رہائی سے اسرائیلی حکام پر عوامی دباؤ میں بھی کمی آئے گی۔

وال سٹریٹ جرنل کے مطابق بدھ کے روز  قطر میں اسرائیل، امریکا اور مصر کی خفیہ ایجنسی کے سربراہان کی ملاقات میں یہ توقع کی جارہی تھی کہ مکمل جنگ بندی کی طرف پیش رفت کا امکان بن سکے گا، لیکن  ایسا نہیں ہوسکا۔ملاقات کے دوران یہ رائے بھی پیش کی گئی کہ حماس تمام یرغمالیوں کو ایک ہی دفعہ میں رہا کردے گی اور اس کے بدلے میں ایک بڑی تعداد فلسطینی شہریوں کی رہا کردی جائے،مگر اس رائے کو اسرائیلی انٹیلی جنس کے سربراہ نے مسترد کردیا۔

تل ابیب میں مصر کے سابق سفیر محمد العرابی کے مطابق ، جیسے جیسے اسرائیلی شہری رہا ہوتے جائیں گے، اسرائیل ممکنہ طور پہ جنگ کو طول دینے کی کوشش کرے گا۔عارضی جنگ کی وجہ سے نیتنیاھو کو ملک میں شدید تنقید کا سامنا ہے۔اسرائیل کی قومی سلامتی کے وزیر نے دھمکی دی ہے کہ اگر مکمل جنگ بندی کا فیصلہ کیا گیا تو حکومت کو گرا دیا جائے گا۔اسی طرح وزیراقتصادیات سموتریش نے بھی کہا ہے کہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے  جنگ کو روکنے کا مطلب اسرائیل کا خاتمہ ہے۔جبکہ حماس اسرائیل کے کچھ فوجی عہدیداران کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے، تاکہ اسرائیل پر دباؤ کا راستہ باقی رہے۔لیکن اس ساری صورتحال میں ایک مسئلہ بھی ہے کہ اسرائیل کے کچھ یرغمالی ’الجہاد الاسلامی‘ تنظیم کے پاس بھی ہیں جس کے مطالبات حماس سے بھی زیادہ سخت ہیں۔اسرائیل چاہتا ہے کہ فلسطینی مسلح مزاحمتی گروہ اپنی عسکری صلاحیت اور قوت کو تحلیل کردیں تاکہ سات اکتوبر جیسے واقعات کا اندیشہ نہ رہے، مگر مسلح جماعتیں یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔