اسلامی پس منظر کی حامل جمہوری تحریکوں کا تعارف اور فکری ڈھانچہ

0

مسلم دنیا میں اسلام اور جمہوریت کی بحث بہت قدیم ہے۔ مسلم معاشرے جمہوریت کے ساتھ مربوط انداز میں ہم آہنگ کیوں نہیں ہوسکے، اس مسئلے کی تفہیم کا روایتی منہج یہ رہا ہے کہ جمہوری انصرام کی تشکیل میں مذہبی نقطہ نظر ایک رکاوٹ ہے۔ زیرنظر مضمون میں اس مسئلے کو مذہبی سیاسی جماعتوں کے تاریخی تناظر میں دیکھا گیا ہے کہ کیا واقعی عالم اسلام میں حقیقی جمہوری نسق کے رستے میں حائل رکاوٹ اسلام یا مذہبی سیاسی جماعتیں رہی ہیں،یا اس کے پس پردہ جوہری عوامل کچھ اور ہیں۔ مزید برآں اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ مسلم دنیا کی مذہبی سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کے لیے کیا سعی کی ہے؟ مضمون کے مصنف ڈاکٹر حسن یوجال باشدیمر ہیں۔ آپ انقرہ یونیورسٹی میں تاریخِ فلسفہ اور سیاسیات کے پروفیسر ہیں۔ کئی کتب کے مصنف ہیں۔ یہ مضمون انگریزی کتاب ‘مسلم دنیا میں جمہوری تبدیلیاں’ سے ماخوذ ہے۔

جمہوریت کے راستے میں حائل رکاٹیں

اسلام اور جمہوریت کے مابین تعلق کے حوالے سے بہت سے مسائل ہیں جن پر گفتگو ہوتی رہتی ہے، اور اس طرح کی مباحث میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ شاید اس چیزکی علامت بھی ہے کہ مسلم دنیا میں جمہوریت کے بارے میں سنجیدگی بڑھتی جارہی ہے اور لوگ اس کیلئےنرم رویہ اختیار کرنے لگے ہیں۔ مسلمان معاشروں میں اس سیاسی نظم کیلئے کثرت کے ساتھ بات چیت کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عالم اسلام میں حقیقی جمہوری ڈھانچے کے رسوخ میں کچھ رکاوٹیں حائل ہیں۔ وہ کونسی رکاوٹیں اور مشکلات ہیں جن کے سبب یہ معاشرے مجموعی طور پہ جمہوری نظم کی وقیع چھاپ نہیں اپناسکے؟ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی بنیادی وجہ خود اسلام ہے۔ لیکن یہ نقطہ نظر درست محسوس نہیں ہوتا، معتدل مفکرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ اسلام نہیں بلکہ مسلم معاشرے ہیں جو اپنی سماجی تشکیل میں جمہوری سانچے کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اکثر مسلم ممالک میں آمرانہ یا نیم آمرانہ طرز کی حکومتیں قائم ہیں، اور وہ اس قدر مضبوط ہیں کہ انہیں تبدیل کرنا آسان نہیں ہے، طاقت کے یہ عناصر حقیقی جمہوری نظم کے پھلنے پھولنے میں بڑی رکاوٹ ہیں،یا وہ جمہوریت کو بالکلیہ مسترد کرتے ہیں یا پھر نیم جمہوری سیاسی ڈھانچہ قائم کرتے ہیں جو بھرپور عوامی وشفاف نہیں ہوتا۔ اس تناظر میں تیسرا خیال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ کئی مسلم ممالک میں ریاست حاوی ہے اور وہ  قومی مفاد اور شدت پسندی کے خطرے کے نعروں کا استعمال کرکے سیاسی آزادی کو ممکن نہیں بننے دیتی، جس کے باعث جمہوریت اور اس کی اقدار سیاسی رُوح کا حصہ نہیں بن سکتے۔

اگر عملی سطح پہ حائل رکاوٹوں کی تمثیل کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تین عوامل ایسے ہیں جو مسلم معاشروں میں جمہوریت کے نہ پنپنے کا سبب ہیں:

1-     مخصوص مذہبی گروہوں  کی طرف سے حائل مشکلات

2-     آمریت یا مطلق العنانیت

3-     خارجی طاقتوں اور عوامل کے سبب

بہت سے محققین، مفکرین اور صحافی مسلم معاشروں کے بارے میں جو تصور پیش کرتے ہیں وہ چھوٹے سے اقلیتی گروہوں کو سامنے رکھ کر پیش کرتے ہیں۔ وہ عام مسلم اکثریتی سماج اور وہاں پائے جانے والے جمہوریت مخالف چھوٹے چھوٹے گروہوں کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔ اور اس بنا پر وہ سارے مسلم سماج کو جمہوریت مخالف سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ جو جماعتیں ایسے افکار کی حامل ہیں وہ اکثریتی سماج کا 15 سے 20 فیصد ہیں۔ لیکن یہ چھوٹے چھوٹے شدت پسند گروہ زیاہ منظم ہیں اور ان کے داخلی وخارجی سطح پر طاقت کے سرچشموں کے ساتھ روابط ہیں، اس طرح ان کے پاس یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود منظرعام پر لاسکیں۔

اس طرح کی صورتحال میں یہ مشکل ہوجاتا ہے کہ مسلم سماج کا اکثریتی طبقہ اپنی امنگوں کے مطابق جمہوری نظم کو پوری طرح اپناسکے۔ اگر وہ اس کا عملی اظہار کرتے ہوئے باہر نکلتے ہیں تو پھر ایسا منظرنامہ تشکیل پاتا ہے جو عرب بہار کے دوران مشرق وسطی میں ہوا۔ یہ سوال اپنی جگہ قائم رہتا ہے کہ آخر یہ کیسے ممکن ہو پائے گا کہ مسلم دنیا میں پرامن طریقے سے جمہوری نظم کی تشکیل ہوسکے؟

ان تمام دعووں کے برعکس جو کیے جاتے ہیں، مسلم معاشروں میں جمہوریت کی ناکامی کی اصل وجہ اسلام نہیں بلکہ مسلم سماج کی خاص تاریخی بُنت ہے جس سے وہ باہر نہیں نکل پارہے۔ اگر مسلم مذہبی سیاسی جماعتوں کا بغور تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے جمہوریت کے راستے میں کوئی بڑی رکاوٹیں کھڑی نہیں کیں، بلکہ اس کے برعکس ان جماعتوں کا کردار حوصلہ افزاء اور تسلی بخش رہا ہے۔ ایسا دینی نقطہ نظر چاہے وہ جمہوریت کے مخالف ہی کیوں نہ ہو وہ جمہوری نظم کو اس کی جڑوں سے نہیں ہلا سکتا، یہ اصل میں سیاسی آزادی اور خوشگوار سیاسی تجربات ہوتے ہیں جو جمہوریت کو ارتقائی مرحلے کی جانب لے کر چلتے ہیں اور وقت کے ساتھ اس کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں، ہمارے ہاں ایسی نوع کے تجربات نہیں ہوئے اور سیاسی میدان میں انسانی حقوق کے لیے سنجیدہ کوششیں بروئے کار نہیں لائی گئیں، ایسے برے تجربات ہی دینی نقطہ نظر کو جمہوریت کے خلاف مزید تنگ نظری کا شکار بناتے ہیں، اور جمہوریت مخالف چھوٹے چھوٹے مذہبی گروہ اپنی جگہ بناتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مسلم معاشروں کے اندر سیاسی قدامت پسندی کی حقیقی وجہ مذہب نہیں ہے بلکہ برے سیاسی تجربات ہیں جو جمہوریت کے نام پر کیے جاتے ہیں۔ مسلم معاشروں میں پائے جانے والے جمہوریت مخالف اقلیتی گروہ مطلق العنان ریاستی عناصر کے لیے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ برے سیاسی تجربات اور انسانی حقوق کی پامالی کے سبب قدامت پسند جماعتیں مزید طاقتور ہوتی ہیں اور حالات کو ابتری کی طرف لے جانے کی کوشش کرتی ہیں۔ مطلق العنان سیاسی عناصر ایسے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور سیاسی نظم پر اپنی گرفت زیادہ مضبوط بناتے ہیں۔ وہ یہ تصور دیتے ہیں کہ قومی مفاد کو خطرات لاحق ہیں اور سماج میں جمہوریت اور سیاسی آزادی کے نقصانات برآمد ہوں گے۔

کمزور جمہوریت اور مطلق العنانیت کے درمیان پستے سماج کو پرامن وترقی یافتہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ بنیادی سیاسی حقوق کو راستہ دیا جائے، آزادمعیشت کی بنا ڈالی جائے، اور جمہوری اقدار کو پنپنے دیا جائے۔ خوشگوار سیاسی تجربات معاشروں کو خودبخود تنگ نظر و قدامت پسند گروہوں سے دور کردیتے ہیں۔ورنہ  کمزور جمہوریت اور مطلق العنان عناصر سماج کو مزید قدامت پسندی کے سیلاب کی جانب بہاتے چلے جائیں گے۔

مسلم دنیا کی جمہوری جماعتیں اوران کا سماجی اثرورسوخ

عالم اسلام میں جمہوریت کے حق میں بات کرنے والی سیاسی جماعتیں فکری لحاظ سے دو طرح کی ہیں۔ ایک سیکولر اور دوسری مذہبی نقطہ نظر رکھنے والی۔ سیکولر حلقہ غلط فہمیوں کے سبب اپنے بارے میں پائے جانے والے افکار کی بنیاد پر خود کو زیادہ محفوظ تصور نہیں کرتا، کیونکہ انہیں عمومی طور پہ مذہب مخالف سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں وہ کھل کر اپنی سرگرمیوں کو جاری نہیں رکھتا اور اپنے آپ کو ریاستی عناصر کے زیادہ قریب رکھتا ہے، چاہے وہ مطلق العنان ہی کیوں نہ ہوں۔ جبکہ مذہبی طبقے کا اکثریتی اور مقبول حلقہ جمہوری نظم کا حامی ہے اور پرامن سیاسی جدوجہد کو تسلیم کرتا ہے۔ بعض ایسے مذہبی گروہ بھی وجود رکھتے ہیں جو جمہوریت مخالف ہیں لیکن وہ اقلیت میں ہیں۔ ان میں کئی وہ ہیں جنہیں جنگوں نے دہشت گردی کی جانب موڑ دیا،بعض جرائم پیشہ تنظیموں کی شکل اختیار کرگئے،جبکہ ان میں سے کچھ نے خود کو سماجی فلاحی امور کے لیے وقف کردیا۔ تاہم مجموعی طور پہ مسلم دنیا کا اکثریتی مذہبی حلقہ جمہوریت کا مخالف نہیں ہے۔ حالانکہ مذہبی سیاسی جماعتوں کو بیوروکریسی اور اعلی مناصب سے دور رکھا جاتا ہے، اس کے باوجود جمہوریت کے لیے ان کا کردار منفی نہیں ہے۔

اس ضمن میں مسلم معاشروں کی تمام بڑی مذہبی اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کا تاریخی کردار ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پہ جب ترکی میں خلافت عثمانیہ کا سقوط ہوا تو اس کے بعد وہاں کے مذہبی میلان رکھنے والے طبقے نے پرامن سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ حالانکہ ان جماعتوں پر پے در پے پابندیاں عائد ہوتی رہیں اور انہیں کالعدم کیا جاتا رہا لیکن اس کے باوجود سیاسی نسق سے باہر کوئی سعی نہیں کی گئی۔ 1950ء سے 1970س تک کے عرصے میں دائیں بازو کی کئی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں جن چند نام قابل ذکر ہیں: ڈیموکریٹک پارٹی، نیشنل موومنٹ پارٹی، جسٹس پارٹی، نجم الدین اربکان نے 1970ء میں نیشنل نظام پارٹی کی بنیاد رکھی،یہ جماعت ایک سال بعد کالعدم قرار دیدی گئی تھی۔ اسی سال انہوں نے اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ایک اور جماعت کی بنا ڈالی جس کا نام تھا National Salvation Party، اس جماعت کو بھی 1980ء میں کالعدم قرار دیدیا گیا تھا۔ 1980ء میں ترکی کے مذہبی سیاسی حلقے نے ایک اور جماعت بنائی جس کا نام ویلفیئر پارٹی تھا، اسے 1998ء میں فوج نے کالعدم ٹھہرادیا تھا۔ اس کے بعد 2001ء میں رجب طیب اردغان اور عبداللہ کی قیادت میں ایک نئی سیاسی جماعت ‘جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ’ بنائی گئی جو ابھی حکومت میں ہے۔ ترکی کی اس مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مذہبی طبقے نے جمہوریت کے لیے کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور ملک میں جمہوری نظم کی بحالی کے لیے پے درپے کوششیں بروئے کار لائیں۔اسی طرح ملائشیا کی سیاسی جماعتUnited Malays National Organisation  1946سے فعال ہے اور نمایاں کردار ادا کررہی ہے۔ ایسے ہی مصر کی اخوان المسلمین بھی طویل عرصے سے سیاسی جدوجہد کر رہی ہے۔  الجزائر کی الجبہۃ الاسلامیہ للانقاذ ہو، تیونس کی النہضہ ہو، کویت کی جمعیۃ الاصلاح ہو، یا انڈونیشیاکی محمدیہ اور نہضۃ العلماء ہوں، یہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے ممالک میں وسیع سیاسی حلقہ رکھتی ہیں اور ان سب کی عریق تاریخ ہے جو جس میں جمہوریت کے حق کے لیے جدوجہد کی گئی ہے۔ پاکستان کا معاملہ زیادہ توجہ طلب اور دلچسپ ہے، یہاں اگرچہ ہمیشہ کمزور جمہوریت غالب رہی ہے لیکن جمہوری نظم کے لیے آواز بلند کرنے والی تمام جماعتیں دائیں بازو کی ہیں جن میں سے کچھ تو خالص مذہبی چھاپ کی حامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر مسلم ممالک میں بھی تقریباََ ان سے ملتی جلتی صورتحال ہے کہ مذہبی عنصر مجموعی حیثیت میں جمہوری ہی ہے۔ لہذا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ مسلم دنیا میں جمہوریت کے راستے میں حائل رکاوٹیں دینی اور مذہبی نوعیت کی ہیں۔

مذہبی سیاسی جماعتوں کی حمایت کیوں ضروری ہے؟

ممالک کے اندر تشدد کو ہوا ملنے کی ایک بڑی وجہ ریاست وسماج کے مابین بُعد اور عدم اعتماد کی فضا کا پروان چڑھنا ہوتا ہے۔ ایسی فضا کو ختم کرنے کے لیے جماعتی سطح پر سیاسی تحرک کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ جماعتوں کی سیاسی آزادی اور ان کا تحرک ریاست وسماج کے درمیان کشیدگی کے ماحول کو کم کرتا ہے اور دونوں کے مابین اعتماد کی فضا کو جنم دیتا ہے۔ اگر ممالک کے اندر سیاسی جماعتیں آزاد نہ ہوں تو قدامت پسندی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں سماجی بہبود کی نمائندہ ہوتی ہیں اور وہ ریاست کے ساتھ عوام کا تعلق نارمل رکھنے کا کردار ادا کرکتی ہیں۔ ترکی میں نجم الدین اربکان، ملائشیا میں مہاتیر محمد، مراکش کے عبداللہ بن کبیران اور تیونس کے راشد الغنوشی نے اپنے اپنے ممالک میں تشدد کو پروان چڑھنے سے روکا ہے اور ان کی وجہ سے سماج میں قدامت پسندی بھی کم ہوئی ہے۔ مصر میں اخوان المسلمین نے بھی طویل عرصے تک یہی کردار ادا کیا ہے۔ تیونس میں النہضہ 1986ء سے سیاسی مفاہمت کی فضا قائم رکھے ہوئے ہے، اس کی وجہ سے ملک خانہ جنگی کا شکار ہونے سے بچا ہے۔ بالخصوص عرب بہار کے دوران اس نے معاشرے کو تشدد کی نظر ہونے سے بچایا تھا۔  اسے جب یہ خدشہ لاحق ہوا کہ اگر وہ پیچھے نہ ہٹی تو ملک میں مارشل لاء لگ سکتا ہے تو اس نے پیچھے ہٹنے میں بھی عار محسوس نہیں کی اور حزب اختلاف کو آگے آنے دیا۔ 1997ء میں جب نجم الدین اربکان ترکی میں وزیراعظم تھے تو سیاسی فضا ایسی بن گئی کہ انہیں یہ خدشہ لاحق ہوا اگر وہ پیچھے نہ ہٹے تو فوجی اشرافیہ ملک میں تشدد کو ہوا دے گی، تو نجم الدین اربکان وزارت عظمی سے مستعفی ہوگئے۔

مسلم دنیا کی مذہبی سیاسی جماعتیں سماج میں وسیع اثرورسوخ رکھتی ہیں۔ ان کو دبانے یا ان کے سیاسی تحرک کو روکنے کا نقصان یہ ہوگا کہ قدامت پسند نقطہ نظر کو تقویت ملے گی اور ممکنہ طور پہ تشدد کے ماحول کے لیے بھی راہ ہموار ہوگی۔

زیادہ تر مذہبی سیاسی جماعتوں نے حالات کی سختی کے باوجود اپنے سفر کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھا ہے۔ ترکی میں انہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے سیاسی جدوجہد کو ترک نہیں کیا، حالانکہ باربار کالعدم قرار دیا جاتا رہا اور ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی۔ یہ کشمکش نصف صدی تک چلتی رہی۔ ترکی میں سب سے پہلی مذہبی سیاسی جماعت 19 جولائی 1946ء کو قائم ہوئی تھی، لیکن اسی برس 12 ستمبر کو اس پر پابندی عائد کردی گئی۔ ایسی ہی صورتحال کئی مسلم ممالک میں دکھائی دیتی ہے جہاں مذہبی سیاسی جماعتیں مطلق العنان اشرافیہ اور بیوروکریسی کی مخالفت کے باوجود اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔

سیاسی استحکام سیاسی جماعتوں کے توسط سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ یہ جماعتیں پرامن حدود میں رہتے ہوئے مسائل کا حل تلاش کرتی ہیں۔ ان کے نزدیک جمہوریت ہی واحد سیاسی انصرام ہوتا ہے جس کےبل بوتے پر ترقی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ وہ سیاسی حوالے سے مثالیت پسند نہیں ہوتیں کہ جس کے سبب بالآخر سماج میں غصے اور تشدد کے لیے راہیں کھلتی ہیں۔ واقعیت پسندی کا فروغ سماج کو قدامت پسند نظریات سے دور رکھ سکتا ہے۔ جمہوری نسق کے اندر رہنے والی مذہبی سیاسی جماعتیں معاشی بہبود کو اہمیت دیتی ہیں،یہ مغرب کےساتھ پرامن تعلقات کی خواہاں ہیں اور خواتین واقلیتوں کے حقوق کو تسلیم کرتی ہیں۔ ان کے منشور کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے یہ عناصر جدید سیاسی بندوبست کے مطابق خود کو ڈھالے ہوئے ہیں۔ بلکہ اگر ان کی تاریخی جدوجہد کو دیکھا جائے تو یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ دیگر سیاسی حلقوں کے مقابلے میں زیادہ پرامید ہیں۔ ترکی جہاں اب مذہبی سیاسی جماعتیں طاقت میں ہیں، وہ اب بھی یورپ کا حصہ بننے کی خواہش رکھتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ جماعتیں دنیا سے کٹ کر نہیں رہنا چاہتیں۔

تشدد وقدامت پسندی مذہبی تعلیمات کا نتیجہ نہیں ہیں اور نہ وہ اس ماحول کی پرورش کرتی ہیں۔ سماج میں تشدد اور قدامت پسندی کے پس منظر میں کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ ان میں سے انسانی حقوق کی پامالی ایک بنیادی سبب ہے۔ اِس وقت بالعموم تشدد وقدامت پسندی کو مذہبی عنصر کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، لیکن حقائق اس کےمنافی ہیں۔ یہ درست ہے کہ مسلم دنیا میں مسلح شدت پسند وجود رکھتے ہیں اور وہ فکری لحاظ سے قدامت پسند بھی ہیں، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے، مجموعی مذہبی حلقہ اس کا حامی نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق قدامت پسندی اور انسانی حقوق کی پامالی کے مابین براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ نوجوان ایسے ماحول میں تشدد پسند عناصر کی جانب مائل ہوتے ہیں جب ان کے سماجی وسیاسی حقوق کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور انہیں دباؤ کی کیفیت میں رکھا جاتا ہے۔ مصر کی اخوان المسلمین 1928ء میں وجود میں آئی تھی۔ ابتدائی طور پہ اس جماعت کے سیاسی مقاصد نہیں تھے، یہ دراصل تعلیم وثقافت کے شعبوں میں کردار ادا کرنے کے لیے قائم کی گئی۔ یہ جماعت تیزی کےساتھ عرب ممالک میں پھیلتی گئی اور مقبولیت حاصل کرنے لگی۔ پھر 1954ء میں جمال عبدالناصر کے عہد میں اس کے خلاف کاروائیاں کی گئیں اور اس کے ممبران کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جن میں سید قطب بھی شامل تھے۔ اس کے بعد جماعت کے کحھ عناصر علیحدہ ہوگئے اور انہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔

سیاسی جماعتیں تشدد اور انارکی کے خلاف ہوتی ہیں۔ وہ پرامن طریقوں سے مسائل کے حل پر یقین رکھتی ہیں۔ اگر سماج کو قدامت پسندی وتشدد سے دور رکھنا ہو تو سیاسی دائرے میں کام کرنے والے عناصر کی آزادی کو نہیں کچلنا چاہیے۔ مذہبی سیاسی جماعتیں جو جمہوریت پر یقین رکھتی ہیں سماج میں تشدد وقدامت پسندی کے خلاف ان کے کردار سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

مسلم دنیا کی فعال مذہبی سیاسی جماعتیں جمہوریت کے بارے میں کیا نقطہ نظر رکھتی ہیں؟یہ بات ان کے قائدین کی زبانی سمجھی جاسکتی ہیں۔ راشد الغنوشی نے کہا تھا کہ ‘یہ نظریہ کسی طور مسلمانوں کے مفاد میں نہیں کہ اسلام اور جمہوریت کے مابین تضاد پایا جاتا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں کہا تھا کہ ‘مسلمانوں کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے جہاد کرنا چاہیے’۔ سوڈان کے حسن ترابی نے کہا تھا کہ ‘مذہبی سیاسی جماعتوں کا جمہوریت کے راستے سے انتخابات میں آنا بھی جمہوریت ہی ہوگی، ان کی مخالفت کا کوئی سیاسی جواز موجود نہیں ہے’۔ ملائشیا کے انور ابراہیم نے ایک بار اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ‘مسلمانوں کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ جمہوری انصرام کے لیے سنجیدگی کا اظہار کریں’۔ نجم الدین اربکان ہمیشہ کہتے رہے کہ میں جمہوریت یا سیکولرزم کے خلاف نہیں ہوں، بلکہ مذہب کو پابند ومقید رکھنے کے خلاف ہوں۔

کیا مذہبی سیاسی جماعتیں ناکام ہوئی ہیں؟

گزشتہ کچھ عرصے سے تواتر کے ساتھ ایسا مواد شائع ہوتا رہا ہے جس میں یہ دعوی کیا گیا کہ مسلم دنیا میں جہاں مذہبی سیاسی جماعتیں حکومت میں آئیں، وہ ناکام ہوئیں۔ گویا مسلم ڈیموکریٹس کے تجربات ناکام ہوئے۔ اس کی بنا پر یہ بھی رائے بنائی گئی کہ مسلم معاشرے جمہوریت کیلئے تیار نہیں ہیں، اس کے برعکس وہ آمرانہ یا نیم جمہوری قسم کے بندوبست کے لیے زیادہ سازگار ہیں۔ یہ سوال کہ مذہبی سیاسی عنصر ناکام کیوں ہوا؟ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ دراصل یہ جماعتیں پوشیدہ مقاصد رکھتی ہیں اس لیے اقتدار میں آکر خود کو اپنے ایجنڈے کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کرسکتیں۔ گویایہ جماعتیں ناقابل اعتبار ہیں۔

اس نقطہ نظر کو بھی تاریخی تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔ مصر اور ترکی میں مذہبی عنصر 1950ء سے سیاسی تحرک کا حصہ ہے۔ یہ حلقہ بہت زیادہ سیاسی پابندیوں کا شکار رہا، فوجی عتاب کا نشانہ بنا، ماوراءعدالتی قتل کیے گئے، تشدد برداشت کیا اور جیلوں میں وقت گزارا۔ ایسا پرامید اور سخت کوش طبقہ ناکام کیوں ہوا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی ناکامی حقیقت میں جمہوری حوالے سے نہیں تھی، بلکہ وہ اس لیے ناکام ہوئے کہ وہ جمہوریت مخالف بیوروکریسی کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ اگر 90 کی دہائی سے مصر،ترکی، تیونس، الجزائر، اردن اور مراکش میں مذہبی سیاسی حلقے کو سیاسی طور پہ رکاوٹوں کا نشانہ نہ بنایا جاتا تو آج ان ممالک میں زیادہ وسیع الظرف اور جدیدیت پسند سیاسی کلچر دیکھنے کو ملتا۔

اس رائے کی تائید میں نمایاں مثال حماس کی ہے۔ اپنے ابتدائی دور میں یہ جماعت مسلح تحریک کی نمائندگی کرتی تھی، لیکن اس کی موجودہ شکل کافی حد تک تبدیل ہوچکی ہے۔ یہ جماعت 2006ء سے جمہوری سیاست کا حصہ ہے اور اُس وقت سے اس نے مسلح کاروائیوں میں کمی کردی تھی۔ 2017ء میں اس نے دوسری فلسطینی جماعت الفتح کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، اور اس ضمن میں اس نے پہلی بار اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا۔ حماس کی مثال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جمہوری تحرک مذہبی جماعتوں کے اندر جذری تبدیلیاں رونما کرنے کا باعث بنتا ہے۔ وہ اپنے بارے میں یہ تأثر بنانا چاہتی ہیں کہ وہ قدامت پسند یا تشدد کی حامی نہیں ہیں۔ لیکن بیوروکریسی کی مزاحمت ان کے راستے میں حائل ہوتی ہے۔ ان کے بارے میں یہ تأثر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مذہبی عنصر جمہوریت کے لیے حوصلہ افزا یا سازگار نہیں ہوسکتا۔

گنی (Guinea)افریقا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جہاں 2010ء میں پہلی بار جمہوری طریقے سے انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اس ملک کی آبادی کا 85 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے پہلے صدر الفا کوندے تھے۔ انہوں نے منتخب ہونے کے بعد اپنی حکومت کی کارکردگی جانچنے کے لیے خود ہی اپوزیشن کمیٹی تشکیل دی تاکہ سیاسی توازن کو برقرار رکھا جاسکے۔ اس طرح کی مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کو اگر موقع دیا جائے تو وہ زیادہ معتدل اور جمہوریت پسند ثابت ہوتی ہیں۔

کیا مذہبی سیاسی جماعتیں مغرب دشمن ہیں؟

چونکہ ماضی میں کئی مسلم ممالک مغرب کی کالونیاں رہے ہیں اس لیے ان معاشروں میں مغرب کے بارے میں ناخوشگوار تصورات پائے جاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ مغرب غیرمسلم تھا بلکہ اس کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور ان کے ساتھ جانبدارانہ سلوک ہے جو روا رکھا گیا۔ لیکن عموماََ مذہبی عنصر کو زیادہ مغرب دشمن سمجھا جاتا ہے۔ مسلم دنیا کا مذہبی سیاسی حلقہ مغرب دشمن نہیں ہے بلکہ مغرب سے ناراض ہے۔ اس کی وجوہات بھی ٹھوس ہیں۔ مذہبی سیاسی حلقے کی ناراضی کا سبب یہ ہے کہ اس نے ہمیشہ عالم اسلام کے مطلق العنان اشرافیہ کی حمایت کی یا ان کے بارے میں خاموشی اختیار کیے رکھی۔ مغربی طاقتیں آمریتوں او رمطلق العنان اشرافیہ کو مذہبی سیاسی جماعتوں کے اقتدار پر ترجیح دیتے ہیں چاہے مذہبی حلقہ جمہوری راستے سے ہی کیوں نہ آئے۔ یہ ناراضی مجاز ہے کہ مغرب جو اپنے ممالک میں جمہوری اقدار اور مساوی سیاسی حقوق کا تحفظ کرتا ہے مسلم دنیا میں اس کا رویہ اور طرزعمل مختلف ہوتا ہے۔

مذہبی سیاسی طبقے کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی کردار میں دینی تعلیمات سے سہارا لیتا ہے اس لیے وہ سیکولرزم کے خلاف ہے۔ یہ نقطہ نظر بھی محل نظر ہے کیونکہ مذہبی سیاسی طبقہ مذہبی اقدار سے محدود رہنمائی لیتا ہے لیکن سیکولرزم سے اس کے اختلاف کی وجہ مذہبی سے زیادہ سیاسی ہے، اسے ایسے سیکولرزم ورژن سے اختلاف ہے جو مطلق العنان ہو، جو مذہبی نقطہ نظر کو جگہ دینے کا حامی نہیں۔ اس نوع کے سیکولرزم کو مذہبی طبقہ مسترد کرتا ہے جس میں مذہب کو دبانے کا رجحان ہو۔ مذہبی لٹریچر غیر مسلموں یا سیاسی اختلاف رکھنے والوں کے خلاف نہیں ہے۔ اگر معتدل سیاسی سیکولرزم وجود رکھتا ہے تو اس سے مذہبی جماعتوں کو اختلاف نہیں ہوگا، کئی مسلم ممالک میں یہ مثالیں دیکھنے کو ملیں کہ مذہبی سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کے لیے سیکولر حلقے کے ساتھ اتحاد بنائے۔

کیا مذہبی سیاسی جماعتیں دہشت گردی کی حمایت کرتی ہیں؟

ایک اور اعتراض جو کثرت کے ساتھ مذہبی سیاسی جماعتوں پر کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ جماعتیں دہشت گردتنظیموں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ہیں۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کے بارے میں ایسی رائے عامہ مغربی میڈیا کی جانب سے ہموار کی جاتی ہے۔ یہ تصور عام کیا گیا ہے کہ یہ جماعتیں دہشت گرد عناصر کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ اس تصور کے پیچھے ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔ ایسا ان جماعتوں کو سیاسی جمہوری میدان سے دور رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ورنہ اب تک ایسے شواہد سامنے نہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہو کہ مذہبی سیاسی جماعتیں پوشیدہ مقاصد رکھتی ہیں اور پس پردہ دہشت گرد تنظیموں کی کسی بھی نوع کی معاونت کرتی رہی ہوں۔ مغربی میڈیا میں اسلام پسندوں (Islamists) کی اصطلاح کا بلاتفریق استعمال کیا جاتا ہے، اس کے تحت دہشت گردوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے اور یہی اصطلاح مسلم ڈیموکریٹس یا عام مذہبی سیاسی جماعتوں کے لیے بھی استعمال کردی جاتی ہے۔ حالانکہ واقعاتی تناظر میں یہ تمام گروہ ایک جیسے نہیں ہیں۔

اِس وقت پوری دنیا میں بوکوحرام، دولت اسلامیہ، الشہاب اور القاعدہ جیسی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ بھی متعدد مسلح تحریکیں وجود رکھتی ہیں۔ ان سب کی مذہبی تشریحات میں فرق پایا جاتا ہے اور ان کا آپس میں مختلف حوالوں سے نظریاتی اختلاف بھی ہے۔ مسلم دنیا کی مسلح تحریکات میں سے اکثر نائن الیون کے بعد وجود میں آئی ہیں۔ ان کی نظریاتی اساس جو بھی ہو، عالم اسلام کا اکثریتی مذہبی طبقہ ان کی دینی تشریحات سے اختلاف رکھتا ہے، بالخصوص سیاسی جماعتیں ان کے اقدامات کو تسلیم نہیں کرتیں۔ لہذا ان سب کو ایک ہی اصطلاح کے تحت شامل کرتے ہوئے ایک جیسا قرار دینا درست نہیں ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ مسلح تحریکات جنگوں اور انسانی حقوق کی پامالی جیسے عوامل کی پیداوار ہیں نہ کہ اسلام کی۔ ان کی آئیڈیالوجی چاہے جن بنیادوں پر بھی قائم کی گئی ہو لیکن ان کا وجودی محرک مذہب نہیں ہے بلکہ جنگیں اور حقوق کے مسائل ہیں۔