مصنوعی ذہانت اور سرزمینِ شام کا عبقری مہاجر

0

مسلمان شامی مہاجر ٹیکسی ڈرائیور کا بیٹا، کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑی ہوئی، مصطفی سلیمان، موجودہ دور کے سب سے بڑے ٹیکنالوجیکل انقلاب مصنوعی ذہانت کے ماہر  اور اس  سے وجود پذیر رستا خیز کے روحِ رواں سمجھے جاتے ہی۔ لڑکپن سے مصطفی کا ایک دیوانہ سا خواب تھا کہ انسانی ذہانت کا مصنوعی متبادل تلاش کرکے وجود میں لاؤں۔ اسی خواب کو لےکر 2010 کے موسم گرما میں لندن کے رسل سکوائر میں مصطفی نے اولین مصنوعی ذہانت کی کمپنی Deep Mind کی بنیاد رکھی۔ آگ اور بجلی کی دریافت کی طرح یہ انسانی زندگی، تاریخ اور کائنات کے مقدر کو تبدیل کرنے والا ایک قدم تھا۔ آج ارٹیفیشل انٹلی جنس ایک بڑی حقیقت ہے۔ مختلف اداروں سے گزرتے ہوئے گوگل آرٹیفشل انٹلی جنس کے چیف ایگزیکٹیو اور Inflection کے سربراہ بنے، اور آج بطور Big Tech World Leader ایک نمایاں نام اور شناخت کے مالک ہیں۔

امور کائنات چلانے والا ٹولہ مصطفی کے خیالات اور استعداد پر ششدر اور کسی قدر ان سے خوفزدہ ہیں۔ ایم ائی 6 /5 ، سی ائی اے، ایف بی ائی اے، موساد، شین بیت و امن سمیت دنیا کے اکثر خفیہ ادارے ،سول سوسائٹی ، اطلاعات و اخباراتی ادارے لاکھوں ڈالرز پیش کرکے مصطفی کو اعلی سطح کے کلوزڈ دورز لیکچرز کیلئے مدعو کرتے ہیں۔ پیدائشی طور پر مسلمان ہونے کے باجود مصطفی کے مذہبی معاملات متنازعہ ہیں۔ ایک گروہ اس کو کٹر ملحد کہتاہے۔ مذہبی عناصر کہتے ہیں کہ پینٹاگون کی اعلی قیادت کو حالیہ ایک بریفنگ کے دوران نماز عصر کیلئے مصطفی کے موبائل سے اذان کی آواز آنی شروع ہوئی تو یہ کہتے ہوئے گفتگو منقطع کی کہ ’نماز عصر کا وقت کوتاہ ہوتا ہے مجھے نماز پڑھنے دیں‘ اور نماز پڑھ کر آئے۔ امریکی جنرل اور سنٹ کام کے ارباب منتظر رہے۔

سائنسی تخلیق والے اذہان کی اکثریت مذہبی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام نوبل پرائز کے لیے جا رہے تھے تو جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کے لباس کے حصول کے لیے ان کے خاندان سے درخواست کی۔انٹر نیٹ پر ان کی نوبل پرائز وصولی کی تصاویر موجود ہیں ۔ مرزا بشیر کا لباس پہنا ہوا ہے۔ ڈاکٹر سلام عقیدہ رکھتے تھے کہ انہوں نے ایک بار مرزا بشیر الدین محمود کی کھونٹی کو بوسہ دیا تھا اور اسی کی برکت و بدلے سے ان کو نوبل ملا۔ ڈاکٹر صاب نے نوبل آمدنی کی ایک معتد بہ رقم چندہ دے کر ربوہ کے بہشتی مقبرہ میں احمدی خلیفہ مرزا ناصر احمد وغیرہم کے قبروں کے ساتھ اپنی قبر کے لیے جگہ خریدی تھی جہاں آج ان کی سفید چوناشدہ قبر موجود ہے۔

حسب روایت امریکی اسٹبلشمنٹ ، سلی کان ویلی اور کیلی فورنیا مافیا مصطفی کو بڑی پھرتی و چابکدستی کیساتھ لندن سے امریکا منتقل کرگئے۔ اور آج کل زرکر برگ کے توڑ مانے جاتے ہیں۔ امید ہے کہ جس رفتار سے جا رہا ہے چند سالوں میں تن تنہا اخری چوٹی پر نظر آئے گا۔

سائنس و فلسفہ اور جدید سماجی و سائنسی مظاہر پر لکھنے والے ماہرین و مفکرین کو تجسس و جستجو تھی کہ مصطفی اپنی اختراعات کی پیچیدگیوں، اسرار و رموز اور عالمی افق پر منڈلاتے ہوئے اس کے فوائد و خطرات پر خامہ فرسائی و لب کشائی کرے۔ حکومتیں ، ادارے ، مفکر اس تجسس میں ہیں کہ قومی ریاستوں ، جمہوری اداروں اور آمریتوں کے ساتھ ارٹیفشل انٹلی جنس کا عفریت کیا کرنے والا ہے۔ طاقت کا سٹرکچر، جنگ ، جاسوسی، انسانوں رشتوں اور انفرادی و اجتماعی زندگی پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ کیا جدید ٹیکنالوجی کے آوارہ و سرپٹ گھوڑے کو انسان کنٹرول کرے سکے گا ، یا انسان سدھ بدھ گم کرکے بے حس وبے رحم آرٹیفشل انٹلی جنس سے شکست خوردہ و گھائل ہوکر خود اس کے قابو میں آجائے گا۔

متعلقہ امور کے بین الاقوامی ماہرین کی رائے تھی کہ مصطفی سے بہتر اس پر کوئی نہ لکھ سکتا ہے، نہ بول سکتا ہے کیونکہ مصطفی صاحب البیت ہے اور صاحب البیت ادری بما فیہ۔ محرم درون خانہ ہی رازہائے اندرون کی توضیح کا مجاز ہے۔ اس تجسس اور دنیا کے عبقری شخصیات کے ان مطالبات و فرمائشوں کا نتیجہ مصطفی کی پہلی کتاب The Coming Wave کی شکل میں دو ماہ قبل منظر عام پر آیا۔کتاب کے مقدمہ میں صفحہ 9 پر مصطفی کا دعوی ہے کہ آئندہ تین سالوں میں اسکی مصنوعی ذہانت ترقی کرکے

reach human level performance across a very wide range of of tasks….

یعنی ستمبر دوہزار چھبیس میں مصنوعی ذہانت کا انقلاب کائنات کو منقلب کر چکا ہوگا!

مارکیٹ میں آنے سے قبل اس کتاب کے کاپیاں بک کرنے والوں میں امریکی صدر اوبامہ، سابق وائس ہریذیڈنٹ الگور، برطانوی سیاسی پنڈت ڈیوڈ ملی بینڈ ، پروفیسر یوال نوح حراری، نوبل لارئیٹ اور تھنکنگ فاسٹ اینڈ سلو کے مصنف ڈنئیل کاہن مین ( الگور، ملی بینڈ ، حراری اور کاہن نے اس پر تقریظ بھی لکھی ہے)فلاسفر سٹیون پنکر شامل ہیں۔ کتاب کی اولین ہفتہ فائننشل ٹائمز نے بہترین کتاب کے ایوراڈ کیلئے منتخب کیا اور انعامات کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

پتہ نہیں قدرت نے Levant،یعنی شام و لبنان کے اس خطے میں کیا رکھا ہے۔ یہاں کے خانہ جنگی سے دربدر لوگوں میں ہر نیا عبقری دوسرے سے بڑھ کر ہے۔آپ ان کاذرا موازنہ کریں اس پانچ ہزارسالہ تاریخ رکھنے کی مدعی قوم سے جو شامی و لبنانی مہاجرین سے قبل یورپ و امریکا میں منتقل ہوئے،اوراب تک یہی رونا رو رہے ہیں کہ خانہ جنگی نے برباد کیا ورنہ افغان تو عطارد و زحل پر خلائی سٹیشن قائم کرتے۔ یہ باتوں ، دعووں اور بیک وقت ’یک من آٹا اور ایک خم سبز چائے‘ کے شیر یورپ و امریکا میں دوسری تیسری نسل تک کوئی ادنی سطح کی اور کم ترین امتیازی درجے کی ذہانت دنیا کے سٹیج پر متعارف نہ کراسکے۔ پاکستان میں شور مچانے والے گروہ کو شاید مسلمان لفظ سے ان کی مزعومہ روشن خیالی کی وجہ سے بیر ہے، اسی لئے مصطفی کویہاں کماحقہ پذیرائی نہیں مل رہی ۔ مصطفی کے ماتھے پر سیندور ہوتا تو شاید آج ان کی تصاویر ’لبرل ڈی پیز‘ کی زینت ہوتیں۔ پاکستانی مسلمانوں میں وہ اس لئے پذیرائی نہ پاسکے کہ وہ مذہب کو انفرادی دائرے تک رکھتا ہے اور جہاد و تکفیر کے مسائل میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

کیبک امیگریشن کے توسط سے ہماری ریزروڈ کاپی مہینہ قبل مل چکی تھی لیکن آنکھوں کی سرجری سے مطالعہ کچھ موخر ہوا تھا۔نوجوان قارئین مصطفی سلیمان کا اولین فرصت میں مطالعہ فرض عین سمجھیں! اور جدید ٹیکنالوجیکل کلچر بارے کتاب ھذا میں استعمال کی گئی اصطلاحات اور جدید تصورات کے فہم و ادراک کی سعی کریں۔