مذہبی آزادی، ارتداد اور تبدیلیِ مذہب

ہاشم کمالی

0

ہاشم کمالی افغان نژاد مفکر ہیں اور ملائیشیا میں مقیم ہیں۔ انہوں نے بیس برس سے زائد عرصے تک ملائیشیا کی ’بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی‘ میں شعبہ علوم اسلامیہ میں بطور پروفیسر خدمات انجام دیں۔ ان کا شمار انگریزی زبان میں شریعت اسلامیہ پر لکھنے والوں میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مصنفین میں ہوتا ہے۔زیرنظر مضمون میں انہوں نے مذہبی آزادی کی اسلامی عصری تفہیم سے جڑی چند جہات پر کلام کیا ہے کہ کس طرح انسانی شرف اور وقار کو دین اسلام میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کے ضمن میں انہوں نے ارتداد کے مسئلے پر روشنی ڈالی ہے کہ اسلامی فقہی لٹریچر میں اس کی سزا کا تاریخی پس منظر کیا رہا ہے، اور عصرحاضر میں اس تصور کی کیا توجیہات ممکن ہیں۔اس حوالے سے انہوں نے ایک متعلقہ حدیث مبارکہ کی تشریحات پر بھی آراء پیش کی ہیں۔ اور آخر میں ملائیشیا میں ارتداد کے قانونی ڈھانچے پر تجزیہ بھی پیش کیا ہے جو دیگر مسلم ممالک کے لیے استفادے کا باعث ہوسکتا ہے۔ یہ مضمون ’مذہبی آزادی کا اسلامی مقدمہ‘ کے عنوان کے تحت2019ء میں جکارتہ میں منعقد ہونے والی ساتویں ’اسلام اینڈ لبرٹی کانفرنس‘ میں پیش کیا گیا اور انگریزی کتاب ’اسلام میں مذہبی آزادی کا مقدمہ‘ میں شامل ہے۔

مذہبی آزادی: تعریف اور نمایاں خصوصیات

مذہبی آزادی ایک ایسا اصول ہے جو فرد یا کمیونٹی کے لیے نجی اور عوامی مقامات پر اپنے مذہب یا عقیدے کو ظاہر کرنے کی حمایت کرتا ہے جس کے تحت اس مذہب کی تعلیم، اس پر عمل، عبادت، اور اس کا کھلا اظہار کرسکتے ہیں، اور اسی کے تحت میں مذہب یا عقیدہ تبدیل کرنے کی آزادی بھی شامل ہے۔

مذہبی آزادی کی سب سے مؤثر اور عمدہ تعریفات میں سے ایک انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ (1948) کے آرٹیکل 8 میں دی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ:

ہر فرد کو فکر، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق ہے۔ اس حق میں اپنے مذہب یا عقیدے کو تبدیل کرنے کی آزادی بھی شامل ہے، اور ساتھ ہی کوئی بھی فرد  یا کمیونٹی نجی اور عوامی مقامات پر اپنے مذہب یا عقیدے کو ظاہر کرسکتے ہیں، اس حق کے تحت مذہب کی تعلیم، اس پر عمل، عبادت، اور اس کا کھلا اظہار بھی شامل ہیں۔

مذہب یا عقیدے کی آزادی کو 1976 کے شہری و سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت، مذہبی آزادی کے دو اجزاء ہیں: (۱) مذہب یا عقیدہ رکھنے یا نہ کرنے کی آزادی؛ اور (۲) اپنے مذہب یا عقیدے کو ظاہر کرنے کی مکمل آزادی، انفرادی سطح پر بھی اجتماعی سطح پر بھی، اس آزادی میں مذہب کی تعلیم، اس پر عمل، عبادت اور اس کا اظہار بھی حصہ ہے۔[1]

مذہب کی آزادی ایک بنیادی انسانی حق ہے، جو اکثر دوسرے بنیادی حقوق اور آزادیوں کے احترام کے معاملے میں ایک پیمانے کے طور پر کام کرتا ہے۔ مذہبی رواداری کو بھی بجا طور پر تکثیری اور متنوع معاشروں میں برداشت کا نمونہ سمجھا جاتا ہے، تاہم مشاہدہ یہ کیا گیا ہے کہ مذہبی آزادی کے نظریات اور عملی اطلاق کے درمیان اکثر ایک خلیج پائی جاتی ہے۔ برطانوی فلسفی جان اسٹیورٹ مل کا یہ تبصرہ مشہور ہے کہ جس چیز کی لوگ زیادہ پرواہ کرتے ہیں یا اس میں حساسیت دکھاتے ہیں، اس چیز میں عدم رواداری انسانوں میں عام بات ہوتی ہے، اس حد تک کہ مذہبی آزادی کو عملی طور پہ اس وقت تک یقینی نہیں بنایا جاسکتا جب تک کہ مذہبی بے حسی کے آثار نمودار نہ ہوں۔ جب بھی سماج میں اکثریت کے جذبات حقیقی اور شدید ہوتے ہیں تو مذہبی رواداری کو خطرہ لاحق رہتا ہے[2]۔

ایک مذہبی ریاست کا تشخص رکھنے والے ملک میں، مذہبی آزادی کا عام طور پر یہ مطلب سمجھا جاتا ہے کہ حکومت ریاستی مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب پر عمل کرنے کی پوری اجازت دیتی ہے اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر کوئی جبر نہیں کرتی۔ عقیدہ کی آزادی قابل احترام ہے کیونکہ یہ اس حق کو ماننے کی اجازت دیتی ہے کہ کوئی شخص یا گروہ کس مذہب یا عقیدے کو اپنانا چاہتا ہے۔ لیکن عموما مذہبی ریاست میں عوامی سطح پر اور کھلے عام دیگر مذاہب و عقائد پر عمل کرنا ذرا دشوار ہوتا ہے۔[3]

کثیر الثقافتی اور تکثیری معاشروں میں شہری امن اور خوشحالی کے لیے مذہبی آزادی ایک ناگزیر شے ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مذہبی آزادی کے اشاریوں سے دیگر سماجی آزادیوں کے احترام، حکومتوں کی ذمہ دارانہ رویوں اور ترقی یافتہ شہری معاشروں کی حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جبکہ مذہبی آزادی سے انکار کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ دیگر شہری اور سیاسی حقوق کے حوالے سے بھی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ مذہب یا عقیدے کی آزادی کو انسانی حقوق کی فراہمی میں ایک پیمانے کے طور پہ دیکھا جاتا ہے، جہاں مذہبی آزادی پر حملہ ہوتا ہے، اکثر وہاں دیگر بنیادی حقوق کو بھی خطرات لاحق ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہبی آزادی کا اظہارِ رائے اور اجتماع کی آزادی کے سمیت دیگر انسانی حقوق اور آزادیوں کے ساتھ گہرا ربط ہوتا ہے۔

مذہبی آزادی اخلاقی آزادی کی بنیاد ہے۔ اسے نہ صرف جبر سے استثنیٰ کے طور پر بلکہ اس سے بھی زیادہ، ایک سچائی کی حیثیت میں پرکھا جاتا ہے۔ جبر کے ذریعے سچائی کے وجود کو باقی نہیں رکھا جاسکتا۔ جیساکہ علامہ محمد اقبال کا کہنا ہے کہ ایک ایسا فرد جس کی حرکات و سکنات مکمل طور پر ایک مشین کی طرح متعین کردی جائیں، وہ نیکی کو جنم نہیں دے سکتا۔ گویا آزادی نیکی کے جنم اور اس کے فروغ کے لیے لازمی شرط ہے۔ خدائے بزرگ و برتر نے انسانوں پر جو بے پناہ بھروسے کا اظہار کیا ہے، اس میں بھی نظر آتا ہے کہ انسان زمین پر بطور نائب امانت کے بوجھ کو آزادی کے بغیر نہیں اٹھاسکتا۔ اقبال کا تصور ہے کہ قدامت پسندی مذہب میں بھی اتنی ہی بری ہے جتنی کہ انسانی سرگرمیوں کے کسی بھی دوسرے شعبے میں۔ اس لیے کہ یہ فرد کی کی تخلیقی آزادی کو ختم کر دیتی ہے اور ایک تازہ روحانی تجربے کی راہیں مسدود کردیتی ہے۔ انسانی شخصیت کی نشوونما کے لیے مذہب کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ایک غیرصحت مند مسابقتی معاشرے پر غلبہ پانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی غیربوجھل ذات اور اپنے مستقبل کی ایک نئی صبح کی جانب میلان رکھے۔ ایک تہذیب اپنی تشکیل کردہ مخصوص مذہبی و سیاسی اقدار پر مبنی اپنے داخلی طرزِعمل کی وجہ سے اپنی روحانی وحدت کھو چکی ہے۔ اقدار کے حقیقی تصور کو دوبارہ اجاگر کرنے اور اپنی ذات کی قوتوں کو ازسرِنو مربوط کرنے کے لیے بلاشبہ مذہب ایک ناقابل تردید اصول ہے۔ تاہم جبر کے تحت کسی صحت مند قدر کا احیاء ممکن نہیں ہے۔ فرد کی داخلی ثمرآور جبلتوں کو تقویت دینے کے لیے مذہبی آزادی ضروری ہے۔ آج تمام بڑے مذاہب کے رہنماؤں اور پیروکاروں کی بھاری اکثریت مذہبی آزادی کی بھرپور حمایت کرتی ہے کہ جس میں فرد کو یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ کسی بھی دینی روایت کے ساتھ اپنا ربط قائم کرے یا نہ کرے۔

ایسے وقت میں جب دنیا بھر کے ممالک اور معاشروں میں انسانی وقار کو مختلف شکلوں میں پامال کیا جا رہا ہے -اکثر مذہب کے نام پر- تو یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ وقار اور آزادی کی بنیادی اقدار پر دوبارہ زور دیا جائے۔ تمام مذاہب انسانوں کو بنیادی طور پر مساوی تسلیم کرتے ہیں، چاہے ان کا تصورِ انسان کوئی بھی ہو۔

انسانی وقار اور آزادی

مذہبی آزادی اور دیگر تمام بنیادی آزادیوں کا احترام، انسانی وقار کا حصہ اور ایک بنیادی اصول ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نسل، رتبے، رنگ یا کسی بھی دوسرے پس منظر سے قطع نظر، تمام انسان وقار اور احترام کی بنیادی سطح کے حقدار ہیں۔

مذہبی آزادی دراصل اس بات کا اظہار ہوتی ہے کہ کسی انسان کا انفرادی پہلو کونسا ہے۔ اس سے فرد کی شناخت اور مقصدِ زندگی پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اس آزادی کو مسترد کرنا یا اپنی مرضی سے اسے محدود کرنے کا مطلب انسان کی تخریبی ذہنیت کو فروغ دینا ہے۔ جنونیت، بنیاد پرستی اور انسانی وقار کے منافی طرز عمل کو کبھی بھی جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

مذاہب کے تمام مقدس صحائف انسانی وقار کی گہری قدر کو آشکار کرتے ہیں۔ اس وقار کو مادیت سے بلند ہونے اور سچائی کو تلاش کی صلاحیت کے طور پر جانا جاتا ہے، اسے ایک آفاقی بھلائی کے طور پر بھی تسلیم کیا جانا چاہیے، جو انسانیت کی تکمیل اور ایک ہدایت یافتہ معاشرے کی تعمیر کے لیے ناگزیر چیز ہے۔ قرآن کریم میں بلاتفریق تمام انسانوں کے لیے وقار و احترام کی بات کی گئی ہے:

’’اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی ہے اور خشکی اور دریا میں اسے سوار کیا اور ہم نے انہیں ستھری چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں فضیلت عطا کی۔[4]‘‘

انسانی احترام کے تناظر میں قرآن کریم کی یہ آیت اکلوتی نہیں ہے، انسانی عظمت کے بہت سے مظاہر قرآن میں دوسری جگہوں پر بھی پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر بنی نوع انسان کی تخلیق اور اس کی جسمانی تصویر کے حوالے سے، قرآن کی ایک آیت بتاتی ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کو “بہترین شکل میں” پیدا کیا:

’’لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِىٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ‘‘[5] (ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا)

ایک اور جگہ فرمایا:

’’صَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ‘‘۔[6] (تمہاری صورت بنائی اور بہترین صورت عطا کی)

ایسے ہی فرمایا:

’’وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي‘‘[7] (اور میں نے اس میں اپنی روح پھونکی)

اس کے بعد، انسانوں کو زمین پر خدا کے امانت دار اور نائب کے طور پر نامزد کرنا، اور ساتھ ہی ایسے دوسرے اعلانات کہ خدا نے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اسے انسانوں کے فائدے کے لئے مسخر کر دیا ہے، وغیرہ،  یہ سب دلالت کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں انسانی وقار و عظمت کو تسلیم کیا گیا ہے۔

مفسرقرآن علامہ آلوسی نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ “ہر انسان اور نسل انسانی کے تمام افراد بشمول متقی اور گنہگار، وقار، عزت اور احترام کے حقدار ہیں جسے نہ چھینا جا سکتا ہے اور نہ ہی جھٹلایا جا سکتا ہے۔”[8] ایک سوال جو بہت سے مفسرین نے اٹھایا ہے وہ یہ ہے کہ انسانی وقار و عظمت کا معیار یا اس کی بنیاد کیا ہے۔ جسمانی خوبصورتی ہے، روحانی عظمت، ذاتی صفات، یا معاشرے میں حیثیت ایک معیار ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابن عباسؓ، جو ترجمان القرآن کے نام سے مشہور تھے، کے مطابق، خدائے بزرگ و برتر نے انسان کو عقل و فہم سے نوازا ہے، جو اس کی عظمت کا واحد معیار ہے۔ اس طرح یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ہر انسان کو پیدائش کے وقت سے ہی اسی بنیاد پر احترام کا حق حاصل ہے اور یہ گویا ہر ایک کا فطری حق ہے۔ اور چونکہ یہ خدا کا دیا ہوا ہے، اس لیے کوئی انسان اس سے انکار نہیں کرسکتا۔

اسلامی تعلیمات میں مذہبی آزادی کا اصو مسلمہ ہے جس میں دیگر مذاہب کے ساتھ بقائے باہمی کو بھی تسلیم کیا گیا ہے اور نصوص میں متعدد مقامات پر لوگوں کی یہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ جس مذہب کو قبول کرنا چاہتے ہیں کرسکتے ہیں، مثال کے طور پہ:

’’لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡن‘‘[9] (تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین ہے۔)

’’فَمَنْ شَآءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآءَ فَلْيَكْـفُر‘‘۔[10] (جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے)

’’لَآ اِكْـرَاهَ فِى الدِّيْنِ‘‘۔[11] (دین میں کوئی جبر نہیں۔)

’’اِنَّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا ثُـمَّ كَفَرُوْا ثُـمَّ اٰمَنُـوْا ثُـمَّ كَفَرُوْا ثُـمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللّـٰهُ لِيَغْفِرَ لَـهُـمْ وَلَا لِيَـهْدِيَـهُـمْ سَبِيْلًا‘‘۔[12]

(بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے پھر کفر کیا پھر ایمان لائے پھر کفر کیا پھر کفر میں بڑھتے رہے تو اللہ ان کو ہرگز نہیں بخشے گا اور نہ انہیں راہ دکھائے گا۔)

’’وَلَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِى الْاَرْضِ كُلُّهُـمْ جَـمِيْعًا ۚ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّـٰى يَكُـوْنُـوْا مُؤْمِنِيْنَ‘‘۔[13]

(اور اگر تیرا رب چاہتا تو جتنے لوگ زمین میں ہیں سب کے سب ایمان لے آتے، پھر کیا تو لوگوں پر زبردستی کرے گا کہ وہ ایمان لے آئیں۔)

قرآن کریم مزید اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالی پر ایمان ایک انفرادی معاملہ ہے اور ہر فرد اپنے انتخاب کا ذمہ دار ہے:

’’مَّنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا يَـهْتَدِىْ لِنَفْسِهٖ ۖ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْـهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّـٰى نَبْعَثَ رَسُوْلً‘‘۔[14]

(جو سیدھے راستے پر چلا تو اپنے ہی لیے چلا، اور جو بھٹک گیا تو بھٹکنے کا نقصان بھی وہی اٹھائے گا، اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور ہم سزا نہیں دیتے جب تک کسی رسول کو نہیں بھیج لیتے۔)

یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ قرآن کریم تصادم کی بجائے بین المذاہب مکالمے کی ترغیب دیتا ہے، مثال کے طور پر ایک جگہ فرمایا گیا:

’’ قُلْ يَآ اَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّـٰهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْئًا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّـٰهِ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ‘‘[15]

(کہہ اے اہلِ کتاب! ایک بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ سوائے اللہ کے اور کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور سوائے اللہ کے کوئی کسی کو رب نہ بنائے، پس اگر وہ پھر جائیں تو کہہ دو گواہ رہو کہ ہم تو فرمانبردار ہونے والے ہیں۔)

مجموعی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے بھی مذہبی عقیدے اور عمل میں انتخاب کی آزادی کو برقرار رکھا۔ مکہ اور مدینہ میں نبی کریمﷺ نے دیگر مذہبی برادریوں کے ساتھ بہت زیادہ رواداری کا مظاہرہ کیا۔ انہیں اپنے مذاہب کو ظاہر کرنے اور ان پر عمل کرنے اور یہاں تک کہ اپنی زندگیوں کو اپنے مذہبی اصولوں اور اقدار کے مطابق چلانے کی اجازت دی گئی۔ مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ وہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ بدسلوکی نہ کریں، نہ انہیں بربھلا کہیں۔ ایک موقع پر جب نبی کریمﷺ کچھ غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ نہ کر سکے، تو قرآن نے آپﷺ کو حکم دیا کہ وہ ان سے یہ کہیں:

’تمہارے لیے تمہارا دین اور مرے لیے میرا دین۔‘

رواداری کے اسی اصول کو نبی کریمﷺ نے “مدینہ کے آئین” میں شامل کیا، جو کہ مختلف قبائل اور مذہبی گروہوں کے درمیان پرامن تعلقات قائم کرنے کے لیے وضع کیا گیا تھا۔ اس دستاویز کی ایک شِق میں کہا گیا ہے کہ: “بنو عوف کے یہودی دیگر اکائیوں کے ساتھ ایک اُمت (قوم) ہیں۔ یہودیوں کے لیے ان کا دین اور مسلمانوں کے لیے ان کا مذہب۔[16]

یہ تو آنحضرتﷺ کا مجموعی طرزعمل ہے۔ البتہ ایک حدیث آپﷺ سے مروی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ:

’’من بدَّل دينه فاقتلوه‘‘[17] (جس نے اپنا مذہب تبدیل کیا اسے قتل کر دو۔)

بدقسمتی سے اس حدیث کو سیاق و سباق سے ہٹ کر عام کیا گیا ہے۔ تاریخی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ موت کی سزا چند مخصوص افراد کو دی گئی جنہوں نے اسلام ترک کر دیا تھا۔ ان کی سزائے موت واضح طور پر اسلام ترک کرنے کے علاوہ دیگر وجوہات کی بنا پر تھی۔

زیرنظر حدیث ایک عام عبارت ہے جس کا اطلاق ممکنہ طور پہ کئی جہات پر ہوسکتا ہے، اس میں چونکہ عمومیت ہے ایسے کیسز بھی شامل ہوسکتے ہیں جو یقینی طور پہ مراد نہیں سکتے، جیسے کہ اگر کوئی ہندو اپنا مذہب تبدیل کرکے اسلام قبول کرلے۔ ظاہر ہے حدیث کا مقصود یہ نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح حدیث کے اطلاق کا دائرہ اس صورت میں بھی محدود ہوجاتا ہے کہ جب کوئی شخص جبرا اسلام کو ترک کرے مگر دل سے وہ مسلمان ہی ہو۔[18]

مزید یہ کہ احناف کے نزدیک مرتد عورت کی سزا موت نہیں بلکہ قید ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیر نظر حدیث میں مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، جو عورتوں پر اس کے اطلاق کے بارے شک کے عنصر کو جنم دیتا ہے، اور جب کسی حکم میں شبہ موجود ہو تو سزا معطل کردی جاتی ہے۔ اندلس کے نامور فقیہ ابراہیم الشاطبی نے اس حدیث کی تشریح میں یہ نکتہ شامل کیا ہے کہ حدیث میں کسی مذہب کو تبدیل کرنے کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ اگر اگر کوئی شخص دین کے اندر اس کی قطعی تعلیمات کو تبدیل کردے تو اسے قتل کیا جائے۔ امام شاطبی نے حدیث کی ظاہر ی مراد کی صورت میں یہ کہا ہے کہ کسی کو صرف اسی صورت میں مرتد قرار دیا جا سکتا ہے جب وہ بغیر کسی مجبوری یا جبر کے ایسا اقدام کرے، اور اگر وہ ارتداد کی نسبت اپنی طرف کرنے سے انکار کرے تو اس پر ارتداد کا حکم جاری نہیں ہوگا۔[19]

اصول فقہ کے قواعد کے مطابق، جب کسی نص میں احتمالات آجائیں تو وہ خود بخود قطعی کے درجے سے گھٹ کر ظنی بن جاتی ہے۔ اسی طرح زیر نظر حدیث میں سزائے موت صرف ایسے ارتداد کے ساتھ مخصوص ہے جس میں جنگ (حِرابہ) بھی شامل ہو۔ اس مفہوم کی تائید میں ایک اور حدیث میں ملتی ہے، جو درج ذیل ہے:

’’لا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث: الثَّيِّبُ الزاني، والنفسُ بالنفس، والتاركُ لدينه المفارقُ للجماعة‘‘۔[20]

(کسی مسلمان کا خون حلال نہیں، مگر تین میں سے کسی ایک صورت میں حلال ہے: یہ کہ وہ شادی شدہ زانی ہو، قتل کے بدلے میں اسے قتل کیا جائے اور وہ جو اپنے دین کو ترک کر کے مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جائے۔)

اسلام کے ابتدائی زمانے میں خلافت راشدہ کے بعد مسلمان فقہاء نے مذہبی زندگی کو چلانے کے لیے اصولوں کا ایک مجموعہ تیار کیا۔ مجموعی طور پر، انہوں نے مذہبی آزادی پر بہت سی پابندیاں لگائیں اور ان کی خلاف ورزی کرنے پر سزائیں مقرر کیں۔ ان فقہا کا بنیادی مقصد مذہب کی درست روح کا تحفظ کرنا اور مذہبی امور میں ارتداد، توہین رسالت، بدعت اور منافقت کے جیسے امور کی روک تھام تھا۔ تاہم، پہلے اس سیاق و سباق کو سمجھنا بھی ضروری ہے جس میں یہ اصول وضع کیے گئے اور ان کا پرچار کیا گیا۔

اموی اور ابتدائی عباسی ادوار میں (8ویں سے 10ویں صدی عیسوی) کے دوران اسلام تیزی سے پھیل رہا تھا۔ تب مسلمان نئی نئی سیاسی طاقت کا تجربہ کر رہے تھے اور زیادہ سے زیادہ غیر مسلموں کی زمینوں اور برادریوں کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا رہے تھے۔ جزوی طور پر اس توسع کے بعد کچھ مسائل جنم لے رہے تھے اور مسلم فقہاء یہ سوچ رہے تھے کہ کس طرح اپنی حکمرانی کو مضبوط کیا جائے اور کثیر الثقافتی اور کثیر الاعتقادی معاشروں میں لوگ کس طرح زیادہ سے زیادہ اسلام کے ساتھ جڑے رہیں۔ یوں فقہ میں ایک موقف ترتیب پا گیا۔ پھر جب دوسری تیسری صدی ہجری میں نئی نسل پروان چڑھی تو انہوں نے راسخ العقیدگی پر زور دینا شروع کردیا اور اس فکر کو تقویت دے کر دیگر عقائد و نظریات کو انحراف یا یدعت کہنا شروع کردیا گیا۔ تاہم یہاں پر سوال یہ ہے کہ کیا ایک خاص ماحول کے نتیجے میں پروان چڑھنے والی آراء قرآن اور اسلام کی اصل روح کے عین مطابق ہیں یا نہیں؟

مذہبی آزادی کے حوالے سے بڑے مذاہب کا نقطہ نظر: ایک تاریخی خاکہ

اکثر مذہبی روایات میں اس تصور کو قبول کیا گیا ہے کہ مذہبی آزادی تمام انسانوں کا بنیادی حق ہونا چاہیے، خصوصا مذہب کو تبدیل کرنے کے معاملے میں کہ جب ایک مذہب کا پیروکار اپنے مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کو اختیار کرتا ہے، تو اس اقدام پر رواداری کا مظاہرہ ہونا چاہیے۔ اگرچہ مذہبی تبدیلی، یا ارتداد کے خلاف قوانین بھی ابھی تک غالب توحید پرست مذاہب میں موجود ہیں، چاہے مسیحیت ہو، یہودیت ہو یا اسلام (اسلام میں یہ تصور قرآن کا نہیں، بلکہ حدیث اور فقہ میں موجود ہے۔) ماضی میں بہت سے لوگوں کو اپنا مذہب تبدیل کرنے یا کسی خاص مذہب کو قبول نہ کرنے پر موت کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ مثلاً چودھویں اور پندرہویں صدی عیسوی میں اسپین میں کثیر تعداد میں مسلمان اور یہودی افراد کو کافر اور مذہب دشمن قرار دے کر کے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔[21]

جیسا کہ برکلے سوئڈلر نے لکھا ہے کہ چوتھی صدی عیسوی کے اوائل میں بادشاہ قسطنطین کے اقتدار سے پہلے تک مسیحی مفکرین اور مصنفین کے ہاں مذہبی آزادی کا تصور راسخ رہا، لیکن اس کے بعد جب مسیحیت کو ریاستی مذہب قرار دیدیا گیا تو پھر ایسا نہیں رہا۔ سوئڈلر کی رائے ہے کہ مذہب کو ریاست سے الگ کرنا انسانی تاریخ کا سب سے مؤثر اور نمایاں ترین اقدام ہے۔ پہلے مذہب ہی وہ ساری اخلاقی بنیادیں فراہم کرتا تھا جس پر ریاست اور قانون کی عمارت استوار ہوتی تھی۔ مذہب وریاست کے مابین یہ رشتہ بہت زیادہ قریبی تھا۔ مذہبی آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے ایک غیر جانبدار ریاست کا ظہور پہلی بار جدید مغربی تاریخ میں ہوا، خاص طور پر 1789ء کے امریکی دستور میں کہ جس کے بعد مذہبی آزادی کے تصور کو آئینی درجے تک پہنچا دیا گیا۔

قرونِ وسطی کے دوران کہ جب رومی سلطنت کے مغربی نصف حصے مسیحیت کو عروج حاصل ہوا تو اس وقت وہاں تقریباً سبھی لوگ مسیحیت اختیار کرچکے تھے۔ زیادہ تر رومن کیتھولک یورپی ریاستوں نے بھی قرون وسطی کے دوران مذہبی آزادی پر سخت پابندیاں عائد کیے رکھیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ قابل ذکر واقعہ یہ تھا کہ 1492ء میں اسپین سے تمام یہودیوں کو نکال دیا گیا۔ جو لوگ اسپین باقی رہے اور مسیحیت قبول کرلی ان پہ خفیہ طور پر یہودیت پر عمل کرنے کا الزام لگایا گیا اور انہیں مقدمات کا سامنا رہا۔ ان پر ظلم و ستم کے باوجود، یہودی یورپ میں بسنے والا سب سے بڑا غیرمسیحی مذہب تھا۔

1492ء میں اسپین کے شہر غرناطہ کے سقوط کے بعد، معاہدے کے تحت مسلم آبادی کے ساتھ مذہبی آزادی کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن یہ وعدہ وفا نہیں ہوا۔ 1501ء میں غرناطہ کے مسلمانوں کو کہا گیا کہ یا تو وہ مسیحیت اختیار کریں یا ہجرت کرجائیں۔ اکثریت نے مذہب تبدیل کرنے کا اعلان کیا، لیکن صرف ظاہری طور پر، انہوں نے پہلے جیسا لباس پہننا اور وہی زبان بولنا جاری رکھا، اور خفیہ طور پر اسلام پر عمل کرتے رہے۔ مولدین (Moriscos) یعنی وہ مسلمان جنہیں نے مسیحیت اختیار کی تھی، انہیں بالآخر بادشاہ فلپ ثالث کے ایک حکمنامے کے تحت 1614ء میں اسپین سے نکال دیا گیا۔[22]

اس میں شک نہیں کہ نہ تو مغرب اور نہ ہی اسلامی دنیا کے پاس کوئی واضح فارمولا ہے کہ کس طرح مذہبی آزادی کو مکمل طور پہ یقینی بنایا جائے اور ایسے ہی مذہب و ریاست کے درمیان تعلق کو کس طرح ایک ٹھوس اور قابل قبول شکل دی جائے۔ تاہم، تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو مسلم ممالک نے غیر مسلموں کے ساتھ نسبتاً بہتر سلوک کیا۔ مسلمانوں کے درمیان رہنے والے غیر مسلم اپنے عقیدے پر عمل کرنے میں آزاد تھے۔ مذہبی تکثیریت موجود تھی، اور عیسائیت، یہودیت اور ہندومت سمیت دیگر مذاہب کے مذہبی قوانین اور عدالتوں کو اسلامی قانونی فریم ورک کے اندر جگہ دی گئی تھی۔ خلافت کے ابتدائی مراحل، اندلس، برصغیر پاک و ہند اور عثمانی سلطنت میں یہ چیزیں نمایاں طور پہ دیکھی جاسکتی ہیں۔ قرون وسطی کے اسلامی معاشروں میں، قاضی عام طور پر غیر مسلموں کے دینی و سماجی آداب میں مداخلت نہیں کر سکتا تھا جب تک کہ وہ رضاکارانہ طور پر اسلامی قانون کے مطابق فیصلہ کرانے کا انتخاب نہ کرتے۔ اس طرح اسلامی ریاستوں میں رہنے والی غیر مسلم کمیونٹیز کے پاس عام طور پر شریعت سے آزادانہ طور پر اپنے قوانین ہوتے تھے جن کے مطابق وہ فیصلے کرتے، جیساکہ یہودیوں کے پاس ’ہلاخاہ‘ کے نام سے قوانین اور رسوم وروایات کا ایک تحریری مجموعہ تھا۔

حتی کہ غیر مسلموں کو ان مذہبی رسومات پر عمل کرنے کی بھی اجازت تھی جو اسلامی قانون میں ناجائز تھیں، جیسے شراب پینا اور سور کا گوشت کھانا، نیز وہ مذہبی رسومات جو مسلمانوں کے لیے سخت ناگوار تھیں، ان پر بھی عمل ہوتا رہا، جیسے زرتشتی رسم میں بے حیائی کی شادی جس میں ایک مرد اپنی ماں، بہن یا بیٹی کے ساتھ نکاح کرتا تھا۔

پال ہیجز نے 10 جولائی 2015 کو واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوئے ڈینیل فلپوٹ کے مضمون کا حوالہ دیا ہے جس کا عنوان تھا ’’کیا مسلم ممالک واقعی مذہبی آزادی کے لیے ناسازگار ہیں؟‘‘ اس مضمون کا ایک ایک اقتباس یہ ہے: اس بات پر کافی تاریخی شواہد موجود ہیں کہ تنویری عہد میں یورپ میں مذہبی آزادی کا جو تصور مغرب کے ہاں متشکل ہوا جسے ہم روشن خیالی کہتے ہیں، وہ تصور دراصل سلطنت عثمانیہ میں اُس وقت نظر آنے والی رواداری سے لیا گیا تھا۔ جغرافیائی اعتبار سے آبادی کے ایک بہت بڑے حصے پر حکمرانی کے سبب عثمانیوں کے زیرانتظام مختلف مذہبی روایات کے حامل طبقات رہتے تھے جو ان کی رعایا تھے، لہذا ان سب کے لیے ہم آہنگی کے ماحول کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس پالیسیاں متعارف کرائی گئی تھیں۔ تب یورپ میں ایسا کچھ نہیں تھا اور اس نے عثمانی سلطنت سے یہ تصور سیکھا۔[23]

مزیدبرآں اسلامی فقہ کے سرکردہ مکاتب فکر نے یہ بھی ایک عمدہ تصور پیش کیا تھا کہ ریاست و حکومت سے متعلقہ امور مشاورت (شوریٰ) کی بنیاد پر چلائے جائیں گے، ان میں مفادِ عامہ (مصلحہ) کی رعایت رکھی جائے گی اور اجتہاد کو بروئے کار لایا جائے گا۔ مسلم فقہاء کے ہاں اس قدر حساسیت اور باریک بینی دیکھنے کو ملتی ہے کہ انہوں نے اپنی تحریروں میں ‘اسلامی ریاست’ کی اصطلاح کا استعمال نہیں کیا، بلکہ خلافت، امارت، سلطنت، امامت جیسے الفاظ استعمال کیے، لیکن ’دولۃ اسلامیہ‘ کی اصطلاح نہیں استعمال کی۔ یہ اصطلاح سب سے پہلے محمد رشید رضا (متوفی 1935) نے استعمال کی تھی۔ الماوردی نے خلافت کا مقصود یہ لکھا ہے ’’مذہب کی حفاظت اور دنیاوی امور کو چلانا‘‘، (حراسۃ الدین و سیاسۃ الدنیا)۔ ریاست مذہب کو ختم ہونے اور اس میں گمراہی در آنے سے بچاتی ہے، لیکن وہ مذہب کے اصولوں کے حوالے سے کوئی حکم جاری نہیں کرتی اور نہ ہی ان کی جزئیات میں کوئی دخل دیتی ہے۔ شریعت کسی ایسی مذہبی ریاست کا تصور پیش نہیں کرتی ہے کہ جس کی قیادت علماء و فقہاء کریں، بلکہ شریعت میں منتخب نمائندوں کا تصور دیتی ہے جو مشاورت اور بیعت کے ذریعے عہدہ سنبھالتے ہیں۔ بظاہر مذہب اور ریاست کے درمیان مکمل علیحدگی ممکن نہیں، تاہم باریک بینی اور مصلحت کے اصولوں کے تحت دیکھا جائے تو ان کے درمیان عملی علیحدگی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ دراصل یہ خود مسلمانوں کو طے کرنا ہے کہ وہ اس تعلق کو رائے عامہ، مصلحت اور مشاورت کے اصولوں کے تناظر میں کیسے تشکیل دیتے ہیں، اور اس میں ترجیح یہ ہے کہ ریاست و مذہب کو الگ رکھا جائے۔

مذہبیت کا عروج اور مذہبی آزادی پر پابندیاں

رپورٹس کے اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ دنیا چار دہائیاں پہلے کی بہ نسبت اب زیادہ مذہبی ہوچکی ہے، اور یہ رجحان آگے بھی جاری رہے گا۔ رپورٹس کے یہ بھی اشاریے ہیں کہ غیرمذہبی تصورات میں عالمی سطح پر کمی کا امکان ہے۔ 1970 میں دنیا کی تقریباً 80 فیصد آبادی مذہبی تھی، اور 2010 تک یہ تناسب بڑھ کر تقریباً 88 فیصد ہو گیا تھا، جبکہ 2020 تک یہ شرح 90 فیصد تک پہنچ گئی۔ مذہب کے ماننے والوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے، خصوصا چین میں لوگوں کا مسیحیت اور بدھ مت اختیار کرنا ایک بڑی وجہ ہے۔ 1970 میں لاادری (Agnostic) اور ملحد آبادی 19.2 فیصد تک تھی، جس کی بڑی وجہ مشرقی یورپ اور چین میں کمیونزم کا عروج تھا۔ تاہم، 1991 میں سوویت یونین کے سقوط کے بعد غیرمذہبیوں کی ایک بڑی تعداد مذہب کی طرف لوٹنے لگی۔ مسیحیت اور اسلام دو بڑے مذاہب ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ مستقبل قریب میں بھی ایسا ہی رہے گا۔ 1970 میں یہ دونوں مذاہب عالمی آبادی کا 48.8 فیصد تھے اور 2020 تک یہ تعداد 57.2 فیصد تک پہنچ گئی تھی[24]۔

مذہبی آزادی کے لیے قرآن کی مضبوط حمایت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے شواہد کے باوجود، عصر حاضر کے بہت سے مسلم اکثریتی ممالک میں مذہبی آزادی کے لیے جگہ کچھ خاص حوصلہ افزا نہیں۔ اسی طرح انسانی حقوق کی تنظیموں اور حکومتی اداروں کی رپورٹس اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ عالمی سطح پر مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں میں بڑے پیمانے پر رجحانات کا اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی اور غیر ریاستی دونوں سطح پر مذہبی رواداری کو خطرات لاحق ہیں، ابتدائی سطح کے بھی (مثلاً، انتظامی مشکلات یا پابندیاں) اور انتہائی نوعیت کے بھی (جیسے نسل کشی وغیرہ)۔

اگرچہ کچھ خلاف ورزیاں براہ راست مذہبی وجوہات سے متعلق ہیں،  جبکہ کچھ دیگر اسباب ایسے بھی ہیں جو مذہب کی وجہ سے نہیں ہیں لیکن وہ بعض طبقات پر مذہبی رواداری کا دائرہ تنگ کرتی ہیں۔ مذہبی رواداری سے متعلق خلاف ورزیوں کے بنیادی عوامل میں مخصوص مذہبی گروہوں کی عدم برداشت اور تنگ نظر تشریحات کے ساتھ ساتھ سیاسی، سماجی اور اقتصادی عوامل بھی شامل ہیں۔ قومی سلامتی کے تحفظ کی آڑ میں مذہبی آزادی کی بہت سی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں مذہبی آزادی پر کام کرنے والے متعدد اداروں کے مطالعات بتاتے کہ صورتحال مزید بگڑ رہی ہے۔ پیو ریسرچ (Pew Research) کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا کے 25 سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں، پاکستان، ترکی، مصر اور انڈونیشیا کا شمار ان خطوں میں ہوتا ہے جہاں مذہبی عقیدے اور عمل کے حوالے سے سب سے زیادہ پابندیاں عائد ہیں۔

مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں میں ایک بڑا حصہ انتہا پسند اسلام سے متعلق ہے (پاکستان، شام، یمن کی مثالیں)، اور کچھ کا تعلق آمرانہ حکومتوں سے ہے (مثلاً برما، چین)، جبکہ ایک سبب ہندو انتہا پسندی (بھارت) سے متعلق ہے۔ ”سیکولر” مغرب میں بھی مذہبی گروہوں کے خلاف عدم برداشت اور دشمنی میں اضافہ محسوس کیا گیا ہے۔ مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کے ذمہ دار کلیدی غیر ریاستی عناصر میں مجموعی طور پہ داعش (ISIS)، صومالیہ میں الشباب اور افغانستان میں طالبان شامل ہیں۔

مذہب بیزاری، میڈیا اور ریاستی پالیسیاں

مغربی میڈیا میں ’آزادی‘ کو عام طور پر مطلق اور تقریباً مقدس چیز بنا کر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ ساتھ ہی مذہب کو غیرمرغوب اور فرسودہ تصور کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، ڈنمارک میں شائع ہونے والے کارٹونز کے تناظر میں آزادی کا استعمال توہین کے ہتھیار کے طور پر کیا گیا جس کی وجہ سے مسلم دنیا میں بہت سی جگہوں پر سخت مظاہرے ہوئے اور جانی مالی نقصان ہوا[25]۔ مغربی میڈیا میں آزادی کا یہ تصور خود مغرب کے اپنے اخلاقی فلسفے اور مذہبی اخلاقیات کے بھی خلاف ہے۔ مغربی تہذیب کو اکثر ‘یہودی-مسیحی’ تہذیب کہا جاتا ہے، لیکن نہ تو یہودیت اور نہ ہی مسیحیت اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دیتی ہے کہ دوسرے لوگوں کی توہین کی جائے یا انہیں تکلیف دی جائے، دونوں مذاہب انسانوں سے محبت کرنے کے اصول کو تسلیم کرتے ہیں (اور اس مسلمان بھی خارج نہیں) ۔

مسلم دنیا کے بارے میں مغربی تاثرات ایک تو استعماری دور کی باقیات ہیں، بلکہ جب 1970 کے اوائل سے بعض مسلم ریاستوں نے اپنے تیل کے اثاثوں پر کنٹرول حاصل کرنا شروع کیا تو اس سے بھی مغربی گرفت کو ایک چیلنج کا سامنا کرنا پڑا اور میڈیا نے منفی رخ تراشنا شروع کردیا۔ اسی طرح امریکی معاشرے کے اہم شعبوں پر صیہونی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا اور ساٹھ کی دہائی میں اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمت تیز ہوئی تو امریکی میڈیا نے ”مسلم دہشت گردی” کی تصویرگری کو تیز کردیا۔ ’’یہ واضح نہیں ہے کہ کیا مرکزی دھارے کا مغربی میڈیا مستقبل قریب میں اسلام اور شدت پسندی کو مساوی بنا کر پیش کرنے کی روایت ترک کردے گا یا نہیں۔‘‘[26]

ارتداد اور مذہبی آزادی: مختلف آراء

قرآن میں ارتداد کا ذکر کم از کم 21 مقامات پر کیا گیا ہے، لیکن کہیں بھی اس کے لیے کسی سزا کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ طہٰ جابر العلوانی کا کہنا ہے کہ اگرچہ قرآن مسلمانوں کے اسلام چھوڑنے کے عمل کی بھرپور مذمت کرتا ہے، لیکن اس کے لیے دنیاوی سزا کا تعین نہیں کرتا۔ علوانی کے مطابق نبی کریمﷺ کے زمانے میں ارتداد ایک سیاسی مسئلہ تھا، اس لیے اگر کوئی شخص دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر اسلام کو چھوڑ دیتا، تو اس شخص کے لیے کوئی سزا نہیں تھی۔[27]  طہ جابر العلوانی کا مزید کہنا ہے کہ قرآن میں تقریباً 200 آیات ضمیر اور عقیدہ کی آزادی کی تائید کرتی ہیں۔ دوسری طرف، قرآن میں کسی بھی قسم کے جبر کی حمایت کا اشارہ بھی نہیں ہے کہ جس سے فرد کے عقیدہ کی آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔

قرآن کریم میں بارہا اہل مدینہ کے بعض لوگوں میں منافقت کے وجود کا حوالہ ملتا ہے جو عملی طور پہ پوری طرح مرتد تھے۔ تاہم، ان میں سے کسی کو بھی موت کی سزا نہیں دی گئی۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محض عقیدے میں تبدیلی کی وجہ سے کسی شخص کو قتل کرنے کا حکم دیا ہو۔ بعض معاملات میں موت کی سزا کی جو مثالیں ملتی ہیں وہ توہین مذہب اور حرابہ کے مقدمات تھے، نہ کہ صرف مذہب کی تبدیلی کے۔ اسلاف میں سے بہت سے ممتاز اہل علم نے بھی اس نظریے کی حمایت کی ہے کہ ارتداد قابل سزا جرم نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ کے استاد ابراہیم النخعی  اور سفیان الثوری جنہیں ’امیرالمؤمنین فی الحدیث‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، دونوں کا موقف ہے کہ مرتد کو دوبارہ اسلام کی دعوت دی جائے، لیکن اسے موت کی سزا نہ دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ مرتد کو اس وقت تک دعوت دی جاتی رہنی چاہیے جب تک یہ امید ہو کہ وہ دوبارہ اسلام قبول کر لے گا۔ عبد الوہاب الشعرانی نے بھی امام نخعی اور امام ثوری کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’مرتد کو مستقل توبہ کی دعوت دی جاتی رہنی چاہیے‘۔[28]

بیسویں صدی کے بہت سے سرکردہ علماء نے بھی ارتداد کی سزا پر نصوص کا ازسرنو جائزہ لیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سزائے موت قرآنی تقاضا نہیں ہے اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں اس کی کوئی بنیاد ملتی ہے۔ اسماعیل بدوی اور عبد الحکیم حسن العلی کا کہنا ہے کہ امام نخعی کے زمانے تک اسلام کافروں اور مرتدین کی دشمنی کے شر شے محفوظ تھا۔ ان کا موقف ہے کہ امام نخعی نے زیرنظر حدیث کا سیاسی تناظر میں اطلاق کیا اور اس سے مقصود وہ لوگ تھے جو اسلام دشمنی پر اُتر آتے۔ راقم نے اپنی تحقیق کا نتیجہ بھی یہی ہے کہ ایک وقت میں اس حدیث کی قتل کے تحت تشریح ایک عارضی قانون سازی (تشریعِ زمانی) کے تحت تھی جس کا ہدف صرف اسی مرحلے میں درپیش مسئلے کو حل کرنا تھا، اس کی یہ تشریح مستقل نہیں ہے۔ ابتداء یں جب ارتداد کی نام نہاد جنگیں ہوئیں اور قبائلی رہنماؤں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تو تب اس کا حدیث کا مخصوص مرحلے میں یہ اطلاق سامنے آیا تھا۔ خلیفہ مسلمین حضرت ابوبکرؓ نے منکرین کے اس عمل کو ارتداد کے ساتھ تشبیہ دی (حضرت عمر الخطابؓ کا موقف بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ انہوں نے اختلاف کیا اور کہا کہ یہ بغاوت ہے، ارتداد نہیں ہے)، لیکن تاریخ، میں حضرت ابوبکرؓ کے نظریے کو شہرت ملی اور مسلم فقہاء نے بھی یہی نقل کیا، اور اس مسئلے میں یہ حدیث فقہ کا حصہ بن گئی۔[29]

جامعہ الازہر کے سابق صدر محمود شلتوت کا نقطہ نظر یہ تھا:

حدیث ”من بدل دينه فاقتلوه” کی شرح میں اہل علم کی مختلف آراء ہیں، جن میں سے بہت سے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ حدیث کو مطلق نہیں رکھا جاسکتا، اور یہ کفر بذات خود قتل کی سزا کا موجب نہیں۔

صبحی المحمسانی[30] اور سلیم العوا [31]بھی اسی طرح کی رائے دیتے ہیں کہ سزائے موت کا اطلاق محض ارتداد کی وجہ سے نہیں کیا جاتا تھا، جب تک کہ اس کے ساتھ سیاسی خیانت یا سنگین غداری (حرابہ) کے اسباب شامل نہ ہوتے۔ لہٰذا سزائے موت کا مقصد حرابہ کی سزا دینا تھا جس میں دشمن کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازش اور بغاوت کی جاتی تھی۔

آیت اللہ مطہری نے کا موقف ہے کہ جبر اسلام کی روح سے مطابقت نہیں رکھتا۔ کسی کو بھی اس قسم کا عقیدہ حاصل کرنے پر مجبور کرنا ناممکن ہے جو اسلام کا تقاضا ہے، بالکل ایسے ہی جس طرح کسی چھوٹے بچے کو ریاضی کا کوئی مسئلہ حل کرنے کے لیے مارنا درست نہیں ہے۔ ملائیشیا سے تعلق رکھنے والے قانون کے ممتاز پروفیسر شاد سلیم فاروقی نے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ: یہ واضح ہے کہ قرآن کی رُو سے ارتداد ایک گناہ (آخرت میں قابلِ سزا) ہے، اور جرم نہیں ہے (جو دنیا میں سزا کا موجب ہو)۔

پیغامِ عمان (Amman Message)

شیعہ سُنی تقسیم مذہبی آزادی کے حوالے سے دونوں فریقین کے لیے تشویش کا مسئلہ ہے۔ سنی اکثریتی ممالک میں رہنے والے اہل تشیع اور شیعہ اکثریتی ممالک میں رہنے والے سنی شہریوں کو بہت سے مثبت اقدامات کے باوجود، اپنے مسالک کی پیروی اور آزادانہ اظہار کے معاملات میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ 2004 میں اس مسئلے کے حل کے لیے ایک جامع فکری اقدام کی صورت پیغامِ عُمان کی کاوش سامنے آئی جو خصوصی توجہ کی حقدار ہے۔

پیغامِ عمان نومبر 2004 میں کئی سرکردہ علماء کی سرپرستی میں جاری کیا گیا، جن میں شیخ الازہر سید طنطاوی، شیخ یوسف القرضاوی، آیت اللہ خامنہ ای اور آیت اللہ سیستانی جیسے نام شامل تھے۔ اس کے بعد ایک بڑی بین الاقوامی کانفرنس میں معروف علما نے اس کی تائید کی۔ پیغامِ عمان میں مسلمانوں کے مابین رواداری اور اتحاد کا مطالبہ کیا گیا۔ ستمبر 2001 میں جب عراق پر امریکی حملہ ہوا تو اس کے بعد ملک میں گروہی تشدد کی فضا ابھری اور مسلمانوں میں تشدد اور دہشت گردی کے حوالے سے پریشان کن اضافہ سامنے آیا۔ یہ صورتحال اس پیغام کو مرتب کرنے کا محرک بنی۔ پیغامِ عمان کا آغاز مندرجہ ذیل تین سوالات سے ہوا جو اُردن کے شاہ عبداللہ دوم نے تمام اسلامی مکاتبِ فکر کی نمائندگی کرنے والے معزز ممالک کے سب سے سینئر مذہبی علماء کو بھیجے: (1) مسلمان کون ہے؟ (2) کیا کسی شخص کو کافر قرار دینا جائز ہے؟ اور (3) فتویٰ جاری کرنے کا استحقاق کس کو ہے؟

ان علماء کی طرف سے موصول ہونے والے جوابات کی بنیاد پر، بادشاہ نے جولائی 2005 میں عمان میں 50 ممالک سے دنیا کے 200 معروف اسلامی اسکالرز (راقم سمیت) کی ایک بڑی بین الاقوامی اسلامی کانفرنس بلائی۔ علمائے کرام نے متفقہ طور پر درج ذیل تین اہم نکات کی شکل میں کانفرنس کا اعلامیہ جاری کیا:

(1) جو بھی فرد چار سنی مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی)، دو شیعہ مکاتبِ فکر (جعفری، زیدی) اور اباضی اور ظاہری مکاتبِ اسلامیہ میں سے کسی بھی مسلک کو مانتا ہے وہ مسلمان ہے۔

(2) ان مکاتب و مسالک کے درمیان اختلافات اتنے نہیں جتنے زیادہ مشترکات ہیں۔ مذکورہ آٹھ مکاتب کے پیروکار اسلام کے بنیادی اصولوں، ایمان کے چھ ستونوں اور اسلام کے پانچ ارکان پر اتفاق رکھتے ہیں۔

(3) ان مکاتب کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ فتویٰ جاری کرنے کے علمی منہج پر عمل پیرا ہوا جائے جس کے لیے جاری کنندہ کا ہر طرح سے اہل ہونا ضروری ہے۔ کوئی بھی شخص مطلق اجتہاد کرنے اور نیا مذہب بنانے کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور نہ ہی ایسے فتوے جاری کر سکتا ہے جو قبول شدہ اصولوں سے ہٹ کر ہوں۔

پیغامِ عمان کا خلاصہ مسجد الہاشمیہ میں بلند آواز سے پڑھا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ مذکورہ بالا مکاتب کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے معاملے میں انصاف، اعتدال، باہمی رواداری، ہمدردی اور مکالمے کو یقینی بنایا جائے گا۔

پیغامِ عمان پر دستخط کرنے والے اہل علم نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو دور کرنے، باہمی احترام کو یقینی بنانے، بھائی چارے کے تعلق کو مضبوط کرنے اور خدا کی محبت میں متحد رہنے پر زور دیا۔ مسلمانوں سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ اپنے مابین تنازعات اور بیرونی مداخلت کو نہ پنپنے دیں۔

جولائی 2005 سے جولائی 2006 تک کے ایک سال کے عرصے میں، پیغامِ عمان کے مواد کو چھ دیگر بین الاقوامی اسلامی علمی کانفرنسز میں بھی متفقہ طور پر منظور کیا گیا، اس تحریک کا اختتام جولائی 2006 میں جدہ کی ’بین الاقوامی اسلامک فقہ اکیڈمی‘ میں منعقدہ کانفرنس میں ہوا۔ مجموعی طور پر دنیا بھر سے 500  سے زائد مسلم علماء نے پیغامِ عمان کی تائید کی۔

ملائیشیا کا تجربہ

ملائیشیا میں اسلام کی ایک خوشگوار و غیرسخت گیر تاریخ رہی ہے کیونکہ اس ملک میں اسلام عسکری فتح کے ذریعے نہیں بلکہ مسلمان صوفیوں اور تاجروں کے ذریعے آیا تھا۔ ابتداء سے ہی ملائیشیا میں مالے کمیونٹی اسلام سے زیادہ قریب رہی جو اکثریت میں ہے۔

1957 کی دہائی میں ملائیشیا کے وفاقی آئین نے اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دیا، لیکن ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ دیگر تمام مذاہب پر امن اور ہم آہنگی کے ساتھ عمل کیا جا سکتا ہے، آرٹیکل 3 (1)۔ آرٹیکل 11 (1-4) کے تحت ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کا اظہار کرے، اس پر عمل کرے اور  تبلیغ کرے۔ آرٹیکل 11 (4) میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوالالمپور اور لابوان [32]کے علاقوں میں مسلمانوں کو دیگر کسی مذہب کی تبلیغ کو محدود یا اسے ممنوع قرار دیا جاسکتا ہے۔ تنظیموں اور جماعتوں کے لیے بھی مذہبی آزادی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس طرح، یہ بھی کہ ہر مذہبی گروہ کو اپنے معاملات چلانے، مذہبی مقاصد کے لیے ادارے قائم کرنے اور برقرار رکھنے کا حق حاصل ہے۔

بہت سے غیر مسلموں کو شکایت ہے کہ آرٹیکل 11 (4) کے تحت غیرمساوی سلوک کیا جاتا ہے کہ جس کی بنا پر مسلمانوں میں کسی دوسرے مذہب کی تبلیغ نہیں کی جاسکتی۔ یہ درحقیقت ایسا ہی ہے، لیکن اس کا ایک پس منظر ہے۔ یہ قانون ملائشین اور غیر مالے آبادی کے درمیان آزادی سے پہلے ہی سے موجود ہے۔ یہ ایک باہمی سمجھوتہ تھا تاکہ اس علاقے کی ملائیشین آبادی کے مذہبی اسلامی رجحان کو استعماری سرکاری حمایت میں چلنے والی مذہبی تنظیموں کے اثرورسوخ سے بچایا جاسکے۔[33]

ملائیشیا کے آئین میں مذہب تبدیل کرنے کے حق کا واضح طور پر ذکر نہیں کیا گیا ہے، اگرچہ ایک غیر مسلم کے لیے اسے آئین کی طرف سے فراہم کردہ مذہبی آزادی کا ایک مضمر حصہ سمجھا جاتا ہے۔ البتہ 1990 کے ایک مقدمے میں عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ اٹھارہ سال سے کم عمر بچے اپنے والدین کے مذہب پر رہیں گے۔

مسلمانوں کے معاملے میں تبدیلیِ مذہب اور ارتداد کئی بڑے مذہبی اور سیاسی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ چونکہ اسلام سرکاری مذہب ہے اور آئینی توضیح کے مطابق ملائی فرد کا مسلم عقیدے کا حامل ہونا ضروری ہے، اس لیے ملائیشی شہریوں کے لیے ارتداد عدالتی و قانونی مسائل کا سبب بنتا ہے۔ مذہبی آزادی میں مذہب کو ترک کرنے کی آزادی بھی شامل ہے، یہ تصور مسلمانوں کے حوالے سے قابل قبول نہیں ہے۔[34] ایسا لگتا ہے کہ 1990 کی دہائی سے ملائیشیا میں قدامت پسندانہ نظریات مضبوط ہوئے ہیں۔ ملائیشیا کی کچھ ریاستوں (13میں سے چھ) نے ارتداد کے نتیجے میں دوبارہ بحالی کے قوانین اور پروگرام متعارف کرائے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ تعزیری پابندیاں بھی جو اسلام سے خارج ہونے والے شہریوں کو حراست میں رکھنے اور انہیں دوبارہ تبلیغ و تعلیم دینے کی اجازت دیتی ہیں۔ تاہم، ایسی ریاستیں بھی ہیں جو قرآنی موقف کے مطابق مذہبی آزادی، اور ملائیشیا کے آئین کی رعایت رکھتی ہیں، اور انہوں نے ارتداد کے معاملے میں محض رجسٹریشن کی شرط عائد کی ہوئی ہے[35]۔

ارتداد کے قوانین پیچیدہ آئینی مسائل کو جنم دیتے ہیں اور ایسی بحثوں کو ابھارتے ہیں جو مذہب کو آئین کے خلاف  کھڑا کرتی ہیں، اور اس نازک سماجی ڈھانچے کو متأثر کرتی ہیں جس نے 60 سال سے زیادہ عرصے سے تمام ملائیشین باشندوں کو جوڑے رکھا ہے۔ اس مسئلے کے تحت درج ذیل عدالتی تناظرات اور تنازعات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ہائی کورٹ کے مطابق، مذہب سے خارج ہونے کا عمل مذہب کی آزادی کا حصہ نہیں ہے، کم از کم مسلمانوں کے معاملے میں ایسا بالکل نہیں: داؤد ممات بمقابلہ مجلس اگامہ [2002] کے مقدمے میں یہی فیصلہ سنایا گیا۔ جبکہ کامریہ علی بمقابلہ کیراجان نیگیری کیلانتن [2002] کے مقدمہ میں اس کے برعکس فیصلہ دیا گیا جس کے تحت مسلمانوں کو بھی مذہب ترک کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن یہ ترکِ مذہب یکطرفہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایک مسلمان جو ارتداد کا اعلان کرنا چاہتا ہے اسے پہلے شرعی عدالت سے تصدیق حاصل کرنے کے لیے رجوع کرنا پڑے گا کہ اس نے مذہب چھوڑ دیا ہے۔ گویا ارتداد کا اعلان کافی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان کی طرف سے ارتداد کا عمل مرتد اور اس کے مسلمان شریک حیات کے درمیان طلاق کا سبب بنتا ہے، اور اس کے ساتھ بچوں کی پرورش اور سرپرستی کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ شرعی عدالتوں میں ارتداد اختیار کرنے والوں کی سماعت ہی نہیں ہوتی۔

ملائیشیا میں حکومت نے شہریوں کے درمیان بین النسلی اور بین مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی غرض سے اہم پالیسیاں شروع کی ہیں۔ 1969 کے نسلی فسادات کے تقریباً فوراً بعد، ’رکونیگارا‘ دستاویز کو ایک نئے قومی نظریے کے طور پر آگے لایا گیا تھا جس میں کچھ کلیدی اصول بیان کیے گئے تھے۔ ان میں قانون کی حکمرانی، آئین کی بالادستی اور بادشاہ اور ملک سے وفاداری شامل ہیں۔ ہم آہنگی کے لیے اٹھائے گئے دیگر اقدامات میں مخصوص قومی اسکول اور غیر نصابی سرگرمیاں بھی شامل ہیں جن میں تمام نسلی اور مذہبی پس منظر سے تعلق رکھنے والے ملائیشیائی باشندوں کی شمولیت کو یقینی بنایا گیا۔ 2006 میں حکومتی کابینہ نے نسلی تعلقات سے متعلق یونیورسٹی کی ایک متنازعہ کتاب کو تعلیمی سرکل سے خارج کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر بہت سے لوگوں نے تنقید کی تھی کہ وہ غیر مسلموں کے لیے غیر حساس ہے۔

خلاصہ

ایک عقیدے اور تہذیب کے طور پر، اسلام نے مذہبی آزادی اور دوسرے مذاہب کے ساتھ بقائے باہمی کے اصول کو تسلیم کی ہے۔ قرآن اور سنت دونوں میں تمام مسلمانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ نسلی، سیاسی اور معاشی پس منظر سے قطع نظر ان اصولوں کی پیروی کریں گے۔ فکری لحاظ سے مذہبی آزادی اسلام میں ایک ٹھوس تصور ہے، آج مسلمانوں کے لیے چیلنج یہ ہے کہ آزادی کے اس نظریے اور عمل کے درمیان پائے جانے والے فرق کو ختم کیا جائے۔ مسلمانوں کے لیے چیلنج حقیقی مذہبی تعلیمات و احکامات تک رسائی نہیں ہے، بلکہ ان تعلیمات کو عملی طور پہ مختلف مسلم وغیر مسلم طبقات کے ساتھ تعلقات کی استواری میں منطبق کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔

جہاں تک مذہب اور ریاست کے درمیان تعلق کی بات ہے تو اسلامی تناظر میں یہ کافی پیچیدہ مسئلہ ہے۔ تاہم، قرآن اور سنت میں کوئی واضح حکم نہیں ہے کہ مذہب اور ریاست کا ایک دوسرے سے کیا تعلق ہونا چاہیے۔ قرآن میں تو اس موضوع پر کوئی اشارہ نہیں دیا گیا، اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پیش کی جاتی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ: ’أنتم أعلم بامور دنياكم‘ (تم اپنے دنیاوی معاملات میں زیادہ بہتر جانتے ہو۔)

عصر حاضر کے نظریات اور لٹریچر مذہبی آزادی کے تحفظ اور فروغ کے لیے متعدد شعبوں میں عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اس ضمن میں کچھ نکات پیش ہیں:

(۱) انسانی حقوق کا نقطہ نظر: اس کے تحت خلاف ورزیوں کی نگرانی اور رپورٹنگ کی جائے اور ذمہ دار لوگوں کا محاسبہ کیا جائے۔

(۲) تنازعات کے حل کا نقطہ نظر: مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اور حل تلاش کرنا۔

(۳) بین المذاہب ہم آہنگی کا نظر: مذہب کیا ہے اور کیا نہیں ہے، اس حوالے سے مستند معلومات اور تعلیم پر زور دیا جائے۔

ایک ہمہ گیر نقطہ نظر عملی لحاظ سے بھی ایک بڑے فریم ورک کا تقاضا کرتا ہے جس میں ہر شعبہ و فریق اپنی سطح پہ خدمات انجام دے۔ مذہب اور عقیدے کی آزادی پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے زور دیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو مذہب اور عقیدے کی آزادی کے فروغ میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے خلاف آواز اٹھانا بھی ایک اہم پہلو ہے اور یہ مزید خلاف ورزیوں کو روکنے کا ایک طاقتور ذریعہ ہو سکتا ہے۔ یہ کام مختلف طریقوں سے کیا جا سکتا ہے جن میں تقاریر، سیمینارز کا انعقاد اور تقریبات میں شرکت، اخباری مضامین لکھنا، مختلف پس منظر کے حامل طبقات کو جمع کرکے ان کی میزبانی کرنا، خلاف ورزیوں کے متاثرین کی عیادت کرنا شامل ہیں۔

مسلم مفکرین اور علماء کو چاہیے کہ وہ اپنی روایات کی گہرائی میں جاکر میں کھوج لگائیں تاکہ اسلاف کی بصیرت کو ازسرنو دریافت کیا جاسکے۔ انہیں یہ جاننے کی بھی ضرورت ہے کہ اسلام کے ساتھ وفادار رہتے ہوئے مذہبی آزادی کی عصری تفہیم کی حمایت کرنے کے لیے اسلاف کی روایات سے کونسے سبق حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

پیغامِ عمان اکیسویں صدی کے سرکردہ اسلامی رہنماؤں کے قابل اعتماد اتفاق رائے کی نمائندگی کرتا ہے۔ سنی شیعہ تفریق کے حوالے سے مسلم اتحاد کے اس پیغام کا حقیقی طور پر احترام کیا جانا چاہیے اور اس پر عمل کو یقینی بنانا چاہیے۔

ملائیشیا  میں کئی حوالوں سے دباؤ اور پیچیدگیوں کے باجود مجموعی طور پہ یہ ملک بقائے باہمی اور عوام میں ایک دوسرے کے لیے احترام کے جذبات پیدا کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہا ہے۔ ملک میں امن، جمہوریت اور معاشی خوشحالی دیکھنے کو ملتی ہے۔ تاہم یہ امکانات موجود ہیں کہ تناؤ کا ماحول جنم لے۔ اس لیے ابلاغ کے بہتر وسائل کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں میں مزید آگاہی پیدا کرنے اور اشتعال انگیزی کے خلاف ضبط نفس کی تربیت و ماحول کی آبیاری جاری رکھنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔

[1] EU Guidelines on the Promotion and Protection of Freedom of Religion or Belief

[2] John Stuart Mill as quoted in C.L. Ten (Religious Toleration and Beyond)

[3] Freedom of religion- Wikipedia nnps://en.wikipedia.org ›

[4] الاسراء: 70

[5] التین: 6

[6] غافر: 64

[7] الحجر: 29

[8] روح المعانی، 15/17

[9] الکافرون: 6

[10] الکہف: 29

[11] البقرہ: 225

[12] النساء: 137

[13] یونس: 99

[14] الاسراء:15

[15] آل عمران: 64

[16]میثاقِ مدینہ

[17] البخاری، حدیث: 6922

[18] امام شوکانی، نیل الاوطار، 7/219

[19] Muhammad Khalid Masud, Freedom of Religion in Age of Multi-Religious Societies

[20] سنن ابن ماجہ، حدیث: 2534

[21] Leonard Swidler, Freedom of Religion and dialogue: Moving Globalization from Destruction to Construction

[22] Saeed, Limitations on Religious Freedom in Islam, 369

[23] Paul Hedges, Tne need for religious literacy in Kuala Lumpur, New Straits Times, August 3, 2015, 29

[24] Anugran Kumar, Study: World is Turning More Religious; Atneism Declining, Tne Cnristian Post CP World, July 20, 2013

[25] طہ جابر العلوانی، لا اکراہ فی الدین، 90

[26] ایضا

[27] ایضا

[28] تقی الدین ابن تیمیہ، الصارم المسلول، 321

[29] Kamali, Freedom of Expression in Islam, 93

[30] بیروت میں مقیم ماہر قانون ہیں اور عدالتِ مرافعہ کے صدر ہیں۔

[31] مصری مفکر و مصنف ہیں۔ اہل علم کے ہاں اعتدال پسند سمجھے جاتے ہیں۔ سیاستِ شرعیہ پر ان کا کام پوری دنیا میں معتبر و مقبول ہے۔

[32] مشرقی ملائیشیا کا ایک علاقہ۔

[33] Shad Saleem Faruqi, Constitutional perspectives on Freedom of Religion, 2015, 5

[34]ایضا

[35] ایضا