سعودی عرب کا وژن 2030ء اور مذہبی رواداری کے لیے کوششیں

محمد اسرار مدنی

0

اسلام سعودی عرب کا سرکاری مذہب ہے اور اس کا قانون تمام شہریوں کے مسلمان ہونے کو ضروری قرار دیتا ہے۔اسلام کے سوا دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی اعلانیہ عبادت ممنوع ہے۔کسی غیر مسلم کو سعودی عرب کی شہریت حاصل کرنے کے لیے اسلام قبول کرنا ضروری ہے۔

سعودی عرب میں سنی سلفی تحریک کا حنبلی اسلام نافذ ہے۔ لیکن یہ بات متنازع ہے کہ سعودی عرب میں سلفی/وہابیوں کی اکثریت ہے یا نہیں، کیوں کہ تخمینہ ہے کہ مقامی آبادی کے صرف 22.9فیصدافراد ہی یہ عقیدہ رکھتے ہیں (خاص طور پر نجد میں)۔ وہابی تحریک دو سو سال سے نجد میں غالب رہی ہے، لیکن ملک کے دیگر حصوں حجاز، الشرقیہ اور نجران وغیرہ میں ان کا غلبہ 1913ء سے 1925ء کے درمیان میں ہوا۔ 15 سے 20 ملین سعودی شہریوں میں سے زیادہ تر سنی مسلمان ہیں،اسے بعض اوقات “اسلام کا گھر” بھی کہا جاتا ہے، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ مسلمانوں کا بڑا اہم مقام ہے۔ مکہ شہر میں ہر سال حج کا اجتماع ہوتا ہے اور عالم اسلام سے ہزاروں طالب علم اور علما یہاں تعلیم کے لیے آتے ہیں۔ سعودی عرب کے بادشاہ کا سرکاری خطاب ہی’خادم الحرمین الشریفین‘ہے جومسجد الحرام، مکہ اورمسجد نبوی، مدینہ کی وجہ سے دیا گیا ہے، یہ دونوں شہر اسلام کے مقدس ترین شہروں میں سے ہیں۔

سعودی عرب میں اقلیتیں

سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے جہاں دیگر  ادیان کے لوگ موجود نہیں ہیں۔ وہاں صرف اسلامی فکر کے مختلف مسلکی طبقات پائے جاتے ہیں اور ان میں سب سے نمایاں سنی اور شیعہ ہیں، اور انہی دو مسالک کے کے مابین تاریخی طور پہ ایک گونہ کشمکش رہی ہے۔

بعض غیر سرکاری ذرائع نے اندازہ لگایا ہے کہ سعودی عرب کی تقریباً 20 ملین مقامی آبادی میں اہل تشیع کی آبادی 10فیصد ہے۔سعودی عرب کےاثنا عشری شیعہ بحرینی، بنیادی طور پر ملک کے مشرقی صوبے میں بستے ہیں، خاص کر قطیف اور الحساء شہروں میں۔ اثنا عشری شیعہ مدینہ منورہ میں بھی پائے جاتے ہیں جو نخاولہ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اسی طرح، ایک قبائلی شیعہ آبادی علاقہ حجاز میں موجود ہے، جو تین قبیلوں  : بنوحسین (مکہ کے شریف جنہوں نے پانچ صدیوں تک حکومت کی)،کے ساتھ دو روایتی طور پر خانہ بدوش حجازی قبیلوں حرب(خاص طور پر بنو علی کی شاخ) اور جہینہ میں منقسم ہے۔بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ یہ قبیلے شیعہ تھے نہ کہ زیدی یا اثنا عشری، وہ ان کو’نوکیسانیہ‘عقائد سے منسلک بتاتے ہیں۔ سعودی عرب کے جنوبی علاقوں اور نجران میں یم قبیلہ روایتی طور پر سلیمانی اسماعیلی آبادی والا ہے۔

وژن 2030ء کے تحت مذہبی رواداری کے لیے  اصلاحات

سعودی عرب جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے2015ء سے قبل اس کی کوئی توقع نہیں کرسکتا تھا۔ مملکت کے داخلی روایتی ڈھانچے سے قطع نظر اس کا جغرافیائی تشخص بھی جس تأثر اور امیج کا متقاضی ہے، اسے دیکھتے ہوئے حالیہ وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیاں آسان نہیں لگ رہی تھیں۔ لیکن خطے کی مسابقتی صورتحال، مستقبل کے اقتصادی تقاضے، رجعت پسندی کا بین الاقوامی تشخص اور سلطنت کی اندرونی حکومتی کشمکش، چند ایسے عوامل ہیں جن کی بنا پر سعودی عرب تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے۔ ان اقدامات میں سے بعض پرکچھ لوگوں کو تحفظات ہیں لیکن وژن 2030ء کے تحت سعودی عرب میں متعارف کرائی جانے والی سماجی ومعاشی اصلاحات کاایک محور مذہبی رواداری کا فروغ اور اس پس منظر میں سعودی عرب کے تشخص کو نرم کرنا ہے۔

حال ہی میں دی اٹلانٹک کو دیا گیا انٹرویو شہزادہ محمد بن سلمان کا سب سے مضبوط اور تفصیلی موقف ہے جس سے ان کی آراء کھل کر سامنے آئیں۔ اس میں سعودی عرب میں مذہبی رواداری کے حوالے سے کھل کر باتیں کیں اور یہ کہا کہ وہ شدت پسندانہ موقف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ مثال کے طور پہ ان کا کہنا تھا:

’’ہم اسلام کی اصل تعلیمات کی طرف لوٹ رہے ہیں، جیسے پیغمبر اسلام اور خلفائے راشدین نے زندگی گزاری، جو کُھلے اور پُرامن معاشرے تھے۔ ان کی حکمرانی میں مسیحی اور یہودی بھی تھے۔ انہوں نے ہمیں تمام ثقافتوں اور مذاہب کی تعظیم کی تعلیم دی۔ پیغبر اسلام اور چاروں خلفا کی تعلیمات مکمل ہیں۔ ہم اپنی جڑوں کی جانب واپس جارہے ہیں، جو اصل چیز ہے۔ ہوا یہ کہ شدت پسندوں نے اسلام کو ہائی جیک کرلیا اور ہمارے مذہب کو اپنے مفادات کے لیے تبدیل کرلیا۔ وہ لوگوں کو اپنی نظر سے اسلام کو دکھانا چاہتے ہیں۔ اور مسئلہ یہ ہے کہ ان سے کوئی بحث نہیں کررہا، اور ان کے خلاف کوئی بھی سنجیدگی سے برسرپیکار نہیں ہے۔ چنانچہ انہیں اپنے یہ تمام شدت پسندانہ نظریات پھیلانے کا موقع ملا، جس کی وجہ سے سنی اور شیعہ دنوں میں شدید قسم کے دہشت گرد گروہوں کی تخلیق ہوئی‘‘۔

ایک اور جگہ کہتے ہیں:

’’سعودی عرب میں سنی اور شیعہ ہیں، اور سنیوں میں چار مکاتب فکر ہیں، اور اہل تشیع کے بھی مختلف مکاتب فکر ہیں، اور ان کو کئی مذہبی بورڈز کی نمائندگی دی گئی ہے۔ آج، سعودی عرب میں کوئی بھی اپنے مکاتب فکر کے نظریات کی ترویج ایسے نہیں کرسکتا کہ مذہب کو دیکھنے کا صرف نظریہ ہو۔ شاید ایسا تاریخ کے کچھ حصوں میں ہوا ان واقعات کی وجہ سے جن کا میں نے ذکر کیا، بالخصوص 80، اور 90 اور 2000 کےابتدائی برسوں میں،لیکن آج ہم صحیح راستے پر واپس آچکے ہیں جیسا میں نے کہا۔ ہم اپنی جڑوں کی جانب واپس جارہے ہیں، خالص اسلام کی طرف، اس بات یقینی کو بناتے ہوئے کہ سعودی عرب کی روح، جس کی بنیاد اسلام، ہماری ثقافت خواہ قبائلی ہو یا شہری، عوام کی خدمت ہے، قوم کی خدمت، مذہب کی خدمت، ساری دنیا کی خدمت، اور معاشی ترقی ہے۔ اور گذشتہ پانچ برسوں میں ایسا ہی ہوا۔‘‘

شیعہ رہنماؤں کی رائے

محمد بن سلمان کے مذہبی رواداری سے متعلق بیانات کو مملکت کے شیعہ علماء نے بہت سراہا ہے اور دیکھا جائے تو پہلے شاہی حکمرانوں کی بہ نسبت اہل تشیع شہری محمد بن سلمان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور اپنے خطبات وغیرہ میں ان کے خلاف بیانات نہیں دیتے۔ دی اٹلانٹک کے انٹرویو کے بعد سعودی عرب میں شیعہ عالم دین شیخ حسین علی المصطفی نے ایک ٹویٹ کی جس میں انہوں نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان آل سعود کو مخاطب کیا۔ شیخ حسین نے لکھا کہ “وطن کے ساتھ آپ کی پاسداری کا کمال مرتبہ یہ ہے کہ آپ اس سرزمین کے ساتھ مخلص اور وفادار رہیں جہاں آپ نے زندگی بسر کی ہے اور جس وطن نے آپ کو آغوش فراہم کی۔ یہ ارضِ وطن ہر آن آپ کے ساتھ وابستہ ہے لہذا اس کے ساتھ ایک خود سے قائم عنوان کے طور پر معاملہ کیا جائے۔ یہ ہی سعودی ویژن 2030 ہے”۔

اسی طرح الاحساء ضلع میں “امام حسین مسجد” کے منبر سے خطبہ دیتے ہوئے محمد رضا السلمانے لوگوں پر زور دیا کہ وہ ویژن 2030 کی تفصیلات کا مطالعہ کریں۔ انہوں نے دی اٹلانٹک جریدے کے ساتھ شہزادہ محمد بن سلمان کے حالیہ انٹرویو کو نہایت شان دار قرار دیا۔

محمد رضا نے سعودی عرب میں حال ہی میں منظور کیے جانے والے “ذاتی احوال کے قانون” کو اپنی نوعیت کی بہترین پیش رفت شمار کی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ذریعے ہم بند دنیا سے ایک کھلی دنیا کی طرف منتقل ہو رہے ہیں اور اس کا سہرا ولی عہد کے سر ہے۔

ایک اور شیعہ عالم شیخ حسن الصفار نے 11 مارچ کو قطیف ضلع کی “الرسالہ مسجد” میں جمعے کا خطبہ دیتے ہوئے دی اٹلانٹک کے ساتھ شہزادہ محمد کے انٹرویو کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ سعودی ولی عہد کے بیان کیے گئے مواقف نہ صرف ملک و قوم بلکہ پوری امت کے لیے باعث افتخار ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے سعودی معاشرے میں شیعہ حلقوں اور شیعہ علماء کو ماضی کی نسبت کہیں زیادہ آزادی اور خود مختاری حاصل ہے۔ مملکت کی دانش مند قیادت شیعہ آبادی کو پوری طرح قومی دھارے میں لانے کے اقدامات کر رہی ہے۔

غیر مسلم تارکینِ وطن

سعودی عرب میں ایک مختصر تعداد ان غیرملکی غیرمسلموں کی بھی رہتی ہے جو مملکت کے شہری نہیں ہیں لیکن وہاں کام اور ملازمت کے سلسلے میں رہائش پذیر ہیں۔ ان میں مغربی ممالک کے لوگ بھی ہیں اور بعض دیگر مذاہب کے افراد بھی ہوتے ہیں۔ ان مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے دینی تہوار کو نہیں منا سکتے تھے تھے یا چھپ کر مناتے تھے۔ لیکن اب کچھ نرمیاں لائی گئی ہیں۔ پچھلے دو سالوں سے سعودی عرب میں کرسمس کے موقع پر کرسمس کا سامان بازاروں میں فروخت ہونے لگا ہے۔غیرملکی سیاحوں اورتارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث سعودی عرب میں مختلف تہواروں پر رواداری کا رجحان بڑھنے لگا ہے۔اب ماضی کے مقابلے میں حالیہ برسوں میں تبدیلی آئی ہے اور مارکیٹوں میں کرسمس سے متعلق اشیا فروخت کیلئے پیش کی جانے لگیں ہیں۔

تیز ترین تبدیلیوں کا مرحلہ

سعودی عرب میں سماجی مذہبی سطح پر بہت سی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہورہی ہیں جس کا مقصد دنیا کو پیغام دینا ہے کہ سعودی کا روایتی مذہبی تشخص تبدیل ہورہا ہے۔ اسی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ پہلے مدینہ کی حدود میں داخل ہوتے ہوئے بڑے بڑے سائن بورڈ دکھائی دیتے تھے جن پر لکھا ہوتا تھا کہ آپ کے سامنے دو راستے ہیں۔ اگر آپ مسلمان ہیں تو ایک راستے سے جائیے، غیر مسلم ہیں تو دوسرے سے۔ لیکن اب سعودی حکام نے مدینہ آنے والے سیاحوں کے لیے ان رہنما بورڈوں کی عبارت میں تبدیلی کر دی ہے اور اب ’غیر مسلموں کے لیے‘ کی جگہ صرف ’حد حرم‘ لکھا نظر آتا ہے۔

سعودی عرب کے مختلف ادارے اور وزارتیں دوسرے ممالک اور اقوام کی ثقافتوں کے درمیان رابطوں اور ڈائیلاگ کے لیے سرگرم ہیں۔ اس سلسلے میں اہل تشیع اور دیگر مسالک کے علما کو سعودی عرب میں مدعو کیا جا رہا ہے تاکہ مملکت کے عوام میں یہ تأثر پیدا کیا جاسکے کہ سعودی عرب میں ریاست اب غیرسنی مسالک کے لیے رواداری کا رویہ اپنا رہی ہے۔

محمد بن سلمان امور خارجہ اور معیشت کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ سعودیہ کے مذہبی معاملات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ روایتی طور پہ مملکت میں مذہبی معاملات کو علمائے کرام طے کرتے رہے ہیں اور اس ضمن میں حکومت کم سے کم مداخلت کرتی ہے۔ مگر شہزادہ محمد نے اسلامی اصول فقہ (یعنی اسلامی قانون) پر ڈگری لے رکھی ہے۔ اسی لیے وہ مذہبی قانونی معاملات میں بھی عمل دخل رکھتے ہیں۔ شہزادہ محمد مملکت میں اعتدال پسند اسلام رائج دیکھنا چاہتے ہیں، انہوں نے کئی بار یہ اظہار کیا کہ اس کے تمام شہری دیگر مذاہب کا بھی احترام کریں اور حکومت اجتہاد سے کام لے کر ایسے اقدامات کرے جو بلاتفریق تمام شہریوں کی زندگیاں آسان بنادیں۔

مشہور برطانوی اخبار، گارڈین کو انٹرویو دیتے ہوئے شہزادہ محمد نے کہا ’’پچھلے تیس برس کے دوران سعودی معاشرہ نارمل نہیں ہورہا اور  بتدریج انتہا پسندی کی طرف مائل ہوتا گیا۔‘‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایرانی انقلاب کا مقابلہ کرنے کے لیے سعودی حکومت نے معاشرے میں ایسے قوانین متعارف کرائے جو سخت تھے۔’’ مگر اب ہم سعودیہ میں معتدل اسلام کا بول بالا کرنا چاہتے ہیں جو ہمارا حقیقی مذہب ہے۔‘‘

بین المذاہب مکالمہ

سعودی عرب نے ایک شعبہ ’’بین الاقومی مرکز برائے بین المذاہب مکالمہ‘‘ کا بھی افتتاح کیا جس میں دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ روابط کو استوار کرنا مقصود ہے۔

اس کے علاوہ ’’شاہ عبدالعزیز مرکز برائے قومی مکالمہ‘‘ بھی ملک کے اندر شہریوں میں رواداری کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے۔ اس ادارے نے اعلان کیا ہے کہ اُس نے خطے میں رواداری سے متعلق اپنی نوعیت کا پہلا انڈیکس تیار کیا ہے۔ اس انڈیکس کے ذریعے معاشرے میں رواداری کی حقیقی صورت حال کو جانا جا سکتا ہے۔

مزید یہ کہ سعودی عرب کی سربراہی میں 2012ء میں آسٹریا اور اب یورپ میں KAICIID کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیاجو مذہبی آزادی، بین المذاہب مکالمہ اور امن کاری کے لیے دنیا میں ایک مؤثرترین فورم کے طور پہ آگے بڑھ رہا ہے۔

مکہ دستاویز

2019ء میں رابطہ عالم اسلامی نے مکہ مکرمہ میں اپنے اختتامی اجلاس کے موقع پر ’’ مکہ دستاویز‘‘ جاری کی،اس میں مسلم معاشروں کے مختلف طبقات کے درمیان رواداری اور پُر امن بقائے باہمی کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ یہ سات صفحات کو محیط ہے اور اس میں انتیس مختلف اسلامی اصول بیان کیے گئے ہیں۔ان کے ساتھ رواداری اور مساوات کے فروغ اور منافرت پھیلانے والے مبلغین کی حوصلہ شکنی کے لیے رہ نماہدایات دی گئی ہیں ۔ نیز کسی فرقے کے پیروکاروں کو کم تر خیال کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔

ابتدائی صفحہ میں دستاویز کو مقدس شہر مکہ مکرمہ سے جاری کرنے کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے کہ اس کو کیوں دنیا بھر میں بسنے والے ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمانوں کے قبلہ کے مقام سے جاری کیا جارہا ہے۔

اس میں اسلام کے خلاف منافرت پھیلانے کی روک تھام کے لیے تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’’اسلامو فوبیا اسلام کو حقیقی طور نہ جاننے کا نتیجہ ہے۔اسلام کو درست طور پر جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا معروضیت سے مطالعہ کیا جائے اور کوئی بے بنیاد حکم لگانے سے گریز کیا جائے ‘‘۔

دستاویز میں دوسرے ممالک کے داخلی امور میں مداخلت اور بالخصوص سیاسی بالادستی ، اقتصادی لالچ یا فرقہ وار نظریات کی حوصلہ افزائی کے ذریعے دخل اندازی کو مسترد کیا گیا ہے۔

اس میں کسی خاص دین کو اس کے پیروکاروں کے سیاسی اعمال سے جوڑنے سے متعلق امور کا بھی احاطہ کیا گیا ہے اور اس حقیقت پر زور دیا گیا ہے کہ توحید پر مبنی تینوں بڑے ادیان کا ان کے پیروکاروں کی منفی سرگرمیوں اور اعمال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

دین اور ثقافت سے متعلق تنازعات کے خاتمے کے لیے دستاویز میں نفرت پھیلانے والے مبلغین اور تشدد اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

دستاویز کے انتیس میں سے ایک اصول میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ ہر کسی کی ذمے داری ہے کہ وہ دہشت گردی اور جبرواستبداد سے نمٹنے کے لیے کردار ادا کرے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مسترد کردے۔اس میں اسلام میں خواتین کے حقوق پر زور دیا گیا ہے۔ بالخصوص ان حقوق کے مذہبی ، سائنسی ، سیاسی اور سماجی پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا تھا اور جنس کی بنیاد پر اجرتوں میں تفریق کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔

پرامن بقائے باہمی کے لیے مسلم تاریخ میں پہلے بھی کئی اقدامات کیے گئے جس کا فائدہ ہوتا ہے۔پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد مسلمانوں کا یہود اور مقامی آبادی سے ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ تاریخ میں یہ میثاقِ مدینہ کے نام سے معروف ہے۔ یہ ایک آئینی دستاویز تھی جس کا مقصد ریاست مدینہ میں آباد مختلف عناصر اور طبقات کے درمیان اتحاد ویگانگت کو فروغ دینا اور پُرامن بقائے باہمی کے اصول کی بنیاد پر مل جل کر رہنے کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔

نصاب میں اصلاحات

سعودی عرب کے اندر وژن 2030ء کے تحت سماج میں رواداری کو فرغ دینے کے لیے نہ صرف یہ کہ انتظامی دائرے میں اقدامات کیے گئے بلکہ نصاب میں اعتدال پسندی اور رواداری کے موضوعات پر مواد شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی سطح پہ نوجوانوں کے لیے تعلیمی اداروں میں اور باہر تربیتی شعبے قائم کیے گئے تاکہ سخت گیر فکر کا مقابلہ کیا جاسکے۔ سعودی عرب کے اس ضمن میں اقدامات بین الاقوامی معیار کے سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں امن وامان کی فضا تشکیل پاگئی ہے۔ بالخصوص عرب بہار کے بعد کچھ ممالک میں تلخ تجربات کے بعد عوام ریاست کے حق میں ہیں اور اس کی پالیسیوں کو سراہتے ہیں، جبکہ کچھ طبقات تنقید بھی کرتے ہیں۔