اسلام کے ثقافتی اور جغرافیائی مظاہر کی وسعت: رواداری کے عملی نمونے

ڈاکٹر سید حسین نصر

0

ڈاکٹر سید حسن نصر ایرانی نژاد مفکر اور اسلامی علوم کے ماہر ہیں۔ عرصے سے امریکا میں مقیم اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔انہوں نے ادیان، تصوف اور سیاسیات پر خاطر خواہ کام کیا ہے جسے نہایت قدردانی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔اس مضمون میں انہوں نے روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح دنیا کے مختلف علاقوں میں اسلامی ثقافت و تہذیب کی الگ الگ مثالیں ملتی ہیں جومقامی رنگوں میں گندھی ہوئی ہیں اور یہ اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ اسلام کا زاویہِ نظر تنگ اور سخت گیر نہیں ہے، بلکہ اس کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ حالات اور مقام کے اعتبار سے اپنے آپ میں لچک پیدا کرسکے۔ ڈاکٹر حسین نے تاریخی حوالوں کی مدد سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام اور اسلامی اقدار نے اپنے لیے سماجی و ثقافتی سطح پر کوئی ایک ڈھانچہ وضع نہیں کیا، بلکہ یہ جہاں بھی پہنچے ایک الگ ثقافت کی نظیر پیش کی۔یہ مضمون ان کی کتاب ’اسلام کی ازلی اقدار‘ سے لیا گیا ہے۔

عام طور پرلوگوں کے درمیان ہونے والی مذہبی مباحث کو دیکھا جائے تو  لوگ اسلامی تمدن کی تقسیم کرتے ہوئے عربی اسلام، ایرانی اسلام اور ترک اسلام کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ان کے نزدیک گویا اسلام کی تین اقسام ہیں، حالانکہ اسلام حقیقت میں ایک سے زیادہ نہیں ہے۔ البتہ قومی، لسانی اور ثقافتی اعتبار سے مختلف اقوام جن میں سے ہر کوئی امت مسلمہ کا ایک حصہ ہے،اپنے اپنے مقامی تشخص کی حامل ہیں۔ اسلام جہاں بھی پہنچا اس نے وہاں کے موجودہ ثقافتی تشخص کو جڑ سے نہیں اکھاڑا بلکہ اس کی حفاظت اور اصلاح کی کوشش کی، تاکہ وہ اس کی روح اور وحی الٰہی کے ظاہری احکام کے ساتھ سازگار ہوجائیں۔ اسی وجہ سے دارالاسلام کی وسیع سلطنت نے ثقافتی مظاہر کو بالکلیہ مٹانے کی بجائے ان میں پائے جانے والے ثقافتی نمونوں کو مجاز حد تک اپنے اندر جذب کیا اور ان میں کچھ اضافے کیے تاکہ ایک  بہترین شکل مرتب ہو کر سامنے  آسکے۔ ذیل میں انہی مختلف ثقافتی نمونوں کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔

عرب دُنیا

اسلامی دنیا میں پہلا ثقافتی خطہ، دنیائے عرب ہے جو عراق اور خلیج فارس سے ماریطانیہ تک اور ۱۴۹۲ء سے پہلے جزیرہ ایبری کے جنوبی حصے تک کے علاقے پر مشتمل تھا۔ ظاہر ہے کہ بہت سے مغربی مؤرخین کے خیال کے برعکس دنیائے عرب اصلاً دنیائے اسلام کے مترادف نہیں۔ اصل میں عرب مسلمان جن کی تعداد تقریباً ۲۲ کروڑ ہے وہ سارے مسلمانوں کی تعداد کے پانچویں حصے سے بھی کم ہیں‘ لیکن چونکہ پیغمبر اسلام ﷺعرب تھے اور پہلا اسلامی معاشرہ عرب سرزمین پہ ہی میں وجود میں آیا، اس لیے عرب خطہ دارالاسلام ہونے کے ناطے سے امت اسلامی کا سب سے قدیم حصہ قرار پایا اور اسی لیے یہ مرکزیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ کی سب سے بڑی تعجب خیز باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ جب عرب سپاہیوں نے عرب سرزمین سے باہر قدم رکھا تو وہ سب سرزمینیں، جو شمال اور مغرب کی جانب ان کے تصرف میں آئیں، انہوں نے اسلامی اور عربی دونوں اثرات اپنائے۔ لفظ عرب جب ’’دنیائے عرب‘‘ جیسی تراکیب میں استعمال ہوتا ہے تو وہ عربی زبان پر دلالت کرتا ہے لیکن عرب قوم پر نہیں۔ اگرچہ عربوں کی اکثریت دنیائے عرب میں آباد ہے لیکن ہمارے خطے کی ’’دنیائے عرب‘‘ کے نام سے شہرت کی اصلی وجہ وہاں عربی زبان کا چلن ہے، جو مراکش سے عراق تک سارے علاقے میں رائج ہے،حتی کہ مصر جیسا ملک بھی اپنے بے مثال قدیم ماضی کے باوجود عربی زبان کی طرف مائل ہوا اور سچی بات یہ ہے کہ آج تک عربی ثقافت کی مرکزیت کا اختصاص مصر ہی کو حاصل ہے۔ اس کے برعکس اہلِ ایران جنہوں نے ساسانی شہنشاہیت کے زمانے یعنی ساتویں صدی عیسوی میں عربوں سے شکست کھائی اور اسلام قبول کرلیا، انہوں نے نہ صرف فارسی زبان کی اسی طرح حفاظت کی، بلکہ ایران کی قدیم زبانوں کی مدد سے فارسی زبان کومکمل کیا اور اپنے ممتاز ثقافتی خطے کو دوام بخشا۔ ساسانی شہنشاہیت میں اگر کوئی استثنا تھا تو وہ عراق تھا،جہاں ساسانی پایۂ تخت واقع تھا۔ اس نے نہ صرف عربی زبان کو قبول کیا بلکہ بعد میں عباسی خلافت کا مرکز بھی بن گیا۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود وہاں بھی طاقتور ایرانی عوامل کا اثر و نفوذ بدستور برقرار رہا۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہم اسلام کے پھیلاؤ کا مسیحیت کے یورپ میں پھیلاؤ کے ساتھ موازنہ کریں۔ یورپ حضرت عیسی علیہ السلام کے دین کو قبول کرکے ’’جہانِ ابراہیمی‘‘ کا حصہ بن گیا‘ لیکن اس کے برعکس غیر عرب مسلمانوں نے اسلام تو قبول کیا‘ لیکن سامی اثرات کو بہت کم قبول کیا‘ جس کی وجہ یہ تھی کہ خودمسیحی مذہب پولس قدیس کے ہاتھوں یورپ پہنچنے سے پہلے اپنی سامی اثرات کو کھوچکا تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ مسیحی ہوگیا لیکن آرامی زبان کا رواج دوسری سامی زبانوں کے ہمراہ اس براعظم میں نہ ہوسکا ،جبکہ عربی زبان مشرق قریب اور افریقہ تک میں بلکہ ایرانیوں اور ہندوستان کے درمیان بھی پھیل گئی جو زبان اور نسل کے اعتبار سے یورپی خاندان سے تھے۔ انجیل نہ یونانی زبان میں لکھی گئی اور نہ آرامی زبان میں کہ جس میں حضرت عیسی علیہ السلام گفتگو کرتے تھے‘ بلکہ سب سے پہلے اور عام تحریر کے حوالے سے لاطینی زبان میں منتقل ہوئی اور اس طرح زبان کے لحاظ سے اپنی اصل سے دور ہوگئی۔ لاطینی زبان مغرب میں دین اور تعلیم کی زبان کی حیثیت سے اسی مقام کی حامل ہے‘ جو عربی زبان کو دنیائے اسلام میں اس اعتبار سے حاصل ہے یاعبرانی زبان کو یہودیوں کے مذہب میں حاصل ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے کہ لاطینی زبان مسیحی مذہب کی حمد کی زبان ہے اور اس لحاظ سے حمد کی دوسری زبانوں مثلاً یونانی اسلاوی وغیرہ سے فرق نہیں رکھتی۔ اس وجہ سے آج کی عرب دنیا کا عربی ہونا اور عربی زبان کی غیرعرب مسلمانوں میں اہمیت کو یورپ کے مسیحی ہونے اور قرونِ وسطیٰ کے دوران مغرب میں لاطینی زبان کے کردار کو یکساں قرار نہیں دیا جاسکتا،ہر چند کہ ان دونوں دنیاؤں کے درمیان متعدد مشابہتیں موجود ہیں۔

عرب خطہ جس کی خصوصیت عربی زبان سے ہے وہ نہ صرف دین کی زبان کی وجہ سے سب مسلمانوں کے درمیان رائج ہے بلکہ اس کا عمل دخل روزمرہ کی زندگی میں بھی ہے اوریہ پھر مشرقی اور جنوبی دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور اس کی سرحد لیبیا کے درمیان سے گزرتی ہے۔ عرب سرزمین جو قدیم عربی میں ’’المغرب‘‘ کے نام سے مشہور تھی‘ اب بھی’’مغرب قریب‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور ان میں مغربی لیبیا، تیونس اور الجزائر کا بہت سا حصہ شامل ہے۔ دوسرا ’’مغربِ بعید‘‘ ہے۔ جس میں مغربی الجزائر، مراکش اور ماریطانیہ شامل ہیں۔ تاریخِ اسلام کے آغاز ہی سے اندلس جزیرہ ایبری کے مسلمانوں کے علاقے کے حصے کے طور پر تقسیم ہوگیا تھا۔ البتہ مغربی حصے میں غیر عرب اہم گروہ رہتے ہیں جن میں سب سے نمایاں گروہ بربروں کا ہے جو زیادہ تر اطلس کے کوہستانوں میں رہتے ہیں اور ان کی اپنی مخصوص زبان ہے۔

ایران

اسلامی ثقافت کا دوسرا خطہ جہاں کے لوگوں نے عربوں کے بعد دینِ اسلام کو قبول کیا اور پھر ان کے ساتھ مل کر اسلامی تمدن کے پھیلاؤکے سلسلے میں کوششیں کیں‘ ایران تھا جو موجودہ ایران، افغانستان و تاجکستان (ازبکستان کے کچھ شہروں سمیت) پر مشتمل تھا۔ ان ملکوں کی زیادہ تر زبان فارسی تھی جو تین مختلف مقامی ناموں فارسی، دری اور تاجک سے موسوم تھی اور ان تینوں کے درمیان اختلافات کی نوعیت وہی تھی جو آج ہم آسٹریلیا، انگلستان اور ٹیکساس کی انگریزی میں دیکھتے ہیں۔ اسی طرح مشرقی قفقاز، خراسان قدیم، ماوراء النہر اور آج کے پاکستان کے کچھ حصے جہاں بعد میں متعدد قومی جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں، بھی اس خطے میں شامل تھے۔ ان علاقوں کے بھی اکثر باشندے ایرانی نسل ہی سے تعلق رکھتے تھے جو آریانی یا ہندآریانی یا یورپین نام سے مشہور ہیں۔ فارسی زبان بھی اس خطے میں رائج دوسری ایرانی زبانوں مثلاًکردی، بلوچی، پشتو کی طرح ہندی اور یورپی زبانوں ہی کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس خطے کی آبادی تقریباً سو ملین افراد پر مشتمل ہے لیکن اس کے اثرات اپنی سرحدوں سے باہر اور ایشیا کے اسلامی ثقافت کے دوسرے خطوں میں ترکوں اور ہندوستانیوں سے لے کر چینیوں تک مکمل طورپر واضح ہیں۔

حضرت سلمان فارسیؓ پہلے ایرانی تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ وہ غلام تھے جنہیں رسول اکرمﷺ نے آزاد کیا اور انہیں اپنے اہل بیت کے زمرے میں شمار کیا۔ ایرانی ابتدا ہی سے پیغمبر اکرمﷺکے اہل بیت اور آل اطہار کے لیے، جن میں سے امام ہشتم علی ابن موسیٰ الرضاؑبھی شامل ہیں اور جن کا روضہ ایران میں ہے خصوصی احترام کے قائل تھے۔ البتہ اگر کوئی یہ سمجھے کہ ایرانی ہمیشہ شیعہ اور عرب ہمیشہ سنی تھے تو یہ درست نہیں ہوگا۔ اہل تشیع عربوں ہی میں سے اٹھے اور دسویں صدی عیسوی میں اکثر مشرقی عرب علاقے شیعہ ہوگئے۔

خراسان جو کہ ایران کا ایک بڑا صوبہ تھا، اہل سنت کا فکری مرکز سمجھا جاتا تھا۔ شیعہ مذہب نے ایران میں صفوی بادشاہوں کے زمانے میں غلبہ حاصل کیا اور شیعہ آبادی اس وقت بڑھی جب افغانستان جو بلوچستان کا کچھ حصہ تھا، ایران سے جدا ہوگیا اور ایران موجودہ شکل میں سامنے آیا۔

افغانستان آٹھویں صدی عیسوی سے صفوی دور کے طولانی زمانے میں ایران کا حصہ تھا اور اس کے بعد یہ ہواکہ افغان قبائل کے رہنماؤں نے صفویوں پر غلبہ پایا اور آخری صفوی بادشاہ کو قتل کردیا۔ تھوڑے عرصے بعد مشرق کے آخری فاتح بادشاہ نادر شاہ نے دہلی تک ساری سرزمینوں کو فتح کرلیا لیکن نادر شاہ کی وفات کے بعد افغانستان آزاد ہوگیا اور آخر کار انگریزوں کے دباؤ کے تحت انیسویں عیسوی میں ایران، ہرات اور مغربی افغانستان پر اپنے قبضے سے دستبردار ہوگیا اور یوں آج کا افغانستان وجود میں آگیا۔

افریقہ

اسلامی ثقافت کا تیسرا خطہ براعظم افریقہ ہے۔ رسول اکرمﷺکے غلاموں میں سے حضرت سلمان فارسیؓ کے علاوہ صحابؓہ میں سے ایک اور معروف غیر عرب افریقہ کے سیاہ فام حضرت بلال حبشیؓ تھے جو آپؐ کے موذن تھے۔ حضرت بلالؓ کا وجود سیاہ فاموں کے درمیان اسلام کے سریع پھیلاؤ اور اسلامی ثقافت کے افریقہ کے علاقے میں تعارف کا سبب بنا،اور ایتھوپیا کےعلاقے سے ہوتا ہوامالی اور سینیگال تک پھیل گیا۔ کہتے ہیں کہ حضرت بلال ؓ کی اولاد مالی کے علاقے میں ہجرت کر گئی اور رسول اکرمﷺکی وفات کے بعد وہاں اسلام پھیلانے میں مصروف ہوگئی۔ رسول اکرمﷺکے کچھ صحابہؓ چاڈ کے علاقے کو بھی ہجرت کرگئے۔عام طور پر افریقہ میں اسلام تاجروں کے ذریعہ یہاں تک کہ دسویں صدی میں گھانا میں ایک طاقتور اسلامی حکومت قائم ہوگئی اور چودھویں صدی عیسوی تک مالی میں مسلمان حکومت دنیائے اسلام کی سب سے امیر شہنشاہیت تصور کی جاتی رہی‘ جہاں کا سب سے معروف حاکم منہ موسیٰ تھا جو اسلامی دنیا کے قابل ترین حکمرانوں میں سے ایک تھا۔

مشرقی افریقہ میں اسلام مغربی افریقہ سے پہلے پہنچا اور اس کا راستہ مغربی افریقہ سے مختلف تھا۔ عرب اور ایرانی مہاجروں نے مغربی افریقہ کے ساحلوں پر گہرا اثر ڈالا۔ بارھویں صدی میں افریقا میں سواحلی بادشاہت وجود میں آئی اور عربی، فارسی اور بانتو زبانوں کی آمیزش سے ایک جدید زبان سواحلی کے نام سے ابھری جو سیاہ فام افریقہ کے مسلمانوں کی شاید سب سے ہم اسلامی زبان ہے۔ سیاہ فام افریقہ کا اسلامی ثقافت کا حامل خطہ عربی اور ایرانی خطے کے برعکس کہ جہاں صرف ایک زبان کا غلبہ ہے، بڑے وسیع رقبے پر پھیلا ہواہے۔یہاں پر ہر علاقے کی اپنی مستقل زبان ہے ۔ ان زبانوں میں سے کچھ اس خطے کے مسیحیوں کی زبانیں بھی ہیں جو ثقافتی اعتبار سے افریقہ کے مسیحیوں کے لیے اہمیت کی حامل ہیں، اگرچہ شمالی افریقہ اسلام کے ظہور میں آنے کے تقریباً سوسال بعد عربی زبان سے آشناہوا۔ سیاہ فارم افریقہ کا خطہ ۱۵ کروڑ افراد پر مشتمل ہے اور متنوع ثقافتوں کا حامل ہے اور وہ قابلِ توجہ قومی اور ثقافتی صورتحال کے ساتھ سیاہ فام افریقہ کی ثقافت کی مقامی وحدت کو سمیٹے ہوئے اسلام کی اپنی جامع وحدت کو بھی پیش کرتا ہے۔

ترکی

اسلام کا چوتھا ثقافتی خطہ،ترکی کا علاقہ ہے جس میں ہمہ قسم کے لوگ رہتے ہیں اور مختلف زبانوں میں بات کرتے ہیں۔ ان زبانوں میں سب سے اہم ترکی زبان ہے، لیکن آذری، چیچنی، یقوری، ازبکی، قرقیزی اور ترکمانی زبانیں بھی ان میں سے ہیں۔ اس خطے کے لوگ جو دراصل صحرا نشین تھے، آلتائی کوہستانوں سے وسطِ ایشیا کو فتح کرنے کے لیے جو ایرانیوں کے قبضے میں تھا‘ جنوب کی طرف چل پڑے اور انہوں نے اس علاقے کی قدیم شکل کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا، لیکن ثقافتی طور پر فارسی زبان سے دور نہ سکے۔ جب ترک اُس عہد کے ایران میں داخل ہوئے تو تب وہ سالہا سال پہلے اسلام قبول کرچکے تھے اور درحقیقت اسلام کے عظیم سپوتوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ترکوں نے نہ صرف یہ کہ ایران کے مقامی حاکموں مثلاً ساسانیوں پر فتح حاصل کی بلکہ مغرب کی جانب اناطولیہ پر بھی چڑھ دوڑے اور ۱۰۷۱ء میں انہوں نے ملازگرت کی جنگ میں بیزانس کے لشکروں کو روند ڈالا اور یہ اسلام کی تاریخ کی فیصلہ کن جنگوں میں سے ایک تھی۔ اس فتح نے ترک صحرا نشینوں پرانا طولیہ کی بلندیوں کے دروازے کھول دیے اور اس خطے میں ترک زبان و ثقافت کے آغاز کے سبب عثمانی سلطنت کی تاسیس  ہوئی جو ۱۴۵۳ء میں قسطنطیہ کی فتح کا موجب بنی۔ ترک عسکری لحاظ سے طاقتور تھے اور انہوں نے بہت سی اسلامی سرزمینوں مثلاً ایران اور مصر کو اپنے ماتحت کرلیا ۔آج ترک باشندےجو ۱۵ کروڑ سے زیادہ آبادی کے حامل ہیں‘ مقدونیہ سے سائبیریا اور سارے ولاڈی واسٹک  تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ترک گروہ دوسرے غیر ترک علاقوں مثلاً ایران، افغانستان، مصر،اردن، شام اور روس میں آباد ہیں۔ روس میں ترکی بولنے والی اقلیتیں ان لوگوں میں سے ہیں جو رُوس کے زار خاندان کے بادشاہوں کی فتوحات کے ہاتھوں مغلوب ہوگئے تھے۔

پاک و ہند

اسلامی ثقافت کا پانچواں خطہ برصغیر پاک و ہند ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی کی پہلی دہائی کے قریب محمد بن قاسم کے لشکر نے سندھ کو فتح کیا اور یوں چند صدیوں بعد برصغیر میں اسلام کے نفوذ کی راہ ہموار ہوگئی لیکن اسلام کے پھیلاؤ کے اصلی عوامل سارے ہندوستان میں صوفیاء کے گروہ تھے۔ ترک بادشاہوں نے بھی کئی بار ہندوستان پر حملے کیے اور گیارھویں صدی عیسوی کے بعد سے ہندوستان پر انگریز استعمار کے زمانے تک ہندوستان کے زیادہ تر علاقے خاص طور پر شمالی علاقے جہاں سولہویں صدی عیسوی میں مغلوں نے ایک عظیم سلطنت قائم کی تھی، مسلمان حکمرانوں کے زیرنگیں رہے۔ اگرچہ ہندوستان کی مقامی آبادی میں ترک اور ایرانی عناصر بھی دیکھے جاسکتے ہیں لیکن ثقافتی اور لسانی اعتبار سے وہ بہت زیادہ متنوع واقع ہوئے ہیں۔

فارسی زبان تقریباً ہزار سال تک ہندوستان کے مسلمانوں کی علمی اور ادبی زبان رہی لیکن مقامی زبانیں مثلاً سندھی،گجراتی، پنجابی اور بنگالی بھی اسلامی زبانوں میں اہم مقام کی حامل رہی ہیں۔ آہستہ آہستہ چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی میں ہندی اور فارسی اور کسی حد تک ترکی زبان کی آمیزش سے ایک نئی زبان اُردو کے نام سے وجود میں آئی۔ یہ زبان عربی و فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے، اور سواحلی،ترکی عثمانی اور دیگر اسلامی زبانوں کی طرح اسلامی بول چال میں ایک اہم ذریعہ ابلاغ کے طورپر سامنے آئی اور بعد میں پاکستان کی قومی زبان قرارپائی۔ ہندوستان کے اسلامی ثقافتی خطے میں پاکستان، بنگلا دیش، نیپال اور ہندوستانی مسلمان اور سری لنکا کے اسلامی معاشرے شامل ہیں۔ یہ کوئی چالیس کروڑ کی آبادی ہے جو باقی چاروں خطوں سے زیادہ ہے۔ اس آبادی کے زیادہ ہونے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک اُنیسویں صدی سے ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندؤوں کی آبادی میں غیرمعمولی اضافہ اور دوسرے یہ کہ برصغیر کی تقریباً ایک چوتھائی ہندو آبادی نے اسلام قبول کرلیا تھا کیونکہ یہ دین خوش قسمتی سے ان لوگوں کے لیے جو ہندو قوانین کے چنگل میں گرفتار تھے، نجات کا پیغام لے کر آیاتھا۔برصغیر کے مسلمانوں نے اسلامی فنون و ثقافت کے بعض عظیم ترین آثارکو جنم دیا ،اگرچہ وہ ترک بادشاہوں  کے زیر نگیں رہے تاہم انہوں نے ثقافت کے اعتبار سے فارسی زبان  کو بہت زیادہ عزیز سمجھا۔

ملایا

اسلامی ثقافت کا چھٹا خطہ جنوب مشرقی ایشیا کا ملایا کا علاقہ ہے۔ اسلام تیرھویں صدی عیسوی کے بعد عربی بولنے والے تاجروں کے ذریعے خلیج فارس اور بحرہند کے راستے یہاں پہنچا۔ اس قافلے میں ہندوستان کے تاجر اور صوفیا بھی شامل تھے۔ ملایا کا اسلام بھی اپنے عظیم قومی تشخص سے بھراہوا ہے او ر اپنی خاص خصو صیات کا حامل ہے۔ اس علاقے میں بھی اسلامی تمدن پر تصوف کے گہرے اثرات موجود تھے اور یہاں درحقیقت اسلام کی اشاعت بڑی حد تک اسی گروہ کی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ یہاں ملایا تشخص اور اسلامی تمدن کے مابین بہت سی قربتیں پائی جاتی ہیں۔ یہاں ملایائی اور جاوی زبانیں رائج ہیں اور اس علاقے میں تقریباً ۲۲کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ اگرچہ اس خطے کے اسلامی تمدن کے ساتھ الحاق کو کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا لیکن اس کے باوجود ملایا کے مسلمانوں کی مکہ و مدینہ سے شدید وابستگی اور رسول اکرمﷺ کی سنتِ مبارکہ سے عشق مشہور ہے۔ افریقہ اور ہندوستان کی طرح ملایا میں بھی اسلامی تمدن تصوف کی جانب مائل ہے اور ظاہری امور اور عمل میں صوفی اثرات وہاں پر غالب ہیں۔

چین

ان چھ اسلامی ثقافتی خطوں کے بعد ایک چھوٹے علاقے یعنی چینی خطے کا ذکر بھی ضروری ہے، جو ساتویں صدی عیسوی میں وجود میں آیا۔ ظہورِ اسلام کے بعد جلد ہی مسلمان تاجر چین کی بندرگاہ کانتون جیسی جگہوں پر جاکر بس گئے۔اسی زمانے سے اسلام چین میں پہنچا لیکن اسلام کا آغاز زیادہ تر سنکیانگ سے ہوا جسے مسلمان جغرافیہ دان مشرقی ترکستان کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

چینی مسلمان بھی ترکی زبان کے خاندان ایغوری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں چینی زبانوں کی مشہور زبان ’’ھوئی‘‘ بھی ہے۔ ھان نامی چینی قوم میں بھی مسلمان پائے جاتے ہیں۔ چین میں مسلمانوں کی تعداد ایک بڑا راز رہی ہے اور اس بارے میں ڈھائی کروڑ سے دس کروڑتک کے اعداد سننے میں آتے ہیں۔ چینی مسلمان فن معماری اور خوش نویسی میں ممتاز رہے ہیں اور وہ عقلی روایات سے بھی مکمل طو رپر بہرہ ور ہیں ۔وہ ایرانی تصوف کے انتہائی قریب ہیں۔ ساتویں صدی عیسوی کے بعد سے چین میں اسلام کی علاقائی روایت آہستہ آہستہ ترقی کرتی گئی۔

یورپ

چینی مسلمانوں کے بعد یورپ میں آباد مسلمانوں کا ذکر بھی اہم ہے۔ ان میں بلغاریہ، یونان اور مقدونیہ میں بسنے والے ترک ہی نہیں بلکہ یورپ میں آباد خود مقامی گروہ بھی شامل ہیں جو پانچ سوسال پہلے مسلمان ہوئے۔ ان میں سے البانوی لوگوں کے گروہ قابل ذکر ہیں جو سارے البانیہ، کوسووا اور مقدونیہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اسی طرح بوسنیا کے گروہ جو اکثر بوسنیا میں اور کسی حد تک کرواسی اور صربستان میں رہتے ہیں اور ان کی ثقافت کا فہم بھی ا سلامی سلطنت کے سمجھنے میں مفید ہے اور ساتھ ہی اسلامی دنیا اور مغرب کے درمیان دوستانہ روابط کے سلسلے میں آج کے یورپ میں ایک اہم وسیلہ ہے۔

آخر میں یورپ اور امریکا میں نئے اسلامی معاشروں کا جن میں باہر سے آنے والے اور اسلام قبول کرنے والے مقامی باشندے(نومسلم) بھی شامل ہیں‘ ذکر لازم ہے(البتہ بہت سے مسلمان اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ انہیں نومسلم کی بجائے واپس آنے والے(Reverts)کہا جائے ۔یہ لوگ کئی ملین کی تعداد میں یورپ میں آباد ہیں۔ تقریباً کئی ملین شمالی افریقہ کے مسلمان فرانس میں بستے ہیں۔ تقریباً تین ملین ترک اور کرد جرمنی میں ہیں۔ دو ملین سے زیادہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمان مہاجرین انگلستان میں رہتے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کے اور کئی چھوٹے لیکن بہت اہم گروہ بھی یورپ کے تمام ملکوں میں آباد ہیں۔

امریکا میں بھی رہنے والے مہاجر مسلمان مشرقی عرب علاقوں، ایران اور برصغیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ان میں نومسلم بھی ہیں جو حبشیوں اور سفید فام لوگوں کے درمیان پائے جاتے ہیں۔ امریکا میں سیاہ فام لوگوں کے درمیان اسلام کی اشاعت کا آغاز عالیجاہ محمد نامی شخصیت سے ہوا۔ اس نے ان علاقوں میں ملتِ اسلامی کو زندہ کیااور نسل پرستی کے خلاف جنگ کی حمایت کی۔ یہ تحریک بعد میں دو شاخوں میں بٹ گئی اور اس کے اکثر ارکان دوسرے امریکی سیاہ فام مسلمانوں کے ساتھ جلد ہی اسلام کے اصل اصولوں کے ساتھ مل گئے ۔ اس ضمن میں مالک الشبز (Al.Haji Malik Shabazz) کا‘ جو اکثر ملکم ایکس (Malcolmx) کے نام سے مشہور ہے،بہت اہم کردار ہے۔ پچاس لاکھ مسلمان یورپ میں، تقریباً ساٹھ لاکھ مسلمان امریکا میں، ۵ لاکھ کینیڈا میں اور لگ بھگ۲۰لاکھ سے زیادہ مسلمان جنوبی امریکا میں رہتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں کہ اسلامی دنیا کو بین الاقوامی سطح پر دیکھنے کی کوشش کریں تو مغربی خطوں میں بسنے والے مسلمان اور ان کی ثقافت بھی ایک اہم عنصر بن کر سامنے آتی ہے۔

اسلامی ثقافت کے یہ خطے جن کااختصار کے ساتھ ہم نے ذکر کیا ایک نمائش گاہ کی طرح ہیں جس میں قو میتوں کا ایک متنوع گلدستہ، مختلف فنون اور موسیقی کا مجموعہ اور انسانی زندگی کے مختلف آداب دیکھنے کو ملتے ہیں۔ا سلام بورینو کے جنگلوں سے لے کر کوہ ہندوکش کے پہاڑوں تک اور پھر ماریطانیہ کے بیابانوں تک اپنے پیروکار رکھتا ہے جن کے درمیان سفید فام‘ سیاہ فام‘ زرد فام اور حقیقت میں دوسری نسلوں کے  لاتعدادلوگ دیکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس واضح تنوع کے اندر ایک ایسی وحدت موجود ہے جس کا سرچشمہ اسلام ہے اور مشرق سے لے کر مغرب تک ہر روز مکہ کی طرف منہ کرکے نمازوں کی اقامت میں رسول اکرمﷺکی شریعت کی پیروی کا زریں نمونہ سامنے آتا ہے اور ہم آہنگی کی مثال ابھر کر سامنے آتی ہے۔

اسلامی دنیا میں موجود وحدت کبھی بھی متحد الشکل ہونے کے معنی میں نہیں رہی، بلکہ اس کی امتیازی خصوصیت ہمیشہ تنوع پسندی ہی رہی ہے۔ اس وحدت کو سمجھنے اور اس میں موجود تنوع کے ادراک کے لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اس راستے کو تلاش کریں جس پر چل کر اسلام نے ان سارے انسانی معاشروں کو اپنی طرف کھینچا اور ان کے مابین اختلافات کے عین عروج میں ایک عالمگیر تمدن کی تشکیل کی ۔